ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں: ’’خانقاہی دین تصوف اور غیر اللہ کی مشکل کشائی کے شرکیہ عقائد کو ایک فلسفۂ زندگی کے طور پر ماننے والے اور ساتھ ہی اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے گروہوں کو آپ مشرک نہ کہیں، انھیں مشرکین مکہ یا آخرت کے منکرین بت پرستوں پر قیاس نہ کریں، مگر شرک صریح کے باعث ان کے ساتھ ویسا معاملہ کیوں نہ کیا جائے جو شرک کرنے والوں کے ساتھ مالک معاملہ کرنے کا حکم دیتا ہے؟‘‘
ڈاکٹر صاحب سے ہماری گزارش ہے کہ وہ اس معاملے میں ہماری رہنمائی فرما دیں کہ دین توحید پر قائم کسی غلطی، غلط فہمی یا تاویل کے باعث شرک کرنے والوں کے ساتھ مالک معاملہ نے کیسا معاملہ کرنے کا حکم دیا ہے؟ اس ضمن میں اگر کچھ آیات ڈاکٹر صاحب کے استدلال کی بنیاد ہو سکتی تھیں تو وہ ایسی آیات ہی ہو سکتی تھیں جن میں یہود و نصاریٰ کے ساتھ ان کے شرک کی وجہ سے کوئی خاص معاملہ کرنے کا حکم دیا گیا ہوتا، مگر ہمارے علم کی حد تک قرآن مجید میں ایسی آیات نہیں ہیں جن آیتوں سے ڈاکٹر صاحب استدلال کرتے ہیں، وہ مشرکین بنی اسماعیل کے لیے ہیں اور مشرکین بنی اسماعیل، یہود و نصاریٰ یا آج کل کے بعض مسلمان گروہوں کی طرح مذہب توحید پر قائم ہوتے ہوئے کسی غلطی، غلط فہمی یا فلسفے کی بنا پر شرک میں ملوث نہیں ہو گئے تھے۔ وہ خدا کے شریک مانتے تھے، ان کے مذہب کی بنیاد شرک تھی۔ وہ اس بات کے قائل تھے کہ خدا نے اپنے شریک بنائے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب سے ہماری گزارش ہے کہ وہ ہمیں مسلمانوں کے کسی ایسے گروہ کا نام بتا دیں جو یہ کہتا ہو کہ خدا کے ہم سر موجود ہیں۔ جو اپنی زبان سے یہ دعویٰ کرتا ہو کہ فلاں داتا یا فلاں غوث خدا کی خدائی میں شریک ہے۔ ڈاکٹر صاحب یقیناً ہم سے زیادہ جانتے ہیں کہ ایسے تمام گروہ جو ہماری نظر میں شرک کا ارتکاب کر رہے ہیں، وہ اسے شرک نہیں سمجھتے، ان کے نزدیک یہ سب کچھ کرنے سے ان کے عقیدۂ توحید پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ بلا شبہ، ان کی یہ بات غلط ہے، مگر بہرحال قرآن نے ایسے لوگوں کو مشرک نہیں کہا۔ زمانۂ رسالت میں یہود و نصاریٰ اسی قسم کی گمراہیوں میں مبتلا تھے، مگر یہ واضح ہے کہ قرآن نے ان کے شرک کی نشان دہی کرنے کے باوجود انھیں مشرک نہیں کہا۔ چنانچہ ہم ڈاکٹر صاحب سے یہ پوچھنا چاہیں گے کہ جب مالک معاملہ نے ایسا نہیں کیا تو پھر میں اور آپ کیا اس سے اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ غیرت اور دینی حمیت رکھتے ہیں کہ ایسا کر گزریں؟
____________