ڈاکٹر صاحب نے ہمارے مراسلے پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک بات یہ فرمائی ہے کہ توحید کے علم بردار جب گمراہی میں پڑے ہوئے لوگوں کو یہ بتاتے ہیں کہ شرک کرنے والے پر جنت حرام ہے، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے:
اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ. (النساء ۴: ۱۱۶)
’’بے شک، اللہ یہ معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے اور اس کے سوا دوسرے گناہ وہ جس کے لیے چاہتا ہے، معاف فرما دیتا ہے۔‘‘
تو یہ بات ہم جیسے لوگوں کو بڑی ناگوار گزرتی ہے۔
ہم بڑے ادب کے ساتھ ڈاکٹر صاحب سے یہ پوچھنا چاہیں گے کہ اس ناگواری کا اظہار ہم نے کہاں کیا ہے؟ ہم ڈاکٹر صاحب کی اس بات کو بالکل صحیح سمجھتے ہیں۔ ہم قرآن مجید کی روشنی میں یہ بات مانتے ہیں کہ جس کسی نے بھی جانتے بوجھتے ہوئے شرک کیا، خواہ وہ مسلمان، عیسائی، یہودی، مجوسی، صابی، ہندو یا کسی بھی اور نام سے پہچانا جاتا ہو، اللہ اسے کبھی معاف نہیں فرمائیں گے۔ توحید کا اقرار اللہ کے سب سے بڑے حق کا اقرار ہے، اس وجہ سے ایسا شخص، بلا شبہ اللہ کے سب سے بڑے حق کے اتلاف کا مجرم ہے۔ ایسے شخص کے لیے آخر جنت کے دروازے کھولے بھی کیوں جائیں؟ ہم اس پوری بات کو تسلیم کرتے اور اس کے مبنی بر انصاف ہونے کے بارے میں پوری طرح سے مطمئن ہیں۔
ہمیں نہیں معلوم کہ ڈاکٹر صاحب نے آخر یہ نتیجہ کیسے نکال لیا کہ ہم موحدین کے شرک کو شرک نہیں سمجھتے۔ ہم نے اپنے مضمون اور اس کے بعد ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اپنی خط کتابت میں اس بات کا کہیں بھی انکار نہیں کیا۔ ہم نے صرف اتنی ہی بات کہی ہے کہ قرآن مجید میں لفظ ’مشرک‘ چونکہ مشرکین بنی اسماعیل ہی کے لیے آیا ہے، اگرچہ دوسری قوموں میں بھی شرک پایا جاتا تھا، اس وجہ سے ہمیں بھی ’مشرک‘ کا لفظ ایسی ہی قوموں کے لیے استعمال کرنا چاہیے جو اپنی اصل کے اعتبار سے مذہب شرک پر قائم ہوں۔ اس سے یہ نتیجہ تو، بے شک نکلتا ہے کہ قرآن مجید میں جو احکام ’’مشرکین‘‘ کے لیے آئے ہیں، وہ اپنی اصل میں مشرکین بنی اسماعیل ہی کے لیے ہیں۔ انھیں یہود و نصاریٰ اور ایسی دوسری قوموں کے لیے نہیں مانا جا سکتا جن کے لیے قرآن نے یہ لفظ استعمال نہیں کیا، مگر اس سے یہ نتیجہ بہرحال نہیں نکلتا کہ اگر کوئی مسلمان، یہودی یا عیسائی جانتے بوجھتے شرک کرے گا تو وہ اپنے اس شرک کے باوجود آخرت کی پکڑ سے بچ جائے گا۔
غور کیجیے تو خود ڈاکٹر صاحب نے سورۂ نسا ء کی جو آیت نقل کی ہے، جس میں شرک کو ایک ناقابل معافی جرم قرار دیا گیا ہے، اس میں اسم(مشرک) نہیں، بلکہ فعل (یُشْرَکَ) استعمال ہوا ہے، اس وجہ سے خود قرآن ہی یہ بتا رہا ہے کہ شرک کرنے والا، خواہ مسلمان ہو، یہودی ہو، نصرانی ہو یا مشرکین بنی اسماعیل میں سے ہو، اگر وہ جانتے بوجھتے ہوئے ایسا جرم کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے کبھی معاف نہیں فرمائیں گے۔
یہاں پر، البتہ کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ ہم نے شرک کے ساتھ ’’جانتے بوجھتے‘‘ کی جو شرط عائد کی ہے تو اس کی دلیل کیا ہے؟ مزید براں کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ اس معاملے میں غلطی قابل معافی ہے؟
ہمارے نزدیک معاملہ، خواہ شرک کا ہو یا کسی اور جرم کا، قابل مواخذہ وہی ہے جو جانتے بوجھتے کیا جائے۔ دیکھیے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لَیْْسَ عَلَیْْکُمْ جُنَاحٌ فِیْمَآ اَخْطَاْتُمْ بِہٖ وَلٰکِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُکُمْ.(الاحزاب ۳۳: ۵)
’’تم پر اس معاملے میں کوئی گناہ نہیں جس میں تمھیں غلطی لگے۔ البتہ (اس معاملے میں تمھارا مواخذہ ہو گا) جو تم نے اپنے دل کے ارادے سے کیا ہو۔‘‘
اس سے یہ واضح ہے کہ غلطی اور بھول چوک سے جو گناہ ہم سے ہو جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان پر ہمارا مواخذہ نہیں فرمائیں گے۔
____________