HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Moiz Amjad

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

۱۔ مومن مردوں کا مشرکہ عورتوں سے نکاح

اس ضمن میں ڈاکٹر صاحب کی سب سے پہلی دلیل سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۲۲۱ کا پہلا حصہ ہے۔ پہلے اس آیت کو ملاحظہ فرمائیے۔ ارشاد ہے:

وَلاَ تَنْکِحُوا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ وَلَاَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَیْْرٌ مِّنْ مُّشْرِکَۃٍ وَّلَوْ اَعْجَبَتْکُمْ.
’’اورتم مشرک عورتوں سے نکاح مت کرو، جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں۔ اور، بے شک ایک مومنہ لونڈی مشرک عورت سے بہتر ہے، خواہ وہ تمھیں کتنی ہی بھائے۔‘‘

ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ اس آیت کی بنیاد پر چونکہ تمام فقہا اس بات پر متفق ہیں کہ مسلمانوں کا نکاح مشرکوں اور مجوسیوں کے ساتھ نہیں ہو سکتا، اس وجہ سے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس آیت میں ’مُشْرِکٰتِ‘ کا لفظ محض بنی اسماعیل کی مشرکات کے لیے نہیں، بلکہ مجوسی عورتوں کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔

ڈاکٹر صاحب کی یہ بات ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب اگر فقہا کے دلائل کو قول فیصل ماننے کے بجاے قرآن مجید پر غور فرماتے تو انھیں یقیناًاس فقہی راے کا صحیح ماخذ بھی مل جاتا اور قرآن مجید کی ایک اصطلاح کے مدعا میں اپنی مرضی سے تبدیلی کرنے کی نوبت بھی نہ آتی۔

اصل بات یہ ہے کہ مذکورہ آیت میں لفظ ’مُشْرِکٰتِ‘ قرآن مجید کے عرف کے مطابق مشرکات بنی اسماعیل ہی کے لیے استعمال ہوا ہے، مگر اس بات کو مان لینے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیا مسلمان مردوں کے لیے مجوسی عورتوں کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہے؟ ہمارے نزدیک ایسا نہیں ہے۔ دیکھیے، سورۂ ممتحنہ میں ارشاد ہے:

وَلَا تُمْسِکُوْا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ. (۶۰: ۱۰)
’’اور کافر عورتوں کے ناموس اپنے قبضے میں نہ رکھو۔‘‘

غور کیجیے تو اس سورہ میں بھی اگرچہ کلام کے سیاق و سباق میں کَوَافِر‘ سے مشرکین عرب ہی مراد ہیں، تاہم یہاں پر ایک ایسا لفظ استعمال کیا ہے جسے دوسرے منکرین رسالت پر بھی پھیلایا جا سکتا تھا۔ چنانچہ اس آیت نے تمام غیر مسلم عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے یا نکاح کا تعلق جاری رکھنے میں ایک رکاوٹ کھڑی کر دی۔ اس کے بعد آخری دور میں جب پورے جزیرہ نماے عرب پر اسلام کا غلبہ قائم ہو گیا تو اللہ نے اہل کتاب کی عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے کو جائز قرار دے دیا۔ ارشاد ہے:

اَلْیَوْمَ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ وَطَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمْ وَطَعَامُکُمْ حِلٌّ لَّہُمْ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِن قَبْلِکُمْ.(المائدہ ۵: ۵)
’’اب تمھارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں اور اہل کتاب کا کھانا تمھارے لیے حلال ہے اور تمھارا کھانا ان کے لیے حلال ہے اور شریف عورتیں مسلمان عورتوں میں سے اور شریف عورتیں ان (اہل کتاب) میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب ملی،( تمھارے لیے حلال ہیں)۔‘‘

چنانچہ اس پوری بات پر اچھی طرح سے غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ یہ فقہی راے غلط نہیں ہے، تاہم اس کو صحیح ثابت کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ بقرہ (۲) کی آیت ۲۲۱میں’ مُشْرِکٰتِ‘ کے لفظ کو مشرکات بنی اسماعیل کے علاوہ بھی کسی کے لیے مانا جائے۔

____________

B