قرآن مجید میں آیۂ ’اظہار دین‘ جس معنی میں آئی ہے، اسے پوری طرح سے سمجھنے کے لیے ایک خاص پس منظر کی وضاحت ناگزیر ہے۔ یہ پس منظر رسولوں کے باب میں اللہ تعالیٰ کی سنت اور اس کے قانون سے متعلق ہے۔
قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ کے وہ نبی جو نبوت کے ساتھ رسالت ۱ کے منصب پر بھی فائز ہوئے، ان کے بارے میں پروردگار عالم کی قطعی اور غیر متبدل سنت یہ ہے کہ ان کے ذریعے سے رب العالمین کی حجت جب ان کی قوم پر پوری ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ انھیں اس قوم پر غلبہ عطا فرماتے ہیں۔ نبیوں کے معاملے میں تو یہ ہو سکتا ہے کہ وہ دنیوی غلبے کے اعتبار سے اپنی قوم کے مقابلے میں ناکام رہیں، لیکن اللہ کے رسول، ہر حال میں اپنی قوم پر غالب آتے ہیں۔ یہ غلبہ، البتہ رسول کی اپنی زندگی میں بھی حاصل ہو سکتا اور اس کے رخصت ہو جانے کے بعد اس کے اعوان و انصار کو بھی مل سکتا ہے۔
یہ رسولوں کے باب میں اللہ تعالیٰ کا وہ قانون ہے جس کے بارے میں ارشاد ہوا ہے:
سُنَّۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلاً .)الفتح ۴۸: ۲۳ )
’’یہ اللہ کا وہ طریقہ ہے جو پہلے سے چلا آ رہا ہے۔ اور (اے پیغمبر)، تم ہرگز اللہ کے اس طریقے میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔‘‘
سورۂ ابراہیم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قانون کا خلاصہ بیان فرما دیا ہے۔ وہاں یہ بتایا ہے کہ اللہ کے رسول اپنی قوم کو راہ حق کی دعوت دیتے، ان کے اعتراضات سنتے اور ان کا جواب دیتے اور پوری استقامت کے ساتھ ان کی طرف سے تکلیفیں اور اذیتیں برداشت کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ ان کی قوم انھیں اپنی بستی سے نکال دینے (اور کئی مرتبہ، انھیں قتل کر دینے ۲ ) کے درپے ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اس مرحلے اور اس کے بعد نکلنے والے نتائج کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِرُسُلِہِمْ لَنُخْرِجَنَّکُمْ مِّنْ اَرْضِنَآ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا فَاَوْحٰٓی اِلَیْْہِمْ رَبُّہُمْ لَنُہْلِکَنَّ الظّٰلِمِیْنَ. وَلَنُسْکِنَنَّکُمُ الْاَرْضَ مِنْ بَعْدِہِمْ.(۱۴: ۱۳۔۱۴ )
’’اور ان کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا کہ ہم تمھیں لازماًاس سرزمین سے نکال دیں گے یا تم ہماری ملت میں لازماً واپس آؤ گے۔ تب ان کے پروردگار نے ان پر وحی بھیجی کہ ہم ان ظالموں کو لازماً ہلاک کریں گے اور ان کے بعد تمھیں لازماً اس سر زمین میں بسائیں گے۔‘‘
سورۂ مجادلہ میں اللہ تعالیٰ نے یہی بات اس طرح بیان فرمائی ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحَآدُّوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗٓ اُولٰٓءِکَ فِی الْاَذَلِّیْنَ. کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ . (۵۸: ۲۰ ۔ ۲۱)
’’بے شک، وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کر رہے ہیں، وہی ذلیل ہوں گے۔ اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ لازماًمیں غالب رہوں گا اور میرے رسول بھی۔ بے شک، اللہ قوی ہے، بڑا زبردست ہے۔‘‘
مولانا امین احسن اصلاحی نے قرآن مجید کی تفسیر کرتے ہوئے جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کی اس سنت کی وضاحت کی ہے۔ ایک مقام پر وہ لکھتے ہیں:
’’...اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کی طرف اپنا رسول بھیجتا ہے تو وہ رسول اس قوم کے لیے خدا کی آخری اور کامل حجت ہوتا ہے۔ جس کے بعد کسی مزید حجت و برہان کی اس قوم کے لیے ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ اس کے بعد بھی اگروہ قوم ایمان نہیں لاتی، بلکہ تکذیب رسول اور عداوت حق ہی پر اڑی رہ جاتی ہے تو وہ فنا کر دی جاتی ہے۔ عام اس سے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے کسی عذاب کے ذریعہ سے فنا ہو یا حق کے اعوان و انصار اور رسول کے ساتھیوں کے ہاتھوں اور عام اس سے کہ یہ واقعہ رسول کی زندگی ہی میں ظہور میں آئے یا اس کی وفات کے بعد۔‘‘(تدبر قرآن ۱/ ۴۷۸ )
قرآن مجید اسی قانون کے سمجھانے کے لیے مختلف پیرایوں میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے آنے والے رسولوں کی سرگذشت سناتا ہے۔ قرآن کو اس بات پر اصرار ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد مشرکین مکہ بھی خدا کے اسی قانون کی زد میں ہیں۔ وہ انھیں بتاتا ہے کہ تاریخ کے اوراق ان کے لیے عبرت کی داستانوں سے بھرے پڑے ہیں۔ وہ انھیں قوم نوح کا انجام یاد دلاتا ہے۔ وہ ان کے سامنے عاد و ثمود کی تباہی کا ذکر کرتا ہے۔ وہ ان سے مدین اور سدوم کا حال بیان کرتا ہے۔ وہ ان کے سامنے آل فرعون کے انجام کا تذکرہ کرتا ہے اور وہ انھیں اس ذلت اور پھٹکار سے آگاہ کرتا ہے جو یہود پرمسلط کر دی گئی ۔ وہ انھیں بتاتا ہے کہ یہ سب قومیں اللہ کی اس سنت کی نذر ہوئیں۔ وہ انھیں متنبہ کرتا ہے کہ پروردگار عالم کے اس قانون کے تحت، بہت جلد اب ان کے بارے میں بھی آخری فیصلہ ہونے والا ہے۔ ان کی قوم اگر ایمان لے آئی تو اس کے بدلے میں دنیا اور آخرت، دونوں میں وہ خدا کی رحمتوں کی مستحق ٹھہرے گی اور اس نے اگر ماننے سے انکار کر دیا تو اسے دنیا میں بھی خدا کا عذاب چکھنا ہو گا اور آخرت میں بھی۔
_______
۱ قرآن مجید میں لفظ ’رسول‘ محض پیغام بر کے معنی میں بھی آیا ہے اور ایک خاص اصطلاحی مفہوم میں بھی استعمال ہوا ہے۔ پہلے معنی کے لحاظ سے، یہ نبیوں، رسولوں اور فرشتوں، سب کے لیے عام ہے، جبکہ دوسرے معنی میں یہ صرف اللہ کے ان پیغام بروں کے لیے آیا ہے جو نبوت کے ساتھ رسالت کے منصب پر بھی فائز ہوئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ حضرت نوح، ہود، صالح، شعیب، ابراہیم، لوط، موسیٰ و عیسیٰ علیہم السلام اسی دوسرے مفہوم کی رعایت سے صرف نبی ہی نہیں، رسول بھی ہیں۔۲ مثال کے طور پر دیکھیے: ہود ۱۱: ۹۱۔ یٰسین ۳۶: ۱۸۔ الشعراء ۲۶: ۱۱۶، المومن ۴۰: ۵۔
____________