سوال: میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا واقعی مسیح علیہ السلام آسمانوں میں چلے گئے تھے؟ یہ بات قرآن مجید کی کس آیت یا صحیح حدیث میں بیان ہوئی ہے؟ (عظیم اقبال)
جواب: حضرت مسیح علیہ السلام کے زندہ اٹھا لیے جانے کا معاملہ قرآن مجید کی ایک آیت پر مبنی ہے۔ سورۂ آل عمران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاَحْکُمُ بَیْنَکُمْ فِیْمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ. (۳: ۵۵)
’’جب اللہ نے کہا: اے عیسیٰ، میں تمھیں وفات دوں گا اور اپنی طرف اٹھا لوں گا اور اہل کفر سے نجات دلادوں گااور تیری پیروی کرنے والوں کو تیرا کفر کرنے والوں پر قیامت تک غالب رکھوں گا۔ پھر تمھارا پلٹنا میری طرف ہے۔ اور میں ان امور میں تمھارے مابین فیصلہ سناؤں گا جن میں تم اختلاف کر رہے ہو۔‘‘
اس آیت میں ’مُتَوَفِّیْکَ‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی ہم نے ’’میں تمھیں وفات دوں گا‘‘ کیے ہیں۔اس لفظ کا معروف مطلب یہی ہے، لیکن یہ اردو کے لفظ انتقال کی طرح اصل میں موت کے معنی میں نہیں ہے۔جس طرح انتقال کے اصل معنی منتقل ہونے کے ہیں، لیکن یہ جب کسی فرد کے حوالے سے بولا جائے گا تو اس کے معنی اس کے وفات پانے ہی کے ہوتے ہیں۔ اسی طرح ’توفی‘ کا فعل پورا ہونا یا پورا لینا کے معنی میں آتا ہے، لیکن یہ انتقال ہی کی طرح جب کسی فرد کے حوالے سے بولا جائے گا تو اس کے معنی اس کے وفات پا جانے کے ہیں۔ لہٰذا ہمارے نزدیک اس آیت میں حضرت مسیح علیہ السلام کے وفات پانے ہی کو بیان کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ یہ بات بھی اس سے معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح علیہ السلام کے جسم مبارک کو بھی اوپر اٹھا لیا تھا۔
کتب حدیث میں حضرت مسیح علیہ السلام کے دوبارہ آنے کی روایات نقل ہوئی ہیں۔ انھی روایات سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ آنے کے بعد ہی وفات پائیں گے۔معروف کتب حدیث میں ایسی کوئی روایت نقل نہیں ہوئی جس میں صریح الفاظ میں حضرت مسیح علیہ السلام کے زندہ اٹھا لیے جانے کا ذکر کیا گیا ہو۔ ’’طبری‘‘ میں محولہ بالا آیت کی شرح میں ایک روایت ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بیان نقل ہوا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام فوت نہیں ہوئے اور وہ تمھاری طرف دوبارہ آنے والے ہیں،لیکن ’’طبری‘‘ ہی میں مختلف تفسیری اقوال میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ قول بھی منقول ہے کہ ’مُتَوَفِّیْکَ‘، ’مُمِیْتُکَ‘ (میں تمھیں وفات دوں گا) کے معنی میں آیا ہے۔
____________