سوال: جمعہ کی فرض نماز کیا ہے؟ کیا عشا میں وتر پڑھنا ضروری ہے؟ (کامران)
جواب:جمعے کی نماز کے حوالے سے میں آپ کے سوال کے جواب میں استاد محترم کی کتاب ’’میزان‘‘ کا ایک اقتباس نقل کرتا ہوں۔ استاد محترم نے لکھا ہے:
’’جمعہ کے دن مسلمانوں پر لازم کیا گیا ہے کہ نماز ظہر کی جگہ وہ اِسی دن کے لیے خاص ایک اجتماعی نماز کا اہتمام کریں گے۔ اِس نماز کے لیے جو طریقہ شریعت میں مقرر کیا گیاہے، وہ یہ ہے:
یہ نماز دو رکعت پڑھی جائے گی،
نماز ظہر کے برخلاف اِس کی دونوں رکعتوں میں قراء ت جہری ہوگی،
نماز کے لیے تکبیر کہی جائے گی،
نماز سے پہلے امام حاضرین کی تذکیر ونصیحت کے لیے دو خطبے دے گا۔ یہ خطبے کھڑے ہو کر دیے جائیں گے۔ پہلے خطبے کے بعد اور دوسرا خطبہ شروع کرنے سے قبل امام چند لمحوں کے لیے بیٹھے گا،
نماز کی اذان اُس وقت دی جائے گی، جب امام خطبے کی جگہ پر آجائے گا،
اذان ہوتے ہی تمام مسلمان مردوں کے لیے ضروری ہے کہ اُن کے پاس اگر کوئی عذر نہ ہو تو اپنی مصروفیات چھوڑ کر نماز کے لیے حاضر ہو جائیں،
نماز کا خطاب اور اُس کی امامت مسلمانوں کے ارباب حل وعقد کریں گے اور یہ صرف اُنھی مقامات پر ادا کی جائے گی جو اُن کی طرف سے اِس نماز کی جماعت کے لیے مقرر کیے جائیں گے اور جہاں وہ خود یا اُن کا کوئی نمائندہ اِس کی امامت کے لیے موجود ہو گا۔‘‘(۳۳۲)
وتر کی نماز اصل میں تہجد کی نماز ہے۔ تہجد کی نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے فرض تھی اور باقی مسلمانوں کے لیے نفل نماز ہے۔ اس کا اصل وقت طلوع فجر سے پہلے کا ہے۔ یہ نماز طاق پڑھی جاتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی زیادہ سے زیادہ رکعتیں گیارہ پڑھی ہیں۔نفل ہونے کے باوجود صحابہ یہ نماز پڑھتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ اگر تمھیں اندیشہ ہو کہ صبح اٹھ نہیں سکو گے تو اسے سونے سے پہلے پڑھ لو۔ طاق کرنے کے لیے عربی لفظ وتر ہے اور اس کی کم از کم تین رکعت پڑھی جا سکتی ہیں، اس وجہ سے عشا کے ساتھ پڑھی جانے والی تین رکعت وتر کہلانے لگیں۔
حضور کی تاکید کی وجہ سے مسلمان اس کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔ کسی بھی فقیہ نے اسے فرض قرار نہیں دیا۔ بہتر یہی ہے کہ اس کا اہتمام کیا جائے ۔ تہجد کے وقت نہ سہی عشا کے ساتھ توبآسانی پڑھی جا سکتی ہے۔
____________