HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Moiz Amjad

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

خیر خواہی

نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کا پانچواں تقاضا آپ کی نصح و خیر خواہی ہے۔

انسان جب فی الواقع آخرت کی کامیابی کو اپنا ہدف بنا لیتا ہے تو اس کا ایک لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس کی شخصیت میں دوسروں کے لیے نصیحت و خیر خواہی کا عنصر غالب آ جاتا ہے۔ یہ عنصر، فطری طور پر، سب سے بڑھ کر اسی کے لیے ہوتا ہے، جس کی انسان پر سب سے زیادہ عنایتیں ہیں۔ وہ سب سے بڑھ کر خدا اور رسول کا خیر خواہ ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے والدین اور اپنے اعزہ و اقارب کا، اپنے اہل محلہ کا، اپنے ہم وطنوں کا اور اپنے جیسے دوسرے تمام انسانوں کاخیر خواہ بن جاتا ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

الدین النصیحۃ قلنا لمن قال للّٰہ ولکتابہ ولرسولہ ولأئمۃ المسلمین وعامتھم.(مسلم، رقم ۵۵)
’’دین خیر خواہی ہے۔ ہم نے پوچھا: کس کے لیے؟ فرمایا: اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے حکمرانوں کے لیے اور ان کے عوام کے لیے۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خیر خواہی میں ایک طرف یہ بات شامل ہے کہ آپ نے خدا کے دین اور اس کی ابدی ہدایت کی جو گراں قدر نعمت ہم تک پہنچائی، ہم اس کے لیے آپ کے احسان مند ہوں۔ ہمارے قول اور عمل میں یہ احسان مندی نظر آئے۔ ہم اس ہدایت کی قدر کریں،اس پر دل و جان سے عمل کرنے کی کوشش کریں اور ہماری زبان اپنے محسن کے لیے رحمتوں اور برکتوں کی دعا سے تر رہے۔ قرآن مجید میں ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کو اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کے ہاں وہ، اگر سچے اہل ایمان کی فہرست میں اپنا نام درج کرانا چاہتے ہیں تو انھیں اپنے قول و عمل سے رسول کو اذیت پہنچانے کے بجائے، ان کے لیے خدا کی رحمتوں کی دعا کرنی چاہیے۔ ارشاد ہے:

اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓءِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا.(الاحزاب ۳۳: ۵۶) 
’’بے شک، اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے اہلِ ایمان، تم بھی اس پر اچھی طرح درود و سلام بھیجو۔‘‘

اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں یہ بات بھی واضح کر دی گئی ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جس دعا کا یہاں مطالبہ کیا جا رہا ہے، پیغمبر اس دعا کے ہرگز محتاج نہیں ہیں۔ آیت میں بات کا آغاز ہی یہاں سے کیا ہے کہ اللہ بھی اپنے نبی پر ر حمتیں نازل فرماتا اور اس کے فرشتے بھی اس کے لیے رحمتوں کی دعا کرتے ہیں۔ ظاہر ہے، جس ہستی کے بارے میں پروردگار عالم نے اپنا یہ فیصلہ سنا دیا ہو کہ اس پر وہ اپنی رحمتیں نازل کرتا ہے، جس ہستی کے لیے اللہ کے مقرب فرشتے دعا گو رہتے ہوں، اسے ہماری دعاؤں کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ یہ واضح رہنا چاہیے کہ ہماری طرف سے پیغمبر کے حق میں دعا، پیغمبر کی نہیں، بلکہ ہماری اپنی ضرورت ہے۔ یہ ہماری طرف سے احسان مندی کا اعتراف اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خیر خواہی اور اپنے دلی جذبات کا اظہار ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خیر خواہی کا دوسرا پہلو، آپ کے لائے ہوئے دین کی خیر خواہی ہے۔ دین کی خیر خواہی کے معنی یہ ہیں کہ ہم سب، جو آپ کے دین کے پیرو ہونے کے مدعی ہیں، اس دین پر عمل کرنے اور اسے سربلند کرنے کا درد اپنے دلوں میں پیدا کریں۔ ہمارا کوئی قول اور کوئی فعل ایسا نہیں ہونا چاہیے، جس کی وجہ سے اس دین کی اور اسے لانے والے کی بدنامی ہو۔ ہمیں ہر کام کرنے سے پہلے یہ بات اچھی طرح سے سوچ لینی چاہیے کہ دنیا ہمیں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیرو سمجھتی اور اسی حیثیت سے ہمیں پہچانتی ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، دنیا ہمیں اسی دین کا نمائندہ سمجھتی ہے، جس کی دعوت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو دی تھی۔ اس وجہ سے ہمارا کوئی قول و فعل ایسا نہیں ہونا چاہیے، جس کے باعث دین اسلام پر اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر کوئی حرف آئے۔ ہمیں اچھی طرح سے سوچ سمجھ کر دو میں سے کوئی ایک فیصلہ کر لینا چاہیے: یا ہم پورے شعور کے ساتھ وہ راستہ اختیار کرنے کی کوشش کریں، جو قرآن مجید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں ایک سچے مسلمان کی پہچان کے طور پر بیان ہوا ہے، اور یا اپنے بارے میں مسلمان اور محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار ہونے کے دعوے سے کنارہ کش ہو جائیں۔

B