HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Moiz Amjad

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

اظہار دین ---- ایک خدائی فیصلہ

 ماہنامہ ’’فاران‘‘ جون ۱۹۹۵ء میں مولانا گوہر رحمان صاحب مدظلہ کا مضمون ’’التزام جماعت‘‘ شائع ہوا ہے۔ اس میں مولانا نے ’الجماعۃ‘ کے بارے میں ہمارے نقطۂ نظر سے اختلاف کیا ہے۔ اس ضمن میں مولانا محترم نے ’اقامت دین‘ اور ’اظہار دین‘ کے مفہوم کے بارے میں ہماری راے پر بھی تنقید کی ہے۔گذشتہ صفحات میں ’اقامت دین‘ کے بارے میں مولانا محترم کے اعتراضات کا جائزہ ہم پہلے ہی لے چکے ہیں۔ یہاں ہم ’اظہار دین‘ سے متعلق ان کی بحث کا جائزہ لیں گے۔

مولانا محترم اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:

’’امت مسلمہ کی تشکیل کا مقصد غلبۂ دین کے لیے جہاد کرنا ہے، اس لیے کہ اس کے نبی کی نبوت کا مقصد یا اس کی علت اور حکمت غلبۂ دین ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت و رسالت کی علت و حکمت درج ذیل آیات میں وضاحت و صراحت کے ساتھ خود اللہ تعالیٰ نے متعین طور پر بتا دی ہے:
ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ. )التوبہ ۹: ۳۳، الصف۶۱: ۹ )
’’اللہ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو بھیجا ہے ہدایت اور سچے دین کے ساتھ تاکہ غالب کر دے اسے ہر دین پر اگرچہ پسند نہ کرتے ہوں اسے مشرک۔‘‘ ‘‘
)ماہنامہ فاران، جون ۱۹۹۵ء، ۲۴ )

اس آیت سے مولانا محترم نے جو استنباط کیا ہے، وہ ہم اپنے الفاظ میں نکات کی صورت میں پیش کیے دیتے ہیں:

۱۔ ’اَلْہُدٰی‘ سے مراد وحی خداوندی ہے، خواہ جلی ہو یا خفی، یعنی اس سے مراد قرآن و سنت ہے۔

۲۔ ’دِیْنِ الْحَقِّ‘ سے مراد زندگی کا سچا نظام دین اسلام ہے۔

۳۔ ’اَلْہُدٰی‘ ہی ’دِیْنِ الْحَقِّ‘ ہے۔ ان دونوں چیزوں کو ’و‘ سے عطف کر کے یہ بتایاہے کہ قرآن و سنت میں صرف عقائد اور اخلاقی احکام ہی نہیں، بلکہ زندگی کا پورا نظام موجود ہے۔

۴۔ ’لِیُظْہِرَ‘ میں لام تعلیل، یعنی علت بیان کرنے کے لیے ہے، اس سے معلوم ہوا کہ رسول بھیجنے کی علت و حکمت اور اس کا مقصد و ہدف دین کا غلبہ ہے۔

۵۔ سیاق کلام کی مناسبت سے، یہاں ’یُظْہِرَ‘ کے معنی ’غالب کرنا‘، ’بلند کرنا‘ اور ’اونچا کرنا‘ کے ہیں۔

۶۔ ’یُظْہِرَ‘ کا فاعل ’اللہ‘ بھی ہو سکتا ہے اور ’رسول‘ بھی۔ ’یُظْھِرَ‘ کا فاعل اگر رسول ہیں تو دین کو غالب اور بلند کرنے سے مراد دراصل اس کے غلبے کی جد و جہد کرنا، اس کی ہر ممکن کوشش کرنا اور اس کے لیے جہاد کرنا ہے۔ بالفاظ دیگر، ’لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ‘ کے معنی ہوں گے: ’’تاکہ وہ رسول دین حق کو باقی تمام ادیان پر غالب کرنے کے لیے جہاد کرے‘‘۔ ’یُظْہِرَ‘ کا فاعل اگر اللہ کو قرار دیا جائے تو اس سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑتا، کیونکہ ظاہر ہے، اس کے یہ معنی نہیں ہو سکتے کہ اللہ اپنی تکوینی اور غیبی قوت سے اس کو غالب کرے گا۔ اگر ایسا ہوتا تو آیت میں ’رسول‘ کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہی کہہ دینا کافی تھا کہ ’اللہ نے دین حق نازل کیا ہے، تاکہ وہ اسے باقی تمام ادیان پر غالب کر دے، لیکن آیت میں غلبۂ دین کا ذکر، ارسال رسول کی علت اور حکمت کے طور پر ہوا ہے، اس وجہ سے اب اس کے معنی یہی ہو سکتے ہیں کہ ’اللہ اپنے دین کو اپنے رسول کی جد و جہد کے نتیجے ہی میں غالب کرے گا‘۔

اس ساری بحث سے مولانا نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرض اور آپ کی ذمہ داری بیان کر رہی ہے۔ چنانچہ ان کے نزدیک جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری غلبۂ دین کی جد و جہد کرنا ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ قیامت تک اس امت کا فرض اور اس کی ذمہ داری بھی وہی ہے جو اس کے رسول کی تھی اور وہ اظہار دین، اعلاء دین یا غلبۂ دین کے لیے جہاد کرنا ہے۔ چنانچہ مولانا محترم اس آیت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد آپ کی امت کے لیے غلبۂ دین کی جد و جہد کا ماخذ قرار دیتے ہیں۔

مولانا محترم نے اس آیت کریمہ سے جو نتیجہ اخذ کیا ہے، وہ ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ قرآن مجید کے مجموعی پیغام میں اس آیت کی ایک خاص حیثیت ہے۔ اس میں جو بات بیان ہوئی ہے، اسے اگر صحیح تناظر میں رکھ کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ امت کے لیے کسی جد و جہد کا ماخذ ہونا تو درکنار، یہ آیت خود پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی کسی جد و جہد کا ماخذ نہیں ہے۔ ان صفحات میں آیت کے صحیح مفہوم و مدعا کی وضاحت کرتے ہوئے ہم مولانا محترم کے استدلال کا جائزہ لیں گے۔ آخر میں اس مفہوم پر مولانا محترم نے اپنے مضمون میں جو اعتراضات اٹھائے ہیں، ان کا تجزیہ کیا جائے گا۔

_______

B