HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Moiz Amjad

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

آخری بات

ڈاکٹر صاحب سے ہماری گزارش ہے کہ وہ ہماری ان معروضات پر غور فرمائیں۔ انھیں اگر ہماری کوئی بات خلاف واقعہ محسوس ہو تو اس کے بارے میں وہ ہمیں ضرور لکھیں، لیکن اس بحث کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی آیندہ کی بحث دو اصولوں کے تابع رہ کر کریں۔

ایک یہ کہ وہ اپنے ذہن کو معاشرے اور سوسائٹی کے موجودہ مسائل سے خالی کر کے پہلے قرآن مجید کی بات کو سمجھنے کی کوشش کریں، اس کے بعد اگر معلوم ہوا کہ قرآن کی بات وہی ہے جو وہ سمجھ رہے ہیں تو ان کے لیے ہمیں وہ بات سمجھانی بہت آسان ہو جائے گی۔ اس کے برعکس قرآن مجید کے مطالعے سے اگر یہ معلوم ہوا کہ ان کی بات درست نہیں ہے تو یقیناً انھیں اس پر شرح صدر حاصل ہو گا۔

دوسرے یہ کہ وہ اگر ہمیں فی الواقع ہماری غلطی سمجھانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہماری بات کو پوری طرح سے سمجھ کر ہمارے استدلال کی غلطی ہم پر واضح فرمائیں۔ اس معاملے میں ہمارا استدلال اصلاً یہی ہے کہ قرآن مجید کے عرف میں لفظ ’مشرک‘ مشرکین بنی اسماعیل ہی کے لیے آیا ہے۔ اس استدلال کے رد کے دو طریقے ہو سکتے ہیں: ایک یہ کہ اس بات سے انکار کر دیا جائے کہ قرآن میں یہ لفظ کہیں بھی مشرکین بنی اسماعیل کے لیے آیا ہے۔ اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو پھر ڈاکٹر صاحب کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ فلاں آیت میں یہ لفظ قرآن کے عمومی عرف کے خلاف، محض شرک کرنے والوں کے معنی میں آیا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہوگا کہ ڈاکٹر صاحب قرآن مجید کی جس آیت میں لفظ ’مشرک‘ سے مشرکین بنی اسماعیل نہیں، بلکہ محض شرک کرنے والے مراد لے رہے ہیں، اس کے بارے میں اس کے سیاق و سباق اور اس کے جملوں کے دروبست سے ہمیں یہ بات اسی طرح سے سمجھا دیں، جیسا کہ ہم نے لفظ ’صلٰوۃ‘ کے بارے میں مثالوں سے واضح کیا ہے کہ یہاں اسے اس معنی میں لینا ممکن ہی نہیں ہے جس معنی میں قرآن اسے عام طور پر استعمال کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ سے ہماری دعا ہے کہ وہ صحیح باتوں کے لیے دلوں میں جگہ پیدا فرمائے، غلط باتوں کے شر سے ہم سب کو محفوظ رکھے اور ہم سب کا اصل مطمح نظر آخرت ہی کی کامیابی کو بنا دے۔

[۱۹۹۷ء[

____________

B