ہم شروع میں یہ بات لکھ چکے ہیں کہ اقامت دین کا مفہوم متعین کرنے میں مولانا گوہر رحمان صاحب کا استدلال اصلاً وہی ہے جو مولانا مودودی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے، لیکن مولانا نے چونکہ اپنے مضمون میں بہت سے دوسرے مفسرین اور مفکرین کا حوالہ دے کر یہ بات ثابت کی ہے کہ ان بزرگوں کے نزدیک بھی اقامت دین کے وہی معنی ہیں جو مولانا مودودی رحمہ اللہ اور انھوں نے خود اختیار کیے ہیں، اس وجہ سے ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ مولانا نے اپنی تائید میں اہل علم کے جو اقتباسات اپنے مضمون میں نقل فرمائے ہیں، ان پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے۔
اس ضمن میں مولانا نے سب سے پہلے ابن جریر کی یہ عبارت نقل کی ہے: ’ألذی أوصی بہ جمیع ھؤلاء الأنبیاء وصیۃ واحدۃ وھی إقامۃ الدین‘۔ اس کا ترجمہ کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں: ’ان سب انبیا کو اللہ نے جو وصیت کی تھی، وہ ایک ہی وصیت تھی اور وہ تھی اقامت دین کی وصیت‘۔ ہم نہیں جانتے کہ ابن جریر کے ان الفاظ سے مولانا کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ان کے پیش نظر یہ بتانا ہے کہ ابن جریر رحمہ اللہ نے بھی ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ کے وہی معنی لیے ہیں جو وہ خود لے رہے ہیں تو حسن ظن کا تقاضا ہے کہ ہم یہی سمجھیں کہ مولانا کو سہو ہوا ہے۔ مولانا اگر اس عبارت کو اصل سے نکال کر دوبارہ پڑھنے کی زحمت کریں تو یقیناً وہ بھی یہی کہیں گے کہ اس عبارت میں ابن جریر کے پیش نظر ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ کے معنی کی تعیین ہے ہی نہیں۔ اس کے برعکس، انھوں نے نحوی لحاظ سے ’اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ‘ کا محل متعین کرنے کے بعد لکھا ہے:
واذکان معنی الکلام ما وصفت فمعلوم أن الذی اوصی بہ جمیع ھٰؤلاء الأنبیاء وصیۃ واحدۃ و ھی إقامۃ الدین الحق ولا تتفرقوا فیہ. )جامع البیان ۲۵/ ۱۰ )
’’اور جب اس بات کے یہی معنی ہیں جو میں نے بیان کیے ہیں تو یہ معلوم ہوا کہ وہ ایک نصیحت جو تمام نبیوں کو کی گئی تھی، وہ دین حق کے پابند رہنے اور اس میں کسی قسم کا تفرقہ نہ ڈالنے کی تھی۔‘‘
ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ یہاں ابن جریر رحمہ اللہ کے پیش نظر ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ کا مفہوم متعین کرنا ہے ہی نہیں۔ البتہ یہ ایک عجیب سی بات ہے کہ ابن جریر کی عبارت میں سے ’وَلاَ تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ‘ والا حصہ جو ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ کے وہ معنی لینے میں ایک رکاوٹ تھا جسے مولانا ثابت کرنا چاہتے ہیں، ان کے پیش کیے گئے حوالے میں نقل نہیں ہوا۔
یہاں ایک دل چسپ بات یہ بھی ہے کہ’’ تفسیر ابن جریر‘‘ کے اسی صفحے پر، جس سے مولانا نے درج بالا عبارت نقل کی ہے، اس آیت کے بارے میں ابن عباس کی راے بھی نقل ہوئی ہے جو شاید مولانا کی نظر سے نہیں گزری۔ چنانچہ دیکھیے:
عن بن عباس قولہ شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا إلی آخر الآیۃ. قال حسبک ما قیل لک و عنی بقولہ اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ أن اعملوا بہ علی ما شرع لکم وفرض.(جامع البیان ۲۵/ ۱۰ )
’’ابن عباس سے ’شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا...‘ کے بارے میں منقول ہے: اس آیت میں جو کچھ کہا گیا ہے، وہ تمھارے لیے کفایت کرتا ہے۔ میرے نزدیک اللہ تعالیٰ کے ارشاد ’اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ سے مراد یہ ہے کہ جو تمھارے لیے مقرر کر دیا گیا اور لازم ٹھہرا دیا گیا ہے، اس پر پوری طرح عمل کرو۔‘‘
ابن جریر رحمہ اللہ کی محولہ عبارت کے بعد مولانا نے اپنی تائید میں ابن مسعود کی روایت کا ایک حصہ بھی نقل کیا ہے۔ ’’مشکوٰۃ‘‘ کی ’’کتاب الایمان‘‘ کے ’باب الاعتصام بالکتاب والسنہ‘ میں یہ روایت ان الفاظ میں نقل ہوئی ہے:
عن ابن مسعود قال من کان مستنًا فلیستن بمن قدمات فان الحی لا تومن علیہ الفتنۃ اولئک اصحاب محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کانوا أفضل ہذہ الأمۃ أبرہا قلوبًا، وأعمقہا علمًا، وأقلہا تکلفًا إختارہم اللّٰہ لصحبۃ نبیہ ولإقامۃ دینہ ... فإنہم کانوا علی الہدی المستقیم. (رقم ۱۹۳)
’’ابن مسعود( رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :جس نے کسی کی پیروی کرنی ہو، وہ ان کی پیروی کرے جو گزر گئے ہیں، کیونکہ آج کل کے لوگ فتنے میں پڑنے سے مامون نہیں ہیں۔ وہ لوگ جو گزر گئے ہیں، وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی تھے۔ وہ اس امت کے بہترین لوگ تھے، سب سے زیادہ پاکیزہ دلوں والے، سب سے زیادہ گہرے علم والے اور سب سے کم تکلف کرنے والے۔ اللہ نے خود انھیں اپنے نبی کا ساتھ دینے اور اپنے دین پر پوری طرح سے قائم رہنے کے لیے چنا... اس لیے بے شک، وہ سب ٹھیک ٹھیک ہدایت پر تھے۔‘‘
اس روایت کے الفاظ پر بھی اچھی طرح سے غور کر کے دیکھ لیجیے۔ ظاہر ہے، یہ روایت ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ کے معنی طے نہیں کر رہی او رنہ اسے مولانا گوہر رحمان صاحب کے مزعومہ معنی کے حق میں دلیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ روایت تو محض اتنا بتا رہی ہے کہ قرآن مجید نے’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ کا جو حکم دیا تھا، اس پر اعلیٰ ترین درجے میں اور سب سے پہلے عمل پیرا ہونے کا شرف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہی کی جماعت کو حاصل ہوا ہے، اس وجہ سے امت میں باقی تمام لوگوں کے مقابلے میں ان کو ایک خاص مقام فضیلت حاصل ہے۔ بالبداہت واضح ہے کہ اس روایت میں ’إقامۃ دینہ‘ کے معنی وہی لیے جا سکتے ہیں جو سورۂ شوریٰ میں ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ کے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کے کوئی اور معنی لینا، کسی طرح ممکن نہیں ہے۔
اس کے بعد مولانا نے شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی رحمہ اللہ کی کتاب ’’ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء‘‘ سے ایک عبارت نقل کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ شاہ صاحب رحمہ اللہ کے نزدیک بھی ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ کے وہی معنی ہیں جنھیں مولانا محترم نے بیان فرمایا ہے۔ شاہ صاحب کی پوری عبارت اس طرح ہے:
مسئلہ در تعریف خلافت: ’ھی الریاسۃ العامۃ فی التصدی لإقامۃ الدین بإحیاء العلوم الدینیۃ وإقامۃ أرکان الإسلام والقیام بالجہاد وما یتعلق بہ من ترتیب الجیوش والفرض للمقاتلۃ و اعطاۂم من الغئ والقیام بالقضاء وإقامۃ الحدود ورفع المظالم والأمر بالمعروف والنہی عن المنکر نیابۃ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم.‘تفصیل ایں تعریف آنکہ معلوم بالقطع ست از ملت محمدیہ علی صاحبہا الصلوات والتسلیمات کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم چوں مبعوث شدند برائ کافۂ خلق اللہ باایشاں معاملہ ہاکردند و تصرفہا نمو دند برائے ہر معاملہ نُوّاب تعیین فرمودند و اہتمام عظیم در ہر معاملہ مبذول داشتند، چوں آں معاملات را استقراء نمائیم واز جزئیات بکلیات واز کلیات بہ کلی واحد کہ شامل ہمہ باشد انتقال کنیم جنس اعلیٰ آں اقامت دین باشد کہ متضمن جمیع کلیات ست و تحت وے اجناس دیگر باشد یکے ازاں احیائے علوم دین ست از تعلیم قرآن و سنت و تذکیر و موعظت. (۱/ ۱۳۔۱۴)
’’یہ مسئلہ خلافت کی تعریف میں ہے: ’خلافت سے مراد وہ ریاست ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت میں علوم دینیہ کے احیا، ارکان اسلام کی پابندی، جہاد اور اس کے لیے افواج اور ساز و سامان کی تیاری کے اہتمام، مال فے کی تقسیم ، نظام قضا کے اہتمام، حدود کے نفاذ، رفع مظالم اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکے ذریعے سے دین کی اقامت کے درپے ہو۔ اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ بات جب پوری قطعیت سے معلوم ہے کہ وہ تمام مخلوق کی ہدایت کے لیے مبعوث تھے تو ان کے ساتھ آپ نے طرح طرح کے معاملات اورمختلف تدابیر اختیار فرمائیں۔ ہر معاملے کے لیے ذمہ داروں کی تعیین فرمائی اور ہر معاملے کو انجام دینے کے لیے بڑا اہتمام فرمایا۔ جب ہم ان تمام معاملات کا استقرا کرتے ہیں اور جزئیات سے کلیات اور پھر ان کلیات سے ایسا واحد کلیہ معلوم کرتے ہیں جو تمام کلیات کا جامع ہو تو وہ جنس اعلیٰ، دراصل ’اقامت دین‘ ہی ہے، جو تمام کلیات پر مشتمل ہے اور ا س کے تحت بہت سے دوسرے شعبے بھی آتے ہیں۔ ان میں سے ایک قرآن و سنت کی تعلیم، تذکیر اور وعظ و نصیحت کے ذریعے سے دینی علوم کا احیا ہے۔‘‘
شاہ صاحب رحمہ اللہ کی اس عبارت پر تبصرہ کرنے سے پہلے ہم یہ چاہتے ہیں کہ اپنے قارئین کو یہ بتا دیں کہ شاہ صاحب کی یہ کتاب اصلاً اہل تشیع کے اس دعوے کے رد میں لکھی گئی ہے کہ خلفاے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی حکومتیں خلافت کہلانے کی مستحق نہیں ہیں۔ اس ضمن میں شاہ صاحب رحمہ اللہ نے قرآن مجید، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور ریاست کے سربراہ کی حیثیت میں آپ کے اسوہ کی روشنی میں اس بات پرتفصیل سے بحث کی ہے کہ خلافت کہلانے کی مستحق حکومت کیسی ہوتی ہے۔ اس کے بعد انھوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ خلفاے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی حکومتیں، بلاشبہ اس کی مستحق ہیں کہ انھیں خلافت کا نام دیا جائے۔
کتاب کے اس پس منظر کو پیش نظر رکھیے تو یہ بات بڑی آسانی سے سمجھی جا سکتی ہے کہ شاہ صاحب رحمہ اللہ نے محولہ عبارت میں ’اقامت دین‘ کے الفاظ ریاست کے سربراہ یا خلیفۃ المسلمین کے حوالے سے لکھے ہیں۔ ان کے پیش نظر ظاہر ہے کہ ’اقامت دین‘ کے معنی متعین کرنا نہیں ہیں۔ ان کی بات کا خلاصہ یہ ہے کہ خلافت دراصل ایسی حکومت ہی کو کہا جا سکتا ہے جو دین کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے اور دوسروں سے پورا کرانے کا اہتمام کرے۔ کوئی ایسی حکومت جو یہ اہتمام نہیں کرتی، خلافت کہلانے کی مستحق نہیں ہے۔ شاہ صاحب رحمہ اللہ کی یہ بات، بلاشبہ بالکل صحیح ہے۔
ہو سکتا ہے کہ یہاں مولانا گوہر رحمان صاحب ہماری بات،دین کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے اور دوسروں سے پورا کرانے کا اہتمام کرنے سے یہ استدلال فرمائیں کہ ہم نے بھی ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ کے بارے میں ان کی راے کو تسلیم کر لیا ہے، اس وجہ سے حفظ ما تقدم کے طور پر ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہم نے یہ بات حکومت کے بارے میں لکھی ہے، نفاذ دین کی جدوجہد کرنے والی کسی جماعت کے بارے میں نہیں لکھی۔ مزید براں یہ بھی واضح رہے کہ حکومت سے یہ تقاضا ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ کے الفاظ نہیں، بلکہ ’الدین‘ کر رہا ہے۔ ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ کے الفاظ تو محض یہ ہدایت دے رہے ہیں کہ ’الدین‘ تم سے جو تقاضے بھی کر تا ہے، ان کی پوری طرح سے پابندی کرو، ایسا نہ ہو کہ کچھ حکم مانو اور کچھ نظر انداز کر دو۔
نماز اور روزے کا پابند کوئی حکمران جب اپنی رعایا پر اسلامی قوانین کا نفاذ نہیں کرتا تو وہ دراصل ’الدین‘ کے ایک اہم تقاضے کو پورا کرنے سے گریز کرتاہے، جو ’الدین‘ حکمرانوں سے کرتاہے۔ وہ جب لوگوں سے ٹیکس وصول کرتا ہے تو ’الدین‘ کی عائد کردہ ایک پابندی سے صرف نظر کرتا ہے۔ وہ جب اللہ کے نازل کردہ قوانین کو چھوڑ کر دوسرے قوانین کے مطابق فیصلے کرتا ہے تو ’الدین‘ کے اہم ترین مطالبے سے چشم پوشی کرتا ہے۔ یہ سب کچھ وہ نماز اور روزے کی پابندی کے باوجود کرتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ’الدین‘ کے کچھ مطالبات، پابندیوں اور تقاضوں پر عمل کرتا اور کچھ سے صرف نظر کرتا ہے۔ یہ بات ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ کی ہدایت کے خلاف ہے اور یہی بات ہے جسے ’وَلَاتَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ‘ کے الفاظ سے روکا گیا ہے۔
شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی کی راے بھی یہی ہے۔ چنانچہ دیکھیے، وہ خود اپنے الفاظ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
واز لفظ ’فی التصدی لإقامۃ الدین‘برآمد شخصے کہ ریاست و غلبہ بر اہل آفاق پیدا کند و متصدی شود اخذ باج رامن غیر وجہ شرعی مثل ملوک جابرہ متغلبہ، واز لفظ ’تصدی‘ برآمد شخصے کہ قابلیت اقامت دین بروجہ اکمل داشتہ باشد و افضل اہل زمان خود بود لیکن بالفعل ازدست وے چیزے ازین امور نہ برآید. )ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء ۱/ ۱۶ )
’’اور جو ہم نے یہ الفاظ استعمال کیے ہیں کہ ’دین کی اقامت کے درپے ہو‘ تو ایسا شخص آپ سے آپ اس سے خارج ہو جاتا ہے جو اس مقصد سے لوگوں پر غلبہ اور ریاست قائم کرے کہ بغیر کسی شرعی حجت کے ان سے خراج وصول کر سکے، جیسا کہ جابر بادشاہوں کا طریقہ ہے۔ اسی طرح ’درپے ہونے‘ کے الفاظ سے ایسا شخص اس سے خارج ہو جاتا ہے جس کے ہاتھوں مذکورہ معاملات ۴ میں سے خواہ کوئی ایک ہی معاملہ روبہ عمل نہ ہو۔ اگرچہ وہ دین کے تمام احکام کا پابند رہنے کی پوزیشن میں ہو اور اپنے زمانے کے لوگوں میں سب سے بہتر بھی ہو۔‘‘
شاہ صاحب کی اس عبارت کے بعد مولانا محترم نے مولانا امین احسن اصلاحی کی تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ سے ان کی راے شروع کا ایک جملہ حذف کر کے نقل کی ہے۔ مولانا امین احسن کی پوری بات اس طرح ہے:
’’اس دین سے متعلق امتوں کو یہ ہدایت بھی فرمائی گئی تھی کہ اس کو قائم رکھنا اور اس میں اختلاف اور تفرق نہ برپا کرنا۔ یہ اسی طرح کی ہدایت ہے، جس طرح فرمایا ہے کہ ’وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلاَ تَفَرَّقُوْا‘ (آل عمران ۳: ۱۰۳) (سب مل کر اللہ کی رسی کو پکڑو اور متفرق نہ ہو)۔ قائم رکھنے سے مراد یہ ہے کہ اس کی جو باتیں ماننے کی ہیں وہ سچائی کے ساتھ مانی جائیں، جو کرنے کی ہیں وہ دیانت داری اور راست بازی کے ساتھ کی جائیں۔نیز لوگوں کی برابر نگرانی کی جائے کہ وہ اس سے غافل یا منحرف نہ ہونے پائیں۔ اور اس بات کا بھی پورا اہتمام کیا جائے کہ اہل بدعت اس میں کوئی رخنہ نہ پیدا کر سکیں۔‘‘ (تدبر قرآن ۷/ ۱۵۳)
اس عبارت کے ابتدائی الفاظ ’اس کو قائم رکھنا اور اس میں اختلاف اور تفرق نہ برپا کرنا‘ خود یہ بتا رہے ہیں کہ مولانا اصلاحی کے نزدیک ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ کے معنی وہی ہیں جو ہم نے بیان کیے ہیں۔ جس جملے سے مولانا گوہر رحمان اپنے حق میں استدلال کر رہے ہیں، وہ اس عبارت کا آخری جملہ ’نیز لوگوں کی برابر نگرانی...کر سکیں‘ ہے۔ ہمارے نزدیک اس جملے کے معنی یہ ہیں کہ ’الدین‘ چونکہ اپنے ماننے والوں سے ان کے دائرۂ اختیار میں موجود لوگوں کی دینی معاملات میں نگرانی کرنے کا مطالبہ کرتاہے، اس لیے یہ نگرانی بھی’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ کے حکم کے تحت لازماً کرنی ہو گی۔ مزید براں ’الدین‘ چونکہ علما کے طبقے سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اسے سازشیوں کی دراندازیوں سے محفوظ رکھیں، اس وجہ سے ان کا یہ کام بھی’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ کے حکم کے تحت داخل ہے۔ مولانا کی عبارت کے اگر یہ معنی نہ لیے جائیں تو ظاہر ہے، مولانا کی پہلی اور آخری بات میں تضاد پیدا ہو جائے گا۔ ہم یہ دعویٰ تو نہیں کرتے کہ مولانا کی بات ہر قسم کے تضادات سے منزہ ہے، یہ دعویٰ تو قرآن مجید ہی کے لیے کیا جا سکتا ہے، اس کے علاوہ کسی کلام کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ انسانی کمزوریوں سے محفوظ ہے، لیکن اس سے اتنی بات واضح ہے کہ مولانا کی مذکورہ عبارت کی وہ توجیہ اگر قابل قبول نہیں ہے جو ہم نے کی ہے تو پھر اس عبارت میں بظاہر تضاد کی وجہ سے مولانا گوہر رحمان صاحب کو اس سے اپنے حق میں استدلال بہرحال نہیں کرنا چاہیے۔
اس بحث سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ کے وہ معنی ہی نہیں ہیں جو مولانا محترم بیان فرما رہے ہیں۔ اس ساری تفصیل کے بعد مولانا گوہر رحمان صاحب نے انبیا علیہم السلام کی بعثت اور امت مسلمہ کے وجود کا جو مقصد بیان فرمایا ہے، اس کی تردید کی کوئی خاص ضرورت نہیں رہتی۔’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ کے صحیح معنی سمجھ لینے کے بعد کوئی شخص بھی اسے بعثت انبیا علیہم الصلوٰۃ والسلام اور وجود امت مسلمہ کا مقصد قرار نہیں دے سکتا۔
_______
۴ ’مذکورہ معاملات‘ سے مراد وہ تقاضے ہیں جو ریاست سے کیے جاتے ہیں۔ پہلی عبارت میں شاہ صاحب کی اپنی تصریحات کے مطابق ان میں علوم دینیہ کا احیا،ارکان اسلام کی پابندی، جہاد اور اس کے لیے افواج اور ساز و سامان کی تیاری کا اہتمام، مال فے کی تقسیم، نظام قضا کا اہتمام، حدود کا نفاذ، رفع مظالم اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر شامل ہیں۔
____________