HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Talib Mohsin

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

حضرت نوح علیہ السلام کی عمر پر اشکال

سوال: قرآن مجید میں آتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال دعوت وتبلیغ کا کام کیا۔ اب تک میرا خیال تھا کہ انسان کی اوسط زندگی اور قد کاٹھ ایک جیسا ہی ہے۔ دوچار انچ یا پانچ دس سال کا فرق تو سمجھ میں آتا ہے، لیکن روایات میں جس طرح عوج بن عنق کے قد کاٹھ کے بارے میں مبالغہ آرائی پائی جاتی ہے ،وہ حقیقت نظر نہیں آتی۔ چونکہ اس کا ذکر قرآن مجید میں نہیں ہے، اس لیے ہم آسانی سے اس کی تردید کر سکتے ہیں، لیکن حضرت نوح علیہ السلام کی ۹۵۰ سال تبلیغ کا ذکر قرآن مجید میں ہے جس کو ہم کسی قیمت نہیں جھٹلا سکتے۔ کیا حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے تمام افراد کی عمریں اتنی ہی تھیں؟ اس قوم کے قد کاٹھ ہمارے جیسے تھے یا ان کی نوعیت کچھ اور تھی۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کا زمانہ اب سے چار پانچ ہزار سال پہلے بتاتے ہیں۔ چار پانچ ہزار سال انسانی تاریخ میں کوئی معنی نہیں رکھتے۔ یہ بات کسی طور سمجھ میں نہیں آتی کہ صرف چار ہزار سال پہلے کسی کی عمر ہزار سال ہو۔ قرآن سے کسی اور پیغمبر کے بارے میں اس طرح کی بات معلوم نہیں ہوتی۔ (محمد عارف جان)

جواب: حضرت نوح علیہ السلام کا زمانہ قبل تاریخ کا زمانہ ہے۔مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ کی راے یہ ہے کہ بائیبل میں دیے گئے شجرۂ نسب سے حضرت آدم اور حضرت نوح وغیرہ کے زمانے کا اندازہ لگانا درست نہیں ہے۔ اس شجرۂ نسب میں وہی نام باقی رہ گئے ہیں جو بہت معروف ہو گئے تھے اور بیچ کی کئی نسلیں غائب ہیں۔ ان کے خیال میں یہ درحقیقت بڑے بڑے سرداروں کے نام ہیں۔ ایک اور دوسرے شخص کے بیچ میں ممکن ہے کئی سو برس کا فاصلہ ہو۔ ان کی اس راے کو سامنے رکھیں جو واضح طور پر درست لگتی ہے تو حضرت نوح کے زمانے کے بارے میں کوئی اندازہ قائم کرنا ممکن نہیں۔ البتہ اگر کوئی خارجی شواہد موجود ہوتے تو ہمیں کوئی راے قائم کرنے میں مددمل سکتی تھی، لیکن حضرت نوح کے حوالے سے ایسے کوئی شواہد میرے علم کی حد تک ابھی تک نہیں ملے۔

اب ہمارے پاس واحد یقینی ذریعہ قرآن مجید ہے۔ قرآن مجید میں بھی صرف حضرت نوح علیہ السلام کی عمر ہی کا ذکر ہے۔ کوئی اور بات اس زمانے کے انسانوں کے حوالے سے مذکور نہیں ہے۔ بائیبل، کتاب پیدایش کے باب۵اور ۶ میں جو تفصیل منقول ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لمبی عمروں کا یہ سلسلہ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد ختم کر دیا گیا۔ قرآن مجید کے بیان کی روشنی میں ہم یہ اندازہ ہی لگا سکتے ہیں کہ بائیبل کا یہ بیان درست ہو، لیکن یقینی راے کے لیے سائنسی شواہد کی دستیابی ضروری ہے۔البتہ حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں قرآن کا بیان حتمی ہے اور ان کے بارے میں ہم یہ یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی عمر یہی تھی۔

یہ سوال کہ اس زمانے کے لوگوں کے قد کاٹھ کیا تھے؟ اس کا واحد ماخذ اسرائیلی روایات ہیں۔ ہمارے ہاں بھی اس سلسلے میں جو کچھ مروی ہے، وہ انھی روایات سے ماخوذ معلوم ہوتا ہے۔ لہٰذا اس باب میں خاموشی ہی بہتر ہے۔ جو خارجی شواہد ابھی تک سامنے آئے ہیں، ان سے تو قد کاٹھ کے بارے میں ان بیانات کی تائید نہیں ہوتی، لیکن قبل ازتاریخ کے انسان کے بارے میں ان تصورات کی قطعی تردید بھی شاید ابھی ممکن نہیں ہے۔

معلوم تاریخ کے انسان کی عمر اور قد کاٹھ کے بارے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ آج کے انسان سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھا۔خارجی شواہد، یعنی عمارتیں اور دوسرے آثار سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے، لیکن کیا اس کی روشنی میں ہم قرآن کے بیان کی نفی کر سکتے ہیں؟ یقیناًاس نفی کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ قرآن کے بیان کو ماننے کے بعد ہم یہ اندازہ بھی قائم کر سکتے ہیں کہ ان کے زمانے میں عام عمریں بھی ایسی ہی تھیں۔ اس اندازے کی تائید بائیبل کے بیان سے بھی ہوتی ہے اور حضرت نوح علیہ السلام کی عمر کو ایک معجزہ بھی قرار دے سکتے ہیں۔ باقی رہا قد کاٹھ تو اس باب میں کوئی یقینی بات ہمارے پاس نہیں ہے۔ خارجی شواہد کی روشنی میں ہم ان اسرائیلی روایات کو رد بھی کر سکتے ہیں۔

____________

B