HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Moiz Amjad

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

’اقامت دین‘ پر تنقید اور اس کا جواب

محترمی معز امجد صاحب،

آداب و تسلیمات،

آپ کا تحریر کردہ مضمون بہ عنوان ’’اقامت دین‘‘ نظر سے گزرا، لیکن اس سے میری تشفی نہیں ہوئی۔ کچھ شبہات ذہن میں ہیں۔ اگر انھیں دور کر دیا جائے تو عنایت ہو گی۔

سورۂ شوریٰ مکی سورت ہے۔ اس وقت عقائد بھی مکمل بیان نہیں ہوئے تھے۔ احکام کی تو بات ہی او رہے، تو پھر اس آیت کو پورے دین کے متعلق ایک اصول ہدایت کیسے مان لیں۔ اور آپ کے اس قول پر کہ ’یہاں ایک دل چسپ بات یہ بھی ہے کہ سورۂ شوریٰ کی زیر بحث آیت کا موقع و محل اور معنی بھی بالکل وہی ہیں جو تورات کی اس عبارت ’ان سب آئین اور احکام پر عمل کرنا‘ کے الفاظ میں بیان ہوئے ہیں‘ کیسے اعتماد کیا جائے؟

دوسری عجیب بات یہ ہے کہ مولانا گوہر رحمان صاحب نے ’الجماعۃ‘ کے بارے میں جو نکات اٹھائے تھے، ان سے صرف نظر کیا گیا اور پھر اقامت دین کے بارے میں اپنا موقف،بلکہ مسلک پیش کرنے کے بجاے ان کے مضمون کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

آپ نے لکھا کہ ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ کو فرض ماننے کے بعد ہر شخص اپنے حالات، اپنی قوتوں، اپنی صلاحیتوں اور اپنی استعداد سے قطع نظر دین کے نفاذ کی جد و جہد کا مکلف قرار پاتا ہے۔ میرے علم کی حد تک تو اقامت دین کی بات کرنے والوں نے ایسی کوئی بات نہیں لکھی۔ ہل عندکم من علم فتخرجوہ لنا؟ اور پھر طرفہ تماشا یہ ہے کہ اسی اعتراض کا جواب مولانا گوہر رحمان صاحب کے مضمون میں موجود ہے۔

آپ نے اقامت دین (بہ تعبیر مودودی رحمہ اللہ) کے نقصانات بیان کرتے ہوئے لکھا کہ دین کی ہر چیز اپنی اصل حیثیت سے محروم ہو کر ایک نیا مقام حاصل کر لیتی ہے اور اس طرح دین کا پورا توازن بگڑ جاتا ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک صحافیانہ جادو گری ہے۔ اور میں آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ آپ عروج قادری کی دو کتابوں ’’امت مسلمہ کا نصب العین‘‘ اور ’’دین کی تفہیم و تشریح‘‘ پر ایک نظر ڈال لیں۔ اور تعجب ہے کہ بعض لوگ فکر مودودی رحمہ اللہ سے خارجیت ثابت کرتے ہیں اور بعض لکھتے ہیں کہ ارکان اربعہ و آخرت کی اہمیت کم ہو گئی ۔ اب کسے راہ نما کرے کوئی؟ اور کس کی بات مانی جائے؟

آپ کے ’’استاد گرامی‘‘ کے بارے میں بدظنی تو ان کی اپنی تحریروں کا ثمرہ ہے۔ آپ بھی ’’استاد گرامی‘‘ کی محبت سے خالی الذہن ہو کر ان کے ’اظہار دین‘ اور ’اقامت دین‘ پر تنقیدی مضامین کا مطالعہ کر لیں تو اسی نتیجے پر پہنچیں گے۔ آج تک میری نظر سے ان کا کوئی تفصیلی مضمون ’اقامت دین‘ یا آپ کے الفاظ میں ’نصرت دین‘ کے بارے میں نہیں گزرا۔ ہاں، البتہ دوبار اشارۃً و اجمالاً لکھا گیا۔ اولاً ،ڈاکٹر اسرار احمد کے جواب میں (جس پر انھیں بھی خوشی ہوئی تھی) دوسری بار یہ حوالہ جس کو آپ نے نقل فرمایا ہے۔ جزاک اللّٰہ خیرًا۔

محمد احمد واسطی

کوئٹہ

_______

محترمی و مکرمی محمد احمد صاحب واسطی،

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ،

ہم آپ کے شکر گزار ہیں کہ آپ نے اتنی دقت نظرکے ساتھ ہمارے مضمون کا مطالعہ کیا۔ اس مضمون پر آپ کے اعتراضات کے جواب حسب ذیل ہیں:

آپ نے پہلی بات یہ فرمائی ہے کہ سورۂ شوریٰ چونکہ مکی سورہ ہے ا ور اس کے نزول کے وقت تک عقائد اور احکام پوری طرح بیان نہیں ہوئے تھے، اس وجہ سے اس سورہ کی ایک آیت کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ پورے دین سے متعلق ایک اصولی ہدایت ہے، صحیح نہیں ہے۔

آپ کی بات کا جواب دینے سے پہلے، ہم آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتے ہیں۔ ہم تھوڑی دیر کے لیے یہ مان لیتے ہیں کہ سورۂ شوریٰ میں ’اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلاَ تَتَفَرَّ قُوْا فِیْہِ‘ کے معنی وہی ہیں جو مولانا گوہر رحمان صاحب نے اپنے مضمون میں بیان فرمائے ہیں، یعنی پورے دین کو عملاً نافذ کرنے کی جد وجہد کرنا اور جب یہ نافذ ہو جائے تو اسے قائم رکھنا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کے نزدیک اس آیت کی رو سے دین کے انھی احکام و ہدایات کو قائم کرنا یا قائم رکھنا ضروری ہے جو اس آیت کے نزول سے پہلے نازل ہوئے تھے؟ کیا وہ اس میں سے دین کے ان احکام اور ہدایات کو خارج کر دیتے ہیں جو اس کے بعد نازل ہوئے؟ ظاہر ہے، وہ ایسا نہیں کرتے۔ پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہی اعتراض جو ہمارے بیان کردہ معنی پر آپ نے کیا ہے، مولانا اور ان کے ہم فکر حضرات کے معنی پر بھی نہیں ہوتا؟

اصل بات یہ ہے کہ اس آیت میں یہ اصولی حکم دیا گیا ہے کہ جو چیز ’الدِّیْنَ‘ میں شامل ہے، اس پر بے کم و کاست عمل کیا جائے۔ چنانچہ ’الدِّیْنَ‘ اگر صرف وہی ہے جو اس آیت سے پہلے نازل ہوا تو یہ آیت اسی سے متعلق ہو گی۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اگر اس کے بعد بھی کسی چیز کو ’الدِّیْنَ‘ میں شامل کیا ہے تو اس آیت کا اطلاق آپ سے آپ، ا س پر بھی ہو جائے گا۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اس آیت میں اگر واقعی ’الدِّیْنَ‘ سے متعلق کوئی اصولی ہدایت دی گئی تھی تو پھر یہ آیت تمام احکام کے بعد نازل ہونی چاہیے تھی، ہمارے نزدیک یہ بات نہ صرف یہ کہ ضروری نہیں ہے، بلکہ قرآن مجید کے اسلوب بیان کے خلاف بھی ہے۔ قرآن مجید کا اسلوب منطقی یا سائنسی نہیں ہے، اس کا اسلوب ادبی ہے۔ اس میں بات منطقی یا سائنسی ترتیب سے نہیں، بلکہ موقع کی مناسبت سے کی گئی ہے۔ طول کلام کا اندیشہ نہ ہوتا تو یہاں ہم بہت سی مثالیں دے کر اپنی بات کو موکد کر دیتے۔ بہرحال آپ اس اصول کو سامنے رکھ کر اگر قرآن مجید کی آیات اور اس کے احکام پر غور کریں گے تو اس سے نہ صرف یہ کہ آپ کو سورۂ شوریٰ کی مذکورہ آیت کے بارے میں ہماری راے سمجھنے میں آسانی ہو گی، بلکہ اللہ کی کتاب کی بہت سی مخفی حکمتیں سمجھنے میں بھی بڑی مدد ملے گی۔

دوسری بات آپ نے یہ فرمائی ہے کہ مولانا گوہر رحمان صاحب نے اپنے مضمون میں ’الجماعۃ‘ کے بارے میں جو دلائل دیے ہیں، ہم نے ان سے صرف نظر کر کے ’اقامت دین‘ کے بارے میں اپنے موقف (بلکہ مسلک) پر تقریر کر دی ہے۔ اور یہاں پر بھی اپنا نقطۂ نظر واضح کرنے پر اکتفا کرنے کے بجاے مولانا محترم کے مضمون کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

اس سلسلے میں ایک بات تو یہ ہے کہ ’الجماعۃ‘ کے صحیح معنی کی وضاحت میں برادرم ساجد حمید پہلے ہی بڑی تفصیل سے لکھ چکے ہیں ۱؂ اور اب برادرم خورشید احمد صاحب ندیم کا مضمون ۲؂ بھی بہت جلد آپ کے سامنے آجائے گا، اس وجہ سے ہم نے اس پر لکھنے کی بہت زیادہ ضرورت محسوس نہیں کی۔بہرحال آپ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس پر بھی مولانا محترم کے نقطۂ نظر کا جائزہ لے لینا چاہیے تو ہم اپنے آیندہ کے کاموں میں اسے بھی شامل کر لیتے ہیں۔ اس معاملے میں دوسری بات یہ ہے کہ ’اقامت دین‘ اور ’اظہاردین‘ کے معنی کے معاملے میں غلطی چونکہ قرآن مجید کی تاویل میں غلطی پر منتج ہوتی ہے، اس وجہ سے ہماری نظر میں ان دونوں تصورات کا صحیح ہونا سب سے زیادہ ضروری ہے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ہمیں مولانا محترم کے مضمون پر تنقید کرنے کے بجاے مثبت طریقے سے اپنا نقطۂ نظر بیان کرنا چاہیے تھا تو اس معاملے میں ہم آپ کی راے کا اگرچہ احترام کرتے ہیں، مگر دین کے نام پر پھیلائے جانے والے غلط تصورات کی تصحیح کو بھی بہرحال ضروری سمجھتے ہیں۔ مولانا محترم نے ہمارے نقطۂ نظر پر تنقید کرتے ہوئے چونکہ اپنی طرف سے دلائل دیے تھے، اس وجہ سے ہمیں بھی یہ حق حاصل ہوجاتا ہے کہ ہم ان دلائل کا علمی تجزیہ کریں۔ ہم نے اپنی تحریر میں یہی کام کرنے کی کوشش کی ہے۔ آپ نے ہمیں مذکورہ تحریر میں کسی موقع پر اگر تنقید براے تنقید کرتے ہوئے پایا ہو تو ہمارا آپ پر یہ حق ہے کہ آپ بغیر کسی تردد کے ہمیں اس کی طرف متوجہ کریں۔

تیسری بات آپ نے یہ فرمائی ہے کہ ہماری یہ بات کہ ’اس کے نتیجے میں ہر شخص اپنے حالات، اپنی قوتوں، اپنی صلاحیتوں اور اپنی استعداد سے قطع نظر، دین کے نفاذ کی جد و جہد کرنے کا مکلف قرار پا جاتا ہے‘، نہ صرف یہ کہ صحیح نہیں ہے، بلکہ اقامت دین کی بات کرنے والوں نے ایسی کوئی بات کبھی کہی بھی نہیں۔

آپ کی یہ بات پڑھ کر ہمیں بہت تعجب ہوا ہے۔ آپ نے تو، واقعہ یہ ہے کہ مولانا مودودی رحمہ اللہ اور ان کے ہم فکر لوگوں کی بات کی بہ یک قلم نفی کردی ہے۔ یہ حضرات جو کچھ اپنی تقریروں اور تحریروں میں ایک عرصے سے کہہ رہے ہیں، آپ نے اس کا بغیر کسی تردد کے انکار کر دیا ہے۔ اگر آپ کی بات صحیح ہے تو مجھے صرف اتنا سمجھا دیجیے کہ مولانا گوہر رحمان صاحب کے اس جملے کے کیا معنی ہیں: ’اقامت دین (مولانا کے مفہوم کے ساتھ) نہ صرف یہ کہ ایک دینی فریضہ ہے، بلکہ یہ توحقیقت میں امام الفرائض ہے‘۔

اسی طرح ایک صاحب نے مولانا مودودی رحمہ اللہ سے جب یہ پوچھا کہ ’جو شخص آپ کی جماعت کے اصولوں کے مطابق اپنی جگہ حتی المقدور صحیح اسلامی زندگی بسر کر رہا ہو، وہ اگر بعض اسباب کے ماتحت باقاعدہ جماعت میں شریک نہ ہو تو اس کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟‘ تو مولانا نے جواب دیتے ہوئے لکھا:

’’...اس کے متعلق میرا وہی خیال ہے جو احادیث سے ثابت ہے کہ صحیح اسلامی زندگی جماعت کے بغیر نہیں ہوتی۔ زندگی کے صحیح اسلامی زندگی ہونے کے لیے سب سے مقدم چیز اسلام کے نصب العین (اقامت دین حق) سے وابستگی ہے۔ اس وابستگی کا تقاضا ہے کہ آدمی نصب العین کے لیے جد و جہد کرے۔ اور جد و جہد اجتماعی طاقت کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا جماعت کے بغیر کسی زندگی کو صحیح اسلامی زندگی سمجھنا بالکل غلط ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ کوئی شخص ہماری اس جماعت میں شامل نہ ہو اور کسی اور ایسی جماعت سے اس کا تعلق ہو جو یہی نصب العین رکھتی ہو اور جس کا نظام جماعت اور طریق جد و جہد بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق ہو۔ اس صورت میں ہم اس کو بر سر ہدایت ماننے میں کوئی تامل نہیں کرتے۔ لیکن یہ بات ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے کہ آدمی صرف ان طریقوں کی پابندی پر اکتفا کرتا رہے جو شخصی کردار کے لیے شریعت میں بتائے گئے ہیں اور اقامت دین کی جد و جہد کے لیے کسی جماعت سے وابستہ نہ ہو۔ ہم ایسی زندگی کو کم از کم نیم جاہلیت کی زندگی سمجھتے ہیں۔ ہمارے علم میں اسلامیت کا کم سے کم تقاضا یہ ہے کہ اگر آدمی کو اپنے گرد وپیش ایسی کوئی جماعت نظر نہ آتی ہوجو اسلام کے اجتماعی نصب العین کے لیے اسلامی طریقہ پر سعی کرنے والی ہو تو اسے سچے دل سے ایسی ایک جماعت کے وجود میں لانے کی سعی کرنی چاہیے اور اس کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ جب کبھی ایسی جماعت پائی جائے وہ اپنی انانیت کو چھوڑ کر ٹھیک ٹھیک جماعتی ذہنیت کے ساتھ اس میں شامل ہو جائے۔‘‘ (رسائل و مسائل، حصہ اول ۴۰۸۔۴۰۹)

مولانا مودودی رحمہ اللہ کے اس جواب پر غور کیجیے، اور پھر ہماری مذکورہ بات کو دوبارہ دیکھیے۔ کیا ہماری بات اب بھی آپ کو غلط لگتی ہے؟

چوتھی بات آپ نے یہ فرمائی ہے کہ ہم نے جو یہ لکھا ہے کہ ’(اقامت دین کی اس تاویل اور اسے اپنی جد و جہد کا ماخذ قرار دینے کے نتیجے میں) دین کی ہر چیز اپنی اصل حیثیت سے محروم ہو کر، ایک نیا مقام حاصل کر لیتی اور اس طرح دین کا پورا توازن بگڑ جاتا ہے، نہ صرف یہ کہ صحیح نہیں ہے، بلکہ یہ ایک صحافیانہ جادو گری ہے‘۔

آپ کی اس بات کا تفصیلی جواب مولانا وحیدالدین خان اپنی کتاب ’’تعبیر کی غلطی‘‘ میں دے چکے ہیں۔ ہمارے نزدیک مذکورہ کتاب میں مولانا وحید الدین صاحب کا تجزیہ بہت حد تک صحیح ہے، اس وجہ سے ہماری گزارش ہے کہ آپ اس کتاب کے متعلقہ ابواب کا اچھی طرح سے مطالعہ کر لیجیے۔ امید ہے، اس سے آپ کو ہمارا نقطۂ نظر سمجھنے میں مدد ملے گی۔ آپ کو یہ حق تو بہرحال حاصل ہے کہ ہمارے نقطۂ نظرسے اختلاف پر قائم بھی رہیں اور ہمیں اپنی بات سمجھائیں بھی۔

پانچویں بات آپ نے یہ فرمائی ہے کہ اگر ہم اپنے ’’استاذ گرامی‘‘ کی محبت سے خالی ہو کر ’اظہار دین‘ اور ’اقامت دین‘ کے بارے میں ان کے نقطۂ نظر کا مطالعہ کریں گے تو ان کی غلطی ہماری سمجھ میں آ جائے گی۔ ہماری آپ سے گزارش ہے کہ آپ ہمارے دلائل کا اچھی طرح سے تجزیہ کیجیے، ان میں آپ جو چیز کمزور پائیں، اس کی کمزوری ہم پر بھی واضح فرمائیے اور اس سب کچھ کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے ہمارے حق میں دعا بھی فرمائیے۔ہمیں اس بات کا زعم ہرگز نہیں ہے کہ ہماری ہی بات صحیح ہے۔ ہم نے اپنی بات کو دلائل کی بنیاد پر پیش کیا ہے۔ آپ کو یقیناًیہ حق حاصل ہے کہ ہمارے دلائل میں آپ اگر کوئی کمزوری پائیں تو نہ صرف یہ کہ ہم سے اختلاف فرمائیں، بلکہ جس بات کو آپ صحیح سمجھتے ہیں، اس کی طرف ہماری بھی رہنمائی فرمائیں۔ آپ کے دلائل اگر ہماری سمجھ میں آ گئے تو آپ کی بات ماننے میں ہمیں ان شاء اللہ نہ کوئی تامل ہو گا اور نہ ہمارے استاذ کی محبت اس میں رکاوٹ بن سکے گی۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ صراط مستقیم کی طرف ہماری رہنمائی فرمائے، غلط باتوں کے شر سے ہم سب کو محفوظ رکھے اور صحیح باتوں کے لیے دلوں میں جگہ پیدا کرے، آمین۔

أللّٰہم أرنا الحق حقًا وارزقنا إتباعہ وأرنا الباطل باطلاً وارزقنا إجتنابہ.

والسلام

مخلص

معز امجد

[۱۹۹۶ء[

_______

۱؂ دیکھیے: ماہنامہ اشراق، فروری، اپریل ۱۹۹۴ء۔ جنوری، فروری، مارچ ۱۹۹۵ء جنوری، فروری، مارچ ۱۹۹۶ء۔

۲؂ یہ مضمون ماہنامہ اشراق، اپریل ۱۹۹۶ء میں’ ’التزام جماعت اور غلبۂ دین‘‘ کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔

____________

B