ڈاکٹر صاحب نے ایک بات یہ دریافت فرمائی ہے کہ کچھ مسلمان اگر شرک صریح میں مبتلا ہوں یا قادیانیت، انکار سنت یا اسی قبیل کی کسی ایسی گمراہی میں مبتلا ہوں جس کے بعد دائرۂ اسلام سے ان کا خروج لازم ہو جائے تو قرآن کے بیان کردہ غیر مسلم گروہوں میں سے کس گروہ میں ان کو شامل سمجھا جائے گا؟
ڈاکٹر صاحب کا یہ سوال اس غلط فہمی پر مبنی ہے کہ قرآن نے ہمیشہ کے لیے تمام غیرمسلم گروہوں کا تعین کر دیا ہے۔ یہ بات سراسر حقیقت کے منافی ہے۔ قرآن میں صرف وہی گروہ زیر بحث آئے ہیں جو زمانۂ رسالت میں اپنا وجود رکھتے تھے۔ ہمارے لیے ہرگز یہ لازم نہیں ہے کہ ہم آج کے تمام غیر مسلموں کو بھی ان گروہوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کریں جن کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ مثال کے طور پر دیکھیے، قادیانی حضرات کو غیر مسلم قرار دینے کے بعد ہم نے یہ نہیں کیا کہ انھیں یہود، نصاریٰ یا مشرک قرار دے دیں۔
البتہ، اس ضمن میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ ان گروہوں سے متعلق شریعت کے احکام جاننے کے لیے ہمیں قرآن مجید میں بیان کردہ کسی گروہ کے ساتھ ان کا الحاق کرنا ہو گا اور یہ بہرحال ایک اجتہادی معاملہ ہی ہو گا، مگر اس الحاق کے باوجود ایسا نہیں ہو گا کہ ہم اس گروہ کو یہودی، نصرانی یا مشرک کہنا شروع کر دیں گے۔ مثال کے طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جزیہ لینے کے معاملے میں مجوس کو اہل کتاب سے ملحق کیا۔ اس سے یہ نتیجہ ہرگز نہیں نکلتا کہ مجوس بھی اہل کتاب میں شامل ہو گئے ہیں۔
____________