نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کا چھٹاتقاضا آپ سے محبت ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
لا یؤمن أحدکم حتی أکون أحب إلیہ من والدہ وولدہ والناس أجمعین.(بخاری، رقم ۱۵)
’’تم میں سے کوئی شخص حقیقی معنی میں اس وقت تک ایمان نہیں رکھتا، جب تک میں اس کے نزدیک اس کے باپ، اس کی اولاد اور دوسرے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایمان کی حقیقی لذت سے بھی وہی شخص آشنا ہوتا ہے، جو سب سے بڑھ کر اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہو۔ آپ کا ارشاد ہے:
ثلاث من کن فیہ وجد حلاوۃ الإیمان أن یکون اللّٰہ ورسولہ أحب إلیہ مما سواھما.... (بخاری، رقم۱۶)
’’تین چیزیں جس شخص میں ہوں، اس نے ایمان کی حلاوت پا لی: ان میں سے ایک وہ شخص ہے کہ جس کے نزدیک، اللہ اور اس کا رسول دوسری تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوں...۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جس محبت کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے، اس کے بارے میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اس سے مقصود محض وہ جذباتی تعلق نہیں ہے، جو آدمی کو فطری طور پر اپنے بیوی بچوں، اپنے ماں باپ اور اپنے اعزہ و اقارب سے ہوتا ہے۔ اس سے مقصود، اصلاً، وہ محبت ہے، جو ایک شخص کو کسی اصول اور کسی مسلک کے ساتھ ہوا کرتی ہے اور جس کی بنا پر وہ اپنی زندگی میں اسی اصول اور اسی مسلک کو ہر جگہ مقدم رکھتا ہے۔اس کے لیے وہ ہر چیز، ہر اصول، ہر مسلک، ہر خواہش اور ہر حکم کو قربان کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے، لیکن اس کو دنیا کی کسی چیز پر بھی قربان کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ اس کی برتری کے لیے وہ ساری چیزوں کو پست کر دیتا، مگر اس کو کسی حال میں بھی پست دیکھنا گوارا نہیں کرتا۔ اس کی اپنی ذات، اس کے ماں باپ، اس کے بیوی بچے، اس کے اعزہ و اقارب، اس کے دنیوی مفادات، اس کی دل چسپیاں، غرض کہ کوئی چیز بھی اسے اس اصول اور اس مسلک کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں کر سکتی۔ اگر کسی موقع پر، اسے ان تمام چیزوں کی محبت کو ٹھکرا کر بھی اس اصول اور اس مسلک کی سربلندی کے لیے کوئی جدوجہد کرنی پڑے تو وہ بلا تامل، ہر چیز کو چھوڑ کر اس اصول اور اس مسلک کا ساتھ دیتا ہے۔
اس لحاظ سے دیکھیے خدا اور رسول سے محبت، دراصل، خدا اور رسول کے پیغام سے محبت ہے۔ اس محبت کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَاآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَہَآ اَحَبَّ اِلَیْْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ وَاللّٰہُ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ. (التوبہ ۹ : ۲۴)
’’(اے پیغمبر، ان سے) کہہ دیجیے: تمھارے باپ، اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی اور تمھاری بیویاں اور تمھارا خاندان اور تمھارا وہ مال جو تم نے کمایا اور وہ تجارت، جس کے مندے سے تم ڈرتے ہو اور تمھارے وہ گھر جنھیں تم پسند کرتے ہو، (یہ سب کچھ) تمھیں اگر اللہ سے، اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جدوجہد سے زیادہ محبوب ہے، تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ صادر کر دے۔ اور (جان لو کہ) اس طرح کے بد عہدوں کو اللہ راہ یاب نہیں کرتا۔‘‘
مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ اس آیت کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’کسی چیز کا اللہ اور رسول سے زیادہ عزیز و محبوب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے سامنے جب دو بالکل متضاد مطالبے آئیں، ایک طرف اللہ و رسول کا مطالبہ ہو، دوسری طرف مذکورہ چیزوں میں کسی چیز کی محبت کا مطالبہ اور آدمی خدا اور رسول کے مطالبے کو نظر انداز کر کے دوسری چیز کے مطالبہ کو ترجیح دے دے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ اللہ اور رسول سے زیادہ اس کو وہ چیز محبوب ہے اور اگر اس کے برعکس وہ اس چیز کے مطالبے پر اللہ و رسول کے مطالبہ کو مقدم رکھے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے اللہ و رسول کی محبت کو ترجیح دی۔ اللہ و رسول سے یہ محبت ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ اس کے بغیر کسی کا دعواے ایمان معتبر نہیں ہے اور یہ محبت الٰہی کے جانچنے کے لیے ایک ایسی کسوٹی ہے جس سے ہر شخص اپنی روز مرہ کی زندگی میں اپنے ایمان اور اپنی محبت کو جانچ سکتا ہے۔‘‘(تدبر قرآن ۳/ ۵۵۲)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کے اسی تقاضے کو واضح فرماتے ہوئے ایک اور موقع پر ارشاد ہوا:
اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ. ( الاحزاب ۳۳: ۶)
’’نبی کا حق مومنوں پر خود ان کے اپنے مقابل میں اولیٰ ہے۔‘‘
اس سے صاف ظاہر ہے کہ قرآن مجید کی نظر میں ایک بندۂ مومن سے جو رویہ مطلوب ہے، وہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام اور آپ کے طریقے کو اپنی ذات کے مطالبات اور دنیا کی تمام مرغوبات پر ترجیح دے۔ چنانچہ، اسی مفہوم کی ایک روایت سنن ترمذی میں نقل ہوئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
ومن أحیا سنتي فقد أحبني ومن أحبني کان معي في الجنۃ. (رقم۲۶۷۸)
’’جس نے میرے طریقے کو زندہ کیا، اس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے مجھ سے محبت کی، وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا۔‘‘
اللہ اور رسول کے ساتھ اسی محبت کا ایک لازمی تقاضا یہ بھی ہے کہ آدمی ایسے لوگوں کے ساتھ قلبی محبت کا کوئی تعلق نہیں رکھ سکتا، جن کی خدا اور رسول کے ساتھ دشمنی بالکل عیاں ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں بالکل متضاد محبتیں ہیں اور ان میں سے ایک کے تقاضے دوسری کے تقاضوں کی نقیض ہیں۔ چنانچہ، یہی وجہ ہے کہ ایمان کے دعوے کے ساتھ اگر اللہ اور رسول کے دشمنوں کے ساتھ محبت و الفت کا تعلق موجود ہے تو قرآن مجید اسے نفاق کی ایک واضح علامت قرار دیتا ہے۔ سچے اہل ایمان کا رویہ واضح کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے:
لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْکَانُوْٓا اٰبَآءَ ہُمْ اَوْ اَبْنَآءَ ہُمْ اَوْ اِخْوَانَہُمْ اَوْ عَشِیْرَتَہُمْ اُولٰٓءِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْاِیْمَانَ وَاَیَّدَہُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ وَیُدْخِلُہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ اُولٰٓءِکَ حِزْبُ اللّٰہِ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.(المجادلہ ۵۸: ۲۲)
’’تم کوئی ایسے لوگ نہیں تلاش کر سکتے، جو اللہ اور روز آخرت پر حقیقی ایمان رکھتے ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ ان سے بھی دوستی رکھیں جو اللہ اور اس کے رسول کے مخالف ہوں، اگرچہ وہ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے اہل کنبہ ہی کیوں نہ ہوں۔ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت فرما دیا ہے اور اپنی طرف سے ایک فیضان خاص سے ان کی تائید فرمائی ہے۔ اور وہ انھیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا، جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ یہی لوگ حزب اللہ ہیں۔ سن رکھو کہ حزب اللہ ہی فلاح پانے والی ہے۔‘‘
مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’...دین میں وہ ایمان یا وہ اطاعت معتبر نہیں ہے جس کی بنیاد محبت پر نہ ہو۔ ایسی اطاعت جس کی تہ میں محبت کا جذبہ کارفرما نہ ہو، بعض حالات میں محض نفاق ہوتی ہے۔ پھر محبت بھی محض رسمی اور ظاہری قسم کی مطلوب نہیں ہے، بلکہ ایسی محبت مطلوب ہے، جو تمام محبتوں پر غالب آ جائے، جس کے مقابل میں عزیز رشتے اور محبوب سے محبوب تعلقات کی بھی کوئی قدر و قیمت باقی نہ رہ جائے، جس کے لیے دنیا کی ہر چیز کو چھوڑا جا سکے، لیکن خود اس کو کسی قیمت پر نہ چھوڑا جا سکے۔‘‘ (تزکیۂ نفس ۱۱۸)
اس کے بعد، محبت اور اطاعت کے باہمی تعلق کو واضح کرتے ہوئے، وہ مزید لکھتے ہیں:
’’...اطاعت بلا محبت کے نفاق اور محبت بلا اطاعت و اتباع کے بدعت ہے۔
یہ بات کہ محبت بلا اطاعت کے نفاق ہے، خود قرآن مجید سے نہایت واضح طور پر ثابت ہے۔ حوالی مدینہ کے بہت سے اعراب، اسلام کی سیاسی طاقت بڑھ جانے کے بعد اسلامی احکام و قوانین کی ظاہری اطاعت کرنے لگے تھے، لیکن یہ اطاعت محض سیاسی مصالح کے تحت مجبورانہ تھی۔ اللہ اور رسول کی محبت اور اس ایمان کا نتیجہ نہیں تھی جس کی اصلی روح اخلاص و اعتماد ہے۔ چنانچہ ان لوگوں نے جب بعض مواقع پر اپنے ایمان کا دعویٰ اس طرح کیا، جس سے یہ مترشح ہوتا تھا کہ انھوں نے ایمان لا کر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اسلام پر کوئی بہت بڑا احسان کیا ہے تو قرآن نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ہدایت کی کہ ان مدعیان ایمان سے کہہ دو کہ محض اسلامی احکام و قوانین کی ظاہری اطاعت سے آدمی مومن نہیں ہو جایا کرتا، بلکہ ایمان کے لیے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ اخلاص و محبت بھی شرط ہے اور یہ چیز تمھارے اندر مفقود ہے، اس وجہ سے ابھی تمھارا دعواے ایمان بھی غلط ہے۔
... رہی دوسری بات، یعنی محبت بلا اطاعت و اتباع کا بدعت ہونا، تو یہ اوپر کی آیات و احادیث سے واضح طور پر نکلتی ہے۔
جس طرح قرآن مجید میں ’ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ‘ والی آیت میں اللہ کی محبت کا طریقہ یہ بتلایا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی جائے اور بغیر اتباع نبی (صلی اللہ علیہ وسلم )کے اللہ کی محبت کے جتنے طریقے ایجاد کیے گئے ہیں، ان سب کو بدعت و ضلالت قرار دیا ہے، اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’مَنْ اَحَبَّ سُنَّتِيْ فَقَدْ اَحَبَّنِیْ‘ والی حدیث میں یہ واضح فرما دیا کہ آپ سے محبت کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ کی سنت کے ساتھ محبت کی جائے۔ اور بعض دوسری حدیثوں میں آپ نے اپنی محبت میں اس قسم کے غلو کی ممانعت فرمائی ہے جس قسم کا غلو نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی محبت میں کیا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ ہدایت اور یہ ممانعت اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن آپ کی سنت کی پیروی نہیں کرتے، اول تو ان کا دعویٰ ہی بے حقیقت ہے اور اگر اس کے اندر سچائی کی رمق ہے بھی تو ان کی یہ محبت بالکل بے معنی محبت ہے۔ اور اگر انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کرنے کے کچھ ایسے طریقے بھی ایجاد کر لیے ہیں، جو صریحاً آپ کی سنت کے خلاف ہیں تو یہ اس طرح کی بدعت ہے، جس طرح کی بدعت نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی محبت میں کی ہے کہ ان کو پیغمبر کی بجائے خدا بنا کے بٹھا دیا۔
صحابہ رضی اللہ عنہم کی محبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محض عقلی و اصولی ہی نہیں تھی، بلکہ جذباتی بھی تھی، لیکن یہ جذبات کبھی حدود کتاب و سنت سے متجاوز نہیں ہوتے تھے۔ ایک طرف یہ حال تھا کہ صحابہ اپنے اوپر بڑی سے بڑی تکلیف اٹھا لیتے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تلووں میں ایک کانٹے کا چبھنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں ان کے اپنے جسم تیروں سے چھلنی ہو جاتے تھے، لیکن وہ یہ نہیں برداشت کر سکتے تھے کہ ان کے جیتے جی آپ کا بال بھی بیکا ہو۔ مرد تو مرد، عورتوں تک کے جذبات کا یہ حال تھا کہ وہ اپنے بیٹے اور شوہر اور باپ اور بھائی سب کو قربان کر کے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سلامتی کی آرزوئیں ر کھتی تھیں۔ دوسری طرف اتباع سنت کا یہ اہتمام تھا کہ اس محبت سے مغلوب ہو کر بھی کبھی کوئی ایسی بات ان سے صادر نہیں ہوتی تھی جو آپ کی صریح ہدایت تو درکنار، آپ کی پسند ہی کے خلاف ہو۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ملاحظہ ہو:
عن انس قال لم یکن شخص أحب الیھم من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وکانوا اذا رأوہ لم یقوموا لما یعلمون من کراھیتہ لذلک. (مشکوٰۃ، بہ حوالہ ترمذی)
’’حضرت انس (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی شخص بھی محبوب نہ تھا، لیکن جب وہ آپ کو دیکھتے تو آپ کی تعظیم کے لیے کھڑے نہ ہوتے کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ آپ اس بات کو ناپسند فرماتے ہیں۔‘‘
لیکن آج اگر ہم مسلمانوں کا جائزہ لیں تو ان کے اندر عظیم اکثریت ایسے ہی لوگوں کی نکلے گی، جو یا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن اس ایمان کے ساتھ اطاعت موجود نہیں ہے۔ یا محبت کا دم بھرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ اتباع سنت نہیں ہے۔ اطاعت اور اتباع، دونوں کی جگہ انھوں نے اپنے جی سے چند چیزیں ایجاد کر لی ہیں کچھ میلاد کی مجلسیں منعقد کر دیتے ہیں، کچھ دیگیں پکوا کے تقسیم کر دیتے ہیں، ایک آدھ جلوس نکلوا دیتے ہیں، کچھ نعرے لگوا دیتے ہیں بس اس طرح کی کچھ باتیں ہیں، جن سے ان کا ایمان اور ان کی محبت رسول عبارت ہے۔ آپ کو کتنے ایسے اشخاص مل جائیں گے، جنھوں نے نماز مدت العمر نہیں پڑھی، لیکن مہینہ میں میلاد کی مجلسیں اور قوالی کی محفلیں کئی بار منعقد کرتے ہیں۔ مال رکھتے ہوئے زکوٰۃ ادا کرنے کی ان کو کبھی توفیق نہیں ہوئی، لیکن اپنی ان بدعات پر، جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر کرتے ہیں، ہر سال ہزار ہا روپے خرچ کر دیتے ہیں۔ ان کو اس بات کی کبھی توفیق نہیں ہوتی کہ اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا مطالعہ کریں اور ان کی روشنی میں اپنی زندگیوں کا جائزہ لے کر ان کو درست کرنے کی کوشش کریں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں اپنے آپ کو ہر وقت سرشار ظاہر کرتے ہیں اور نعتیہ اشعار پڑھ کر یا سن کر ان پر وار فتگی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔
یہ حالت ہمارے کسی ایک ہی طبقے کی نہیں ہے، بلکہ ہمارے اکثر طبقے اسی قسم کی محبت رسول کے دعوے دار ہیں اور اگر کچھ لوگ اتباع سنت کا دعویٰ بھی کرتے ہیں تو ان کا حال بھی یہ ہے کہ ان کے نزدیک تمام سنت چند اختلافی مسائل کے اندر سمٹ آئی ہے بس انھی چند چیزوں پر ان کا سارا زور صرف ہوتا ہے۔ گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت صرف انھی چند مسائل کی تعلیم کے لیے ہوئی تھی۔‘‘ (تزکیۂ نفس ۱/ ۱۲۰۔ ۱۲۳)