اس دنیا میں اللہ کے دین اور اس کی ہدایت کا تنہا ماخذ، اب قیامت تک محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات والا صفات ہے۔ اب رہتی دنیا تک آپ ہی کو یہ مقام حاصل ہے کہ آپ جس چیز کو دین قرار دیں، وہی دین قرار پائے اور اسے اس حیثیت سے اپنے علم و عمل میں اختیار کیا جائے۔ انسان اگر اللہ کی ہدایت اور اس کی پسند اور ناپسند جاننا چاہے تو اس کے سوا اور کوئی راستہ اس کے پاس نہیں ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرے۔ واقعہ یہ ہے کہ ذات باری کی صحیح معرفت اور اس کے ساتھ صحیح تعلق پیدا کرنے کے لیے بھی ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی رہنمائی کے محتاج ہیں:
بمصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی ، تمام بولہبی ست
نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے معنی یہ ہیں کہ آپ کو اللہ کا سچا پیغمبر مانا جائے۔ پیغمبر پر یہ ایمان محض کوئی نظری اور علمی چیز نہیں ہے ۔ خدا پر ایمان کی طرح اس کے بھی کچھ بدیہی تقاضے ہیں۔ یہ تقاضے اگر پورے نہیں کیے جا رہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ جس چیز کو ایمان کا نام دیا جا رہا ہے، وہ حقیقت میں ایمان ہی نہیں ہے یا اس کا دعویٰ کرنے والا اس کی حقیقت اور اس کے تقاضوں سے واقف نہیں ہے ۔قرآن مجید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی رو سے، آپ پر ایمان لانے کے نتیجے میں جو تقاضے پیدا ہوتے ہیں، وہ یہ ہیں:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کا پہلا تقاضا آپ کی ذات اور آپ کی تعلیمات پر کامل اعتماد ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کی اصل روح، ہر چیز سے بڑھ کر آپ کی ذات پر اعتماد ہے۔ سچا اور غیر متزلزل اعتماد۔ آپ کے صادق اور امین ہونے پر اعتماد۔ آپ کے ہر قول و عمل کے پر حکمت ہونے پر اعتماد۔ نجات اور فلاح کی راہ میں آپ کے سچے اور کامل رہنما ہونے پر اعتماد۔ خدا کی معرفت کے معاملے میں آپ کی رہنمائی پر اعتماد۔ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے آپ کی تعلیمات پر اعتماد۔ یہی اعتماد انسان کو ایمان کی حقیقی لذت سے آشنا کرتا اور خدا اور اس کی سنن کی صحیح معرفت سے روشناس کراتا ہے۔ یہی اعتماد انسان کے لیے اپنے رب کی بندگی اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کاذریعہ بنتا ،اس معاملے میں معراج تک پہنچنے کی راہ کھولتا اور اس طرح انسان کے اپنے مقصد تخلیق کو پانے کا ذریعہ بنتا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور آپ کی تعلیمات کے بارے میں یہ اعتماد ہی دراصل آپ پر سچے ایمان کا حتمی ثبوت ہے۔ یہاں، البتہ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ یہ اعتماد محض اعلان و اقرار کی چیز نہیں ہے، بلکہ یہ جہاں کہیں بھی پایا جائے گا، اس کے واضح آثار انسان کے عمل اور اس کے رویے میں ظاہر ہوں گے۔
آپ کی ذات پر کامل اور غیر متزلزل اعتماد کے معنی یہ ہیں کہ آپ کو اللہ کا سچا نبی مان لینے کے بعد، دل میں آپ کے بارے میں آخری درجے میں یہ اطمینان پیدا ہو جائے کہ آپ اپنے قول و فعل میں صادق اور امین ہیں ۔ جو کچھ آپ نے اللہ سے پایا، بے کم و کاست اسے لوگوں تک پہنچا دیا، نہ اس میں اپنی طرف سے کسی بات کا اضافہ فرمایا اور نہ اس کی کوئی بات دنیا سے پوشیدہ رکھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر اس اعتماد کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ایک بندۂ مومن کا دل اس بات پر مطمئن ہو جاتا ہے کہ جس چیز کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دین قرار دیا، ساری دنیا خواہ اس کی مخالفت ہی پر کیوں نہ جمع ہو جائے، وہی اب رہتی دنیا تک دین ہے۔ اس کے برعکس، جس بات کو آپ نے دین میں شامل نہیں فرمایا، ساری خدائی اسے دین میں کیوں نہ شامل کرنا چاہے، وہ آپ کی سند کے بغیر دین قرار نہیں پائے گی۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور آپ کی شخصیت پر اس اعتماد ہی کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلنا چاہیے کہ ایک بندۂ مومن کے دل میں آپ کی آرا کی صحت پر پورا یقین ہو اور اسے آپ کے فیصلوں کے بارے میں یہ اطمینان ہو کہ وہ انسانی حد تک ممکنہ عدل کے عین مطابق ہیں۔ ان میں کسی قسم کے تعصب یا جانب داری کی کوئی آمیزش نہیں ہے۔ قرآن مجید کے الفاظ میں، آپ پر ایمان کا ایک تقاضا یہ ہے کہ آپ کے فیصلوں کو نہ صرف یہ کہ مانا جائے، بلکہ ان کے بارے میں دل میں یہ کھٹک بھی پیدا نہ ہو کہ ان میں حق اور انصاف سے ہٹ کر کوئی بات کی گئی ہے۔ ارشاد ہے:
فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْْنَہُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا.(النساء۴ :۶۵)
’’پس نہیں، تیرے رب کی قسم، یہ لوگ مومن نہیں ہیں، جب تک اپنے نزاعات میں تمھی کو حکم نہ مان لیں اور جو کچھ تم فیصلہ کر دو، اس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس کیے بغیر اس کے آگے سرِ تسلیم خم نہ کر دیں۔‘‘
ایک اور مقام پر فرمایا:
وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلاً مُّبِیْنًا. (الاحزاب۳۳ :۳۶)
’’کسی مومن یا مومنہ کے لیے گنجایش نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں تو ان کے لیے اس میں کوئی اختیار باقی رہ جائے۔ اور جو اللہ اور اس کے
رسول کی نافرمانی کرے گا تو وہ کھلی ہوئی گمراہی میں پڑا۔‘‘
بہ الفاظ دیگر، آپ کی آرا اور آپ کی عدالت کے بارے میں یہ یقین دل میں پیدا ہو جائے کہ اگرچہ آپ سے فیصلہ کرنے کے معاملے میں غلطی ہو سکتی ہے، تاہم آپ نے کوئی فیصلہ جانب داری اور بے انصافی سے نہیں کیا۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فیصلوں میں غلطی کے امکان کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:
إنما أنا بشر وإنکم تختصمونإلي ولعل بعضکم أن یکون ألحن بحجتہ من بعض فأقضي علی نحو ما أسمع فمن قضیت لہ بحق أخیہ شیئا فلا یأخذہ فإنما أقطع لہ قطعۃ من النار.(بخاری، رقم ۷۱۶۹)
’’میں تو صرف ایک انسان ہوں (میں تمھارے دلوں کے بھید نہیں جانتا)۔ یہ ہو سکتا ہے کہ تم میرے پاس اپنا کوئی جھگڑا لاؤ اور تم میں سے جو زیادہ اپنی بات کو مدلل بنا کر پیش کر سکتا ہو، میں جو کچھ میرے سامنے آئے، اس کی بنیاد پر اس کے بھائی کے حق میں فیصلہ کر دوں۔ جسے اس کے بھائی کے حق میں سے دے دیا گیا وہ خود انصاف کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے بھائی کا حق نہ مارے کیونکہ جس نے اپنے بھائی کا حق مارا، اس نے اپنے لیے آگ کا ایک ٹکڑا کاٹ لیا۔‘‘
ایک موقع پر، جب مال فے کی تقسیم کے بارے میں بعض لوگوں کے دلوں میں اعتراض پیدا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے انھیں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا:
وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانتَہُوْا وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ.(الحشر ۵۹ :۷)
’’اور رسول جو تمھیں دے اس کو لو اور جس سے تمھیں روکے اس سے رک جاؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ سخت پاداش والا ہے۔‘‘
دوسری طرف، سچے مومنین کے رویے کی تعریف کرتے ہوئے قرآن مجید کہتا ہے:
اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْْنَہُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.(النور ۲۴ : ۵۱)
’’جب اہلِ ایمان کو ان کے کسی نزاع پر فیصلے کے لیے اللہ اوراس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تو ان کی بات یہی ہوتی ہے کہ ’’ہم نے سنا اور مانا‘‘ اور درحقیقت یہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔‘‘
ظاہر ہے، جس شخص کی ذات پر عدل و انصاف کے معاملے میں اعتماد نہیں ہو گا، اس کے بارے میں دین کے ابلاغ جیسے اہم معاملے میں بدرجۂ اولیٰ بے اعتمادی پیدا ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ جس شخص کو ہم اللہ کا سچا نبی اور اس زمین پر اس کا مقرر کردہ نمائندہ مانتے ہیں، اس کی ذات اور شخصیت پر کامل اور غیر متزلزل اعتماد، اس پر ایمان کا ایک لازمی تقاضا ہے۔
آپ کے ہر قول و عمل کے پرحکمت ہونے پر اعتماد کرنے کے معنی یہ ہیں کہ آپ کو اللہ کا سچا نبی مان لینے کے بعد، دل کے پورے اطمینان اور انشراح کے ساتھ آپ کی تعلیمات پر عمل کیا جائے۔ آپ کسی نئے دین کے موجد یا مصنف نہیں، بلکہ پروردگار علیم و حکیم کے پیغامبر ہیں۔ جس طرح سے انسان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اللہ کے فیصلوں کی تمام حکمتوں اور مصلحتوں کا احاطہ کر سکے، اسی طرح ہر شخص کے لیے یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ وہ دین خداوندی کے تمام احکام کے اندر پوشیدہ حکمتوں کو سمجھ سکے ۔ ایسی صورت حال میں، اللہ کے علم کامل اور اس کی حکمت بالغہ پر ایمان رکھنے اور آپ کو اللہ کا سچا نمائندہ ماننے کا ایک تقاضا یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آدمی کا دل اس بات پر پوری طرح سے مطمئن ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم کی حکمت اور مصلحت اگر اس کی سمجھ میں نہیں آ رہی ہے تو یہ اس کے اپنے فہم کا قصور ہے۔ اسے یہ یقین ہو کہ آپ کے ہر حکم پر عمل کرنے ہی میں اس کا حقیقی فائدہ اور اس کی اصل مصلحت پوشیدہ ہے۔ وہ یہ بات اپنے دل کی گہرائیوں سے مانتا ہو کہ آپ کی بتائی ہوئی راہ سے انحراف، خواہ کتنے ہی بڑے ظاہری اور وقتی فائدے کا باعث بن سکتا ہو، اس کا اصل اور مستقل فائدہ اس راہ سے چمٹے رہنے ہی میں مضمر ہے۔
یہ کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے کہ ایک طرف آپ کو اللہ کا سچا نبی مانا جائے اور دوسری طرف آپ کی تعلیمات اور آپ کی دکھائی ہوئی صراط مستقیم کے بارے میں آدمی کا دل شکوک و شبہات میں مبتلاہو۔ جو شخص آپ کی تعلیمات کو اپنے فائدے اور اپنی مصلحت کے منافی سمجھتا اور ان پر عمل کرنے کو اپنے لیے نقصان دہ سمجھتا ہے، وہ حقیقت میں آپ کی نبوت پروہ ایمان ہی نہیں رکھتا، جو ایک بندۂ مومن سے مطلوب ہے۔
نجات اور فلاح کی راہ میں آپ کے سچے اور کامل رہنما ہونے پر اعتماد کے معنی یہ ہیں کہ آدمی کا دل اس بات پر پوری طرح سے مطمئن ہو کہ آخرت کی فلاح اور کامیابی کے لیے آپ کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنا لازم بھی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے یہ کفایت بھی کرتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر، ایک بندۂ مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک طرف آپ کے بتائے ہوئے طریقے ہی کو آخرت کی فلاح اور کامیابی کا راستہ سمجھتا ہو، اس سے ہٹ کر ہر راستہ، اس کی نظر میں، گمراہی اور ناکامی کا راستہ قرار پائے۔ ظاہر ہے کہ جب تک کسی شخص کے دل میں یہ یقین نہیں ہو گا، اس کے لیے زندگی کے نشیب و فراز میں آپ کی تعلیمات سے چمٹے رہنا ممکن نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، دوسری طرف یہ بھی ضروری ہے کہ وہ آپ کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کرنے اور آپ کے دکھائے ہوئے راستے پر چلنے کو آخرت میں کامیابی کے لیے کافی سمجھتا ہو۔ آخرت کی کامیابی کے معاملے میں آپ کی تعلیمات اسے باقی تمام لوگوں کی تعلیمات سے بے نیاز کر دیں۔ آپ کی تعلیمات کو جان لینے کے بعد، کسی اور کی طرف رجوع کرنے کا خیال بھی اس کے دل میں پیدا نہ ہو۔ وہ، جس طر ح آپ کے متعین کردہ راستے میں ہر قسم کی کمی کو اپنے لیے نقصان اور گمراہی کا باعث سمجھتا ہو، اسی طرح اس میں ہر قسم کے اضافے کو بھی کامیابی کی راہ سے ہٹانے اور اس سے دور کرنے والا سمجھتا ہو۔
یہ اعتماد صرف قانون و شریعت کے دائرے تک محدود نہیں ہے ۔ اسی اعتماد کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلنا چاہیے کہ خدا کی معرفت اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کا جو طریقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے ایک بندۂ مومن کو معلوم ہوا ہے، وہ اس پر اپنے دل کی گہرائیوں سے اعتماد کرتا اور اس معاملے میں اپنے آپ کو ہر قسم کے اضافے سے بے نیاز سمجھتا ہو۔ اس کی نظر میں کسی حکیم، کسی فلسفی، کسی صوفی اور کسی بڑے سے بڑے عالم اور بزرگ کی تعلیمات اور فرمودات کی بھی آپ کی تعلیمات کے مقابل میں یا ان کے ساتھ ساتھ دین میں کوئی حیثیت نہ ہو۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور آپ کی تعلیمات پر اعتماد ہی کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلنا چاہیے کہ اگر کسی معاملے میں آپ کی کسی بات یا آپ کے کسی حکم کے بارے میں ذہن میں کوئی سوال یا کوئی الجھن پیدا ہو تو اس صورت میں ایک بندۂ مومن ایک طرف اپنے سوال اور اپنی الجھن کو دین کے جاننے والوں کے سامنے رکھے، ان سے اپنی الجھن کے حل کے لیے رہنمائی حاصل کرے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے اطمینان قلب اور انشراح صدر کی دعا کرے۔ اس کے برعکس، اس قسم کے سوالوں اور الجھنوں کو بنیاد بنا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور آپ کی تعلیمات کا مذاق اڑانا ، انھیں سرگوشیوں کا موضوع اور اسلام کے خلاف سازشوں میں استعمال کرنا منافقت کی نشانی ہے۔ سورۂ مجادلہ میں اللہ تعالیٰ نے ان دونوں رویوں کو ایک دوسرے کے مقابل میں رکھ کر یہ بتایا ہے کہ جب بندۂ مومن اپنے سوالوں اور اپنی الجھنوں کو اللہ اور رسول کے سامنے رکھ کر ان سے ان کا حل دریافت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ان الجھنوں کو حل فرماتے اور اس کے نتیجے میں بندۂ مومن کو اطمینان قلب کی نعمت سے بہرہ مند فرماتے ہیں، لیکن اگر کوئی شخص اس طرح کے سوالوں اور الجھنوں کو مذاق اڑانے اور پیغمبر کے خلاف سرگوشیاں کرنے میں استعمال کرے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو شیطان کے حوالے کر دیتے اور ان کے لیے ہدایت کے دروازوں کو بند کر دیتے ہیں۔ چنانچہ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں ارشاد فرمایا:
اِسْتَحْوَذَ عَلَیْْہِمُ الشَّیْْطٰنُ فَاَنْسٰہُمْ ذِکْرَ اللّٰہِ اُولٰٓءِکَ حِزْبُ الشَّیْْطٰنِ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ الشَّیْْطٰنِ ہُمُ الْخٰسِرُونَ.( ۵۸ : ۱۹)
’’ان پر شیطان مسلط ہو گیا ہے، پس اس نے انھیں اللہ کی یاد سے غافل کر دیا ہے۔ یہی لوگ شیطان کا گروہ ہیں۔ سن لو کہ شیطان کا گروہ ہی نامراد ہونے والا ہے۔‘‘
ظاہر ہے، یہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہی کی مخصوص حیثیت تھی کہ وہ اپنی الجھنوں اور اپنے سوالوں کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھتے اور آپ سے براہ راست رہنمائی حاصل کرتے۔ ہمارے لیے اس کے سوا اب کوئی چارہ نہیں ہے کہ جب ہمارے ذہنوں میں کوئی الجھن اور کوئی سوال پیدا ہو تو ہم اسے دین کے اہل علم کے سامنے رکھیں اور ان سے رہنمائی حاصل کریں۔