HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Moiz Amjad

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

۴۔ اسم (مشرک) کی جگہ فعل (اَشْرَکَ یا یُشْرِکُ) کا استعمال

ڈاکٹر صاحب نے ایک بات یہ دریافت فرمائی ہے کہ کیا قرآن مجید میں ’مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ‘ اور ’اَلَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا‘ جیسے الفاظ سے بھی صرف اصطلاحی مشرک ہی مراد ہوتے ہیں یا اس میں وہ دوسرے گروہ بھی شامل ہو سکتے ہیں جو شرک کے مرتکب ہوں، خواہ ان کا تعلق موحدین کے کسی گروہ ہی کے ساتھ کیوں نہ ہو؟

اس بات کا جواب یہ ہے کہ بے شک قرآن مجید میں اس طرح کے خطاب سے اگر سیاق و سباق اس طرف اشارہ کر رہے ہوں تو محض مشرکین بنی اسماعیل نہیں، بلکہ مرتکبین شرک بھی مراد ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر دیکھیے، سورۂ نساء (۴)کی آیت ۴۸کے الفاظ اس طرح ہیں:

اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدِ افْتَرآی اِثْمًا عَظِیْمًا.
’’بے شک، اللہ اس کو معاف نہیں کرے گا کہ اس کے شریک ٹھہرائے جائیں، اس کو چھوڑ کر دوسرے گناہ وہ جس کے لیے چاہے گا، معاف فرما دے گا اور جس نے اللہ کے شریک ٹھہرائے، اس نے ایک بہت بڑے گناہ کا افترا کیا۔‘‘

اس آیت کے سیاق و سباق کو سامنے رکھیے تو اس میں کلام کا رخ اصلاً یہود ہی کی طرف ہے، لیکن ظاہر ہے کہ آیت کا اسلوب اور اس کا مناط حکم ایسا ہے کہ اس میں بیان ہونے والی بات سب کے لیے عام ہے۔

اسی طرح سورۂ مائدہ کے ایک مقام پر ارشاد ہے:

اِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَمَاْوٰہُ النَّارُ.(۵: ۷۲)
’’بے شک، جس نے اللہ کا شریک ٹھہرایا، تواللہ نے اس پر جنت حرام کر دی۔ اوراس کا ٹھکانا جہنم ہو گا۔‘‘

اس آیت کے سیاق و سباق پر غور کرنے سے بآسانی یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ یہاں خطاب کا رخ اصلاً نصاریٰ کی طرف ہے، مگر یہاں بھی آیت کا اسلوب اور اس کا مناط حکم ایسا ہے کہ اس میں بیان کردہ اصول پوری نوع انسانی پر پھیلایا جا سکتا ہے۔

مگر اس کے برعکس البقرہ (۲)کی آیت ۹۶، آل عمران (۳)کی آیت ۱۵۱اور ۱۸۶، المائدہ (۵)کی آیت ۸۲، الانعام(۶) کی آیت ۲۲اور ۱۴۸، النحل(۱۶) کی آیت ۳۵اورالحج(۲۲) کی آیت ۱۷میں اگرچہ ’اَلَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا‘کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، تاہم سیاق و سباق اور جملوں کے در و بست سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہے کہ یہاں اس سے مراد مشرکین بنی اسماعیل ہی ہیں۔ طول کلام سے بچنے کے لیے ہم یہاں صرف دو آیات نقل کریں گے۔ پہلے سورۂ مائدہ (۵)کی آیت ۸۲کو دیکھیے، ارشاد ہے:

لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَہُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَہُمْ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰی.
’’تم لازماًایمان والوں کی دشمنی میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤ گے اور اہل ایمان کی دوستی سے قریب تر ان لوگوں کو پاؤ گے، جنھوں نے کہا کہ ہم نصاریٰ ہیں۔‘‘

اس آیت پر غور کیجیے تو یہ بات واضح طور پر معلوم ہو جائے گی کہ یہاں ’وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا‘ سے مراد مشرکین بنی اسماعیل ہی ہیں۔ اسی طرح سورۂ حج (۲۲)کی آیت ۱۷ملاحظہ فرمائیے۔ ارشاد ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ہَادُوْا وَالصّٰبِءِیْنَ وَالنَّصٰرٰی وَالْمَجُوْسَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ یَفْصِلُ بَیْْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ.
’’بے شک، جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے یہودیت اختیار کی اور صابئین اور نصاریٰ اور مجوس اور جنھوں نے شرک کیا، اللہ تعالیٰ قیامت کے روز ان سب کا فیصلہ فرما دے گا۔‘‘

اس آیت میں بھی یہ بات بالکل واضح ہے کہ ’وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا‘ سے مراد مشرکین بنی اسماعیل ہی ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کے اس سوال سے، البتہ یہ بات ہمیں معلوم ہو گئی ہے کہ ہم ان پر اپنا نقطۂ نظر پوری طرح سے واضح نہیں کر سکے، ہمارا نقطۂ نظر یہ نہیں ہے کہ قرآن مجید میں شرک کا لفظ صرف مشرکین عرب ہی کے حوالے سے آیا ہے۔ ہم نے جو بات کہی ہے، وہ یہ ہے کہ قرآن میں ’مشرک‘ صرف مشرکین بنی اسماعیل کو کہا گیا ہے۔ اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ قرآن مجید میں ’مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ‘ اور ’اَلَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا‘ کے الفاظ بھی صرف مشرکین بنی اسماعیل کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ ہماری بات کے یہ معنی بھی نہیں ہیں کہ دوسرے گروہوں کا شرک قابل معافی ہے۔ اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ اگرچہ یہود و نصاریٰ اور مسلمانوں میں بھی مختلف قسم کے شرک پائے جا سکتے اور پائے جاتے ہیں، تاہم قرآن میں جو احکام ’’مشرکین‘‘ کے حوالے سے آئے ہیں، ان کا اطلاق قرآن ہی کی رو سے اہل کتاب اور مسلمانوں پر نہیں ہو گا۔

____________

B