HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Moiz Amjad

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

نفاذ دین کی جد و جہد کا ماخذ

 ہماری قوم کا ایک بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ جب ہم پر کسی قسم کی تنقید کی جائے تو اس کے رد میں ہم اپنے ناقدین کی طرف ایسی ایسی باتوں کی نسبت کر دیتے ہیں جو انھوں نے کبھی نہیں کہی ہوتیں۔

کسی تنقید کے جواب میں ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارا ایمان ہم سے ہر حال میں عدل و انصاف پر قائم رہنے کا تقاضا کرتا ہے۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ جب ہمارے جذبات، ہمارے تعصبات، ہمارے مفادات اور ہماری خواہشیں ہمیں انصاف کی راہ سے ہٹا دینا چاہیں تو ہمارا ایمان ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم نہ صرف حق و انصاف پر قائم رہیں، بلکہ اس راہ میں اگر جان کی بازی بھی لگانی پڑے تو اس سے دریغ نہ کریں۔ ہرحال میں ہم حق کہیں، حق کے آگے سر تسلیم خم کریں۔ انصاف کریں، انصاف کی شہادت دیں اور اپنے عقیدہ و عمل میں حق و انصاف کے سوا کبھی کوئی چیز اختیار نہ کریں۔ قرآن مجید کے الفاظ میں یہ ’قیام بالقسط‘ ہے۔ ارشاد ہے:

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِالْوَالِدَیْْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ.(النساء ۴: ۱۳۵ )
’’اے ایمان والو، انصاف پر قائم رہنے والے بنو، اللہ کے لیے اس کی شہادت دیتے ہوئے، اگرچہ اس کی زد خود تمھاری اپنی ذات، تمھارے والدین اور تمھارے اقربا پر ہی پڑے۔‘‘

ایک اور مقام پر فرمایا:

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالْقِسْطِ وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ المائدہ ۵: ۸ ).)
’’اے ایمان والو، عدل پر قائم رہنے والے بنو، اللہ کے لیے اس کی شہادت دیتے ہوئے، اور کسی قوم کی دشمنی تمھیں اس طرح نہ ابھارے کہ تم عدل سے پھر جاؤ۔ عدل کرو، یہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک، اللہ تمھارے ہر عمل سے باخبر ہے۔‘‘

چنانچہ، اس معاملے میں صحیح طریقہ یہی ہے کہ تنقید کرنے والے کی بات سنتے ہی اس پر بدنیتی کا فتویٰ لگانے کے بجاے اس کی بات سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ کیا بعید ہے کہ کسی ناقد ہی کی صورت میں اللہ نے ہم پر اپنی رحمت کے دروازے کھولنے، ہمیں اپنی صراط مستقیم کی ہدایت دینے اور اپنی جنت کا راستہ دکھانے کا فیصلہ کر لیا ہو۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ ہمیں اس کی بات سمجھ میں نہ آئے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کی بات بالکل لغو اور بے بنیاد ہو، لیکن کیا یہ لازم ہے کہ ہم پر تنقید کرنے والے اور ہماری طرف انگلی اٹھانے والے ہر شخص کے دل و دماغ پر ہماری غلطی ثابت کرنا اور علم و تحقیق کے اعتبار سے ہمیں نیچا دکھانا سوار ہے! ہم پر تنقید کرنے کی وجہ سے یہ لازم نہیں آتا کہ کوئی شخص اللہ کی نظر میں بھی مبغوض ہو گیا ہو۔ دین و اخلاق کے کسی ضابطے سے ہمیں یہ حق حاصل نہیں ہوتا کہ ہم اس کی نیت کے بارے میں فیصلہ کریں۔ اس طرح کے فتوے دیتے ہوئے ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ جب ہم سے پوچھا جائے گا: ’ھل شققت عن قلبہ ۵؂ ‘؟ تو ہمارے پاس اس کا کوئی جواب نہ ہو گا۔

ہمارے استاذ جاوید احمد صاحب غامدی نے ’اقامت دین‘ کے معنی کے بارے میں مولانا مودودی صاحب اور ان کے ہم فکر حضرات کی راے پر تنقید کی تو اس تنقید کا علمی جواب آج تک کسی کتاب، کسی رسالے یا کسی مضمون میں نہیں دیا گیا۔ البتہ اس تنقید کے خلاف یہ تاثر قائم کیا گیا کہ استاذ گرامی نفاذ دین کے لیے ہر قسم کی جد و جہد ہی کے مخالف ہیں۔ استاذ گرامی کی تنقید فی الواقع صرف اسی حد تک تھی کہ ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ کے الفاظ سے نفاذ دین کی جد و جہد کا جو نظر یہ برآمد کیا جا رہا ہے اور جسے اللہ کے تمام انبیا اور امت مسلمہ کا نصب العین قرار دیا جار ہا ہے، وہ صحیح نہیں ہے۔ بالفاظ دیگر صرف اتنی بات ثابت کی گئی تھی کہ کتاب اللہ میں اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ کے وہ معنی نہیں ہیں جو یہ حضرات بیان فرما رہے ہیں، نفاذ دین یا غلبۂ دین کے لیے جد و جہد کا کبھی انکار نہیں کیا گیا۔

یہ گویا اسی طرح کی بات ہے کہ کوئی شخص سورۂ مدثر کی آیت ’وَثِیَابَکَ فَطَھِّرَ۶؂ ‘سے کپڑوں کی طہارت کے احکام برآمد کرنے کی کوشش کرے۔ جب اسے بتایا جائے کہ ابن عباس، ابراہیم نخعی، شعبی، مجاہد اور سعید بن جبیر کے نزدیک اس آیت کا کپڑوں کی طہارت سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ وہ اسے نفس اور دامن دل کو گناہوں سے پاک رکھنے کے معنی میں لیتے ہیں تو وہ ان بزرگوں کی راے پر علمی تنقید کرنے کے بجاے یہ پروپیگنڈا کرنے لگے کہ یہ تمام بزرگ، معاذ اللہ، کپڑوں کی طہارت ہی کے قائل نہیں ہیں۔

ہمارے نزدیک ساری بحث یہ ہے کہ سورۂ شوریٰ کی مذکورہ آیت دین کے نفاذ یا غلبے کی کسی جدوجہد کا ماخذ ہے یا نہیں؟ جہاں تک دین کے نفاذ یا غلبے کی جد و جہد کا تعلق ہے، اس کے لیے کسی آیت یا نص کو ماخذ بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ دین کے مشمولات خود اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ وہ فرد سے بڑھ کر اجتماع سے متعلق ہوں۔ چور کا ہاتھ کاٹنے، زانی کو کوڑے مارنے اور قاتل سے قصاص لینے کے احکام خود یہ بتا رہے ہیں کہ دین صرف افراد سے نہیں، بلکہ ان کی اجتماعیت سے بھی متعلق ہوتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ جب کسی اجتماعیت کے اہل اقتدار اور ارباب حل و عقد دین کے اجتماعی احکام کو پورا کرنے سے گریزاں ہو جائیں تو عام آدمی سے یہ دین کیا تقاضا کرتا ہے؟ کیا وہ ان سے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ رہنے کا تقاضا کرتا ہے؟ کیا وہ ان سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ یہ سزائیں از خود نافذ کرنے لگیں؟ اسی طرح ’الجماعۃ‘ کے موجود نہ ہونے یا اپنے فرائض سے غفلت برتنے کی صورت میں کیا وہ ان سے اپنی اپنی ’الجماعۃ‘ تشکیل دینے اور اپنی وفاداریوں کو انھی تک محدود رکھنے کا مطالبہ کرتا ہے؟ آخر ایسی صورت حال میں ایک عام آدمی سے دین کا مطالبہ کیا ہے؟

ایسے تمام حالات میں عام آدمی سے دین کے تقاضوں کا ذکر کرتے ہوئے استاذگرامی اپنی تصنیف میں لکھتے ہیں:

’’... دین کو اپنے فروغ یا اپنی حفاظت کے لیے اگر کسی اقدام کی ضرورت پیش آجائے تو ایمان کا تقاضا ہے کہ جان و مال سے دین کی مدد کی جائے۔ قرآن کی تعبیر کے مطابق یہ اللہ پروردگار عالم کی’’نصرت‘‘ ہے۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب مدینہ میں اقتدار حاصل ہو جانے کے بعد اس کی ضرورت پیش آئی اور لوگوں سے جہاد و قتال کا مطالبہ کیا گیا تو قرآن نے ایک موقع پر اس کی دعوت اس طرح لوگوں کو دی:

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ہَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ. تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ ذٰلِکُمْ خَیْْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ. یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَیُدْخِلْکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ وَمَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ. وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَہَا، نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ، وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ. یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْٓا اَنْصَارَ اللّٰہِ کَمَا قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیّٖنَ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ) .الصف ۶۱: ۱۰۔۱۴ )
’’ایمان والو، کیا میں تمھیں وہ سودا بتاؤں جو تمھیں ایک درد ناک عذاب سے نجات بخشے گا؟ تم اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لاؤ گے اور اپنے جان و مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو گے۔ یہ تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم سمجھو۔ )اِس کے بدلے میں) اللہ تمھارے گناہ بخش دے گا اور تمھیں اُن باغوں میں داخل کردے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ عمدہ گھر عطا فرمائے گا جو ابد کے نخل زاروں میں ہوں گے۔یہی بڑی کامیابی ہے اور (سنو) وہ چیز بھی جس کی تم تمنا رکھتے ہو، یعنی اللہ کی مدد اور وہ فتح جو عنقریب ظاہر ہو جائے گی۔ اہل ایمان کو، (اے پیغمبر)، اس کی بشارت دو۔ ایمان والو، تم اللہ کے مدد گار بنو۔ جس طرح کہ عیسیٰ ابن مریم نے اپنے حواریوں سے کہا: اللہ کی راہ میں کون میرا مدد گار ہے؟ حواریوں نے کہا: ہم ہیں اللہ کے مدد گار۔‘‘
سلف و خلف میں دین کی حفاظت،بقااور تجدید و احیا کے جتنے کام بھی ہوئے ہیں، ایمان کے اِسی تقاضے کو پورا کرنے کے لیے ہوئے ہیں۔ امت کی تاریخ میں زبان و قلم، تیغ و سناں اور درہم و دینار سے دین کے لیے ہر جد و جہد کا ماخذ یہی ’’نصرت‘‘ ہے۔ 

قرآن کا مطالبہ ہے کہ ایمان کا یہ تقاضا اگر کسی وقت سامنے آ جائے تو بندۂ مومن کو دنیا کی کوئی چیز بھی اِس سے عزیز تر نہیں ہونی چاہیے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت میں جب یہ مرحلہ آیا تو قرآن نے فرمایا:

قُلْ : اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَ اَمْوَالُنِ اقْتَرَفْتُمُوْھَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ، وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ.(التوبہ ۹ : ۲۴)
)’’اے پیغمبر)، اِن سے کہہ دو کہ تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے، اور تمھارے بھائی اور تمھاری بیویاں اور تمھارا خاندان، اور تمھارا وہ مال جو تم نے کمایا اور وہ تجارت جس کے مندے سے تم ڈرتے ہو، اور تمھارے وہ گھر جنھیں تم پسند کرتے ہو، تمھیں اگر اللہ سے، اُس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ عزیز ہیں تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ صادر کر دے اور (جان لو کہ) اِس طرح کے بدعہدوں کو اللہ راہ یاب نہیں کرتا۔‘‘ ۷؂‘‘

اس اقتباس سے واضح ہے، استاذ گرامی دین حق کے غلبے کے لیے جد و جہد کرنے کے ہرگز مخالف نہیں ہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ وہ اس کا ماخذ سورۂ شوریٰ کی مذکورہ آیت کو قرار نہیں دیتے، بلکہ ان کے نزدیک اس کا ماخذ قرآن مجید کا حکم ’یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْٓا اَنْصَارَ اللّٰہِ ۸؂ ‘ ہے اور دین کی یہ نصرت ان کی نظر میں محض ایک فریضہ نہیں، بلکہ ایک بندۂ مومن کے ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔

یہاں پر کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اگر کوئی شخص دین کے غلبے اور نفاذ کی جدوجہد کا مخالف نہیں ہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ اس جد و جہد کا ماخذ ’اقامت دین‘ کو قرار دے رہا ہے یا ’نصرت دین‘ کو۔

ہم اس تحریر میں اس سوال کا تفصیلی جواب تو نہیں دے سکتے، البتہ اتنی بات ضرور عرض کر دیتے ہیں کہ اس سے دین کا مجموعی ڈھانچا اور تصور بالکل درہم برہم ہو جاتا ہے۔ ۹؂ اس کے نتیجے میں ہر شخص اپنے حالات، اپنی قوتوں، اپنی صلاحیتوں اور اپنی استعداد سے قطع نظر دین کے نفاذ کی جد و جہد کرنے کا مکلف قرار پاجاتا ہے۔ عبادت کی اصل، خدا کے ساتھ بے انتہا محبت اور اس سے بے انتہا خوف کی وجہ سے پیدا ہونے والی عاجزی، پستی، تذلل اور نیاز مندی کے اظہار کے بجاے اس کی غلامی اور اطاعت قرار پا جاتی ہے۔ نماز خدا کی یاد قائم رکھنے کا ذریعہ بننے کے بجاے ایک تربیتی پروگرام قرار پا جاتی ہے۔ نزول کتب اور بعثت انبیا کا اصل مقصد آخرت سے خبردار کرنے اور اس کی کامیابی کے لیے نفوس کا تزکیہ کرنے کے بجاے ’اقامت دین‘ قرار پا جاتا اور اس طرح امت مسلمہ کے وجود کا مقصد بھی ’شہادت علی الناس‘ کے بجاے ’اقامت دین‘ قرار پا جاتا ہے۔ غرض، دین کی ہر چیز اپنی اصل حیثیت سے محروم ہو کر ایک نیا مقام حاصل کر لیتی اور اس طرح دین کا پورا توازن بگڑ جاتا ہے۔ ۱۰؂

طول کلام کے اندیشے سے اس موقع پر ہم ان سب باتوں کی تفصیل میں نہیں جائیں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ مولانا گوہر رحمان صاحب ان تمام تفصیلات سے پہلے ہی واقف ہیں۔ بہرحال وہ اگر انھیں بھی چیلنج کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اللہ نے اگر ہمیں مہلت دی تو اس معاملے میں بھی ہم اپنی گزارشات تفصیل کے ساتھ پیش کر دیں گے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ صحیح باتوں کے لیے دلوں میں جگہ پیدا کرے اور غلط باتوں کے شر سے ہم سب کو محفوظ رکھے۔

أللّٰہم أرنا الحق حقًا وارزقنا إتباعہ وأرنا الباطل باطلًا وارزقنا إجتنابہ.

[۱۹۹۶ء]

_______

۵؂ احمد، رقم ۱۹۹۵۱۔’’کیا تم نے اس کا دل چیر کر (اس کی نیت کو) دیکھ لیا ہے؟‘‘

۶؂ ۷۴: ۴۔’ ’اور اپنے دامن کو (شرک کی آلودگی سے) پاک رکھو۔‘‘

۷؂ میزان ۷۵۔۷۶۔

۸؂ الصف ۶۱: ۱۴۔ ’’ایمان والو، تم اللہ کے مددگار بنو۔‘‘

۹؂ تفصیل کے لیے دیکھیے: ’’تعبیر کی غلطی‘‘ از مولانا وحید الدین خان۔

۱۰؂ دین کے جامع تصور کے لیے دیکھیے، استاذ گرامی کی تصنیف:’’میزان‘‘ کا مقدمہ ’’دین حق‘‘۔

____________

B