قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مشن کے آغاز میں قریش مکہ کے سامنے اپنی دعوت رکھی۔ آپ کی اس دعوت کے دو بنیادی اہداف تھے: ایک ، دین ابراہیم کی تجدید اور دوسرے،انکار کی صورت میں دنیا اور آخرت میں خدا کی پکڑ سے انذار۔ چنانچہ مکی دور کی ابتدائی سورتوں میں اصلاً یہی دو موضوع زیر بحث آئے ہیں ۳ ۔ اس دوران میں مختلف پیرایوں میں گوناگوں اسالیب میں اور بے شمار مثالوں کے ذریعے سے یہ تو بار بار بتایا ہے کہ رسول کا انکار کرنے والے لازماً دنیا اور آخرت میں عذاب الٰہی کے مستحق ٹھہریں گے اور آپ کے ماننے والوں پر اس کی رحمتوں کی بارش ہو گی، مگر کسی ایک موقع پر بھی دعوت و انذار سے بڑھ کر کسی جد و جہد کا کوئی حکم نہیں دیا گیا۔ اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بات بھی بار بار واضح فرمائی ہے کہ آپ کے کام کی آخری حد بات کا ابلاغ ہے۔ لوگوں کا محاسبہ کرنا یا انھیں فی الواقع عذاب دے دینا آپ کا کام نہیں ہے۔ یہ سر تا سر اللہ کا کام ہے۔ ان مکذبین پر آپ کی زندگی میں بھی یہ عذاب نازل ہو سکتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس مرحلے سے پہلے آپ کو وفات دے دی جائے۔ ان پر عذاب تو لازماً آئے گا، مگر آپ کی ذمہ داری دعوت و انذار سے بڑھ کر، بہرحال نہیں ہے۔
مکہ کے پورے دور میں مختلف حالات پیش آئے، مگر ان تمام حالات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بار بار اسی بات کی تذکیر کی گئی کہ آپ کی ذمہ داری بلاغ مبین سے بڑھ کر ہرگز نہیں ہے۔ اس پورے عرصے میں کسی قسم کے جارحانہ اقدام کی اجازت ملی اور نہ غلبۂ دین کی کسی جد و جہد کا کوئی حکم ہی دیا گیا۔ یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعوت اور صرف دعوت کے نتیجے میں بغیرکسی ’انقلابی جد و جہد‘ کے مدینہ میں اسلامی ریاست قائم ہو گئی۔
مدینہ میں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اسلامی قوانین کا نفاذ شروع کیا۔ اس کے اندر معاشرتی، معاشی اور سیاسی نظم و ضبط قائم کرنے کے لیے قانون سازی کی۔ اندرونی اور بیرونی دفاع کے انتظامات کیے۔ اس طرح اسلام کی ظاہری شان و شوکت بھی آہستہ آہستہ بڑھنی شروع ہو گئی۔ اس موقع پر بہت سے مفاد پرست، دوغلے اور محض اسلام کے ظاہری شکوہ سے مغلوب ہونے والے منافق بھی اسلام کی صفوں میں شامل ہو گئے۔
ظاہر ہے، جس گروہ کو آگے چل کر دنیا پر دین حق کی گواہی دینی تھی، اس میں اس قسم کے لوگوں کا وجود کسی طرح بھی گوارا نہیں تھا۔ اس صورت میں بنی اسماعیل کے منکرین کو عذاب دینے کے ساتھ یہ بھی ضروری تھا کہ مسلمانوں کی جماعت میں سے منافق اور دھوکا باز قسم کے لوگوں کو الگ کر دیا جائے۔ چنانچہ اس سلسلے میں مسلمانوں کو یہ بتا دیا گیا کہ ایک خود مختار ریاست حاصل کر لینے کے بعد اب انھیں جہاد و قتال کے مرحلے سے گزرنا ہو گا۔ یہ جہاد ایک طرف اللہ کے قانون کے مطابق رسول کے منکرین کے لیے عذاب الٰہی بن جائے گا اور دوسری طرف اسی کے ذریعے سے منافقوں کو سچے اہل ایمان سے الگ کر دیا جائے گا۔ لہٰذا اس موقع پر مسلمانوں کو منکرین بنی اسماعیل کے خلاف جنگ اور اس کی تیاری سے متعلق احکام دیے گئے۔ ساتھ ہی اس جنگ کی یہ غایت بھی ان پر واضح کر دی گئی کہ یہ لوگ اگر اسلام قبول نہیں کریں گے تو زمین سے مٹا دیے جائیں گے۔ ارشادہے:
تُقَاتِلُوْنَہُمْ اَوْ یُسْلِمُْوْنَ. (الفتح ۴۸: ۱۶)
’’تم کو ان سے جنگ کرنی ہو گی یا وہ اسلام قبول کر لیں گے۔‘‘
اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں پر یہ بات بھی واضح فرما دی گئی کہ ان لوگوں کے ساتھ یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی، جب تک سرزمین عرب میں دین حق کی بالادستی قائم نہ ہو جائے۔ ارشاد فرمایا:
وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لاَ تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ. (الانفال ۸: ۳۹ )
’’اور ان سے جنگ کرو، یہاں تک کہ فتنے کا قلع قمع ہو جائے اور سارا دین اللہ کا ہو جائے۔‘‘
انھیں یہ بتا دیا گیا کہ ان معرکوں میں آخری فتح لازماً انھی کی ہو گی۔ ان پر یہ بات بھی واضح کر دی گئی کہ یہ محض کفر و اسلام ہی کے معرکے نہیں، بلکہ یہ رسول کے ساتھیوں اور اس کے مخالفین کے درمیان ہونے والی کش مکش ہے، اس وجہ سے وہی سنت الٰہی جو قوم نوح، عاد و ثمود، اصحاب رس، قوم لوط، قوم فرعون او رایکہ والوں کے لیے موت کا پیغام لائی اور بنی اسرائیل کے لیے تا قیامت ذلت اور پستی کی مہر بن کر آئی تھی، اب منکرین بنی اسماعیل کو بھی خاک میں ملا کر چھوڑے گی اور ان مومنوں کو ہر حال میں فتح نصیب ہو گی۔ ارشاد ہے:
وَلَوْ قٰتَلَکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوَلَّوُا الْاَدْبَارَ ثُمَّ لَا یَجِدُوْنَ وَلِیًّا وَّلَا نَصِیْرًا. سُنَّۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلاً. (الفتح ۴۸: ۲۲۔۲۳ )
’’اور اگر یہ کافر (یعنی کفار بنی اسماعیل) تم سے جنگ کرتے تو لازماً مغلوب ہو کر پیٹھ پھیرتے۔ پھر نہ کوئی کارساز پاتے نہ مددگار۔ یہ اللہ کی ٹھہرائی ہوئی سنت ہے جو پہلے سے چلی آرہی ہے اور اللہ کی اس سنت میں تم ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔‘‘
ایک اور مقام پر مومنوں کو ان معرکوں میں فتح اور اس کے نتیجے میں سرزمین عرب میں غلبہ و اقتدار ملنے کی خوش خبری دیتے ہوئے فرمایا:
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَہُمْ.(النور ۲۴: ۵۵)
)’’رسول کے ساتھیو)، اللہ نے وعدہ کیا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو فی الواقع ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے کہ اللہ انھیں لازماً اس سرزمین میں اسی طرح اقتدار بخشے گا، جس طرح اس نے اس سے پہلے رسولوں کی امتوں کو اقتدار بخشا اور ان کے لیے لازماًان کے اس دین کو مستحکم کرے گا جسے اس نے ان کے حق میں پسند کیا۔‘‘
چنانچہ، پروردگار عالم کے فیصلے کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں یہ سنت الٰہی مومنوں کی جد و جہد کے ذریعے سے ظہور میں آئی۔ اس طرح یہ معرکے ایک طرف سنت الٰہی کے ظہور کا ذریعہ بنے، مشرکین عرب کے تمام گروہوں کو شکست فاش ہوئی اور مخالفین کی ہر خواہش اور کوشش کے علی الرغم سر زمین حرم پر دین اسلام کا غلبہ عملاً قائم ہو گیا۔ اور دوسری طرف انھی معرکوں کے ذریعے سے مسلمان گروہ کے کھرے اور کھوٹے میں تمیز ہو گئی۔ انھیں آزمایش کی چھلنی سے گزارا گیا۔ منافق اور سچے اہل ایمان الگ الگ ہو گئے۔ اور اس طرح ایک ایسی امت کی تشکیل ہوئی جو اپنے وجود ہی سے دنیا پر دین حق کی گواہ بن سکے۔
_______
۳ مثال کے طور پر دیکھیے: فاتحہ، انعام، اعراف، یونس تا حجر، فرقان تا عنکبوت، سباتا احقاف، ق تا واقعہ اور ملک تا اخلاص۔
____________