HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Moiz Amjad

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

کیا اقامت دین ایک دینی فریضہ ہے؟

 مولانا گوہر رحمان صاحب نے اپنے مضمون میں اقامت دین کے بارے میں استاذ گرامی جاوید احمد صاحب غامدی کے نقطۂ نظر پر بھی تعجب کا اظہار فرمایا ہے۔ استاذ گرامی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:

’’اِس معنی کی رو سے صاف واضح ہے کہ یہ دین کے فرائض میں سے ایک فرض اور اُس کے احکام میں سے ایک حکم نہیں ہے کہ اِسے ’’فریضۂ اقامت دین‘‘ قرار دے کر فرائض دینی میں ایک فرض کا اضافہ کیا جائے، بلکہ پورے دین کے متعلق ایک اصولی ہدایت ہے۔‘‘(برہان ۱۸۰ )

مولانا محترم کے نزدیک یہ ایک عجیب سی بات ہے کہ ’اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ‘ کو تو ایک دینی فریضہ قرار دیا جائے، مگر ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ کوجو اس کے مقابلے میں ایک زیادہ جامع بات ہے، فرائض دین میں شمار کرنے سے گریز کیا جائے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’مذکورہ بحث سے تو ثابت ہوتاہے کہ اقامت دین، نہ صرف یہ کہ ایک دینی فریضہ ہے، بلکہ یہ تو حقیقت میں امام الفرائض ہے...۔ ‘‘ (ماہنامہ فاران ۲۳)

مولانا کی یہ بات چونکہ صریح غلط فہمی پر مبنی ہے، لہٰذا ہم یہاں ’دینی فریضے‘ کے بارے میں صحیح نقطۂ نظر کی وضاحت کیے دیتے ہیں۔

یہ بات بالکل واضح ہے کہ ’فرائض دین‘ یا ’دینی فریضے‘ کا اطلاق دین کے ایسے مشمولات ہی پر ہوتا ہے جن کا اہل ایمان کو اس طرح مکلف ٹھہرایا گیا ہو کہ انھیں بجا لانے والے کو اجر اور بغیر کسی عذر کے ترک کرنے والوں کو سزا ملے۔

صاحب ’’الفقہ علی المذاہب الاربعہ‘‘ ’فرض‘ کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ثم إن الفقہاء قد اصطلحوا علی أن الفرض مساو للرکن، فرکن الشئ و فرضہ شئ واحد، وفرقوا بینہما و بین الشرط، بأن الفرض أو الرکن ماکان من حقیقۃ الشئ والشرط ما توقف علیہ وجود الشئ.(۱/ ۵۳)
’’فقہا نے فرض کو، اصطلاحاً، رکن کے ہم معنی بنا دیا ہے۔ چنانچہ کسی چیز کا رکن یا کسی چیز کا فرض ایک ہی چیز ہوتی ہے۔ اور اس طرح وہ فرض اور شرط کے درمیان فرق کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک، فرض یا رکن کوئی ایسی چیز ہی ہو سکتی ہے، جس کا وجود اس چیز کی حقیقت میں موجود ہو، جبکہ شرط ایسی چیز ہے، جس پر اس چیز کا وجود موقوف ہو۔‘‘

ہمیں یقین ہے کہ ’فرائض دین‘ کے بارے میں اس اصولی وضاحت کی حد تک مولانا محترم ہمارے ساتھ پوری طرح اتفاق کریں گے۔

اب آئیے، اس تعریف کے عملی اطلاق کی چند مثالیں دیکھتے ہیں۔ تو رات کی کتاب استثنا میں ہے:

’’پھر موسیٰ نے سب اسرائیلیوں کو بلوا کر ان کو کہا اے اسرائیلیو!تم ان آئین اور احکام کو سن لو جن کو میں آج تم کو سناتا ہوں تاکہ تم ان کو سیکھ کر ان پر عمل کرو۔( ۵: ۱) ‘‘

اس کے بعد احکام عشرہ کی تفصیل ہے اور اس کے آخر میں پھر فرمایا ہے:

’’سو تم احتیاط کر کے ان سب آئین اور احکام پر عمل کرنا جن کو میں آج تمھارے سامنے پیش کرتا ہوں۔ جب تک تم دنیا میں زندہ رہو تم احتیاط کر کے انھی آئین اور احکام پر اس ملک میں عمل کرنا، جسے خداوند تیرے باپ دادا کے خدا نے تجھ کو دیا ہے۔‘‘(استثنا ۱۱: ۳۲، ۱۲: ۱)

اب کوئی شخص اگر یہ کہے کہ دنیا جنھیں ’احکام عشرہ‘ کے نام سے جانتی ہے، حقیقت میں وہ ’عشرہ‘ نہیں، ’احدیٰ عشرہ‘ ہیں اورآیت کا یہ حصہ کہ ’تم احتیاط کر کے ان سب آئین اور احکام پر عمل کرنا، جن کو میں آج تمھارے سامنے پیش کرتا ہوں‘ نہ صرف یہ کہ ان احکام میں سے ایک حکم ہے، بلکہ یہ تو حقیقت میں ’امام الاحکام‘ ہے تو مولانا جیسا صاحب علم یقیناًاس بات پر سر پیٹ لے گا۔ بلاشبہ وہ یہ کہے گا کہ مذکورہ حصہ احکام میں سے ایک حکم نہیں، بلکہ احکام عشرہ پر عمل پیرا رہنے کی تاکید اور ان کے بارے میں ایک رہنما ہدایت ہے۔

یہاں ایک دل چسپ بات یہ بھی ہے کہ سورۂ شوریٰ کی زیر بحث آیت کا موقع و محل اور معنی بھی بالکل وہی ہیں جو تورات کی اس عبارت میں ’ان سب آئین اور احکام پر عمل کرنا‘ کے الفاظ میں بیان ہوئے ہیں۔ سورۂ شوریٰ میں اللہ تعالیٰ نے جو بات بیان فرمائی ہے، وہ بھی یہی ہے کہ تمام سابق انبیا و رسل کو جو دین دیا گیا تھا، وہ یہی تھا اور ان سب کو اس دین کے بارے میں یہ ہدایت دی گئی تھی کہ ’تم احتیاط کر کے ان سب آئین اور احکام پر عمل کرنا‘ اور ان میں تفرقہ نہ پیدا کر دینا۔

اس طرح، اگر کوئی شخص یہ پوچھے کہ ’فرائض زکوٰۃ کیا ہیں؟ ‘تو اس کے جواب میں وہی چیزیں پیش کی جائیں گی جو زکوٰۃ کے مشمولات میں سے ہیں اور جنھیں بجا لانا ہر زکوٰۃ دینے والے کے لیے لازم ہے۔ اب کوئی شخص اگر یہ کہے کہ قرآن مجید نے ہمیں ’ایتاے زکوٰۃ‘ کا حکم دیا ہے، اس وجہ سے زکوٰۃ ادا کرنا بھی فرائض زکوٰۃ میں سے ہے تو ظاہر ہے اس کی یہ بات بالکل غلط ہے۔ ’ایتاے زکوٰۃ‘ زکوٰۃ کے مشمولات میں سے ہے ہی نہیں، اس وجہ سے اسے ’فرائض زکوٰۃ‘ میں سے قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ تو دراصل زکوٰۃ کے بارے میں ایک اصولی ہدایت ہے۔

اسی طرح دیکھیے،’فرائض صلوٰۃ‘ میں قیام، رکوع، سجود وغیرہ کا ذکر تو تمام فقہا کے ہاں ہمیں ملتا ہے، مگر ان میں سے کوئی بھی ’اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ‘ یا اقامت صلوٰۃ کو ’فرائض صلوٰۃ‘ میں شمار نہیں کرتا۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ ’اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ‘ پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے، اس کے برعکس اصل بات یہ ہے کہ ’اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ‘ نماز کے بارے میں ایک ہدایت ہے، جبکہ فرائض صلوٰۃ میں منطقی طور پر نماز کے لازمی مشمولات ہی کا ذکر ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اس وجہ سے امت کے تمام فقہا اور اہل علم اقامت صلوٰۃ اور ایتاے زکوٰۃ کو فرائض دین میں تو بجا طور پر شمار کرتے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی انھیں فرائض صلوٰۃ یا فرائض زکوٰۃ میں شامل نہیں کرتا۔

اس میں تو شبہ نہیں ہے کہ جب مشمولات دین کی حیثیت سے نماز اور زکوٰۃ کا ذکر ہو گا تو اقامت صلوٰۃ اور ایتاے زکوٰۃ، فرائض دین ہی قرار پائیں گے، لیکن جب فرائض صلوٰۃ یا فرائض زکوٰۃ کا ذکر کیا جائے گا تو ظاہر ہے کہ ان میں نماز اور زکوٰۃ کے مشمولات ہی کا ذکر ہو گا۔ لہٰذا جو شخص اقامت صلوٰۃ کو فرائض صلوٰۃ میں اور ایتاے زکوٰۃ کو فرائض زکوٰۃ میں شامل کرے، اسے یہ کہنا پڑے گا کہ صلوٰۃ کے مشمولات میں سے ایک چیز صلوٰۃ بھی ہے، جس کی اقامت صلوٰۃ میں فرض ہے اور زکوٰۃ کے مشمولات میں سے ایک چیز زکوٰۃ بھی ہے جس کا ایتا، زکوٰۃ میں فرض ہے۔ اسی طرح جو شخص اقامت دین کو دینی فریضہ قرار دے، اسے یہ بتانا پڑے گا کہ ’الدین‘ کے مشمولات میں سے ایک چیز خود ’الدین‘ بھی ہے جس کی اقامت ’الدین‘ میں فرض ہے۔

اس ساری بحث سے واضح ہے کہ ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘، بے شک ’الدین‘ کے بارے میں ایک اصولی اور لازمی ہدایت ہے، مگر چونکہ یہ ہدایت ’الدین‘ کے مشمولات میں سے نہیں، بلکہ خود ’الدین‘ کے بارے میں ہے، اس وجہ سے اسے فرائض دین میں سے ایک فریضہ کسی طرح سے بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔

چنانچہ ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘،’اِعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا‘، ’اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً‘ جیسی تمام ہدایات کو اسی اصول پر ’فرائض دین‘ میں سے کوئی فریضہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بے شک، ان ہدایات پر عمل کرنا لازم ہے اور ان سے صرف نظر مواخذے ہی کا باعث ہو گا، مگر ان میں چونکہ ’الدین‘ کے لازمی مشمولات بیان نہیں ہوئے، بلکہ اس کے برعکس الدین‘ کے بارے میں انسان کو صحیح رویے کی تعلیم دی گئی ہے، اس وجہ سے انھیں ’فرائض دین‘ یا ’دینی فریضہ‘ نہیں کہا جا سکتا۔

مولانا کو اب بھی اگر اس بات پر اصرار ہے کہ ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ نہ صرف یہ کہ ایک دینی فریضہ ہے، بلکہ یہ تو حقیقت میں امام الفرائض ہے، تو انھیں تھوڑی سی ہمت کرکے فرائض زکوٰۃ میں ایتاے زکوٰۃ کا اور فرائض صلوٰۃ میں اقامت صلوٰۃ کا اضافہ کر دینا چاہیے۔

____________

B