HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Moiz Amjad

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

مولانا گوہر رحمان صاحب کے اعتراضات کا جائزہ

 اس ضمن میں مولانا محترم نے جو اعتراضات اٹھائے ہیں، ان پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ یہ درحقیقت آیۂ زیر بحث کے بارے میں ہماری راے اور اس سلسلے میں ہمارے دلائل پر نہیں، بلکہ ان نتائج پر ہیں جو مولانا محترم کے خیال میں ہماری اس راے سے نکل سکتے ہیں، اس وجہ سے ہم پہلے ہی یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہم نے جو بات کہی ہے، وہ یہ ہے کہ سورۂ توبہ، سورۂ فتح اور سورۂ صف کی مذکورہ آیت میں امت مسلمہ یا خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی مشن نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کا ایک فیصلہ بیان ہوا ہے۔ ہم نے کسی موقع پر بھی نہ اس بات سے انکار کیا ہے کہ جزیرہ نماے عرب میں دین اسلام کو جو غلبہ حاصل ہوا تھا، اس کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں نے بھر پور جد و جہد کی تھی اور نہ ہمیں اس بات سے انکار ہے کہ امت مسلمہ کو دین کے غلبے کی جد و جہد کرنی چاہیے۔ ہم صرف یہ کہنے کی جسارت کر رہے ہیں کہ آیۂ اظہار دین نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کی کسی جدوجہد کا ماخذ ہے اور نہ اس امت کی کسی جد و جہد کا۔ ہمیں افسوس ہے کہ ہماری اس بات سے مولانا محترم نے یہ سمجھا ہے کہ ہم دراصل غلبۂ دین کے لیے ہر قسم کی جد و جہد ہی کے مخالف ہیں۔ ہم مولانا محترم کو یقین دلاتے ہیں کہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔

اس وضاحت کے بعد، آئیے اب مولانا محترم کے اعتراضات کا جائزہ لیتے ہیں۔

مولانا محترم نے سب سے پہلی بات یہ فرمائی ہے کہ آیۂ زیر بحث کے مطابق ’اظہار دین‘ رسول کو بھیجنے کی علت ہے اور رسول کی بعثت صرف اہل عرب کی طرف نہیں، بلکہ پوری دنیا کی طرف تھی، اس وجہ سے ’اظہار دین‘ کی علت کو بھی پوری دنیا کے لیے عام ہونا چاہیے، اسے سرزمین عرب کے ساتھ خاص کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں مولانا یہ فرما رہے ہیں کہ رسول کا مشن، جیسا کہ مذکورہ آیت میں بیان ہوا ہے، ’اظہار دین‘ ہے اور چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پوری دنیا کے لیے عام ہے، اس وجہ سے دین کا یہ اظہار بھی پوری دنیا ہی کے ادیان پر ہونا چاہیے۔ چنانچہ جب تک دین اسلام کا غلبہ دنیا کے باقی تمام ادیان پر قائم نہیں ہو جاتا، اس وقت تک آپ کے مشن کی تکمیل کا دعویٰ بھی نہیں کیا جا سکتا۔

ہم اوپر یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ آیۂ زیر بحث میں ارسال رسول کی محض علت بیان نہیں ہوئی ہے، بلکہ ایسی علت بیان ہوئی ہے جو لازماً پوری ہو کر رہے گی۔ بالفاظ دیگر مذکورہ آیت میں وہ نتیجہ بیان ہوا ہے جو اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد بہرحال نکل کر رہے گا۔ گویا اس آیت میں کسی کا کوئی مشن نہیں، بلکہ پروردگار عالم کا ایک فیصلہ بیان ہوا ہے۔ اس وجہ سے مولانا محترم کا یہ اعتراض جس بنیاد پر قائم ہے، وہی ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ یہ اعتراض اس بات کو مان لینے کے بعد ہی کیا جاسکتا ہے کہ آیۂ زیر بحث میں فی الواقع نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن بیان ہوا ہے۔ ہم اوپر یہ واضح کر چکے ہیں کہ اس آیت میں، اگرکسی کا کوئی مشن بیان ہوا ہے تو وہ پروردگار عالم کا مشن ہے۔ اس میں نہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی مشن بیان ہوا ہے اور نہ آپ کی امت کا۔ چنانچہ اب بھی مولانا محترم اگر یہ اعتراض اٹھائیں تو اس سے پہلے انھیں ہمیں یہ سمجھانا پڑے گا کہ قرآن مجید کے مجموعی نظام، سورۂ توبہ، سورۂ فتح اور سورۂ صف کے بنیادی مضمون، آیۂ زیر بحث کے سیاق و سباق اور اس کے جملوں کے درو بست سے جو بات سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے کہ مذکورہ آیت میں کوئی خدائی مشن بیان نہیں ہوا ہے، جیسا کہ ہم سمجھ رہے ہیں، اس میں فی الواقع نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن بیان ہوا ہے، جسے پورا کرنے کے لیے جدو جہد کرنا آپ اور آپ کے بعد آپ کی امت پر لازم ہے۔

مولانا نے دوسری بات یہ فرمائی ہے کہ آیت کا مفہوم بہرحال یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی جد وجہد کے نتیجے ہی میں دین حق کو غلبہ نصیب کریں گے۔ یہ معنی کسی طرح نہیں لیے جا سکتے کہ اللہ تعالیٰ اپنی تکوینی اور غیبی قوت سے دین کو غالب کر دیں گے، خواہ پیغمبر اس کی جد و جہد کریں یا نہ کریں۔ اگر مطلب یہ ہوتا تو پھر رسول کا ذکر آیت میں نہ کیا جاتا۔ آیت میں رسول کا ذکر خود بتا رہا ہے کہ یہ غلبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی جد و جہد کے نتیجے ہی میں حاصل ہو گا۔

ہم یہ بات اوپر واضح کر چکے ہیں کہ آیۂ ’اظہار دین‘ میں اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ بیان ہوا ہے کہ مشرکین عرب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اللہ کا دین باقی تمام ادیان پر غالب آ کر رہے گا۔ یہاں اس سے کوئی بحث نہیں ہے کہ یہ واقعہ کس طرح ہو گا او رکس کی جد و جہد اس کا سبب بنے گی۔ یہاں صرف اتنی بات کہی گئی ہے کہ یہ واقعہ ہو کر رہے گا۔ یہ فی الواقع ایک تکوینی معاملے کا بیان ہے۔ خدا کا وہی قانون یہاں بھی کارفرما ہے جس کے تحت قوم نوح، اصحاب رس، عاد و ثمود، فرعون، اخوان لوط، اصحاب ایکہ اور قوم تبع پر موت کی سزا نافذ ہوئی تھی۔ آیت میں رسول کا ذکر یہ بتانے کے لیے نہیں ہوا کہ پروردگار عالم کا یہ فیصلہ کس طرح روبہ عمل ہو گا، بلکہ رسولوں کے معاملے میں اللہ تعالیٰ کی سنت کو سامنے رکھیے تو معلوم ہو گا کہ ’رسول‘ کا ذکر خود اس بات کی دلیل کے طور پر ہوا ہے کہ ’اظہار دین‘ کا یہ معاملہ لازماً ہو کر رہے گا۔ گویا پوری بات اس طرح سے ہے کہ محمد بن عبداللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بات کو کسی فقیر کی صدا نہ سمجھو، جو آواز لگا کر اپنی راہ لے گا۔ یہ محض ایک داعی حق نہیں، بلکہ اللہ کے’رسول‘ ہیں۔ تم نے اگر ان کی بات پر کان نہ دھرے تو ان کی بعثت تمھاری موت کا پروانہ بن جائے گی۔ یاد رکھو، اللہ نے تمھارے اندر اپنا رسول بھیجا ہے، اب اس کے لازمی نتیجے کے طورپر اللہ کا دین اس سرزمین کے تمام ادیان پر غالب آئے گا۔

لیکن اس سب کچھ کے باوجود اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ آیت میں یہی بات بیان ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی جد و جہد ہی کے نتیجے میں دین حق کو غالب کریں گے، تب بھی، جیسا کہ اوپر واضح کیا جا چکا ہے، یہ اصلاً ایک خدائی فیصلے ہی کا بیان ہے۔ اسے کسی جد وجہد کا ماخذ بہر حال قرار نہیں دیا جا سکتا۔

مولانا نے تیسری بات یہ فرمائی ہے کہ آیت کے سیاق و سباق اور قرآن مجید کے نظائر سے صاف ظاہر ہے کہ مذکورہ آیت میں ’الدِّیْنِ کُلِّہٖ‘ میں ’الف لام‘ جنس کا ہے یا استغراق کا اور اس سے دنیا کے تمام ادیان باطلہ مراد ہیں، محض سر زمین عرب کے ادیان مراد نہیں ہیں۔

اس ضمن میں ہماری گزارش ہے کہ مولانا محترم آیت کے اس سیاق و سباق اور قرآن مجید کے ان نظائر کی طرف ہماری رہنمائی فرما دیں جن سے صاف ظاہر ہے کہ الدِّیْنِ کُلِّہٖ‘ میں ’الف لام‘ عہد کا نہیں، بلکہ جنس یا استغراق کا ہے۔ مولانا کی اس رہنمائی کے بغیر ہمارے لیے ان کی یہ بات محض ادعا ہے۔ اس پر غور کرنے کے لیے ضروری مواد ہی ہمارے پاس موجود نہیں ہے۔

یہاں، البتہ مولانا محترم سے ہم یہ پوچھنا چاہیں گے کہ کسی’لام‘ کے بارے میں یہ فیصلہ آخر کس طرح کیا جاتا ہے کہ وہ جنس کا ہے، استغراق کا ہے یا عہد کا۔ استاذ گرامی نے جب یہ لکھا تھا کہ ’الدین‘ کا ’الف لام‘ عربیت کی رو سے لازماً عہد کے لیے ہے‘ تو انھوں نے یہ بات کس بنیاد پر کہی تھی؟ اس کے جواب میں مولانا محترم نے جو یہ لکھا ہے کہ ’صاف نظر آ رہا ہے کہ الدِّیْنِ کُلِّہٖ‘ میں الف لام جنس کے لیے ہے یا استغراق کے لیے تو اس کی بنیاد کیا ہے؟ کیا عربی نحو کی کتابوں میں سے ’لام‘ کی مختلف قسمیں دیکھ کر کسی ’لام‘ پر کوئی سی قسم چسپاں کر دی جا سکتی ہے یا اس معاملے میں کوئی اصول بھی ملحوظ رکھا جاتا ہے؟‘ ہماری گزارش ہے کہ مولانا ہمیں یہ سمجھا دیں کہ اس معاملے میں ان کے نزدیک رہنما اصول آخر کیا ہے؟

ہم نے اپنے استاذ کی بات سے جو کچھ سمجھا ہے، وہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں الْمُشْرِکُوْنَ‘ کا لفظ، چونکہ مشرکین بنی اسماعیل ہی کے لیے استعمال ہوتا ہے اور ’وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ‘، ’لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ‘ پر عطف ہے، اس وجہ سے ’الدِّیْنِ کُلِّہٖ‘ سے وہی ادیان مراد ہو سکتے ہیں جن پر دین اسلام کا غلبہ مشرکین بنی اسماعیل کے لیے ناگوار ہو۔ چنانچہ ظاہر ہے، اس سے مراد سر زمین عرب ہی کے ادیان ہو سکتے ہیں۔ استاذ گرامی نے لکھا ہے:

’’... ’الدین کلہ‘ چونکہ ’ولو کرہ المشرکون‘ کا معطوف علیہ ہے اور ’الْمُشْرِکُوْنَ‘ کی تعبیر قرآن مجید میں ہمیشہ مشرکین عرب کے لیے اختیار کی جاتی ہے ، اس لیے ’الدین‘ کا الف لام عربیت کی رو سے لازماً عہد کے لیے ہے۔ چنانچہ تمام ادیان سے یہاں سر زمین عرب کے تمام ادیان مراد ہیں۔‘‘ (برہان ۱۷۲)

اس صورت حال میں کوئی شخص اگر یہ راے رکھتا ہے کہ ’الدِّیْنِ کُلِّہٖ‘ سے پوری دنیا کے ادیان مراد ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس سلسلے میں استاذ گرامی کی دلیل کو غلط ثابت کرے۔ چنانچہ جب تک یہ بات غلط ثابت نہ ہو جائے کہ ’الْمُشْرِکُوْنَ‘ کی تعبیر قرآن مجید میں ہمیشہ مشرکین بنی اسماعیل ہی کے لیے اختیار کی جاتی ہے، اس وقت تک زبان و بیان کی رو سے یہ بات کسی طرح نہیں مانی جا سکتی کہ ’الدِّیْنِ کُلِّہٖ‘ سے پوری دنیا کے ادیان مراد ہیں، مگر اپنی تحریرمیں مولانا گوہر رحمان صاحب نے استاذ گرامی کی بات کو تو غلط قرار دے دیا ہے، لیکن اس سلسلے میں ان کی دلیل کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:

’’سر دست تو میں ان کے اس ادعا کو نظر انداز کرتا ہوں کہ یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ قرآن مجید میں ’المشرکون‘ کا لفظ بنی اسماعیل ہی کے مشرکین کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔‘‘ (ماہنامہ فاران ۲۵)

ہم بڑے احترام کے ساتھ مولانا سے یہ عرض کریں گے کہ استاذ گرامی کے مذکورہ ’ادعا‘ کو نظر انداز کرنے کے بعد ان کی اپنی بات کی حیثیت بھی محض ایک دعوے کی ہو گئی ہے۔ اس وجہ سے ہماری گزارش ہے کہ وہ استاذ گرامی کے اس ’ادعا‘ کو نظر انداز کرنے کے بجاے ہم جیسے طالب علموں پر اس کی غلطی واضح کر دیں۔

یہاں، البتہ ضمناً ہم مولانا محترم سے یہ بھی پوچھنا چاہیں گے کہ انھوں نے یہ جو لکھا ہے:

’’سورۂ توبہ میں اس آیت سے قبل مشرکین عرب اور اہل کتاب، دونوں کے خلاف جہاد کا ذکر ہے۔‘‘ (ماہنامہ فاران ۲۵)

تو یہاں لفظ ’الْمُشْرِکُوْنَ‘ کو انھوں نے مشرکین عرب کے ساتھ کس بنیاد پر خاص کیا ہے؟

مولانا محترم نے چوتھی بات یہ فرمائی ہے کہ ’الْمُشْرِکُوْنَ‘ کے لفظ کو اس بات کی دلیل بنانا کہ ’الدِّیْنِ کُلِّہٖ‘ سے عرب ہی کے ادیان مراد ہیں، محض تکلف اور تصنع ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ مشرک، خواہ عرب کے ہوں یا عجم کے، ان پر بہرحال دین توحید کا غلبہ شاق ہی گزرے گا۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ’الْمُشْرِکُوْنَ‘ کا لفظ کس طرح سے اس بات کی دلیل ہے کہ ’الدِّیْنِ کُلِّہٖ‘ سے مراد سر زمین عرب ہی کے ادیان ہیں، اس پر ہم اوپر تفصیل سے بحث کر چکے ہیں۔ اب بھی مولانا محترم اسے اگر تکلف اور تصنع قرار دیتے ہیں تو ہم یہی عرض کریں گے کہ اس طرح کے تبصرے کرنا ان کے شایان شان نہیں ہے۔ ہم اپنی بات میں غلطی کا امکان بہرحال تسلیم کرتے ہیں، لیکن اس طرح کے تبصروں سے شاید ہمیں اپنی غلطی سمجھ میں نہ آئے گی۔ علم و فضل کے جس مقام پر مولانا محترم فائز ہیں، اس کی معرفت ہمارے اندر یہ توقع پیدا کرتی ہے کہ وہ اس طرح کے تبصرے کرنے کے بجاے ہماری غلطی واضح کریں گے۔

باقی رہ گئی یہ بات کہ ’مشرک، عربی ہوں یا عجمی ان پر دین حق کا غلبہ شاق ہی گزرے گا‘ تو اس سے ہمیں کوئی انکار نہیں ہے، مگر ہمیں نہیں معلوم کہ اس سے یہ بات کہاں سے نکلتی ہے کہ یہاں ’الدِّیْنِ کُلِّہٖ‘ سے دنیا کے تمام ادیان مراد ہیں؟

مولانا محترم نے پانچویں بات یہ فرمائی ہے کہ سر زمین عرب میں دین اسلام کو جو غلبہ حاصل ہوا، وہ فی الواقع نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کی جد و جہد کے نتیجے میں ہوا۔ دین حق کے غلبے کے لیے آپ اور آپ کے صحابہ کی یہ جد و جہد قیامت تک پوری امت کے لیے اسوۂ حسنہ ہے، اس لیے آیۂ زیر بحث کے حکم کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ خاص قرار دینا اور یہ کہنا کہ کسی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس آیت کے حکم کا کوئی خاص تعلق اپنی جد و جہد کے ساتھ قائم کرے، بالکل غلط ہے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ سر زمین عرب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی جد و جہد کے نتیجے ہی میں دین اسلام کو غلبہ حاصل ہوا، اسے ہم تسلیم کرتے ہیں۔ اس کے بعد یہ بات بھی ہم صحیح مان لیتے ہیں کہ دین حق کے غلبے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی جد و جہد ہر آنے والے دور میں پوری امت کے لیے ایک مثال اور نمونہ ہے، مگر اس سے یہ بات کسی طرح بھی ثابت نہیں ہوتی کہ آیۂ ’اظہار دین‘ دین کی جد و جہد کا ماخذ ہے۔

مولانا محترم کا یہ اعتراض تو گویا اس طرح کی بات ہوئی کہ کوئی شخص آپ کے سامنے یہ بات کہے کہ قرآن مجید کی آیت ’اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ المُتَطَہِّرِیْنَ‘۹؂ نماز سے پہلے وضو کرنے کا حکم دے رہی ہے۔ آپ اس بات کی تردید کرتے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ سورۂ بقرہ کی یہ آیت وضو کے حکم کا ماخذ نہیں ہے۔ آپ کی اس بات کے جواب میں وہ یہ کہتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کے صحابہ ، تابعین، تبع تابعین اور آج تک پوری امت کا عمل یہی ہے کہ نماز سے پہلے وضو کیا جاتا ہے، لیکن عربیت کے یہ ماہر کہتے ہیں کہ سورۂ بقرہ کی مذکورہ آیت وضو کے حکم کا ماخذ نہیں ہے۔ ظاہر ہے، آپ اس جواب پر حیرت ہی کا اظہار کر سکتے اور یہی کہہ سکتے ہیں کہ ’ہمیں اس سے انکار نہیں ہے کہ نماز سے پہلے وضو کرنا ضروری ہے۔ ہم تو صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ سورۂ بقرہ کی مذکورہ آیت ا س حکم کا ماخذ نہیں ہے‘۔

ہمارے نزدیک آیۂ ’اظہار دین‘ غلبۂ دین کی کسی جد و جہد کا ماخذ نہیں ہے۔ ظاہر ہے، ہماری بات کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے غلبۂ دین کے لیے کوئی جد و جہد ہی نہیں کی۔ بے شک، اس کے لیے انھوں نے بھرپور جد و جہد کی اور لاریب، ان کی یہ جد و جہد قرآن مجید ہی کے حکم پر مبنی تھی، مگر آیۂ ’اظہار دین‘ بہرحال اس جد و جہد کا ماخذ نہیں ہے۔

سوال یہ نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے دین حق کے غلبے کی جد و جہد کی تھی یا نہیں۔ سوال یہ بھی نہیں ہے کہ سر زمین عرب میں دین حق کو جو غلبہ حاصل ہوا، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی جد و جہد کا ثمر تھا یا نہیں۔ سوال تو صرف یہ ہے کہ آیۂ ’اظہار دین‘ اس جد وجہد کا ماخذ ہے یا نہیں۔ ہمارے نزدیک، اس آیت میں ایک خدائی فیصلہ بیان ہوا ہے، اس میں اللہ تعالیٰ کی ایک اسکیم سے پردہ اٹھایا گیا ہے، یہ آیت نہ پہلے کسی جد و جہد کا ماخذ تھی، نہ آج کوئی اسے اپنی کسی جد و جہد کا ماخذ قرار دے سکتاہے۔ ۱۰؂

_______

۹؂ البقرہ ۲: ۲۲۲۔ ’’بے شک، اللہ بہت زیادہ توبہ کرنے والوں اور بہت پاک صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘​۱۰؂ دین کے غلبے اور نفاذ کی جد و جہد کے صحیح ماخذ کے لیے دیکھیے، فروری ۱۹۹۶ء کے ماہنامہ ’’اشراق‘‘ میں ہمارا مضمون’’اقامت دین‘‘۔

____________

B