۲۶؍ فروری ۱۹۹۶ء
برادرم معز امجد صاحب،
السلام علیکم و رحمۃ اللہ،
امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
فروری ۱۹۹۶ء کے ’’اشراق‘‘ میں آپ کا مضمون ’’اقامت دین‘‘ پڑھا جو مولانا گوہر رحمن صاحب کے مضمون’’التزام جماعت‘‘ (شائع شدہ ماہنامہ ’’فاران‘‘ جون ۱۹۹۵ء) کے جواب میں لکھا گیاہے۔ آپ کا مضمون کئی بار پڑھا، مگر آپ کے دلائل ذہن کو اپیل نہ کر سکے۔ آپ نے اپنے مضمون میں سارا زور ’اقامت دین‘ کے معنی متعین کرنے پر دیا ہے۔ اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ’اقامت دین‘ کے معنی ’دین کو قائم رکھنا‘ کے ہیں اور مولانا نے جو ’قائم کرنا‘ کا ترجمہ کیا ہے، وہ غلط ہے۔
آپ اور مولانا محترم نے ابن جریر رحمہ اللہ اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی کتابوں سے جو اقتباسات پیش کیے ہیں، ان کو بار بار پڑھنے سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ دونوں معنی صحیح ہیں۔ دونوں معنوں کے تعین میں صرف ایک فنی مشکل پیش آتی ہے اور وہ یہ کہ پہلے مرحلے میں اس دین کو ’قائم کرو‘ اور دوسرے مرحلے میں اس دین کو ’قائم رکھو‘، یہ دونوں معنی مطلوب و مقصود ہیں۔ ’اقامت‘ کے معنی قرآن مجید میں بھی ’سیدھا کرنا‘ کے ہیں اور سیدھا (مادی یا معنوی) اس چیز کو کیا جاتا ہے جو گر چکی ہو یا گرا چاہتی ہو یا سرے سے موجود ہی نہ ہو اور اسے نئے سرے سے کھڑا کیا جائے۔ مثلاً، سورۂ توبہ (۹) کی آیت ۷ میں ہے کہ ’فَمَا اسْتَقَامُوْا لَکُمْ فَاسْتَقِیْمُوْا لَہُمْ‘ (جب تک وہ تمھارے ساتھ سیدھے رہیں تم بھی ان کے ساتھ سیدھے رہو)اور آیت ۸۴ میں ہے کہ ’وَلَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ‘ (اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا)۔ اسی طرح سورۂ کہف (۱۸) کی آیت ۷۷ دیکھیے: ’جِدَارًا یُّرِیْدُ اَنْ یَّنْقَضَّ فَاَقَامَہٗ‘ (دیوار گرا چاہتی تھی تو اس نے اسے سیدھا کر دیا)۔
اردو زبان میں بھی اس کا استعمال انھی معنوں میں ہوتا ہے۔ مثلاً ’قائم مقام‘ (کسی دوسری جگہ کھڑا ہونا)، ’قیم‘ (سیکرٹری جنرل یا نظم کو قائم کرنے والا)، ’مجلس قائمہ‘ (اسٹینڈنگ کمیٹی)، ’صراط مستقیم‘ (سیدھا راستہ)اور ’زاویۂ قائمہ‘۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جو چیز سیدھی کھڑی کی جائے تو پھر وہ چیز اپنی اصل شکل میں نظر بھی آنے لگتی ہے۔ اب اگر دین اپنی اصل شکل (یعنی خلافت) میں دنیامیں کہیں بھی کسی کو نظر نہیں آتا تو پھر یہ سمجھ لینا چاہیے کہ دین گر چکا ہے یا مغلوب ہے۔
خیر اندیش
بھرہ مند
مردان
_______
۲۱؍ مارچ ۱۹۹۶ء
محترمی و مکرمی بھر ہ مند صاحب،
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ،
آپ کا خط ملا۔ عنایت ہے کہ آپ نے ہمارے مضمون کے لیے وقت نکالا۔
جہاں تک ابن جریر طبری اور شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہمااللہ کے حوالوں کا تعلق ہے تو انھیں ’اقامت دین‘ کے معنی متعین کرنے کے لیے نقل نہیں کیا گیا تھا، انھیں نقل کرنے کا مقصود صرف یہ بتانا تھا کہ مولانا گوہر رحمان صاحب نے ان سے ’اقامت دین‘ کے معنی طے کرنے کے بارے میں جو استدلال کیا ہے، وہ صحیح نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک ابن جریر اور شاہ صاحب رحمہما اللہ کی ان عبارتوں سے ’اقامت دین‘ کے معنی متعین کیے ہی نہیں جا سکتے۔
ہماری ساری بحث پڑھنے کے بعد، اس کے بارے میں آپ کا ارشاد ہے کہ ہمارے دلائل آپ کو اپیل نہیں کر سکے۔ مزید براں آپ کے نزدیک سورۂ شوریٰ کی آیت میں اس کے دونوں معنی مراد لینے صحیح ہیں۔ ظاہر ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ کے نزدیک ہمارا نقطۂ نظر غلط ہے، مگر اپنے مضمون میں ہم نے محض اپنا نقطۂ نظر ہی بیان نہیں کیا، اس کا علمی استدلال بھی تفصیل سے لکھا ہے۔ ’اقامت دین‘ کے معنی کے بارے میں ہم نے جو استدلال کیا ہے، اس میں اگر کوئی غلطی ہے تو مہربانی فرما کر اس کی نشان دہی کر دیجیے۔ بات سمجھ میں آ گئی تو مان لینے میں ان شاء اللہ ہمیں ذرا بھی تامل نہ ہو گا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ لفظ ’اقامت‘ قرآن مجید میں ’سیدھا کرنے‘ ہی کے معنی میں آیا ہے تو یہ محل نظرہے۔ آپ کی اپنی دی ہوئی مثالوں سے بھی اس بات کی تردید ہو رہی ہے۔ ’فَمَا اسْتَقَامُوْا لَکُمْ فَاسْتَقِیْمُوْا لَہُمْ‘ اور ’وَلَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ‘ میں ’سیدھا کرنے‘ کا مفہوم کہاں سے پیدا ہو گیا؟ اسی طرح ’قائم مقام‘، ’قیم‘، ’مجلس قائمہ‘ اور ’صراط مستقیم‘ کا ’سیدھا کرنے‘ سے آخر کیا تعلق ہے؟
أللّٰہم اہدنا الصراط المستقیم صراط الذین أنعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولا الضالین.
والسلام
دعا کا خواست گار
معز امجد
_______
۱۶؍ اپریل ۱۹۹۶ء
برادر محترم معز امجد صاحب،
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ،
میں نے آپ کے مضمون ’اقامت دین‘ کو دوبارہ پڑھا ،مگر پھر بھی دل آپ کی متعین کردہ تاویل سے مطمئن نہیں ہوا۔ آپ نے میرے نقل کردہ قرآنی الفاظ میں سے ’جِدَارًا یُّرِیْدُ اَنْ یَّنْقَضَّ فَاَقَامَہٗ‘ کو نظر انداز کردیا۔ جس سے صاف طور پر سیدھا کرنے کا مفہو م لیا جا سکتاہے۔ اگر ایک دفعہ لفظ ’اقامت‘ کے معنی صحیح انداز میں مقرر کر دیے جائیں تو سارا جھگڑا ختم ہو جائے گا۔ ساری پیچیدگی اس وجہ سے پیدا ہو گئی ہے کہ ’اقامت‘ عربی زبان کا لفظ ہے اور آپ کے دیے گئے حوالے، یعنی ابن جریر رحمہ اللہ کی عبارت ’ھی إقامۃ الدین‘ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ’لصحبۃ نبیہ ولإقامۃ دینہ ‘اور شاہ ولی اللہ صاحب کے الفاظ ’وإقامۃ أرکان الإسلام‘ عربی زبان کی کتب سے لیے گئے ہیں۔ اب اردو زبان بولنے والے اس لفظ کا کیا ترجمہ کرتے ہیں، یہ ان کے فہم دین پر منحصر ہے، اس لیے میں نے پہلے خط میں عرض کیا تھا اور مولانا گوہر رحمان صاحب نے بھی نجی طور پر مجھے کہا تھا کہ ’قائم کرو‘ اور ’قائم رکھو‘ دونوں معنی صحیح ہیں اور جب میں نے خودغور و خوض کیا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ ’قائم کرو‘ اور ’قائم رکھو‘ کے درمیان ایک فنی خلا بہرحال موجود ہے جس کی تاویل اس طرح کی جا سکتی ہے کہ پہلے مرحلے میں دین کو قائم کرو اور قیام کے بعد اس کو قائم رکھو، اس کی حفاظت کرواور یہ قائم رکھنا، قائم کرنے کی جد و جہد سے زیادہ جد و جہد کا متقاضی ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان بننے سے پہلے کی جد و جہد کو قیام پاکستا ن کی جد و جہد کا نام دیا گیا تھا اور جب بفضل تعالیٰ پاکستان قائم ہوا تو اب اس کو قائم رکھنے کی جد و جہد کرنی چاہیے۔ اور اس قائم رکھنے کی خشت اول، یہاں اس نظام کو نافذ کرنا ہے جس نظام کو قائم کرنے کے لیے پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اور میرے خیال میں سب سے بہترین تذکیر یہ ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں کو ہر وقت یہ بات یاد دلائی جائے کہ پاکستان اسلامی نظام کی ایک تجربہ گاہ کے طور پر بنایا گیا ہے۔
میں نے پہلے خط میں جناب مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کا جو اقتباس نقل کیا تھا، اس سے متعلق اپنی راے سے آگاہ کریں۔ آپ نے اپنے موقف کے حق میں استاد محترم جناب مولانا اصلاحی صاحب کا ایک اقتباس (بحوالہ ’’تدبرقرآن‘‘ اور ’’اشراق‘‘) بھی نقل کیاہے۔ پوری دنیا اس سے آگاہ ہے کہ جناب اصلاحی صاحب بانیان جماعت اسلامی میں صف اول کے عالم تھے۔ جس کمیٹی نے جماعت اسلامی کا دستور مرتب کیا، جناب اصلاحی صاحب اس کمیٹی کے ممبر تھے۔ دستور جماعت اسلامی میں دفعہ ۴کی جو عبارت درج ہے، اس میں لکھا ہے کہ ’جماعت اسلامی‘ پاکستان کا نصب العین اور اس کی تمام سعی و جہد کا مقصود عملاً اقامت دین (حکومت الہٰیہ یا اسلامی نظام زندگی کا قیام) اور حقیقتاً رضاے الٰہی اورفلاح اخروی کا حصول ہو گا۔ بعد میں اس کی تشریح بھی درج ہے۔ اب اقامت دین کے معنی اور جناب مولانا اصلاحی صاحب کی تحریروں سے خوشہ چینی؟
بھرہ مند
مردان
_______
۵؍ جون ۱۹۹۶ء
محترمی بھرہ مند صاحب،
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ،
آپ کا خط ملا۔ ہم نے اپنے نقطۂ نظرکے لیے جو دلائل دیے ہیں، آپ نے اپنے اس خط میں بھی ان پرکوئی کلام نہیں فرمایا۔ آپ اگر ہمارے دلائل کی کمزوری ہم پر واضح فرما دیں تو ہمارے لیے اپنی غلطی سمجھنے میں یقیناًآسانی ہو گی۔ ایسا کرنا اگر ممکن نہ ہو تو یہ بہرحال آپ کا بھی حق ہے اور ہمارا بھی کہ جس راے پر ہمیں اطمینان ہے، اس پرقائم رہیں اور اس کی صحت اور مخالف راے کی غلطی کو لوگوں پرواضح بھی کریں۔
آپ نے یہ شکایت فرمائی ہے کہ ہم نے اپنے خط میں آپ کی دی ہوئی مثالوں میں سے ’جِدَارًا یُّرِیْدُ اَنْ یَّنْقَضَّ فَاَقَامَہٗ‘ کو نظر انداز کر دیا ہے۔ ہمیں افسوس ہے کہ ہم اپنی بات کا صحیح محل واضح نہیں کر سکے۔ دیکھیے، وہاں دراصل آپ کی یہ بات زیربحث تھی کہ لفظ ’اقامت‘ قرآن مجید میں صرف’ سیدھا کرنے‘ کے معنی میں ہے۔ اس بات کے جواب میں ہم نے لکھا تھا:
’’جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ لفظ ’اقامت‘ قرآن مجید میں’ سیدھا کرنے‘ ہی کے معنی میں آیا ہے تو یہ محل نظر ہے۔ آپ کی اپنی دی ہوئی مثالوں سے اس بات کی تردید ہو رہی ہے۔ ’فَمَا اسْتَقَامُوْا لَکُمْ فَاسْتَقِیْمُوْا لَہُمْ‘ اور ’وَلَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ‘ میں ’سیدھا کرنے‘ کا مفہوم کہاں سے پیدا ہو گیا؟ اسی طرح ’قائم مقام‘، ’قیم‘، ’مجلس قائمہ‘ اور ’صراط مستقیم‘ کا ’سیدھا کرنے‘ سے آخر کیا تعلق ہے؟‘‘
اس طرح ہم نے صرف یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ آپ کی اپنی دی ہوئی مثالوں میں سے بہت سی ایسی ہیں جن سے آپ کے مذکورہ دعوے کی تردید ہو رہی ہے۔ یہ ہم نے کسی جگہ نہیں کہا کہ ’اقامت‘ کا لفظ ’قائم کرنے‘ کے معنی میں آتا ہی نہیں۔ بلاشبہ ’جِدَارًا یُّرِیْدُ اَنْ یَّنْقَضَّ فَاَقَامَہٗ‘ میں یہ اسی معنی میں ہے۔ اور اسی وجہ سے یہاں ہم نے اس کا ذکر نہیں کیا۔ باقی رہ گئی یہ بات کہ تفسیر ابن جریر رحمہ اللہ، روایت ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور ملفوظات شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ میں لفظ ’اقامت‘ کس معنی میں ہے اور اس کا کیا ترجمہ ہونا چاہیے، تو ہمارے نزدیک اس بات کا تعلق کسی کے فہم دین سے نہیں، بلکہ اس کے فہم زبان سے ہے۔ بہرحال ان کتب میں اس لفظ کے معنی کے بارے میں آپ کو اگر ہماری راے سے اختلاف ہے تو آپ اپنی راے پر قائم رہ سکتے ہیں، لیکن آپ اگر اس معاملے میں ہماری غلطی ہمیں سمجھانا چاہیں تو اس کے لیے ضرور ی ہے کہ ہمارے دلائل کی غلطی ہم پر واضح فرما دیجیے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ لفظ ’اقامت‘ دو معنی (قائم کرو اور قائم رکھو) میں آتا ہے، اس سے ہمیں کوئی اختلاف نہیں ہے، مگر ہم اس بات کو صحیح نہیں سمجھتے کہ ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ میں دونوں ہی معنی مراد ہیں۔ یہ بات زبان کے بدیہی اصول و قواعد کے بالکل خلاف ہے۔ سیاق و سباق کی رعایت سے بہرحال یہ طے کرنا پڑے گا کہ یہاں اسے کس معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ اگر یہ ’قائم کرنے‘ کے معنی میں ہے تو اس سے’ قائم رکھنا‘ مراد نہیں لیا جا سکتا۔ اس کے برعکس، اگر یہ ’قائم رکھنے‘ کے معنی میں ہے تو اس سے ’قائم کرنا‘ مراد لینا غلط ہو گا۔ آپ خود ہی دیکھیے، ’فَمَا اسْتَقَامُوْا لَکُمْ فَاسْتَقِیْمُوْا لَہُمْ‘، ’وَلَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ‘ اور ’جِدَارًا یُّرِیْدُ اَنْ یَّنْقَضَّ فَاَقَامَہٗ‘ میں سے کسی ایک مثال کے بار ے میں کیا آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہاں یہ فعل دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے؟ ظاہر ہے، نہیں کہہ سکتے۔ پھر آخر ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ کے بارے میں یہ بات کیسے کہی جا سکتی ہے؟ اہل لغت جب یہ کہتے ہیں کہ فلاں فعل دو، تین یا چار معنوں میں آتا ہے تو اس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ سیاق و سباق کی رعایت سے کبھی یہ ایک معنی میں آتا ہے، کبھی دوسرے میں، کبھی تیسرے اور کبھی چوتھے میں۔ ان کی مراد یہ ہرگز نہیں ہوتی کہ جہاں کہیں یہ فعل استعمال ہو، اس سے بہ یک وقت چاروں معنی مراد ہوتے ہیں۔ چنانچہ آپ نے یہ جو فرمایا ہے کہ:
’’پہلے مرحلے میں دین کو قائم کرو اور قیام کے بعد اس کو قائم رکھو، اس کی حفاظت کرو۔‘‘
یہ بات منطقی لحاظ سے اگرچہ صحیح ہو سکتی ہے،مگر زبان و بیان کے قواعد کو ملحوظ رکھتے ہوئے ’اَقِیْمُواالدِّیْنَ‘ پر اس کا انطباق کسی طرح نہیں کیا جا سکتا۔
جماعت اسلامی کے قیام اور اس کا دستور مرتب کرتے وقت مولانا امین احسن اصلاحی کی ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ کے بارے میں کیا راے تھی، اس وقت ہم اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔ بہرحال قرآن مجید کی تفسیر کرتے ہوئے انھوں نے جب اس آیت کو اپنے موقع و محل اور سیاق و سباق میں رکھ کر اس کی تفسیر کی اور اس کے بارے میں اپنی راے قائم کی تو وہ بھی، جیسا کہ ہم نے تحریر کیا ہے، اسی نتیجے پر پہنچے ہیں جو ہم نے بیان کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ صحیح باتوں کے لیے دلوں میں جگہ پیدا کرے اور غلط باتوں کے شر سے ہم سب کو محفوظ رکھے۔
أللّٰہم اہدنا الصراط المستقیم صراط الذین أنعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولا الضالین.
دعا کا طالب
معز امجد
[۱۹۹۶ء[
____________