HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Talib Mohsin

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

حدیث قرطاس

سوال: بخاری میں ایک روایت ہے جس میں یہ بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے پہلے کاغذ اور قلم منگوایا تھا تاکہ آپ اس میں امت کے لیے کچھ لکھ دیں، مگر کچھ لوگوں نے کہا: آپ بیمار ہیں۔ ہمارے پاس قرآن ہے۔ لہٰذا ضروری نہیں کہ آپ سے کچھ لکھوایا جائے۔ آپ بتائیے کیا یہ واقعہ ممکن ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے کچھ کہیں اور صحابہ اس کی تعمیل نہ کریں؟ (سعد فاروق)

جواب: اس روایت کے حوالے سے دو رائیں اختیار کی جا سکتی ہیں: ایک یہ کہ اس واقعے ہی کو سرے سے نہ مانا جائے۔ اس کے قرائن بھی اس روایت میں موجود ہیں۔ سب سے قوی قرینہ یہ ہے کہ کاغذ اور قلم نہ لانے کی بات حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منسوب کی جارہی ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شخصیت کو مطعون کرنا ایک زمانے میں باقاعدہ مسئلہ رہا ہے۔ ممکن ہے یہ واقعہ بھی اسی جذبے کے تحت تخلیق کیا گیا ہو۔ دوسرا قرینہ یہ ہے کہ یہ واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ وفات سے تین چار دن پہلے پیش آیا، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم واقعۃً کوئی چیز لکھوانا چاہتے تھے تو آپ وہ چیز دوبارہ کہہ کر لکھوا سکتے تھے۔ تیسرا قرینہ یہ ہے کہ اس روایت کے راویوں میں ابن شہاب بھی ہیں۔ حضرت عمر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کے بارے میں وہ روایات جن میں ان کی کوئی نہ کوئی خرابی سامنے آتی ہو، ان کی سند میں بالعموم یہ موجود ہوتے ہیں۔

دوسری صورت یہ ہے کہ اس واقعے کو درست مان لیا جائے۔شارحین نے اس واقعے کو درست مانتے ہوئے اس اعتراض کو رفع کرنے کی کوشش کی ہے کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہیں مانی۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ کچھ صحابہ نے یہ راے قائم کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات ان کی طرف سے جاری کردہ کوئی امر نہیں تھا، بلکہ محض ایک مشورہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ کو افاقہ بھی ہوا تو آپ نے یہ خواہش دوبارہ نہیں کی۔

میں ذاتی طور پر یہی محسوس کرتا ہوں کہ یہ واقعہ قابل قبول نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

____________

B