HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Moiz Amjad

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

ڈاکٹر تسنیم احمد کی خدمت میں

ڈاکٹر تسنیم احمد صاحب نے اپنے مضمون میں جو باتیں فرمائی ہیں، ان کا تجزیہ کرنے سے پہلے ہم یہاں چند گزارشات کرنا چاہتے ہیں۔

ان میں سب سے پہلی اور بنیادی بات جسے یقیناً ڈاکٹر صاحب ہم سے زیادہ جانتے ہوں گے، وہ یہ ہے کہ ہم سب کی جدوجہد اور کاوش کا اصل مقصد بہرحال حق کو جاننا اور جس بات کو ہم حق سمجھیں، اس کے آگے سر تسلیم خم کرنا ہی ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنا رخ سیدھا رکھنا چاہیے اور اپنے ساتھ اختلاف رکھنے والوں کے بارے میں یہ حسن ظن رکھنا چاہیے کہ وہ محض اختلاف کرنے کی غرض سے اختلاف نہیں کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے دیانت دارانہ مطالعہ اور غور و فکر کے نتائج ہم سے مختلف ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے غور و فکر کا طریقہ ہی ہم سے مختلف ہو۔ اور ہو سکتا ہے کہ انھی کی بات صحیح ہو۔ اگر یہ بات ہمارے ذہن میں نہیں ہے تو ہماری ہر بحث ایک مناظرہ بن جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں یہ تو ہو سکتا ہے کہ کوئی ایک فریق فتح یاب ہو جائے، مگر بالعموم علم اور حلم، دونوں ہی شکست کھا جاتے ہیں۔

دوسرے یہ کہ کسی بھی معاملے میں کسی کی راے پر تنقید کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اس کا نقطۂ نظر پوری طرح سے سمجھ لیا جائے۔ اگر ایسا نہ ہو تو علمی مباحثوں کا ایک سلسلہ تو شروع ہو سکتا ہے، کسی حق کو تلاش کرنے کی جستجو کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ہمیں اگر کسی کی بات پوری طرح سے سمجھ میں نہ آ رہی ہو تو ہمارا کام یہ ہے کہ ہم اس کے بارے میں سوال کر کے اس سے اس کی بات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس کے بعد ہی ہم اس قابل ہو سکتے ہیں کہ کسی کے نقطۂ نظر پر فی الواقع کوئی تنقید کر سکیں۔

تیسرے یہ کہ کسی کی راے پر تنقید کرتے ہوئے ہمیں انصاف کا دامن کسی حال میں ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے۔ اپنے مخالف کی طرف ہمیں بس اتنی ہی بات منسوب کرنی چاہیے، جتنی وہ خود کہتا ہے۔ اس کی بات میں اپنی طرف سے کوئی اضافہ کرنا دینی اور علمی لحاظ سے کوئی اچھا عمل نہیں کہلائے گا۔

کسی کی راے پر تنقید کرتے ہوئے ہمیں اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ہم اس امت کے افراد ہیں جس پر اللہ تعالیٰ نے دنیا کی دوسری قوموں کے سامنے حق کی گواہی دینے کی ذمہ داری ڈالی ہے۔ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم ہر حال میں عدل و قسط پر قائم رہیں۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ عدل کی بات خود ہمارے ہی لیے نقصان دہ ثابت ہو، مگر ہمارا ایمان بہرحال ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہم عدل و قسط کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ ارشاد ہے:

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ. (النساء ۴: ۱۳۵)
’’اے ایمان والو، انصاف پر قائم رہنے والے بنو، اللہ کے لیے اس کی شہادت دیتے ہوئے، اگرچہ اس کی زد خود تمھاری اپنی ذات، یا تمھارے والدین اور تمھارے اقربا ہی پر پڑے۔‘‘

ان مختصر گزارشات کے بعد ہم سب سے پہلے ڈاکٹر صاحب سے یہ شکوہ کرنا چاہتے ہیں کہ انھوں نے اپنے مضمون میں ایسی باتوں کا ذکر کیا ہے جو ہم نے سرے سے کہی ہی نہیں اور نہ وہ ہمارے خیال میں ہماری کسی بات سے مترشح ہی ہوتی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

’’... تاہم شرک ایک ایسا جرم ہے کہ کوئی غیر مسلم کرے تو وہ تو مسلمانوں کی نظر میں فوراً مشرک قرار پا جاتا ہے، لیکن اگر وہی شرک کوئی مسلمان کرے تو زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں۔ ناواقف اور عامیوں کی تو بات چھوڑیے، قوم کے بڑے بڑے علامہ اور مفکرین تک یہ برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے کہ اسے مشرک جانیں۔ فوراً سوالات اٹھتے ہیں:کیا ایک مسلمان مشرک ہو سکتا ہے؟ کیا کلمہ گو کو مشرک کہا جا سکتا ہے؟ کیا اس نے اپنے اس شرک کے لیے کوئی تاویل تو نہیں کی؟ وغیرہ وغیرہ۔‘‘

اس کے بعد وہ مزید لکھتے ہیں:

’’... پھر ہمارے مفکرین، مفسرین، داعیان تحریک، علم برداران دعوت اور علامہ ہاے دہر اپنی تمام علمی اور ذہنی صلاحیتیں اس بات کو ثابت کرنے میں خرچ کر دیتے ہیں کہ مسلمان کو کسی حال میں مشرک کہا ہی نہیں جا سکتا۔ جناب مسلمان تو ایسا پکا موحد (Monotheist) ہوتا ہے کہ وہ شرک کر کے بھی مشرک (Polytheist) نہیں ہو سکتا، جیسے بعض صوفیا کے پکے روزے کھانے پینے سے بھی نہیں ٹوٹتے، مشرک تو بت پرستوں (Idolaters) کو کہتے ہیں ،مشرک تو جناب! بس اہل مکہ تھے جو گزر گئے۔‘‘

ان دونوں اقتباسات میں ڈاکٹر صاحب نے جو بات فرمائی ہے، وہ ہماری بات ہی نہیں ہے۔ ہم نے خود اپنی راے کا خلاصہ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اپنے ایک مراسلے میں اس طرح سے کیا تھا:

’’بنی اسماعیل کا معاملہ یہود و نصاریٰ جیسا نہیں تھا۔ وہ کسی تاویل، کسی غلط فہمی یا کلامی قسم کی موشگافیوں کی وجہ سے شرک میں ملوث نہیں ہوئے تھے۔ اس کے برعکس وہ شرک ہی کو اپنا مذہب مانتے تھے۔ چنانچہ اسی اصول پر آج بھی، دینی لحاظ سے، ہمارے نزدیک مشرک کا لفظ آپ ایسے ہی افراد یا قوموں کے لیے استعمال کر سکتے ہیں جو شرک کو بحیثیت ایک مذہب کے اپنائے ہوئے ہوں۔ اس لحاظ سے، ہمارے نزدیک کوئی مسلمان، یہودی یا عیسائی گروہ مشرک نہیں، اگرچہ ان میں بہت سی گمراہیاں اور شرکیہ عقائد در آئے ہیں۔... ہمارے نزدیک مسلمان، یہودی یا عیسائی شرک کے مرتکب تو ہو سکتے ہیں، ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں، لیکن قرآن کی اصطلاح میں وہ بہرحال مشرک نہیں ہو سکتے۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، اپریل ۱۹۹۷ء، ۷۰۔۷۱)

غور کیجیے تو اسی ایک اقتباس سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ ڈاکٹر صاحب جو بات فرما رہے ہیں، وہ ہماری بات ہی نہیں ہے۔

ہم ڈاکٹر صاحب سے یہ مودبانہ گزارش کریں گے کہ وہ ہمارے دلائل کا علمی تجزیہ کر کے ہم پر ان کی غلطی کو واضح فرمائیں۔ ہم خدا کو گواہ بنا کر ڈاکٹر صاحب کو یقین دلاتے ہیں کہ جونہی ہماری غلطی ہم پر واضح ہو جائے گی، ہم اپنی راے سے اعلان براء ت کر دیں گے، لیکن ڈاکٹر صاحب اگر اس قسم کی باتیں ہماری طرف منسوب کریں گے جو ہم نے کہی ہی نہیں ہیں تو اس سے کوئی خاص فائدہ حاصل ہونے کی توقع نہیں ہے۔

ڈاکٹر صاحب کے مضمون کا اصل نکتہ یہ ہے کہ ہر شرک کرنے والا، عربی زبان کے عام قاعدے کے مطابق مشرک کہلائے گا۔ ان کے نزدیک ہماری یہ راے صحیح نہیں ہے کہ قرآن مجید میں ’مشرک‘ کا لفظ مشرکین عرب ہی کے لیے آیا ہے۔ ان کے نزدیک قرآن مجید میں لفظ’ مشرک‘ ایک اصطلاح کے طور پر بھی آیا ہے اور محض ایک اسم فاعل کے طور پر اپنے لغوی معنوں میں بھی آیا ہے۔ جہاں یہ ایک اصطلاح کے طور پر آیا ہے، وہاں بے شک اس سے مشرکین عرب ہی مراد ہیں، لیکن جہاں یہ اپنے لغوی معنی میں آیا ہے، وہاں اس سے ایسے تمام لوگ اور گروہ مراد ہوتے ہیں جو شرک کے مرتکب ہوں۔

ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون میں بنیادی طور پر دوطرح کی باتیں فرمائی ہیں: ایک اس معاملے میں ان کا استدلال ہے اور دوسرے ہماری راے پر ان کے بعض اعتراضات اورسوالات ہیں۔ یہاں ہم ایک ترتیب کے ساتھ پہلے ان کے استدلال کا جائزہ لیں گے اور اس کے بعد اس ضمن میں ان کے اعتراضات اور سوالوں پرغور کریں گے۔ دعا ہے کہ اللہ ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت دے، ہمارے ذہن کو حق قبول کرنے اورہمیں صحیح بات کوسمجھنے اور اس کے آگے سر تسلیم خم کرنے کی توفیق دے۔

ڈاکٹر صاحب نے اپنی بات کے حق میں جو دلائل دیے ہیں، انھیں یہاں ہم ایک ترتیب کے ساتھ نقل کر کے ان کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر واضح کریں گے۔

۱۔ان کے نزدیک ہماری راے یہ ہے کہ ’’لفظ مشرک قرآن میں اور دینی لٹریچر میں اب اپنے اصل لغوی معنی کھو چکا ہے‘‘۔ اس بات کی تردید میں انھوں نے صاحب ’’احکام القرآن‘‘ کا ایک اقتباس نقل کیا ہے جس میں انھوں نے لفظ ’مشرک‘ سے کوئی خاص گروہ نہیں، بلکہ فی الجملہ سارے شرک کرنے والے مراد لیے ہیں۔

جہاں تک ان کی اس بات کا تعلق ہے، اس کے حوالے سے ہم اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہنا چاہتے کہ اس معاملے میں ہماری یہ راے ہی نہیں ہے کہ ’’لفظ مشرک قرآن میں اور دینی لٹریچر میں اب اپنے لغوی معنی کھو چکا ہے‘‘ ،ہماری راے یہ ہے کہ ’’قرآن مجید میں لفظ ’مُشْرِکُوْنَ‘ بالعموم لام عہد کے ساتھ آیا ہے اور اس کا معہود بنی اسماعیل ہی کے مشرکین ہیں۔‘‘ ہم نے کہیں بھی یہ نہیں کہا کہ صاحب ’’احکام القرآن‘‘ یا دوسرے اہل علم بھی اس لفظ کو انھی معنوں میں استعمال کرتے ہیں جن کا ہم نے ذکر کیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ہمارے فقہا اور علما کے ہاں لفظ ’مشرک‘ ایک اصطلاح کے طور پر نہیں، بلکہ، جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے بیان فرمایا ہے، بالعموم ایک اسم فاعل یا اسم صفت ہی کے طور پر استعمال ہوا ہے اور اس سے انھوں نے بالعموم ایسے تمام افراد یا گروہ مراد لیے ہیں جو اگرچہ اپنی اصل کے اعتبار سے توحید ہی پر قائم ہوں، مگر ان میں کسی وجہ سے شرک در آیا ہو، لیکن ہمارے نزدیک، جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں، قرآن مجید کی رو سے اس لفظ کا یہ استعمال صحیح نہیں ہے۔ قرآن نے اگر اس لفظ کو ایسے ہی لوگوں کے لیے استعمال کیا ہے جو مذہب شرک پر قائم تھے اور دوسرے گروہوں پر اس لفظ کا اطلاق نہیں کیا تو ہمیں بھی اس معاملے میں محتاط ہی رہنا چاہیے۔

۲۔ ان کے نزدیک قرآن مجید میں بھی بہت سے مقامات پر لفظ’ مشرک‘ اپنے لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’... کلام اللہ کے سرسری مطالعے سے یقینی طور پر یہ بات معلوم کی جا سکتی ہے کہ الکتاب میں سوائے معدودے چند مقامات کے یہ لفظ اصطلاحی معنی میں استعمال نہیں ہوا، بلکہ اسم فاعل یا اسم صفت کے طور پر استعمال ہوا ہے۔‘‘

اپنی اس بات کو ثابت کرنے کے لیے انھوں نے بعض ایسے احکام کی مثالیں دی ہیں جن میں اگرچہ لفظ تو ’مشرک‘ ہی استعمال ہوا ہے، مگر اس سے مراد ان کے نزدیک مختلف گروہ ہیں۔ کہیں صرف مشرکین بنی اسماعیل مراد ہیں اور کہیں ان کے ساتھ ساتھ ایسے بعض دوسرے گروہ بھی مراد ہیں جن میں شرک پایا جاتا تھا۔ یہاں، البتہ یہ واضح رہے کہ ڈاکٹر صاحب کو اس بات سے انکار نہیں ہے کہ لفظ ’مشرک‘ قرآن میں اصطلاحاً بھی استعمال ہوا ہے۔ انھیں اس بات سے بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جہاں یہ لفظ ایک اصطلاح کے طور پر استعمال ہوا ہے، وہاں اس سے مراد مشرکین بنی اسماعیل ہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن مجید میں سوائے چند مقامات کے ’مُشْرِکِیْنَ‘ کا لفظ ایک اصطلاح کے طور پر نہیں، بلکہ اپنے لغوی مفہوم میں ایک اسم صفت یا اسم فاعل کے طور پر آیا ہے۔

یہاں ہم ان کی پیش کردہ مثالیں اور ان کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر واضح کریں گے، مگر اس سے پہلے کہ ہم ان مثالوں پر کوئی کلام کریں، اس معاملے میں ڈاکٹر صاحب کی بناے استدلال کے بارے میں ہم ایک بات عرض کرنا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے پورے استدلال کی بنیاد اصلاً فقہا کی کسی راے کو بنایا ہے۔ مثال کے طور پر فقہا کے ہاں یہ بات مسلم ہے کہ مومنہ عورتوں کا نکاح مومن مردوں ہی کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس بات کو مان کر یہ فیصلہ دے دیا ہے کہ چونکہ فقہا یہ راے رکھتے ہیں، اس وجہ سے لازماً قرآن کی آیت ’لَا تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا‘،’’ مشرکوں کو جب تک وہ ایمان نہ لائیں، اپنی عورتیں نکاح میں نہ دو‘‘ (البقرہ ۲: ۲۲۱) میں لفظ ’مُشْرِکِیْنَ‘ محض مشرکین عرب کے لیے نہیں، بلکہ ہر ایسے گروہ کے لیے استعمال ہوا ہے جو کسی نہ کسی پہلو سے شرک کا مرتکب، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ محض غیر مسلم ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر یہ محض مشرکین عرب کے لیے استعمال ہوتا تو فقہا کی یہ راے نہ ہوتی۔ ہمیں حیرت ہے کہ ڈاکٹر صاحب جیسے علمی مزاج رکھنے والے شخص نے اس طرح کا استدلال کیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ڈاکٹر صاحب قرآن کے اس مقام کا تجزیہ کر کے اور ان کے اپنے الفاظ میں، قرآن کے سیاق و سباق اور جملوں کے دروبست کو پیش نظر رکھتے ہوئے مطالعہ کر کے یہ واضح کر دیتے کہ یہاں یہ لفظ کسی طرح بھی صرف مشرکین عرب کے لیے نہیں ہو سکتا، اس میں لازماً تمام غیر مسلم شامل ہوں گے۔ ہم ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اپنی خط کتابت میں قرآن کے ایسے بعض مقامات کا تجزیہ کر کے یہ ثابت کر چکے ہیں کہ ان مقامات پر لفظ’ مشرک‘ لازماً مشرکین بنی اسماعیل ہی کے لیے استعمال ہوا ہے۔ ڈاکٹر صاحب بھی قرآن کے سیاق و سباق اور زبان و بیان کی بنیاد پر اگر کسی ایک مقام کا تجزیہ کر کے یہ ثابت کر دیتے کہ یہاں اس لفظ میں لازماً مشرکین بنی اسماعیل کے علاوہ باقی گروہ بھی شامل ہیں تو ان کا مقدمہ آخری درجے میں ثابت ہو جاتا، مگرانھوں نے کسی ایک مقام پربھی ایسا کرنے کی ز حمت گوارا نہیں کی۔ ان کا سارا استدلال قرآن کے داخل کے بجاے اس کے خارج پر، بلکہ فقہی آرا پر مبنی ہے۔

اس وضاحت کے بعد، اب آئیے ایک ایک کر کے ڈاکٹر صاحب کی محولہ آیات کا تجزیہ کر کے دیکھتے ہیں کہ کیا فی الواقع ان سے ڈاکٹر صاحب کا مقدمہ ثابت ہوتا ہے یا نہیں؟

____________

B