سوال: استمداد اور قربانی ونذر اور پکار(لغیر اللہ استغاثہ) ، (ایک وقت میں) تین طلاقوں کا تین ہونا، ہدہد اور نملہ کے لیے مرفوع صحیح احادیث بیان کریں۔ (پرویز قادر)
جواب: شرک کی شناعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار بیان کی ہے، پھر خود قرآن مجید میں بھی یہ موضوع بار بار زیر بحث آیا ہے۔ تینوں چیزیں جن کا آپ نے ذکر کیا ہے اگر غیر اللہ کے لیے ہوں تو شرک ہیں۔ احادیث میں ان کا ذکر کرکے ان کی شناعت بیان کرنے کی کوئی ضرورت پیش نہیں آئی،اس لیے کہ یہ بات خود قرآن مجید میں کئی اسالیب میں بیان کر دی گئی ہے۔ ممکن ہے کسی روایت میں تصریح کے ساتھ ان کی نفی کی گئی ہو ،لیکن معروف روایات میں شرک ہی کی تردید یا شناعت بیان ہوئی ہے۔
اسی طرح ہدہد اور نملہ کے بارے میں بعض صحابہ کے اقوال تفسیر اور تاریخ کی کتابوں میں نقل ہوئے ہیں۔ سردست مجھے کوئی مرفوع حدیث نہیں ملی۔
تین طلاقوں کا ایک طلاق ہونا ایک فقہی بحث ہے، اس میں استدلال کا مدار کن روایات پر ہے، اس کا خلاصہ ابن رشد نے اپنی کتاب ’’بدایۃ المجتہد‘‘ میں بخوبی کیا ہے۔ میں اسے آپ کے لیے نقل کر دیتا ہوں:
’’ان کے استدلال کی بنیاد حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث پر بھی ہے، جس کی تخریج امام مسلم (رقم ۱۴۷۲) اور امام بخاری نے کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں، حضرت ابوبکر کے دور میں اور خلافت عمر کے دو سالوں میں تین طلاقیں ایک ہی قرار دی جاتی تھیں۔ حضرت عمر نے تینوں کو نافذ کر دیا۔ ان حضرات کے استدلال کی بنیاد ابن اسحاق کی روایت پر بھی ہے جو انھوں نے عکرمہ سے بواسطۂ ابن عباس بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دیں اور اس پر انھیں شدید قلق ہوا۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: تم نے طلاق کس طرح دی ہے؟ انھوں نے عرض کیا: میں نے ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی ہیں۔ آپ نے فرمایا: وہ تو ایک طلاق ہے۔تم اس سے رجوع کر لو۔ (ابوداؤد ،رقم۲۲۰۶۔ابن ماجہ،رقم ۲۰۵۱)
جمہور کی راے (تین ایک وقت میں تین) کی حمایت کرنے والے کہتے ہیں کہ صحیحین میں موجود حدیث ابن عباس کی روایت ان کے اصحاب میں سے طاؤس نے کی ہے، جبکہ ان کے بیش تراصحاب نے جن میں سعید بن جبیر، مجاہد ، عطااور عمرو بن دینار ہیں اور ان کے علاوہ ایک جماعت نے تین طلاقوں کے واقع ہوجانے کاقول نقل کیا ہے اور ابن اسحاق کی حدیث وہم ہے۔ثقہ راویوں کے الفاظ تو یہ ہیں کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو حتمی طلاق دی تھی۔ اس میں تین کے الفاظ نہیں ہیں۔‘‘ (۲/ ۴۶)
____________