سوال: سورۂ مائدہ (۵) کی آیت ۶۹ کا ترجمہ ہے: ’’بے شک کوئی مسلمان ہو ، یہودی ہو، صابی ہواور نصرانی ہو، جو کوئی بھی اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھے گااور نیک اعمال کرے گاتو اس کے لیے کوئی خوف اور رنج کا مقام نہیں‘‘۔میں نے ایک مولوی صاحب کی تقریر سنی، انھوں نے کہا: جو شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر ایمان نہیں رکھے گا، اس کا ٹھکانا دوزخ ہے، خواہ وہ کتنا ہی نیک کیوں نہ ہو۔ ازراہ کرم رہنمائی فرما دیجیے۔(محمد کامران مرزا)
جواب: آپ کے سوال کے دو حصے ہیں: ایک حصہ قرآن مجید کی ایک آیت کی مراد سے متعلق ہے اور دوسرا مولوی صاحب کی راے پر مشتمل ہے۔ جہاں تک آیت کریمہ کا تعلق ہے تو اس میں نجات اخروی کا اصل الاصول بیان کیا گیا ہے۔ ہماری ایمانیات کی اصل صرف یہ ہے کہ ہم اس کائنات کے خالق ومالک کے وجود اور اس کے حضور جواب دہی پر ایمان رکھتے ہوں۔ کتابوں، فرشتوں اور نبیوں پر ایمان اس ایمان کے ایک تقاضے کی حیثیت سے سامنے آتا ہے (ان تین چیزوں میں بھی اصل کی حیثیت انبیا کی ہے۔ کتابوں اور فرشتوں پر ایمان اس کے لواحق میں سے ہے)، لیکن یہ تقاضا ایک ایسا تقاضا ہے جس کے پورا نہ کرنے کا نتیجہ جہنم کی صورت میں نکلتا ہے۔ چنانچہ ہمارے نزدیک اگر کسی پر یہ واضح ہے کہ فلاں ہستی خدا کا پیغمبر ہے اس کے باوجود وہ اس کو خدا کا پیغمبر نہیں مانتا اور اس کے لائے ہوئے دین کو اختیار نہیں کر لیتا تو اس کی نیکیاں اور خدا اور آخرت پر ایمان اکارت چلا جائے گا۔
اس وضاحت سے آپ یہ بات سمجھ گئے ہوں گے کہ مولوی صاحب کی بات ادھوری ہے۔ پوری بات یہ ہے کہ ہر وہ نیک غیر مسلم جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے پیغمبر ہونے کا یقین ہے، وہ اگر مسلمان نہیں ہوتا تو وہ ایک سنگین جرم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ اس کی ساری نیکیاں رد کر دی جائیں اور عذاب میں مبتلا کر دیا جائے۔
____________