آیۂ ’اظہار دین‘ سے کوئی مفہوم اخذ کرنے میں اس کے سیاق و سباق، اس کے الفاظ اور اس کے جملوں کے درو بست کا اگر پورا پورا لحاظ کیا جائے، تب بھی اس سے وہ نتیجہ کسی طرح نہیں نکالا جا سکتا جو مولانا گوہر رحمان صاحب نے نکالا ہے۔
سب سے پہلے اس آیت کے سیاق و سباق کو لیجیے۔ اس معاملے میں سورۂ توبہ اور سورۂ صف میں اس آیت کو اس کی متصل پہلے کی آیت کے ساتھ ملا کر دیکھیے تو یہ بھی مولانا محترم کے بیان کردہ نتیجے کواُگلے دے رہی ہے۔ دونوں مقامات پر ان آیات کو ملاحظہ فرمائیے۔ سورۂ توبہ میں ارشاد ہے:
یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِءُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَیَاْبَی اللّٰہُ اِلاّ آاَنْ یُّتِمَّ نُوْرَہٗ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ. ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ. ( ۹: ۳۲۔۳۳)
’’یہ (اہل کتاب) چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں۔ اور اللہ اس سے انکار کرتا ہے، وہ اپنے نور کو لازماً کامل کر کے رہے گا، خواہ ان کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہی ہے جس نے اپنی ہدایت اور دین حق کے ساتھ اپنے رسول کو بھیجا ہے تاکہ وہ تمام ادیان پر اسے غالب کر دے۔ اگرچہ یہ بات ان مشرکوں کے لیے کتنی ہی ناگوار ہو۔‘‘
سورۂ صف میں یہ آیات اس طرح آئی ہیں:
یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِءُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ. ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ.(۶۱: ۸۔۹)
’’یہ (اہل کتاب) چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں۔ اور اللہ (کا فیصلہ ہے کہ وہ) اپنے نور کو لازماً کامل کر کے رہے گا۔ خواہ ان کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہی ہے جس نے اپنی ہدایت اور دین حق کے ساتھ اپنے رسول کو بھیجا ہے تاکہ وہ تمام ادیان پر اسے غالب کر دے۔ اگرچہ ان مشرکوں کے لیے یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔‘‘
ان دونوں آیتوں کو ایک ساتھ پڑھیے۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ دونوں مقامات پر دوسری آیت میں پہلی آیت ہی کی وضاحت اور اسی کا بیان ہے۔ گویا پہلی آیت میں فرمایا ہے کہ اللہ لازماً اپنے نور کو کامل کر کے رہے گا اور دوسری آیت میں یہ واضح فرما دیا ہے کہ اس تکمیل نور سے مراد کیا ہے۔ دونوں آیتوں کا مجموعہ یہ بتا رہا ہے کہ جس طرح کفار کی خواہشات، ان کی کوششوں اور ان کی چالوں کے علی الرغم اللہ کے نور کا اتمام ہوکے رہے گا، اسی طرح یہ مشرکین جتنا چاہے زور لگا لیں، اللہ کا دین باقی تمام ادیان پر غالب آ کے رہے گا۔ بالفاظ دیگر دوسری آیت، پہلی آیت کی تفسیر کر رہی ہے۔ یہی بات واضح کرتے ہوئے امام رازی رحمہ اللہ نے سورۂ صف کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ایک قول نقل کیا ہے جس میں انھوں نے ’اتمام نور‘ کے معنی ’اظہار دین‘ بیان کیے ہیں۔
ان دونوں آیتوں کا یہ تعلق بالکل واضح ہے۔ چنانچہ دیکھیے، شوکانی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں ان دونوں آیتوں کا یہ تعلق بیان کرتے ہوئے آیۂ ’اظہار دین‘ کے بارے میں لکھا ہے:
مستأنفۃ مقررۃ لما قبلہا. (فتح القدیر ۵/ ۲۵۵)
’’یہ جملہ مستانفہ ہے، اس میں پچھلی بات ہی کو موکد کیا گیا ہے۔‘‘
امام رازی رحمہ اللہ ان دونوں آیتوں کا باہمی تعلق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
إعلم أنہ تعالٰی لما حکی عن الأعداء أنھم یحاولون إبطال أمر محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم و بین تعالٰی أنہ یأبی ذلک الإبطال ؤانہ یتم أمرہ بین کیفیۃ ذلک الإتمام فقال ’ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ‘. (التفسیر الکبیر ۱۵/ ۳۹)
’’مخالفین کے بارے میں یہ بتانے کے بعد کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ بیان کر دینے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ ان کی چالوں کو کبھی کامیاب نہ ہونے دے گا اور اپنے اس فیصلے کو پورا کرے گا، اگلی آیت میں یہ واضح فرما دیا ہے کہ وہ اپنے نور کا اتمام کس طرح کرے گا۔ چنانچہ فرمایا: ’ہُوَالَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ‘۔‘‘
علامہ آلوسی بغدادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
والجملۃ بیان وتقریر لمضمون الجملۃ السابقۃ. (روح المعانی ۱/ ۸۶)
’’یہ جملہ پچھلے جملے کے مضمون کی تقریر اور اس کی وضاحت ہے۔‘‘
یہی بات قاضی بیضاوی رحمہ اللہ نے بھی کہی ہے۔ ان کے نزدیک دوسری آیت پہلی آیت کے بیان کی حیثیت رکھتی ہے۔
اس لحاظ سے دیکھیے تو جو بات پہلی آیت میں ایک تمثیلی انداز میں یہود و نصاریٰ کے حوالے سے بیان ہوئی ہے، وہی بات دوسری آیت میں حقیقت کے اعتبار سے مشرکین عرب کے حوالے سے بیان ہو گئی ہے۔ پہلی آیت میں اگر خدا کا ایک وعدہ بیان ہوا ہے تو دوسری آیت میں بھی محض رسول کا کوئی مشن نہیں ، بلکہ خدا کا ایک وعدہ ہی بیان ہوا ہے۔ مزید براں، دوسری آیت میں بیان کردہ ارسال رسول کی علت و حکمت اور اس کا مقصد و ہدف اگر فی الواقع اب تک پورا نہیں ہوا، جیسا کہ مولانا محترم اور ان کے ہم فکر حضرات کا کہنا ہے، تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ’اتمام نور‘ کا جو وعدہ فرمایا ہے، وہ بھی اب تک پورا نہیں ہوا۔ اور یہ بات ظاہر ہے بالکل غلط ہو گی۔
آیت کے سیاق کے بعد اب اس کے الفاظ پر بھی غور کر کے دیکھیے۔ سورۂ توبہ اور سورۂ صف میں یہ آیت جس طرح آئی ہے، اس کے آخر میں ’وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ‘ کے الفاظ ہیں۔ قرآن مجید پر تدبر کی نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ’الْمُشْرِکُوْنَ‘ کا لفظ بنی اسماعیل کے لیے ایک اسم علم کے طور پر آیا ہے۔ چنانچہ مولانا امین احسن اصلاحی اس لفظ کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’یہ امر ملحوظ رہے کہ مشرکین اور مشرکات کا لفظ قرآن میں خاص عرب کے مشرکین اور مشرکات کے لیے بطور لقب یا علم کے استعمال ہوا ہے، دوسری قومیں جن میں شرک پایا جاتا ہے، خواہ وہ اہل کتاب میں سے ہوں یا مشابہ اہل کتاب میں سے، وہ براہ راست اس لفظ کے تحت نہیں ہیں۔‘‘ (تدبر قرآن۱/ ۵۱۹)
قرآن مجید کے لفظ ’الْمُشْرِکُوْنَ‘ کے بنی اسماعیل کے لیے خاص ہونے کے نتیجے میں آپ سے آپ یہ بات لازم آتی ہے کہ آیۂ زیر بحث میں ’عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ‘ کے ’الدِّیْنِ‘ کا ’لام‘ عہد کے لیے مانا جائے اور اس سے سر زمین عرب ہی کے تمام ادیان مراد لیے جائیں۔ گویا پوری بات اس طرح سے ہے: ’’تاکہ وہ اپنے دین کو اس سر زمین کے باقی تمام ادیان پر غالب کر دے، خواہ عرب کے ان مشرکوں کو یہ بات کتنی ہی ناگوار گزرے‘‘۔
ہماری اس بات کو ایک مثال سے سمجھ لیجیے۔ دیکھیے، کوئی شخص اگر کہے: ’تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی جائے گی، اگرچہ یہ بات پاکستانی عوام پر کتنی ہی شاق گزرے‘ یا کوئی یہ کہے: ’جاپانی قوم کی خواہشات کے علی الرغم تمام شراب خانے بند کر دیے جائیں گے‘، تو صاف ظاہر ہے کہ پہلے جملے میں ’پاکستانی عوام‘ کے الفاظ خود بتا رہے ہیں کہ ’تمام سیاسی جماعتوں‘ سے مراد پاکستا ن کی تما م سیاسی جماعتیں ہیں۔ اس جملے میں اس سے دنیا کی تمام سیاسی جماعتیں مراد نہیں لی جا سکتیں۔ اسی طرح دوسرے جملے میں ’جاپانی قوم‘ کے الفاظ اس بات کا ثبوت ہیں کہ ’تمام شراب خانے‘ کا مصداق جاپان ہی کے تمام شراب خانے ہیں، اس سے دنیا کے تمام شراب خانے بہرحال مراد نہیں ہیں۔ بالکل اسی طرح آیۂ زیر بحث میں بھی ’الْمُشْرِکُوْنَ‘ کا لفظ چونکہ مشرکین بنی اسماعیل ہی کے لیے قرآن مجید میں استعمال ہوا ہے، اس وجہ سے ’الدِّیْنِ کُلِّہٖ‘ یا ’تمام ادیان‘ سے سر زمین عرب ہی کے تمام ادیان مراد ہو سکتے ہیں۔ گویا آیت میں جو بات بیان ہوئی ہے، وہ کچھ اس طرح ہے:
’’مشرکین بنی اسماعیل کی خواہشات کے علی الرغم، اللہ کا یہ دین تمام ادیان پر غالب آئے گا۔‘‘
غور کیجیے، جس اصول پر پہلے جملے میں ’تمام سیاسی جماعتوں‘ سے صرف پاکستان کی تما م سیاسی جماعتیں اور دوسرے جملے میں ’تمام شراب خانے‘ سے جاپان ہی کے شراب خانے مراد ہیں، اسی اصول پر اس جملے میں بھی ’تمام ادیان‘ کی ترکیب سرزمین عرب ہی کے تمام ادیان کے لیے ماننی پڑے گی۔
اس صورت میں کوئی شخص اگر یہ کہے کہ ’الدِّیْنِ کُلِّہٖ‘ یا ’تمام ادیان‘ سے پوری دنیا کے تما م ادیان مراد ہیں، جیسا کہ مولانا محترم اور ان کے ہم فکر اصحاب کا کہنا ہے، تو اسے یہ بات ثابت کرنی پڑے گی کہ قرآن مجید میں ’الْمُشْرِکُوْنَ‘ کسی خاص قوم یا گروہ کے لیے نہیں، بلکہ محض شرک کرنے والوں کے معنی میں آیا ہے، لیکن اس کے برخلاف یہ مان لینے کے بعد کہ قرآن مجید کے عرف میں ’الْمُشْرِکُوْنَ‘ مشرکین بنی اسماعیل ہی کے لیے آیا ہے، ایک نتیجے کے طور پر یہ بہرحال ماننا پڑے گا کہ آیۂ زیربحث میں ’الدِّیْنِ کُلِّہٖ‘ میں الف لام عہد کے لیے ہے اور اس سے مراد سرزمین عرب کے تمام ادیان ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو ’وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ‘ کا پچھلی بات سے کوئی تعلق نہیں رہ جائے گا۔ اس کے بعد ’الدِّیْنِ کُلِّہٖ‘ کے الف لام کو جنس کے لیے قرار دینے اور اس سے دنیا بھر کے تمام ادیان مراد لینے سے قرآن مجید کا یہ جملہ بالکل بے معنی ہو جائے گا۔ یہ ایک ایسی ہی بات ہو گی کہ اوپر کی مثالوں میں سے پہلے جملے میں ’تمام سیاسی جماعتوں‘ کے الفاظ سے دنیا کی تمام سیاسی جماعتیں اور ’تمام شراب خانے‘ سے دنیا کے تمام شراب خانے مراد لے لیے جائیں۔
چنانچہ آیۂ زیر بحث سے مولانا محترم کے بیان کردہ نتائج اسی صورت میں نکالے جا سکتے ہیں جب نہ صرف اس آیت کے موقع و محل اور پس منظر سے صرف نظر کر لیا جائے، بلکہ قرآن مجید کے عرف سے بھی آنکھیں بند کر لی جائیں۔
اب ایک نظر آیۂ ’اظہار دین‘ کے جملوں پر بھی ڈالیے۔ آیت کے آخری الفاظ ’وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ‘ اور ’وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًا ۶‘ اس بات کا ایک واضح قرینہ ہیں کہ یہاں اگر ارسال رسول کی علت و حکمت اور اس کا مقصد و ہدف بیان ہوا بھی ہے تو اس علت، اس حکمت، اس مقصد اور اس ہدف کو لازماً پورا ہونا ہے۔
یہاں یہ واضح رہے کہ ’یُظْہِرَ‘ کی ضمیر کا فاعل اللہ کو مانا جائے یا اللہ کے رسول کو، اس سے آیت کے اس مفہوم و مدعا میں کوئی خاص فرق واقع نہیں ہوتا۔ دونوں ہی صورتوں میں عربیت کی رو سے، البتہ یہ ضروری ہو گا کہ ’وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ‘ اور ’وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا‘سے پہلے ایک پورا جملہ محذوف مانا جائے ۷۔ اس محذوف جملے کو کھول دیجیے تو ان آیات میں جوبات بیان ہوئی ہے، وہ کچھ اس طرح ہو گی:
’’وہی ہے جس نے اپنے پیغمبر کو اپنی ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ وہ اسے دوسرے تمام ادیان پر غالب کرے۔ اور (یہ لازماً ہو کر رہے گا،) خواہ ان مشرکوں کے لیے یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔‘‘ (التوبہ۹: ۳۳، الصف۶۱: ۹)
’’وہی ہے جس نے اپنے پیغمبر کو اپنی ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ وہ اسے دوسرے تمام ادیان پر غالب کر دے۔ اور (اللہ گواہ ہے کہ ایسا ہو کر رہے گا۔ اور بے شک، اس معاملے میں) اللہ ہی کی گواہی کافی ہے۔‘‘ (الفتح۴۸:۲۸)
اس سیاق میں ’وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ‘ اور ’وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا‘ کے معنی بالکل واضح ہیں۔ چنانچہ دیکھیے، صاحب ’’الکشاف‘‘ زمخشری رحمہ اللہ ’وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا‘ کے الفاظ کے بارے میں لکھتے ہیں:
وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا علی أن ما وعدہ کائن.(۴/ ۳۴۶ )
’’اوراللہ ہی کی گواہی کافی ہے، اس بات پر کہ جو وعدہ اس نے کیا ہے، وہ لازماً پورا ہو گا۔‘‘
طبری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وقولہ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا یقول جل ثناؤہ لنبیہ أشہدک یا محمد ربک علی نفسہ انہ سیظہر الدین الذی بعثک بہ. (جامع البیان ۲۶/ ۶۹)
’’اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد ’وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًا‘ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے فرمایا کہ یامحمد، تمھارا رب خود گواہ ہے کہ وہ اس دین کو عنقریب غالب کردے گا جس کو اس نے تمھارے ساتھ بھیجا ہے۔‘‘
شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًا...أی کفی اللّٰہ شھیدًا علی ہذا الإظہار الذی وعد المسلمین بہ.(فتح القدیر ۵/ ۶۴ )
’’’وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًا‘ ...سے مراد یہ ہے کہ مسلمانوں سے جس غلبے کا وعدہ کیا گیا ہے، اس کی سچائی پر اللہ ہی کی گواہی کافی ہے۔‘‘
آلوسی بغدادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًا علی أن ما وعدہ عزوجل من إظھار دینہ علی جمیع الأدیان أو الفتح کائن لا محالۃ.(روح المعانی ۲۶/ ۱۲۳)
’’اور اللہ کی گواہی کافی ہے کہ اس نے باقی تمام ادیان پر اپنے دین کے غلبے کا یا فتح کا جو وعدہ کیا ہے، وہ لازماً پورا ہو کر رہے گا۔‘‘
ابو حیان رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وکفی باللّٰہ شہیدًا علی أن ما وعدہ کائن.(البحر المحیط ۴/ ۳۴۶)
’’اور اللہ ہی کی گواہی کافی ہے، اس بات پر کہ جو وعدہ اس نے کیا ہے، وہ لازماً پورا ہو گا۔‘‘
نیشا پوری رحمہ اللہ اپنی تفسیر ’’غرائب القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں:
وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًا علی أن ہذا الدین یعلو ولا یعلی. (۶ / ۱۵۲)
’’اور اللہ کی گواہی کافی ہے، اس بات پر کہ یہ دین غالب آئے گا، مغلوب نہیں ہو گا۔‘‘
اسی طرح ’وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ‘ کے معنی بھی اتنے واضح ہیں کہ مفسرین نے بالعموم اس کی تفسیر کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ بعض لوگوں نے اس کی طرف محض اشاروں پر اکتفا کیا ہے۔ مثال کے طور پر شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ومعنی لِیُظْھِرَہٗ: لیجعلہ ظاہرًا علی جمیع الأدیان عالیًا علیہا غالبًا لہا ولو کرہ المشرکون ذلک فانہ کائن لا محالۃ.(فتح القدیر ۵/ ۲۵۵)
’’’لِیُظْہِرَہٗ‘ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اسے دوسرے تمام ادیان پر غلبہ بخشے گا، اسے ان پر بلند کرے گا، ان پر غالب کرے گا اور اگرچہ یہ مشرکین کو کتنا ہی برا لگے، پھر بھی یہ بہرحال ہو کر رہے گا۔‘‘
صاحب ’’روح المعانی‘‘ آلوسی بغدادی رحمہ اللہ کے نزدیک، ’وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ‘ کے وہی معنی ہیں جو ’وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ‘ کے ہیں۔ ’وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ‘ کے بارے میں لکھتے ہیں:
والمراد أنہ سبحانہ یتم نورہ.(۸۶/۱۰)
’’اور اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر حال میں اپنے نور کا اتمام کرے گا۔‘‘
اس ساری بحث سے یہ بالکل واضح ہے کہ ’وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ‘ اور ’وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًا‘ کے ہوتے ہوئے یہ کسی طرح نہیں مانا جا سکتا کہ اس آیت کو کسی شخص، جماعت، گروہ یا امت کی جدو جہد کا ماخذ قرار دیا جائے۔ آیت کے آخری جملوں کی موجودگی میں اس سے وہ نتیجہ کسی طرح بھی نہیں نکالا جا سکتا جو مولانا گوہر رحمان صاحب بیان فرما رہے ہیں۔ آیت اپنی موجودہ صورت میں محض ایک خبر دے رہی ہے، اس میں کسی کے لیے کسی جد و جہد کا کوئی حکم نہیں ہے۔
چنانچہ مولانا وحید الدین خان نے اپنی کتاب ’’تعبیر کی غلطی‘‘ میں یہی بات ان الفاظ میں کہی ہے:
’’...یہاں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک خبر ہے نہ کہ عام معنوں میں محض ایک حکم یعنی ان الفاظ میں اظہار دین کی صرف کوشش کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ اظہار دین کو لازماً وقوع میں آنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اسی لیے بھیجا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے اپنے دین کو تمام دوسرے ادیان پر غالب کر دے۔ کفار و مشرکین اگرچہ اس واقعہ کو روکنے کے لیے اپنی ساری قوت صرف کر رہے ہیں۔ مگر مالک کائنات ایسے کسی امکان کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے، جب اس کامنصوبہ عمل میں نہ آئے۔...
اس انداز بیان سے صاف ظاہر ہے کہ اس میں کسی ایسی مخلوق کے مشن کا ذکر نہیں ہے جس کے بس میں صرف یہ ہے کہ وہ کوشش کر دے، خواہ اس کی کوششوں کانتیجہ نکلے یا نہ نکلے بلکہ اس میں ایک ایسی ہستی کے عمل کا ذکر ہے جو ’کُنْ فَیَکُوْنَ‘ کی شان رکھتا ہے۔ یہاں دراصل اللہ تعالیٰ کے اپنے ایک ارادے کا اعلان ہے جس کو وہ کفار و مشرکین کی ساری مخالفتوں کے باوجود لازماً پورا کرنے والا ہے۔ کلام الٰہی کا انداز یہ ہے کہ وہ فیصلہ کن اندازمیں یہ امکان تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہیں کہ عرب میں جس واقعہ کو ظہور میں لانا طے کیا گیا ہے وہ ظہور میں نہ آئے ظاہر ہے کہ یہ خدا ہی کا فعل ہو سکتا ہے نہ کہ کسی انسان کا۔ ارادے اور واقعہ میں اس قسم کا لزوم خدا کے لیے تو بے شک ممکن ہے مگر انسان کے بس میں نہیں ہے کہ وہ جو کچھ چاہے اس کو حالات کے علی الرغم وقوع میں بھی ضرور لادے۔‘‘ ۱۲۴))
آیت کا یہی وہ پہلو ہے جس کے باعث مولانا ابوالاعلیٰ صاحب مودودی رحمہ اللہ نے بھی اس کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’...یہ کام اسے (یعنی رسول کو) بہر حال کر کے رہنا ہے۔ کافر او ر مشرک مان لیں تو، اور نہ مانیں تو اور مزاحمت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں تو، رسول کا یہ مشن ہر حالت میں پورا ہو کر رہے گا۔‘‘ (تفہیم القرآن ۵/ ۴۷۷)
چنانچہ، آیت کے ان جملوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات پورے شرح صدر کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اس سے وہ نتیجہ کسی طرح نہیں نکلتا جو مولانا محترم بیان فرما رہے ہیں۔ اس میں ایک خدائی فیصلہ بیان ہوا ہے، اس میں سر زمین عرب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا نتیجہ بیان ہوا ہے اور اس میں اس سنت الٰہی کے ظہور کی صورت بیان ہوئی ہے جس کے بارے میں قرآن مجید کا اصرار ہے کہ ’لَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبدِیْلًا‘ ۔۸
آیۂ ’اظہار دین‘ کے پس منظر، قرآن مجید میں اس کے موقع و محل، عرف قرآن کے مطابق اس کے الفاظ کے معنی اور اس کے جملوں کے درو بست کے بارے میں ہم نے یہاں اپنے نقطۂ نظر کی تفصیل کر دی ہے۔ اس ساری بات کو استاذ گرامی نے اپنی کتاب ’’برہان‘‘ میں چند سطروں میں اس طرح بیان کیا ہے:
’’سورۂ صف کی زیر بحث آیت درحقیقت اسی سنت سے متعلق ہے۔
آیت کا تجزیہ کیجیے: اس میں ’لِیُظْہِرَہٗ‘ کی ضمیر مرفوع کا مرجع قواعد زبان کے مطابق ’اللّٰہ‘ اور ضمیر منصوب کا مرجع ’الْہُدٰی‘ یعنی ’دِیْنِ الْحَقِّ‘ ہے۔ ’الدِّیْنِ کُلِّہٖ‘ چونکہ ’وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ‘ کا معطوف علیہ ہے اور ’الْمُشْرِکُوْنَ‘ کی تعبیر قرآن مجید میں ہمیشہ مشرکین عرب کے لیے اختیار کی جاتی ہے، اس لیے ’الدِّیْنِ‘ کا الف لام عربیت کی رو سے لازماً عہد کے لیے ہے۔ چنانچہ تمام ادیان سے یہاں سر زمین عرب کے تمام ادیان مراد ہیں۔ اس تجزیے کے لحاظ سے آیت کے معنی ہم اس طرح بیان کریں گے:
’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت،یعنی دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اس دین کو (سرزمین عرب کے) تمام ادیان پر غالب کر دے، اگرچہ یہ بات ان مشرکین کو کتنی ہی ناگوار ہو۔‘‘
قواعد عربیت اور نظائر قرآن کی روشنی میں آیت کا ترجمہ یہی ہو سکتا ہے اور اس ترجمے سے واضح ہے کہ غلبۂ دین کے لیے اب کسی شخص کی جد و جہد کا اس آیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سورۂ صف کے مخاطب صحابۂ رسول ہیں اور اس کا موضوع رسول کی نصرت کے لیے جہاد کی ترغیب ہے۔ یہ نصرت، قرآن کے مطابق رسول کے ماننے والوں پر اس کا خاص حق ہے۔...
قرآن مجید کے دوسرے دو مقامات پر بھی یہ آیت اسی طرح کے سیاق میں آئی ہے۔ اس کا حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ ہی کے ساتھ خاص ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب قیامت تک کسی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس آیت کے حکم اور اس کے مقتضیات و لوازم کا کوئی تعلق اپنی ذات یا اپنی جد و جہد کے ساتھ قائم کرے۔‘‘ ( ۱۷۲۔۱۷۳)
مولانا محترم نے اپنے مضمون میں استاذ گرامی کی بات کا اپنے انداز میں تعاقب کیا ہے اور اس کے بارے میں چند اعتراضات اٹھائے ہیں۔ مولانا نے اگرچہ ان دلائل پر کوئی بحث نہیں کی جو استاذ گرامی نے اپنی کتاب میں پیش کیے ہیں۔ پھر بھی ہم یہاں مولانا کے ان اعتراضات کا جائزہ لے لیتے ہیں۔
_______
۶ سورۂ توبہ (۹: ۳۳) اور سورۂ صف (۶۱: ۹) میں یہ آیت ’وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ‘ کے الفاظ پر اور سورۂ فتح (۴۸: ۲۸) میں ’وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًا‘ (اور اللہ کی گواہی کافی ہے)کے الفاظ پر ختم ہوئی ہے۔۷ ’وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ‘ اور ’وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًا‘ اپنے سے پہلے جملے کے ساتھ عطف و معطوف کی مناسبت نہیں رکھتے، اس وجہ سے یہاں لازماً ایک پورا جملہ محذوف ماننا پڑے گا۔
۸ الفتح ۴۸: ۲۳۔ ’’تم ہرگز اللہ کی اس سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔‘‘
____________