HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Moiz Amjad

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

قرآن میں لفظ ’مشرک‘

ماہنامہ ’’اشراق‘‘ نومبر ۱۹۹۶ء کے شمارے میں ہمارا ایک مضمون ’’اظہاردین ایک خدائی فیصلہ‘‘ شائع ہوا تھا۔ اس مضمون کا اصل مدعا اگرچہ کچھ اور تھا، تاہم اس میں ضمناً ایک بات ہم نے یہ بھی کہی تھی کہ قرآن مجید میں ’مُشْرِکُوْنَ‘ کا لفظ عام طور پر مشرکین بنی اسماعیل ہی کے لیے استعمال ہوا ہے، اس پر محترم ڈاکٹر تسنیم احمد نے ہمیں اپنے بعض اعتراضات بھیجے جو اپریل ۱۹۹۷ء کے شمارے میں شائع کیے گئے، مگر اس مضمون کے شائع ہونے سے پہلے ہی ڈاکٹر صاحب نے ہمیں اپنے کچھ مزید اعتراضات بھی ارسال فرما دیے تھے۔

اس کے بعد جون ۱۹۹۷ء میں ہمیں ڈاکٹر صاحب کی طرف سے یہ خط موصول ہوا:

’’السلام علیکم
امید ہے کہ ہر طرح سے عافیت سے ہوں گے۔ میں نے ۱۹جنوری کو ایک خط آپ کے ۱۳جنوری کے خط کے جواب میں تحریر کیا تھا۔ میں آپ کا ممنون ہوں کہ آپ نے میری ۳۰نومبر کی مراسلت کو جواب کے قابل سمجھا تھا۔ مجھے اس بات کا احساس ہے کہ ایک ماہنامے کا مدیر یقیناًبہت مصروف ہوتا ہے خاص طور پر، جبکہ وہ رسالہ ایک علمی تحریک بھی ہو۔
میں آپ کی جانب سے اپنے دوسرے ۱۹جنوری والے خط کے جواب کا مذکورہ احساس کے ساتھ منتظر رہا۔ غالباً مارچ میں آپ کسی وقت جناب غامدی صاحب کے ساتھ کراچی تشریف لائے تھے تو آپ کو ٹیلی فون پر میں نے یاد دلایا کہ میں آپ کے جواب کا منتظر ہوں، جیسا کہ مجھے یاد آتا ہے، آپ نے ہرگز جواب دینے سے معذرت نہیں کی، تاہم عدیم الفرصتی کا تاثر ضرور میں نے حاصل کیا۔ چونکہ میں بات سمجھنے کا خواہش مند ہوں، اس لیے آپ کے جواب کا منتظر ہی رہا۔ میں مارچ کے اواخر میں حج بیت اللہ کے لیے روانہ ہو کر گذشتہ ماہ واپس آیا اور بہت سے رہ جانے والے کاموں کو نمٹانے کے بعد جب ’’اشراق‘‘ کے شماروں پر نظر ڈالی تو یہ دیکھا کہ آپ نے اپریل کے شمارے میں نامکمل مراسلت شائع فرما دی ہے۔ بلا شبہ آپ مدیر ہیں، رسالے کی ترجیحات آپ خود طے کرتے اور جانتے ہیں، تاہم اگر کسی سلسلۂ مراسلت کا کوئی حصہ آپ شائع کر رہے ہیں تو میری ناقص راے میں آپ قارئین کو ضرور یہ بتائیں کہ آپ کے خط کے جواب میں آپ کو چار ماہ قبل کچھ معروضات وصول ہوئی تھیں جن کا آپ بعد میں کسی وقت جواب دیں گے ’’یا‘‘ آپ جو کچھ اس سلسلے میں تحریر فرما چکے ہیں، وہ کافی شافی ہے۔ مزید خامہ فرسائی تضیع اوقات و اوراق ہے ۔لہٰذا اس سلسلے کو یہاں ختم کیا جا رہا ہے۔
دیکھیے: ہر شخص اپنی ترجیحات کے مطابق اپنے آپ کو زیادہ اہم کاموں میں مصروف رکھنے میں آزاد ہے، اگر آپ میرے خط کے جواب کے لیے فرصت نہیں پاتے تو میں ہرگز ناراض نہیں ہوں گا، تاہم جو لوگ آپ کا رسالہ پڑھنے کی زحمت کرتے ہیں اور پھر کسی موضوع پر آپ سے استفسار کرتے ہیں اور آپ اس سے زیادہ اہم کاموں میں مصروف ہیں تو انھیں یہ بات بتا ضرور دیجیے تاکہ وہ جواب کے انتظار کی زحمت سے بچ جائیں۔
میں اب آپ کے التفات و فراغت کی امید کم پاتا ہوں۔ لہٰذا بغیر آپ کو مخاطب کیے میں نے اس موضوع پر اپنے خیالات کو ترتیب دیا ہے۔ چونکہ آپ سے مراسلت اس کے تحریر کیے جانے کی تحریک بنی اس کی ایک کاپی آپ کو ارسال کر رہا ہوں۔
والسلام علیک،
آپ کا مخلص دعاگو
تسنیم احمد‘‘

ڈاکٹر صاحب کے اس خط کا جواب ہم نے ۱۲جون کو انھیں ارسال کیا۔ اس میں ہم نے لکھا تھا:

’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے، مزاج گرامی بخیر ہوں گے، گرامی نامہ ملا۔ شکرگزار ہوں، اللہ تعالیٰ آپ کا حج قبول فرمائے اور آپ کو دنیا اور آخرت کی نعمتوں سے سرفراز فرمائے۔
مجھے افسوس ہے کہ آپ کے دوسرے خط کا جواب آپ کو نہیں مل سکا۔ میں نے اس مسئلے کی جب تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ اسے میری ہی غلطی کے باعث سپرد ڈاک نہیں کیا جا سکا۔ اس سلسلے میں آپ کو انتظار کی جو زحمت اٹھانا پڑی اور جس ذہنی اذیت سے گزرنا پڑا، میں تہ دل سے اس پر معذرت خواہ ہوں۔
آپ نے اس بات پر بھی مجھے توجہ دلائی ہے کہ’ ’اشراق‘‘ اپریل کے شمارے میں آپ کے ساتھ ہونے والی جو مراسلت شائع کی گئی ہے، وہ چونکہ نامکمل تھی اور اس کے نامکمل ہونے کا مجھے علم بھی تھا، اس لیے اسے شائع نہیں ہونا چاہیے تھا یا اس کے ساتھ یہ نوٹ ہونا چاہیے تھا کہ یہ مراسلت ابھی جاری ہے۔ میں اس بات پر بھی غیر مشروط طور پر آپ سے معافی کا خواستگار ہوں۔ آپ یقین جانیے کہ یہ محض ایک سہو ہے، جو مجھ سے ہوا۔ خدا گواہ ہے کہ اپنی بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا محرک اس کا باعث نہیں بنا۔ یہ ایک غلطی ہے اور میں اس غلطی پر اللہ تعالیٰ سے، آپ سے اور اپنے تمام قارئین سے معافی مانگتا ہوں۔
آپ کے مضمون کا مطالعہ کیا ہے، اس میں آپ کے استدلال پر غور کیا ہے۔ اس کے بارے میں میری معروضات ان شاء اللہ بہت جلد ’’اشراق‘‘ کے صفحات کے ذریعے سے آپ کو مل جائیں گی۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری غلطیوں سے درگذر فرمائے اور ہمیں اپنے انعام پانے کا اہل بننے کی توفیق عطا فرمائے۔
دعاگو
معز امجد‘‘

ڈاکٹر صاحب کا مضمون اور ہماری طرف سے اس کا جواب افادۂ عام کے لیے شائع کیا جا رہا ہے۔ پچھلے مباحث کو بھی اگر سامنے رکھا جائے تو قرآن فہمی کے حوالے سے یہ ایک اہم بحث قرار پا سکتی ہے۔

اس ضمن میں چند دوسرے خطوط بھی ہمیں موصول ہوئے تھے، مگر ان میں بھی چونکہ بہت حد تک وہی اعتراض کیے گئے تھے جو ڈاکٹر صاحب نے کیے ہیں، اس وجہ سے ہم نے انھیں شائع نہیں کیا۔ ان تمام خطوط کا مطالعہ کرنے سے ہمیں یہ محسوس ہوا کہ ہم اپنا نقطۂ نظر پوری طرح سے واضح نہیں کر پائے۔ ان خطوط میں بالعموم جو باتیں کہی گئی ہیں، وہ تین معاملات سے متعلق ہیں: ایک یہ کہ ہماری تحریر سے قارئین کو یہ تاثر ملا ہے کہ ہم مسلمانوں اور دوسرے موحدین کے شرک کو شرک ہی نہیں سمجھتے۔ دوسرے یہ کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم مشرکین عرب ہی کے شرک کو آخرت کے حوالے سے قابل مواخذہ سمجھتے ہیں اور تیسرے یہ کہ مشرکین عرب اور دوسرے گروہوں کے شرک میں کسی قسم کا فرق نہیں ہے۔ مشرکین بنی اسماعیل بھی توحید سے خوب واقف تھے۔ جب مشکل میں پڑتے تو پکے موحد بن کر خدا کو پکارتے۔ وہ اپنے جن دیوتاؤں کی پوجا کرتے، ان کے بارے میں کہتے تھے کہ ہم ان کی عبادت نہیں کرتے، بلکہ یہ تو ہمارے سفارشی ہیں۔ ان کا تلبیہ بھی ان کے اسی عقیدے کی نشان دہی کرتا ہے کہ وہ توحید کا اقرار کرتے اور پھر تاویل کر کے اس سے منحرف ہو جاتے تھے۔ مشرکین مکہ کے شرک کی ان خصوصیات کو سامنے رکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے، یہود و نصاریٰ کے اور آج کل کے نام نہاد مسلمانوں کے شرک میں کوئی فرق نہیں ہے۔ پھر قرآن نے جو احکام مشرکین کے لیے دیے ہیں، ان کا اطلاق آخر دوسرے گروہوں پر کیوں نہ کیا جائے؟

جہاں تک پہلی اور دوسری بات کا تعلق ہے، اس معاملے میں ہم ایک مرتبہ پھر یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ جانتے بوجھتے ہوئے اللہ کا شریک ٹھہرانا ایک ناقابل معافی جرم ہے، اس غلاظت میں یہود ملوث ہوں، نصاریٰ یا مسلمان، یہ بہرحال ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ البتہ ہم اپنے آپ کو اس کا مجاز نہیں سمجھتے کہ یہ فیصلہ سنائیں کہ آخرت میں کس کی کتنی پکڑ ہو گی۔ ہم نے اپنی تحریروں میں جو کچھ کہا ہے، وہ اتنا ہی ہے کہ قرآن مجید میں ’’مشرک‘‘ کا لفظ صرف مشرکین بنی اسماعیل ہی کے لیے آیا ہے۔ قرآن نے اگرچہ یہود و نصاریٰ کے شرک کی نشان دہی کی ہے اور اسے ان کا ایک ناقابل معافی جرم قرار دیا ہے، مگر اس کے باوجود انھیں کسی ایک مقام پر بھی ’’مشرک‘‘ نہیں کہا۔ ظاہر ہے کہ اگر قرآن انھیں مشرک نہیں کہتا تو ہمیں بھی ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ یہی معاملہ ان مسلمانوں کا بھی ہے جو ظاہر ہے کہ ایک ہی خدا کو مانتے ہیں، مگر بعض ایسے کام کرتے ہیں جو ہماری نظر میں شرک ہیں۔ ایسے گروہوں کو مشرک کہنا نہ صرف قرآن مجید کے حوالے سے درست نہیں ہے، بلکہ علمی طور پر بھی غلط ہے۔ ’’مشرک‘‘ ایسے شخص کو کہتے ہیں جو ایک سے زیادہ خداؤں کے وجود کا قائل ہو اور ان سب کی عبادت کرتا ہو۔ ظاہر ہے کہ اس تعریف کے مطابق مسلمانوں کو، خواہ وہ کسی فرقے سے متعلق ہوں اور یہود و نصاریٰ کو مشرک نہیں قرار دیا جا سکتا۔ جو مسلمان قبروں پر جا کر منتیں مانتے، اپنے مرشدوں کو تعظیمی سجدے کرتے اور اس طرح کے دوسرے شرکیہ اعمال میں ملوث ہیں، ان سے پوچھ کر دیکھیے تو معلوم ہو گا کہ ان سے بڑھ کر توحید کا شیدائی اور کوئی نہیں ہے۔ وہ بھی خدا کے شریک ٹھہرانے کو ایک ناقابل معافی جرم سمجھتے ہیں۔ وہ یہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ وہ خود اس قسم کے گھناؤنے جرم میں ملوث ہیں۔ اس میں شبہ نہیں ہے کہ ہماری نظر میں بھی اس قسم کے سارے اعمال شرک یا شرک کی طرف لے جانے والے ہیں، مگر اس کے باوجود ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ مسلمان جانتے بوجھتے خدا کے شریک ٹھہراتے ہیں، اس وجہ سے بھی ہمارے نزدیک انھیں مشرک نہیں قرار دیا جا سکتا۔

جہاں تک ہماری اس بات کا تعلق ہے کہ قرآن مجید نے چونکہ ایسے لوگوں کو مشرک نہیں کہا، اس وجہ سے ہمیں بھی ان پر ایسے احکام کا اطلاق نہیں کرنا چاہیے جو قرآن میں مشرکین کے لیے بیان ہوئے ہیں تو اس سے یہ بات ہرگز نہیں نکلتی کہ آخرت میں ان لوگوں کی پکڑ میں کوئی کمی ہو گی۔ اس سے صرف یہ بات نکلتی ہے کہ مشرکین سے متعلق احکام کا اطلاق ان لوگوں پر نہیں ہو گا۔

مثال کے طور پر اس کے معنی یہ ہیں کہ سورۂ بقرہ (۲)کی آیت ۲۲۱میں مشرکین اور مشرکات سے نکاح کی جو ممانعت آئی ہے، سورۂ توبہ (۹)کی آیت ۲۸میں مسجد حرام میں مشرکین کے داخلے کی ممانعت کا جو حکم آیا ہے، توبہ (۹) ہی کی آیت ۳۱۱میں مشرکین کے لیے مغفرت مانگنے کی جو ممانعت آئی ہے یا سورۂ نور(۲۴) کی آیت ۳میں زانی اور زانیہ کے مشرکین کے ساتھ نکاح کا جو معاملہ زیر بحث آیا ہے، اس کا اطلاق یہود و نصاریٰ یا ایسے مسلمانوں پر نہیں ہو گا جو کسی غلطی یا غلط فہمی کے باعث شرک میں ملوث ہو گئے ہوں۔ یہ احکام مشرکین سے متعلق ہیں، ان کا اطلاق ایسے موحدین پر نہیں کیا جائے گا جو یہود و نصاریٰ کی طرح کسی غلطی کے باعث شرک میں ملوث ہو گئے ہوں، خاص طور پر، جبکہ قرآن نے یہود و نصاریٰ کے شرک پر تبصرہ کرنے کے باوجود انھیں مشرکین کے زمرے میں شامل نہیں کیا ہے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ یہود و نصاریٰ اور آج کل کے ’’نام نہاد‘‘ مسلمانوں کے شرک میں اور مشرکین عرب کے شرک میں کوئی خاص فرق نہیں تھا تو اسے ہم فی الحال تسلیم کر لیتے ہیں۔ اصل بات شرک کے مختلف ہونے کی نہیں، بلکہ عقیدے کے اختلاف کی ہے۔ مشرکین عرب دوسری ہستیوں کو خدا کا شریک مانتے تھے، جبکہ یہود ونصاریٰ اور آج کل کے ’’نام نہاد‘‘ مسلمان اس طرح کے کسی عقیدے کے قائل نہیں ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ وہ بہت سی ایسی باتیں مانتے ہیں جو ہمارے نزدیک اپنے نتیجے کے اعتبار سے شرک قرار پا سکتی ہیں، مگر وہ ان میں سے کسی چیز کو بھی شرک سمجھ کر اختیار نہیں کیے ہوئے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ تمام چیزیں اختیار کرنے سے ان کے عقیدۂ توحید پر کوئی زد نہیں پڑتی۔

ہمارے معترضین نے یہ بھی لکھا ہے کہ مشرکین عرب بھی توحید سے خوب واقف تھے۔ جب وہ مشکلات میں گھر جاتے تو باقی سب کو بھول کر صرف خدا ہی کو مدد کے لیے پکارتے۔ اپنے معبودوں کے بارے میں وہ یہ کہتے تھے کہ ہم ان کی عبادت نہیں کرتے، بلکہ یہ تو ہمارے سفارشی ہیں اور اپنے تلبیہ میں بھی توحید کے اقرار کے بعد تاویل کر کے شرک کرتے تھے۔

ہمارے نزدیک یہ ساری ہی باتیں اگرچہ قرآن مجید اور دوسرے ناقابل تردید ذرائع سے ماخوذ ہیں، مگر انھیں صحیح طرح سے سمجھا نہیں گیا۔ ہم یہاں ان تمام باتوں کا صحیح محل واضح کر کے انھی کے ذریعے سے یہ بتائیں گے کہ مشرکین عرب کے عقائد میں اور یہود و نصاریٰ اور آج کل کے ’’نام نہاد‘‘مسلمانوں کے عقائد میں کیسا واضح فرق موجود تھا۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مشرکین مکہ توحید سے خوب واقف تھے، تو اس سے کوئی خاص فرق واقع نہیں ہوتا۔ ہم نے اپنی تحریروں میں کہیں بھی یہ نہیں کہا کہ مشرکین بنی اسماعیل توحید سے واقف نہیں تھے۔ وہ بلا شبہ توحید سے واقف تھے، مگر اس واقفیت کے باوجود شرک کو ایک عقیدے کے طور پر مانتے تھے۔ وہ یہ مانتے تھے کہ زمین و آسمان کا خالق اللہ ہے۔ وہ یہ بھی مانتے تھے کہ انھیں اللہ نے پیدا کیا ہے۔ وہ اس بات پر بھی ایمان رکھتے تھے کہ بارش اللہ برساتا ہے، مگر ان سب باتوں کو ماننے کے ساتھ ساتھ وہ یہ عقیدہ بھی رکھتے تھے کہ اللہ نے اپنے شریک بنا رکھے ہیں۔ وہ یہ دعویٰ کرتے تھے کہ یہی ان کے آبا و اجداد اور خاص طور پر حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا عقیدہ تھا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ یہود و نصاریٰ اور آج کل کے ’’نام نہاد‘‘ مسلمانوں میں سے کون ہے جو یہ کہتا ہو کہ خدا نے اپنے شریک بنا رکھے ہیں۔ اس حوالے سے اگر کوئی ہمیں ایسے کسی مسلمان، یہودی یا نصرانی گروہ کا پتا بتا دے تو ہم اس کے ممنون ہوں گے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مشرکین جب مشکلات میں گھر جاتے تھے تو اپنے باقی سب دیوتاؤں کو بھول کر خداے واحد ہی کو مدد کے لیے پکارتے تھے تو اس کا تعلق ان کے عقیدے سے نہیں، بلکہ اس بات سے ہے کہ آدمی کی فطرت خود گواہ ہے کہ وہ ایک ہی خدا کا بندہ، ایک ہی رب کا محتاج اور ایک ہی خالق کی تخلیق ہے۔ قرآن مجید میں یہ بات اسی حوالے سے آئی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ مشرکین اور دوسرے گروہوں کے عقائد میں کوئی خاص فرق نہیں تھا۔

اسی طرح یہ جو کہا گیا ہے کہ مشرکین اپنے معبودوں کے بارے میں یہ کہتے تھے کہ ہم ان کی عبادت نہیں کرتے، بلکہ یہ ہمارے سفارشی ہیں تو یہ قرآن کی بات کو غلط سمجھا گیا ہے۔ اس طرح کی آیات میں عبادت کی نفی نہیں کی گئی،بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ ہم ان کی عبادت صرف اس مقصد سے کرتے ہیں کہ ہمیں ان کے ذریعے سے خدا کا قرب حاصل ہو۔ اس کے برعکس آج کل کے ’’نام نہاد‘‘ مسلمان اپنی قبر پرستی اور دوسرے اعمال کو عبادت کے زمرے کی چیز ہی نہیں سمجھتے۔

اسی طرح مشرکین کے تلبیہ سے بھی ان کے توحید پرست ہونے کا نہیں، ان کے مشرک ہی ہونے کا پتا چلتا ہے۔ ان کا تلبیہ یہ نہیں تھا کہ خدا کے کوئی شریک نہیں ہیں، بلکہ یہ تھا کہ صرف وہی ہستیاں خدا کی شریک ہیں جنھیں خود خدا نے اپنا شریک بنایا ہے۔ ہمارے علم کی حد تک آج کل کے ’’نام نہاد‘‘ مسلمان اس قسم کا کوئی عقیدہ نہیں رکھتے اور نہ اپنے تلبیہ میں اس قسم کی کوئی بات ہی کہتے ہیں۔

اصل بات وہی ہے جس کی طرف ہم پہلے بھی اشارہ کر چکے ہیں کہ مشرکین عرب مذہب شرک پر قائم تھے۔ انھوں نے خدا کے شریک بنائے ہوئے تھے۔ وہ یہ تو مانتے تھے کہ اللہ تمام معبودوں میں سب سے بڑا ہے، مگر پورے زور سے یہ دعویٰ بھی کرتے تھے کہ اس نے اپنی خدائی میں دوسروں کو بھی شریک کر رکھا ہے۔ وہ اپنے ان عقائد کو توحید کا نام نہیں دیتے تھے۔ ان کے نزدیک یہ سب کچھ ماننا شرک تھا اور وہ اسی شرک کو اپنا دین سمجھتے تھے۔ ظاہر ہے کہ دوسرے تمام گروہوں کے عقائد کا معاملہ یہ نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں مشرکین بنی اسماعیل ہی کو ’’مشرک‘‘ کہا گیا ہے۔ یہود و نصاریٰ اور دوسرے گروہوں کو ان میں پائے جانے والے شرک کی نشان دہی کرنے کے باوجود قرآن نے کسی بھی مقام پر ’’مشرک‘‘ نہیں کہا۔

[۱۹۹۷ء[

____________

B