ڈاکٹر صاحب نے اہل مکہ کے عقائد کا تجزیہ کر کے یہ بتانے کی بھی کوشش کی ہے کہ ان کے اور دوسرے گروہوں کے شرک میں کوئی خاص فرق نہیں تھا۔ ہماری نظر میں ان کی یہ بات صحیح نہیں ہے، مگر فی الحال ہم اہل مکہ کے عقائد کی تفصیلات میں جانے کے بجاے یہ چاہیں گے کہ ڈاکٹر صاحب اپنی توجہ مسئلۂ زیر بحث، یعنی قرآن مجید میں لفظ ’مشرک‘ کے اطلاق ہی پر مرکوز رکھیں۔ اس ضمن میں، البتہ ہم اتنی بات ضرور عرض کرنا چاہیں گے کہ مشرکین بنی اسماعیل اور دوسرے گروہوں کے شرک میں کوئی فرق نہ ہو، ان کے عقائد میں بہت فرق تھا۔ مشرکین عرب شرک کو ایک عقیدے کی حیثیت سے مانتے تھے، جبکہ دوسرے گروہ عقیدۂ توحید پر قائم رہتے ہوئے شرک کی غلاظت میں ملوث ہو گئے تھے۔
____________