HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Moiz Amjad

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

اتباع

نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کا تیسرا تقاضا آپ کی اتباع ہے۔

قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ دین پر عمل کرنے کے معاملے میں اگر کوئی آخری معیار ہے تو وہ آپ ہی کا عمل ہے۔ معاملہ خواہ ایمانیات ، اللہ کے ذکر، اس کے شکر، اس کی راہ میں مشکلات پر صبر، اس کی ذات پر توکل ،اس کے تقویٰ کا ہو یا شریعت پر عمل یا بندوں کے ساتھ تعلقات کا، غرض یہ کہ ہر معاملے میں اگر بندگی، تعلقات یا اخلاقی رویوں کا کوئی حتمی معیار ہے تو وہ آپ ہی کا عمل اور آپ ہی کا رویہ ہے۔قرآن مجید نے آپ کو اسی لیے ان لوگوں کے لیے ’اسوۂ حسنہ‘ یا بہترین نمونہ قرار دیا ہے، جو پروردگار عالم سے ملاقات کی تمنا رکھتے، آخرت کی کامیابی کو اپنا اصل ہدف سمجھتے اور دنیا کی یہ زندگی خدا کی رضا حاصل کرنے کی آرزو اور جستجو میں گزارتے ہیں۔ ارشاد ہے:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا. (الاحزاب ۳۳: ۲۱) 
’’یقیناتمھارے لیے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخرت کی توقع رکھتا اور اللہ کو بہت یاد کرنے والا ہے۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے دین پر جس طرح عمل کیا،آپ نے جس طریقے اور جس روح کے ساتھ اللہ کی عبادت اور اس کی بندگی کی، آپ نے جس محبت اور شفقت کے ساتھ اپنے متبعین کو دین کی تعلیم دی، آپ نے جس خیرخواہی کے ساتھ اپنے مخالفین کے ساتھ معاملہ کیا، آپ نے جس استقامت کے ساتھ راہ حق کی مشکلات کا مقابلہ کیا، آپ نے جس شان کے ساتھ اس راہ کی تکلیفیں برداشت کیں، آپ جس عجز و انکسار کے ساتھ تخت شاہی پر تشریف فرما ہوئے، غرض یہ کہ خدا کی بندگی اور دوسروں کے ساتھ معاملہ کرنے میں آپ جس اخلاقی معیار پر کھڑے ہیں، اب رہتی دنیا تک وہی تمام نوع انسانی کے لیے اسوہ یا نمونہ رہے گا۔ ہر وہ شخص جو خدا سے محبت رکھتا اور خدا کی محبت عزیز رکھتا ہے، ہر وہ بندہ جو یہ چاہتا ہے کہ اس کا معبود اس سے محبت رکھے، اس کے لیے اس کے معبود ہی کا بتایا ہوا راستہ ہے کہ وہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا آئیڈیل بنا کر آپ کی اتباع کرے۔ ارشاد ہے:

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ. (آل عمران ۳: ۳۱) 
’’(اے پیغمبر، ان سے) کہہ دیجیے: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھارے گناہ معاف فرما دے گا۔ اور اللہ بہت معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘

اس آیت میں جہاں یہ بتا دیا ہے کہ آپ کی اتباع کرنے سے بندہ خدا کے محبوب ہونے کا درجہ حاصل کرتا ہے، وہیں یہ بات بھی اس آیت سے نکلتی ہے کہ خدا سے محبت کرنے کا طریقہ بھی یہی ہے کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا ہادی اور مرشد بنا کر آپ کی اتباع میں زندگی کا راستہ طے کیا جائے۔آپ کی اتباع کے بغیر، محبت الٰہی کا دعویٰ محض دعویٰ ہے، حقیقت میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ خدا کے ہاں اگر کوئی چیز وزن رکھتی ہو گی تو اپنی حقیقت کے لحاظ ہی سے رکھتی ہو گی۔ محبت کے جھوٹے دعوے، ایسے مدعیوں کے منہ پر دے مارے جائیں گے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی یہی وہ حیثیت ہے، جس کی وجہ سے قرآن مجید کے مطابق، آپ کی اتباع ہی دنیا میں ہدایت اور اس وجہ سے آخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:

فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَکَلِمٰتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ.(الاعراف۷ :۱۵۸)
’’پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے نبی امی رسول پر، جو ایمان رکھتا ہے اللہ پر اور اس کے کلمات پر اور اس (رسول)کی پیروی کرو تاکہ تم راہ یاب ہو۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے لیے ضروری ہے کہ مختلف معاملات میں آپ نے جو اسوہ ہمارے سامنے رکھا ہے، سب سے پہلے ہم اس سے واقفیت حاصل کریں اور پھر اس کو اپنے سامنے ایک معیار بنا کر اس کو پانے کی سعی و جہد کریں۔ 


ایک غلط فہمی کا ازالہ

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے ہمارے لیے جو اسوہ قائم کیا ہے، اس میں ایک شان دار اعتدال اور بے مثل توازن ہے۔ آپ نے نہ ترک دنیا اور رہبانیت کی تعلیم دی اور نہ دنیا ہی کی کامیابیوں کو اپنا ہدف بنانے کا درس دیا۔ زندگی گزارنے کا جو رویہ آپ نے اختیار فرمایا، وہ یہ تھا کہ بندہ اللہ کی بخشی ہوئی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، اس کی رضا حاصل کرنے کو اپنا ہدف اور نصب العین بنائے۔ آپ نے ہمیں سکھایا کہ اسی رویہ کو اپنانے کے نتیجے میں زندگی میں وہ اعتدال اور توازن وجود میں آتا ہے، جو اللہ، رب العالمین نے اپنے بندوں کے لیے پسند فرمایا ہے۔ 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معتدل اور متوازن رویہ بعض ایسے لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا جو اپنی طبیعت میں عبادات اور ترک دنیا کی طرف زیادہ میلان رکھتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، وہ آپ کے عمل کی مختلف توجیہات کرکے اپنے لیے اپنے رجحانات کے لحاظ سے زندگی گزارنے کی راہیں کھولنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ روایتوں میں آتا ہے کہ بعض صحابیوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس حاضر ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کے بارے میں استفسار کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے جواب سے یہ صحابی کچھ مطمئن نہیں ہوئے اور انھوں نے اپنے رجحانات کے لحاظ سے آپ کے معمولات میں عبادت کی کچھ کمی محسوس کی۔ چنانچہ صحیح بخاری، کتاب النکاح میں جو روایت نقل ہوئی ہے، اس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے جواب کے بارے میں ان صحابیوں کا ردعمل’کَأَنَّھُمْ تَقَالُوْھَا‘ ۳؂ (گویا کہ انھوں نے اسے بہت کم سمجھا ) کے الفاظ میں نقل ہواہے۔ اپنے لحاظ سے اس کمی کی توجیہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری غلطیاں اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیں اور آپ کو اسی دنیا میں جنت کی بشارت دے دی ہے، اس وجہ سے آپ کے لیے تو اس قسم کی کمی ٹھیک ہے، مگر ہمیں تو اس سے آگے بڑھ کر عمل کرنا چاہیے۔ چنانچہ، ان میں سے ایک صحابی نے اپنے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ آیندہ پوری رات تہجد پڑھیں گے اور کبھی نہ سوئیں گے۔ دوسرے صحابی نے کہا کہ وہ اپنی زندگی کے باقی دن روزے رکھیں گے اور کسی دن ناغہ نہ کریں گے۔ تیسرے صحابی نے کہا کہ وہ عورتوں سے دور رہیں گے اور کبھی نکاح نہ کریں گے تاکہ پوری توجہ کے ساتھ خدا کی عبادت کر سکیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو غصے سے آپ کا رنگ سرخ ہو گیا۔ آپ نے فرمایا:

أنتم الذین قلتم کذا وکذا؟ أما واللّٰہ إني لأخشاکم للّٰہ وأتقاکم لہ لکني أصوم وأفطر وأصلي وأرقد وأتزوج النساء فمن رغب عن سنتي فلیس مني. (بخاری، رقم ۵۰۶۳) 
’’کیا تمھی وہ لوگ ہو، جنھوں نے فلاں فلاں بات کہی ہے؟ یاد رکھو کہ میں تم سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والااور اس کی حدود کی پابندی کرنے والا ہوں۔ لیکن میرا طریقہ یہ ہے کہ میں روزے رکھتا بھی ہوں اور چھوڑ بھی دیتا ہوں، رات میں نماز پڑھتا بھی ہوں اور سو بھی جاتا ہوں، عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ چنانچہ جان لو کہ جسے میرا طریقہ پسند نہیں ہے، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘

اس سے صاف ظاہر ہے کہ جو خیر و برکت، جو توازن اور جو اعتدال پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں پایا جاتا ہے، وہی اصل میں مطلوب ہے۔ اس سے آگے بڑھنے کی جدوجہد، دین سے دھینگا مشتی کرنے اور کشتی لڑنے کے مترادف ہے اور اس کا انجام، اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ آدمی کو شکست اور مایوسی سے دوچار ہونا پڑے۔


اتباع کی حدود

جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دین پر عمل کرنے کے معاملے میں ہمارے لیے اسوۂ حسنہ کی حیثیت رکھتے ہیں، چنانچہ اسی دائرے میں آپ کی اتباع مطلوب اور اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ اس دائرے کوچھوڑ کر، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مخصوص حیثیت سے اگر کوئی کام کیا ہو اور دوسروں کو ایسا کرنے سے روک دیا ہو یا معاشرے کے ایک فرد ہونے کی حیثیت سے ایک کام کیاہو ، جس کا دین سے کوئی تعلق نہ ہو یا اپنے زمانے، اپنے حالات اور اپنے تمدن کے لحاظ سے اپنے معمولات انجام دینے کا کوئی خاص طریقہ اختیار فرمایا ہو یا کسی بھی ایسے دائرے میں کوئی عمل کیا ہو، جس کا دین سے یا دینی رویوں سے براہ راست یا بالواسطہ تعلق نہ ہو تو یہ تمام معاملات اتباع کے دائرے سے خارج ہوں گے۔

اتباع کے اس دائرے کو ٹھیک طریقے پر متعین کرنا بہت ضروری ہے۔ اس میں غلطی، بہت سی دوسری غلطیوں کی راہ کھول سکتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس قسم کا لباس پہنا، آپ نے سفر کے لیے جو سواری اختیار فرمائی، آپ نے جنگ و قتال کے موقع پر جو ہتھیار استعمال فرمائے اور اسی طرح کے دیگر معاملات، جن کا دین پر عمل کرنے کے ساتھ کوئی براہ راست یا بالواسطہ تعلق نہیں ہے، ان میں آپ کی اتباع لازم نہیں ہے۔

B