HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Moiz Amjad

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

قرآن میں ’الْمُشْرِکُوْنَ‘ کا لفظ

۳۰؍ نومبر ۱۹۹۶ء

محترم معز امجد صاحب،

السلام علیکم،

ماہنامہ ’’اشراق‘‘ نومبر ۱۹۹۶ء میں چھپنے والا آپ کا فکر انگیز مضمون ’’اظہار دین --- ایک خدائی فیصلہ‘‘ میرے سامنے ہے۔ اس کے مطالعے نے میرے ذہن میں متعدد سوالات کو جنم دیا ہے۔ فی الوقت اس مضمون سے پیدا ہونے والی ایک الجھن آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں کہ یہی آپ کے مضمون کا بنیادی استدلال بنتی ہے۔

آپ فرماتے ہیں: ’’قرآن مجید پر تدبر کی نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ’المشرکون‘ کا لفظ بنی اسماعیل کے لیے ایک اسم علم کے طور پر آیا ہے۔‘‘ ( ۳۵۔ ۳۶)۔ پھر محترم جناب اصلاحی صاحب کا حوالہ دینے کے بعد تحریر کیا ہے:’’قرآن مجید کے لفظ ’المشرکون‘ کے بنی اسماعیل کے لیے خاص ہونے کے نتیجے میں آپ سے آپ یہ بات لازم آتی ہے۔...‘‘ ( ۳۶)۔ اس طرح آپ کا یہ موقف سامنے آتا ہے کہ قرآن مجید میں لفظ ’المشرکون‘ صرف مشرکین بنی اسماعیل ہی کے لیے آیا ہے۔ اس بات کو آپ نے انتہائی وضاحت سے تحریر کیا ہے اور اس بات کو تسلیم نہ کرنے والوں سے مطالبہ کیاہے کہ وہ ثابت کریں کہ ’قرآن مجید میں الْمُشْرِکُوْنَ‘ کسی خاص قوم یا گروہ کے لیے نہیں، بلکہ محض شرک کرنے والوں کے معنی میں آیا ہے۔‘‘ ( ۳۷)۔ دیکھیے میں کچھ ثابت نہیں کرنا چاہ رہا ہوں، تاہم بات سمجھنا چاہتا ہوں۔

قرآن مجید میں لفظ ’المشرکون‘ صرف تین مقامات پر آیا ہے۔ ان تین میں سے دو مقامات (الصف ۶۱: ۹ اور التوبہ ۹: ۳۳) پر تو آپ نے گفتگو فرما لی، اس کا تیسرا مقام سورۂ توبہ (۹) کی آیت ۲۸ہے۔ پہلی دو آیات پر نظم اور پس منظر کے حوالے سے جو کچھ آپ نے تحریر کیا ہے، اس کو بہت زیادہ تقویت پہنچے گی، اگر آپ سورۂ توبہ کی آیت ۲۸میں لفظ ’المشرکون‘ کا مفہوم ’’مشرکین بنی اسماعیل‘‘ ہی تک محدود کر کے اس آیت کے مقتضیات کو، جو امت کے فقہا نے دوراول سے آج تک اخذ کیے ہیں، ثابت فرما دیں یا ان کے غلط ہونے پر اپنا استدلال پیش کر دیں۔

لفظ ’الْمُشْرِکُوْنَ‘ کے علاوہ ’مشرکون‘ بھی کلام اللہ میں تین مقامات پرآیا: ’وَاِنْ اَطَعْتُمُوْہُمْ اِنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْنَ‘ (الانعام ۶:۱۲۱)، ’وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُہُمْ بِاللّٰہِ اِلَّا وَہُمْ مُّشْرِکُوْنَ‘ (یوسف ۱۲: ۱۰۶) اور ’اِنَّمَا سُلْطٰنُہٗ عَلَی الَّذِیْنَ یَتَوَلَّوْنَہٗ وَالَّذِیْنَ ہُمْ بِہٖ مُشْرِکُوْنَ‘ (النحل ۱۶: ۱۰۰)۔ آپ کی مزید بڑی عنایت ہو گی، اگر آپ اس بات پر بھی روشنی ڈال سکیں کہ ان تینوں آیات میں جن لوگوں کو مشرک کہا گیا ہے، وہ لازمی طور پر مشرکین بنی اسماعیل یا ان ہی کی طرح الہامی کتب اور عقیدۂ آخرت کے انکاری مشرک ہیں یا ان آیات کا مصداق کوئی بھی ہو سکتا ہے، خواہ وہ یہودی ہو یا نصرانی یا مسلم۔

لفظ ’المشرکون‘ کا بنی اسماعیل کے لیے اسم علم ہونا تسلیم، تاہم اگر کوئی فرد یا کوئی گروہ من حیث المجموع شرکیہ عقائد و اعمال میں ’شٰہِدِیْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ‘ کا مصداق ہو تو کیا وہ یہود و نصاریٰ کی طرح مشرک قرار پائے گا یا نہیں، خواہ اسے پہچان کی خاطر کسی بھی اسم علم یا لقب سے خطاب کیا جائے؟

آپ کا مخلص

تسنیم احمد

_______

۱۳؍ جنوری ۱۹۹۷ء

محترم ڈاکٹر تسنیم احمد صاحب،

السلام علیکم و رحمۃ اللہ،

آپ کا گرامی نامہ ۱۰؍ دسمبر۱۹۹۶ء کو موصول ہوا۔ بعض اہم مصروفیات کے باعث جواب میں اتنی تاخیر ہوئی، معذرت قبول فرمائیے۔

ہمیں یہ جان کربڑی خوشی ہوئی کہ آپ نے ہمارے مضمون کو اتنی اہمیت دی اور اسے اپنی توجہ کے لائق سمجھا۔ آپ نے ہماری بات کو بہت حد تک صحیح سمجھا ہے۔ البتہ اپنی بات میں اتنی ترمیم ہم کرنا چاہیں گے کہ جو بات بیان کرنی ہمارے پیش نظر ہے، وہ دراصل یہ ہے کہ قرآن مجید میں لفظ مُشْرِکُوْنَ‘ بالعموم لام عہد کے ساتھ آیا ہے اور اس کا معہود بنی اسماعیل ہی کے مشرکین ہیں۔ اس ترمیم سے اگرچہ ہمارے مدعا میں کوئی خاص فرق واقع نہیں ہوتا، تاہم ہمیں اعتراف ہے کہ اسم علم کی تعبیر، ہمارا یہ مدعا بیان کرنے کے لیے فنی لحاظ سے درست نہیں تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ وضاحت بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارے نزدیک محض ’الْمُشْرِکُوْنَ‘ ہی نہیں، بلکہ اس لفظ کی تمام صورتوں، یعنی ’الْمُشْرِکْ‘، ’الْمُشْرِکَۃُ‘ ، ’الْمُشْرِکِیْنَ‘ اور ’الْمُشْرِکُوْنَ‘ پر اس اصول کا اطلاق ہوتا ہے۔ یہ الفاظ قرآن میں مجموعی طور پر ۲۹جگہوں پر آئے ہیں۔ آپ نے ان میں سے چار مقامات کے حوالے سے یہ دریافت فرمایا ہے کہ ان کے بارے میں بھی کیا ہم یہی سمجھتے ہیں کہ یہاں یہ بنی اسماعیل ہی کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔

آپ کے اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ہم ایک بات کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں۔ دیکھیے: اس میں تو شبہ نہیں کہ عربی زبان میں ’الف لام‘ ایک سے زیادہ معانی کے لیے آتا ہے۔ یہ معلوم ہے کہ’ الف لام‘ جنس کا بھی ہو سکتا ہے اور عہد کا بھی، لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ایک کلام میں ہم اپنی خواہش سے جہاں چاہیں، یہ کہہ سکتے ہیں کہ فلاں ’الف لام‘ جنس کے لیے ہے اور فلاں عہد کے لیے۔ اس بات کا تعین کلام کے سیاق و سباق، جملوں کے درو بست اور تاویل کی صحت اور اس کے حسن کو سامنے رکھ کر کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی ’الف لام‘ ہمارے نزدیک عہد کا ہے تو آپ یہ سوال تو بے شک کر سکتے ہیں کہ ہم نے یہ نتیجہ کس طرح اخذ کیا ہے۔ کلام کے سیاق و سباق، جملوں کے در و بست اور تاویل کی صحت اور اس کے حسن کو سامنے رکھ کر آپ ہماری راے پر تنقید بھی کر سکتے ہیں، مگر یہ کوئی علمی طریقہ نہیں ہے کہ آپ ہماری بات کے جواب میں یہ فرما دیں کہ عربی نحو میں چونکہ لام صرف عہد ہی کا نہیں ہوتا، جنس کا بھی ہوتا ہے، اس وجہ سے یہ ضروری نہیں کہ یہاں لام عہد کا ہو، یہ جنس کا بھی ہو سکتا ہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ آپ کلام کا تجزیہ کر کے ہمیں یہ سمجھا دیں کہ یہاں کلام کا سیاق و سباق اور جملوں کا در و بست اس سے ابا کرتا ہے کہ لام کو عہد کے لیے مانا جائے۔ لہٰذا یہاں اسے جنس ہی کے لیے ماننا پڑے گا۔

اس توضیح کے بعد، اب سورۂ توبہ (۹) کی آیت ۲۸ کو لیجیے۔ ہم نے اپنے مضمون میں سورۂ توبہ کی آیت ۱سے لے کر آیت ۳۳تک کے مضامین کا خلاصہ پیش کیا ہے۔ اس کو سامنے رکھیے اور سورۂ مذکورہ کی آیت ۱۷۔ ۲۸پر ایک مرتبہ پھر غور فرمائیے۔ ان آیات کے مضامین کا خلاصہ، جیسا کہ ہم نے اسے سمجھا ہے، اس طرح ہے:

’’ان مشرکوں کو، (جن کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ہے) ہرگز یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اب بھی اللہ کی مساجد کے انتظام و انصرام کے نگران رہیں، دراں حالیکہ وہ خود اپنے کفر پر گواہ ہیں۔ مساجد کے انتظام کا حق تو پیغمبر اور آپ کے ان ساتھیوں ہی کا ہے، جو فی الواقع اللہ اور روزآخرت پر ایمان رکھتے ہیں، نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے، اس وجہ سے اب ان مشرکوں کو اس کام سے بے دخل کر دیا جائے گا اور اسے ان لوگوں کو منتقل کر دیا جائے گا جو فی الواقع اس کے حق دار ہیں۔ یہ احمق سمجھتے ہیں کہ حاجیوں کو پانی پلا دینا اور مسجدحرام کا انتظام سنبھال لینا ہی ان کے لیے کافی ہے۔ یہ جان لیں کہ اللہ کے نزدیک اللہ اور آخرت پر حقیقی ایمان رکھنا اور اللہ کی راہ میں جد و جہد کرنا اس سے بہت بڑا کام ہے۔ اے مسلمانو، اللہ یہ خوب جانتا ہے کہ اس کارروائی میں تمھیں اپنے ہی اعزہ و اقارب کے خلاف تلوار اٹھانی ہو گی اور اس میں اپنی جان اور اپنے مال کی قربانی دینی ہو گی، مگر یاد رکھو، اگر تم اس کے لیے تیار نہیں ہو تو اللہ کے نزدیک تمھارے دعویٰ ایمانی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اللہ ایسے بدعہدوں کو کبھی ہدایت نہیں دے گا۔ یاد کرو، اس سے پہلے کتنے نازک موقعوں پر اللہ نے تمھاری مدد کی ہے۔ اس موقع پر بھی وہی تمھاری مدد کرے گا، اس لیے تم اللہ پر ایمان رکھو اور ان مشرکوں کو مسجدحرام سے نکال باہر کرو۔ یہ مشرک بالکل نجس ہیں، اس وجہ سے اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب بھی نہ پھٹکنے پائیں۔‘‘

اس خلاصے سے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سورۂ توبہ (۹) کی آیت ۲۸ میں الْمُشْرِکُوْنَ‘ کس کے لیے آیا ہے۔ جہاں تک آپ کی اس بات کا تعلق ہے کہ اس آیت میں بھی ’الْمُشْرِکُوْنَ‘ سے مراد ہمارے نزدیک اگر مشرکین عرب ہی ہیں تو پھر ہمیں اپنی اس تاویل کے مطابق آیت کے ان مقتضیات کو ثابت کرنا چاہیے جو ’’امت کے فقہا نے دور اول سے آج تک اخذ کیے ہیں۔ یا ان کے غلط ہونے پر استدلال کرنا چاہیے۔‘‘

آپ کی اس بات کے جواب میں ہم یہی عرض کریں گے کہ اس وقت ہمارا اصل مسئلہ قرآن مجید کی ایک آیت کا صحیح مفہوم سمجھنا ہے۔ اور یہ کام ،بے شک اسی بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اسے ہر قسم کے تعصب اور وابستگی سے بالا ہو کر کیا جائے۔ اس کے بعد اگر قرآن مجید کی روشنی میں فقہا کی بات ہی صحیح ثابت ہوتی ہے تو اسے صحیح مانا جائے گا، لیکن اگر ایسا نہیں تو بہرحال ہمیں اسی بات کو صحیح کہنا چاہیے جو قرآن مجید کی روشنی میں صحیح معلوم ہو۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اسی کا مکلف ٹھہرایا ہے۔

البتہ، اتنی بات ہم یہاں ضرور واضح کرنا چاہیں گے کہ اس آیت سے احکام کے استنباط میں فقہا کے مابین کچھ اختلاف پایا جاتا ہے۔جصاص رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’احکام القرآن‘‘ میں اس اختلاف کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:

وقولہ تعالٰی: فلا یقربوا المسجد الحرام بعد عامھم ہذا، قد تنازع معناہ أہل العلم، فقال مالک والشافعی لا یدخل المشرک المسجد الحرام، قال مالک ولا غیرہ من المساجد إلا لحاجۃ من نحو الذمی یدخل إلی الحاکم فی المسجد للخصومۃ. وقال الشافعی یدخل کل مسجد إلا المسجد الحرام خاصۃ، وقال أصحابنا یجوز للذمی دخول سائر المساجد و إنما معنی الآیۃ علی أحد وجہین : إما أن یکون النہی خاصًا فی المشرکین الذین کانوا ممنوعین من دخول مکۃ و سائر المساجد لأنہم لم تکن لہم ذمۃ وکان لا یقبل منہم الا الإسلام أو السیف وہم مشرکوا العرب. او ان یکون المراد منعہم من دخول مکۃ للحج. ( ۳/ ۸۸)
’’اللہ تعالیٰ کے فرمان’’اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب بھی نہ پھٹکیں‘‘کے معنی میں اہل علم نے اختلاف کیا ہے۔ مالک اور شافعی (رحمہ اللہ)کہتے ہیں کہ مشرک مسجد حرام میں داخل نہ ہو۔ مالک کے نزدیک، کوئی مشرک کسی اور مسجد میں بھی داخل نہیں ہو سکتا، الاّ یہ کہ کوئی اہم ضرورت اس کی متقاضی ہو، مثال کے طور پر کوئی ذمی اپنا کوئی جھگڑا لے کر حاکم کے پاس مسجد میں جائے۔ شافعی کے نزدیک یہ پابندی صرف مسجد حرام ہی کی حد تک ہے۔ ہمارے ساتھیوں (یعنی احناف) کے نزدیک ذمی تمام مساجد میں داخل ہو سکتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ آیت کے ان دو میں سے کوئی ایک معنی ہی ہے: یا یہ کہ یہ پابندی انھی مشرکین کے ساتھ خاص ہے جنھیں مکہ اور باقی تمام مساجد میں داخل ہونے سے روکاگیا تھا، کیونکہ ان کے معاملے میں کوئی گنجایش نہیں تھی، وہ اسلام لاتے یا قتل کر دیے جاتے۔ اور یہ مشرکین عرب ہی تھے۔ یا یہ کہ مکہ میں داخلے سے روکنے سے مراد دراصل حج سے روکنا ہے۔‘‘

اس وضاحت کے بعد امید ہے، آپ کا یہ سوال ختم ہو جائے گا، لیکن اگر ایسا نہ ہو یا آپ کی بات سمجھنے میں ہم سے غلطی ہوئی ہو تو ہمیں ضرور لکھیے۔ ہم ان شاء اللہ پوری دیانت داری کے ساتھ آپ کی بات پر غور کریں گے۔

اس کے بعد آپ نے سورۂ انعام (۶) کی آیت ۱۲۱، سورۂ یوسف (۱۲) کی آیت ۱۰۶اور سورۂ نحل (۱۶) کی آیت ۱۰۰ کے حوالے سے یہ دریافت فرمایا ہے کہ ان آیات میں لفظ ’مُشْرِکُوْنَ‘ کے کیا معنی ہیں؟ آپ کے اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ہم اتنی بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ان تینوں مقامات پر یہ لفظ چونکہ اسم نکرہ کی صورت میںآیا ہے، اس وجہ سے اس کا ہماری بحث سے براہ راست تعلق نہیں ہے۔ بہرحال آپ کے سوال کا جواب حاضر خدمت ہے:

وَلاَ تَاْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْْہِ وَاِنَّہٗ لَفِسْقٌ وَاِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلآی اَوْلِیٰٓءِہِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْ وَاِنْ اَطَعْتُمُوْہُمْ اِنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْنَ.(الانعام ۶: ۱۲۱)
’’اور تم وہ چیز نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو۔ اوربے شک، یہ حکم عدولی ہے۔ اور یقیناشیاطین اپنے ساتھیوں کو القا کر رہے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں اور اگر تم ان کا کہا مانو گے تو تم بھی مشرک ہو جاؤ گے۔‘‘

اس آیت کا سیاق و سباق اور پس منظر اگر واضح ہو جائے تو ’اِنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْنَ‘ کے معنی بھی بغیر کسی مشکل کے سمجھ میں آ جائیں گے۔ چنانچہ دیکھیے: اس آیت کا محل واضح کرتے ہوئے مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:

’’اوپر والی آیت میں شرکیہ عقائد کے تحت حرام کی ہوئی چیزوں کو کھانے کا حکم دیا ہے جبکہ ان پر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ اس آیت میں اہل عرب کے عقیدے کی رو سے ان مباح چیزوں کو بھی کھانے کی ممانعت فرما دی جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو۔ مشرکین نے اوپر والی حلت کی طرح اس حرمت پر بھی ہنگامہ اٹھایا۔ اس لیے کہ ان کے ہاں کسی ذبیحہ کی حلت و طہارت کے لیے یہ چیز ضروری نہیں تھی کہ لازماً اس پر اللہ کا نام بھی لیا جائے۔ جس چیز کو وہ حلال و طیب سمجھتے تھے اور ان کے باپ دادا بھی جس کو حلال سمجھتے تھے مسلمانوں کی طرف سے اس کی حرمت کے اعلان سے ان کے مذہبی پندار کو بڑی چوٹ لگی ہو گی اور انھوں نے اپنے عوام کے جذبات مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے کے لیے یہ پروپیگنڈا شروع کیا ہو گا کہ یہ لو، یہ نئے دین والے تو ہم کو اور ہمارے باپ دادا سب کو حرام خور قرار دیتے ہیں، اس لیے کہ ان کے ہاں وہ جانور جائز ہی نہیں جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو۔ ’وَاِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلآی اَوْلِیٰٓءِہِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْ‘ سے ہمارے نزدیک ان کے اسی غوغا کی طرف اشارہ ہے۔ لیکن قرآن نے ان کے اوپر والے غوغا کی طرح ان کے اس غوغا کی بھی کوئی پروا نہیں کی، بلکہ صاف فرمایا کہ’اِنَّہٗ لَفِسْقٌ‘ کہ جس جانور پراللہ کا نام نہ لیا گیا ہو، اس کو کھانا فسق ہے اور مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ ’وَاِنْ اَطَعْتُمُوْہُمْ اِنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْنَ‘ اگر تم نے ان کے غوغا سے متاثر ہو کر ان کی بات مانی تو تم بھی مشرک ہو کر رہ جاؤ گے۔‘‘ (تدبر قرآن۳/ ۱۵۷)

اس اقتباس سے امید ہے ،یہ بات واضح ہو گئی ہو گی کہ اس آیت کا پس منظر کیا ہے اور اس میں لفظ ’مُشْرِکُوْنَ‘ سے کیا مراد ہے۔ اس کے بعد سورۂ یوسف (۱۲) کی آیات ۱۰۵۔۱۰۶دیکھیے۔ ارشاد ہے:

وَکَاَیِّنْ مِّنْ اٰیَۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَمُرُّوْنَ عَلَیْْہَا وَہُمْ عَنْہَا مُعْرِضُوْنَ. وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُہُمْ بِاللّٰہِ اِلاَّ وَہُمْ مُّشْرِکُوْنَ.
’’اور زمین و آسمان میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ لوگ اعراض کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ اور ان میں سے اکثر اللہ پر ایمان نہیں رکھتے، مگر اس طرح کہ ساتھ ہی اس کے شریک بھی ٹھہرائے ہوئے ہیں۔‘‘

ان آیات پر غور کیجیے تو صاف معلوم ہو گا کہ یہاں بھی قریش مکہ ہی کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔ البتہ یہاں لفظ ’مُشْرِکُوْنَ‘ ایک اسم فاعل یا اسم صفت کے طور پر آیا ہے۔ فرمایا کہ یاددہانی حاصل کرنے کے لیے کسی معجزے یا نشانی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جس نے یاد دہانی حاصل کرنی ہو، اس کے لیے یہ آسمان و زمین نشانیوں سے بھرے پڑے ہیں، لیکن ان لوگوں (یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین) کا معاملہ یہ ہے کہ خدا کو اس طرح مانتے ہیں کہ اس کے ساتھ شریک بھی ٹھہراتے ہیں۔

اس کے بعد سورۂ نحل (۱۶) کی آیات ۹۸۔ ۱۰۰ کو دیکھیے۔ فرمایا:

فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْْطٰنِ الرَّجِیْمِ. اِنَّہٗ لَیْْسَ لَہٗ سُلْطٰنٌ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ. اِنَّمَا سُلْطٰنُہٗ عَلَی الَّذِیْنَ یَتَوَلَّوْنَہٗ وَالَّذِیْنَ ہُم بِہٖ مُشْرِکُوْنَ.
’’پس جب تم قرآن پڑھو تو شیطان رجیم سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو۔ ا س کا ان لوگوں پر کچھ بھی زور نہیں چلتا جو ایمان لائے ہوئے ہیں اور اپنے رب پر بھروسا رکھتے ہیں۔ اس کا زور بس انھی پر چلتا ہے جو اسے دوست رکھتے ہیں اور جو اللہ کے شریک ٹھہرانے والے ہیں۔‘‘

ان آیات میں بھی لفظ ’مُشْرِکُوْنَ‘ ایک اسم صفت کے طور پر آیا ہے۔ چنانچہ یہاں بھی اس سے مراد اگرچہ کوئی خاص گروہ نہیں ہے، بلکہ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے والے لوگ ہیں، خواہ وہ کسی بھی قوم یا قبیلے سے تعلق رکھتے ہوں، تاہم یہ بات بالکل واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عرب میں جو قومیں بستی تھیں، ان میں سے صرف بنی اسماعیل ہی پر اس لفظ کا اطلاق ہوتا تھا۔

آپ کا آخری سوال یہ ہے کہ آج اگر کوئی فرد یا گروہ من حیث المجموع شرکیہ عقائد و اعمال میں ’شٰہِدِیْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ‘ کا مصداق ہو تو کیا وہ یہود و نصاریٰ کی طرح مشرک قرار پائے گا یا نہیں، خواہ اسے پہچان کے لیے کسی بھی اسم علم یا لقب سے خطاب کیا جائے؟

’’مشرک‘‘ کا لفظ محض شرک کے مرتکب کے لیے قرآن مجید میں استعمال نہیں ہوا، قرآن مجید میں یہ لفظ مذہب شرک پر قائم فرد یا گروہ کے لیے آیا ہے۔ اس بات کو قرآن مجید ہی کی مثال سے سمجھ لیجیے۔ قرآن مجید میں بڑی وضاحت کے ساتھ یہ بات آئی ہے کہ یہود ونصاریٰ کے عقائد میں شرک در آیا ہے، ۱؂ مگر اس کے باوجود قرآن مجید میں انھیں مشرک کہہ کر کہیں خطاب نہیں کیا گیا۔ صرف یہی نہیں، بلکہ بعض احکام میں اہل کتاب کو مشرکین سے واضح طور پر الگ رکھا ہے۔ مثال کے طور پر سورۂ بقرہ میں مشرکین کے ساتھ نکاح کرنے کی واضح ممانعت آئی ہے، مگر سورۂ مائدہ میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اہل کتاب کی پاک دامن عورتوں کے ساتھ بھی نکاح جائز قرار دیا ہے۔ یہی معاملہ کھانے کی حلت و حرمت میں بھی ہے۔ اسی طرح قرآن مجید نے خطاب کا بھی ایسا اسلوب اختیار کیا ہے جس سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب کے لیے ’’مشرک‘‘ کا لفظ نہیں بولا جا سکتا۔ مثال کے طور پر سورۂ بقرہ میں فرمایا:

مَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ وَلاَ الْمُشْرِکِیْنَ اَنْ یُّنَزَّلَ عَلَیْْکُمْ مِّنْ خَیْْرٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَاللّٰہُ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَآءُ وَاللّٰہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ. (۲: ۱۰۵)
’’جن لوگوں نے کفر کیا، اہل کتاب ہوں یا مشرک، نہیں چاہتے کہ تمھارے اوپر تمھارے رب کی طرف سے رحمت نازل ہو۔ اور اللہ جن کو چاہتا ہے، اپنی رحمت کے لیے خاص کر لیتا ہے۔ اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔‘‘

سورۂ بینہ میں بھی دو مقامات پر اسی طرح خطاب کر کے لفظ ’مُشْرِکِیْنَ‘ میں اہل کتاب کے شامل نہ ہونے کو واضح کر دیا ہے۔

غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شرک کے معاملے میں مشرکین اور اہل کتاب کے درمیان اصل فرق یہ تھا کہ اہل کتاب اصلاً توحید کے عقیدے پر قائم تھے، مگر کلامی قسم کی موشگافیوں کی وجہ سے ان میں شرکیہ عقائد در آئے تھے۔ چنانچہ دیکھیے: قرآن مجید میں انھیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے:

قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍ بَیْْنَنَا وَبَیْْنَکُمْ اَلاَّ نَعْبُدَ اِلاَّ اللّٰہَ وَلاَ نُشْرِکَ بِہٖ شَیْْءًا. (آل عمران ۳: ۶۴)
’’کہہ دو: اے اہل کتاب، اس چیز کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمھارے درمیان مشترک ہے، یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں۔‘‘

ظاہر ہے، یہ دعوت اسی صورت میں دی جا سکتی تھی اگر اہل کتاب اصل میں توحید ہی کو صحیح سمجھتے اور اسی پر قائم ہونے کا دعویٰ کرتے ہوں۔ اگرچہ ان میں فلسفہ و کلام کی وجہ سے کیسا ہی شرک کیوں نہ در آیا ہو۔

غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ یہی معاملہ آج کے اہل کتاب کا بھی ہے۔ وہ آج بھی اپنے آپ کو اصلاً مذہب توحید ہی پر سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ’’انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا‘‘ میں مشرکانہ مذاہب کے بارے میں لکھا ہے:

''Polytheism, the belief gods characterizes virtually all religions other than judaism, Christianity and Islam, which share a common tradition of monotheism, the belief in one God.'' (Micropaedia)

اسی طرح مذہب توحید کے بارے میں لکھا ہے:

'' Monotheism (is the) belief in the existence of one God, or in the oneness of God; as such, it is distinguished from polytheism; the belief in the existence of many Gods, and from atheism, or the belief that there is no God. Monotheism characterizes the traditions of Judaism, Christianity, and Islam....'' (Micropaedia)

بنی اسماعیل کا معاملہ یہود و نصاریٰ جیسا نہیں تھا۔ وہ کسی تاویل، کسی غلط فہمی یا کلامی قسم کی موشگافیوں کی وجہ سے شرک میں ملوث نہیں ہوئے تھے۔ اس کے برعکس وہ شرک ہی کو اپنا مذہب مانتے تھے۔ چنانچہ اسی اصول پر آج بھی دینی لحاظ سے ہمارے نزدیک’’ مشرک‘‘ کا لفظ آپ ایسے ہی افراد یا قوموں کے لیے استعمال کر سکتے ہیں جو شرک کو بحیثیت ایک مذہب کے اپنائے ہوئے ہوں۔ اس لحاظ سے ہمارے نزدیک کوئی مسلمان، یہودی یا عیسائی گروہ مشرک نہیں، اگرچہ ان میں بہت سی گمراہیاں اور شرکیہ عقائد در آئے ہیں۔ ان میں سے کوئی اپنے آپ کو مذہب شرک کا پیرو سمجھتا ہے اور نہ یہ پسند کرتا ہے کہ اسے مشرک کہا جائے۔ ہمارے نزدیک مسلمان، یہودی یا عیسائی شرک کے مرتکب تو ہو سکتے ہیں، ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں، لیکن قرآن کی اصطلاح میں وہ بہرحال مشرک نہیں ہو سکتے۔

ہمیں امید ہے کہ آپ کو اپنے سوالوں کے جواب مل گئے ہوں گے۔ بہرحال اگر کوئی بات مزید توضیح کی متقاضی ہو تو ہمیں ضرور لکھیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح بات کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

دعا کا طالب

معز امجد

[۱۹۹۷ء[

_______

۱؂ دیکھیے: النساء ۴: ۴۶۔۵۱ اور المائدہ ۵: ۷۲۔

____________

B