HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Moiz Amjad

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

۲۔ کیا لفظ ’مشرک‘ قرآن میں کہیں بھی لغوی معنی میں نہیں آیا؟

ڈاکٹر صاحب نے ایک بات یہ دریافت فرمائی ہے کہ یہ بات اگرچہ ٹھیک ہے کہ قرآن مجید میں بعض مقامات پر لفظ ’مشرک‘ ایک اصطلاح کے طور پر بھی آیا ہے، مگر کیا یہ لفظ کہیں بھی محض ایک اسم فاعل یا اسم صفت کے طور پر نہیں آیا؟

اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب سے ہماری گزارش ہے کہ قرآن کے بعض مقامات سے جس طرح یہ بات بالبداہت ثابت کی جا سکتی ہے کہ وہاں یہ لفظ ایک اصطلاح کے طور پر آیا ہے، اسی طرح وہ کسی ایک آیت سے یہ ثابت کر دیں کہ اس میں یہ لفظ محض شرک کرنے والوں کے معنی میں آیا ہے، مگر اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ یہ ثبوت قرآن کے داخل سے دیا جائے، اس معاملے میں خارجی دلائل کی ہمارے نزدیک کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ اس معاملے میں اصل حیثیت قرآن کے عرف، اس کے سیاق و سباق، اس کی زبان و بیان اور اس کے جملوں کے در و بست ہی کو حاصل ہے۔ اگر وہ ایسا کر دیں گے تو اس کے بعد ہر آیت اس کی متقاضی ہو گی کہ اس پر غور کر کے یہ دیکھا جائے کہ اس میں یہ لفظ ایک اصطلاح کے طور پر استعمال ہوا ہے یا محض اپنے لغوی معنی میں آیا ہے۔ یہ بات، البتہ یہاں واضح رہنی چاہیے کہ جب یہ بات معلوم ہو گئی کہ کوئی لفظ قرآن مجید میں ایک اصطلاح کے طور پر استعمال ہوتا ہے تو اسے ہر مقام پر ایک اصطلاح ہی کے طور پر لیا جائے گا، الاّ یہ کہ خود آیت کے الفاظ اس سے ابا کرتے ہوں۔

اپنی بات کو ہم یہاں ایک مثال سے واضح کریں گے۔ دیکھیے، عربی زبان میں لفظ ’صلٰوۃ‘ دعا و مناجات اور رحمت و برکت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں بالعموم یہ لفظ لام عہد کے ساتھ ایک اصطلاح ہی کے طور پر آیا ہے اور اس سے عبادت کا وہ خاص طریقہ مراد ہے جو دوراول سے مسلمانوں کے ہاں رائج ہے۔ یہاں ہم اس بحث میں نہیں پڑیں گے کہ یہ بات معلوم کیسے ہوتی ہے کہ قرآن میں یہ لفظ بالعموم ایک اصطلاح کے طور پر آیا ہے۔ البتہ اتنی بات بالکل واضح ہے کہ جب یہ بات معلوم ہو گئی کہ یہ لفظ قرآن میں اپنے لغوی معنوں میں نہیں، بلکہ ایک اصطلاح کے طور پر آیا ہے تو اس کے بعد ہر مقام پر اسے اس کے اصطلاحی معنی ہی میں لیا جائے گا، الاّ یہ کہ کسی مقام پر خود قرآن کے الفاظ اس میں رکاوٹ ہوں۔ چنانچہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ قرآن مجید میں یہ لفظ اپنے لغوی معنی میں بھی آیا ہے تو اسے قرآن مجید کے داخلی ذرائع سے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ فلاں آیت میں اسے اپنے اصطلاحی معنی میں لینا ممکن ہی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر وہ یہ کہے گا کہ سورۂ بقرہ (۲)کی آیت ۱۵۷اورسورۂ توبہ (۹) کی آیت ۹۹اور ۱۰۳میں اس کے اصطلاحی معنی کسی طرح مراد نہیں لیے جا سکتے، اس وجہ سے ان مقامات پر خود قرآن گواہ ہے کہ اس نے یہ لفظ اپنے عرف کے خلاف ایک اصطلاح کے طور پر نہیں، بلکہ لغوی معنی میں استعمال کیا ہے۔ ان آیات پر غور فرمائیے تو معلوم ہو گا کہ اس کی یہ بات بالکل درست ہے۔ دیکھیے، سورۂ بقرہ میں ارشاد ہے:

اُولٰٓءِکَ عَلَیْْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ.(۲: ۱۵۷)
’’ان لوگوں پر ان کے رب کی بے پایاں برکتیں اور رحمتیں ہوں گی۔‘‘

سورۂ توبہ میں ارشاد ہے:

وَمِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ یُّؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَیَتَّخِذُ مَا یُنْفِقُ قُرُبٰتٍ عِنْدَ اللّٰہِ وَصَلَوٰتِ الرَّسُوْلِ.(۹: ۹۹)
’’اور ان اعراب میں وہ بھی ہیں جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں، اس کو اور رسول کی دعاؤں کو حصول قرب الٰہی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔‘‘

پھر سورۂ توبہ ہی میں فرمایا:

خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیْہِمْ بِہَا وَصَلِّ عَلَیْْہِمْ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّہُمْ.(۹: ۱۰۳)
’’(اے نبی)، تم ان کے مال کا صدقہ قبول کر لو، اس سے تم ان کو پاکیزہ بناؤ گے اور ان کا تزکیہ کرو گے اور ان کے لیے دعا کرو۔ بے شک، تمھاری دعا ان کے لیے سرمایۂ تسکین ہے۔‘‘

غور کیجیے تو یہ بات بالکل صحیح ہے کہ ان تینوں آیتوں میں لفظ ’صَلٰوۃ‘ اپنے اصطلاحی معنی میں نہیں استعمال ہوا اور یہ بات خود ان آیات کے الفاظ سے واضح ہے، اس کے لیے کسی فقیہ کی راے یا کسی مفسر کے قول کی کوئی احتیاج نہیں ہے۔

ڈاکٹر صاحب سے ہماری گزارش ہے کہ وہ لفظ ’مُشْرِکِیْنَ‘ کے معاملے میں بھی کسی ایسی آیت کی طرف ہماری رہنمائی فرما دیں جو خود یہ بتا رہی ہو کہ اس میں یہ لفظ اپنے اصطلاحی معنی میں نہیں، بلکہ اپنے لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے۔

____________

B