سوال: نکاح نامے میں تفویض طلاق کی شق ہے، اس شق کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ (رضوان شمزا)
جواب: خالص قانونی نقطۂ نظر سے ہر آدمی اپنا کوئی حق چھوڑ بھی سکتا ہے اور دوسرے کو تفویض بھی کر سکتا ہے۔ اسی طرح طلاق کا حق بھی مرد عورت کو تفویض کر سکتا ہے۔ طلاق قرآن مجید کی صریح نص کے مطابق مرد کا حق ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ‘ ،’’اس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے۔‘‘(البقرہ۲: ۲۳۷) اس کا ایک مقصد ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’یہاں ’بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ‘ کے الفاظ میں ایک اور نکتہ بھی ہے جو اس دور کے معاشرتی مفکروں اور مصلحتوں کو خاص طور پر نگاہ میں رکھنا چاہیے۔ وہ یہ کہ نکاح کی گرہ جس طرح مرد کے قبول سے بندھتی ہے، اسی طرح اسی کی طلاق سے کھلتی ہے، گویا یہ سر رشتہ اصلاً شریعت نے مرد ہی کے اختیار میں رکھا ہے۔ ‘‘(تدبر قرآن۱/ ۵۴۸۔۵۴۹)
استاد گرامی جناب جاوید احمد صاحب غامدی نے اپنی کتاب’’میزان‘‘ میں ’’طلاق کا حق‘‘ کے تحت لکھا ہے:
’’سورہ کی ابتدا ’اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ‘ کے الفاظ سے ہوئی ہے ۔ اِس کے بعد یہاں بھی اور قرآن کے بعض دوسرے مقامات پر بھی طلاق کے احکام جہاں بیان ہوئے ہیں ، اِس فعل کی نسبت مرد ہی کی طرف کی گئی ہے ۔ پھر بقرہ (۲) کی آیت ۲۳۷ میں قرآن نے شوہر کے لیے ’الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ‘ (جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے ) کے الفاظ استعمال کیے ہیں ۔ یہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ طلاق کا اختیار شریعت نے مرد کو دیا ہے ۔ اِس کی وجہ بھی بالکل واضح ہے۔ عورت کی حفاظت اور کفالت کی ذمہ داری ہمیشہ سے مرد پر ہے اور اِس کی اہلیت بھی قدرت نے اُسے ہی دی ہے ۔ قرآن نے اِسی بنا پر اُسے قوام قرار دیا اور بقرہ ہی کی آیت ۲۲۸ میں بہ صراحت فرمایا ہے کہ ’لِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃٌ‘ (شوہروں کو اُن پر ایک درجہ فضیلت حاصل ہے)۔ چنانچہ ذمہ داری کی نوعیت اور حفظ مراتب، دونوں کا تقاضا ہے کہ طلاق کا اختیار بھی شوہر ہی کو دیا جائے ۔ ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ خاندان کا ادارہ انسان کی ناگزیر ضرورت ہے ۔ ذمہ داریوں کے فرق اور وصل و فصل کے یکساں اختیارات کے ساتھ جس طرح دنیا کا کوئی دوسرا ادارہ قائم نہیں رہ سکتا ، اِسی طرح خاندان کا ادارہ بھی نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ عورت نے اپنی اور اپنے بچوں کی حفاظت و کفالت کے عوض اگر اپنے آپ کو کسی مرد کے سپرد کر دینے کا معاہدہ کر لیا ہے تو اُسے ختم کر دینے کا اختیار بھی اُس سے معاملہ کیے بغیر عورت کو نہیں دیا جا سکتا ۔ یہی انصاف ہے ۔ اِس کے سوا کوئی دوسری صورت اگر اختیار کی جائے گی تو یہ بے انصافی ہو گی اور اِس کا نتیجہ بھی لامحالہ یہی نکلے گا کہ خاندان کا ادارہ بالآخر ختم ہو کر رہ جائے گا ۔ ‘‘(۴۴۱)
ان دونوں اقتباسات سے واضح ہے کہ تفویض طلاق ممکن تو ہے، لیکن یہ چیز قرآن مجید کے مقصد سے مناسبت نہیں رکھتی۔
____________