قرآن مجید کے مجموعی نظم میں سورۂ توبہ، سورۂ فتح اور سورۂ صف کا مقام، ان سورتوں کا مرکزی مضمون اور ان میں اس آیت کے موقع و محل پر غور کیجیے۔
سب سے پہلے سورۂ صف کو دیکھیے۔ سورۂ صف قرآن مجید کے چھٹے گروپ کی سورہ ہے۔ ۵ یہ گروپ سورۂ ق سے شروع ہوتا اور سورۂ تحریم پر ختم ہوتا ہے۔ اس گروپ کا اصل مضمون آخرت پر ایمان اور اس ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے کی دعوت ہے۔ سورۂ ق سے سورۂ واقعہ تک قیامت پر استدلال اور اس ضمن میں مخالفین کے مزعومہ عقائد اور ان کے اعتراضات کی تردید ہے اور سورۂ حدید سے سورۂ تحریم تک آخرت پر ایمان کے تقاضوں کا تفصیل سے ذکر ہے۔ ان تقاضوں میں سب سے زیادہ نمایاں ایک طرف طبیعتوں میں سے نفاق کو ختم کرنا اور دوسری طرف اپنی جان اور اپنے مال کے ذریعے سے اللہ کے دین کی نصرت کرنا ہے۔
سورۂ صف میں بات کو شروع ہی یہاں سے کیاہے کہ ’ایمان کا دعویٰ کرنے والو، تم اگر ایمان کے تقاضے پورے نہیں کر سکتے اور اپنے دین کی نصرت کے لیے دشمن کے خلاف صف آرا نہیں ہو سکتے تو ایمان کا دعویٰ ہی کیوں کرتے ہو‘۔ اس کے بعد تاریخ کے اوراق میں سے یہود کی مثال دے کر بتایا ہے کہ انھوں نے بھی اپنے پیغمبر کی نصرت کے معاملے میں یہی روش اختیار کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ایمان و عمل کی توفیق ہی سے محروم ہو گئے اور قبول حق کے معاملے میں ان کے دل ٹیڑھے ہو گئے، اسی وجہ سے جب حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام تورات کی پیشین گوئیوں کے مصداق بن کر اور واضح دلائل و براہین لے کر ان کے پاس آئے تو وہ ان پر ایمان لانے سے محروم رہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مؤید بننے کے بجاے یہ اس کے سب سے بڑے مخالف بن کر سامنے آئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے جو شمع روشن کی ہے، اسے اپنی پھونکوں سے بجھا دیں، مگر اللہ نے بھی یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ ان کی خواہشات کے علی الرغم اپنے اس ’نور کا اتمام‘ کر کے رہے گا۔ اس نے اپنے ’رسول‘ کو اپنی ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ چنانچہ رسولوں کے باب میں اللہ تعالیٰ کی سنت کے مطابق اب اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ اپنے دین کو اس سر زمین کے تمام ادیان پر غالب کر دے گا، خواہ ان مشرکوں کے لیے یہ بات کتنی ہی ناگوار ہو۔ یہ نتیجہ تو بہرحال نکل کر رہے گا۔ البتہ تم لوگ اگر آخرت کی کامیابی چاہتے ہو تو ضروری ہے کہ پیغمبر کی نصرت کے معاملے میں اپنی جان و مال کی قربانی سے بھی دریغ نہ کرو۔ اس کے نتیجے میں اللہ تمھیں آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا کی کامیابیوں سے بھی سرفراز کرے گا۔ یاد رکھو، اس معاملے میں قابل اتباع رویہ یہود کا نہیں، بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حواریوں کا ہے۔ جب وہ اپنے پیغمبر کی نصرت کے لیے تیار ہو گئے تو اللہ نے ان کی مدد کی اور وہ اپنے مخالفین پر غالب آ گئے۔
مولانا امین احسن اصلاحی سورۂ صف کی آیۂ ’اظہار دین‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’یہ ’وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ‘ کی وضاحت ہے کہ اسی خدا نے جس نے اپنے نور کو کامل کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے، اپنی ہدایت اور اپنے دین حق کے ساتھ اپنے رسول کو بھیجا ہے کہ اس دین کو اس سر زمین کے تمام ادیان پر غالب کرے، اور یہ بات لازماً ہو کے رہے گی اگرچہ مشرکین کو یہ کتنی ہی ناگوار گزرے، اور وہ اس کے خلاف کتنا ہی زور لگائیں۔
اوپر والی آیت میں ’وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ‘ فرمایا ہے جو فی الجملہ عام ہے۔ جس میں وہ سب شامل ہیں جو اس دین حق اور اس رسول برحق کے انکار کرنے والے تھے۔ اس آیت میں ’وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ‘ کے الفاظ ہیں جو خاص مشرکین قریش کے لیے ہیں۔ ان دونوں لفظوں نے مل کران تمام مخالف طاقتوں کو اپنے اندر سمیٹ لیا ہے جو اس وقت عرب میں اسلام کی مخالفت کر رہی تھیں۔ گویا ان سب کو چیلنج کیا ہے کہ تمھیں جتنا زور لگانا ہے لگا لو، لیکن تم اللہ کے دین کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکو گے۔ اللہ کا قطعی فیصلہ یہی ہے کہ اس رسول کے ذریعے سے اس کا دین حق اس سر زمین کے تمام ادیان پر غالب آ کے رہے گا۔ چنانچہ یہ بات پوری ہو کر رہی۔ بہت جلد وہ وقت آ گیا کہ پورے عرب کے متعلق یہ اعلان ہو گیا کہ اس سر زمین میں دو دین جمع نہیں ہوں گے ،بلکہ صرف اللہ کے دین ہی کی حکمرانی ہو گی۔‘‘ (تدبر قرآن ۸/ ۳۶۴۔۳۶۵ )
اس کے بعد سورۂ فتح کو دیکھیے۔ سورۂ فتح قرآن مجید کے پانچویں گروپ کی سورہ ہے۔ یہ گروپ سورۂ سبا سے شروع ہوتا اور سورۂ حجرات پر ختم ہوتا ہے۔ اس گروپ کا جامع موضوع توحید کا اثبات اور اس کے مقتضیات کا بیان ہے۔ سورۂ سبا سے سورۂ احقاف تک مختلف پہلوؤں سے توحید پر استدلال بھی ہے اور یہ وضاحت بھی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منکرین کو دنیا اور آخرت میں کس طرح کے نتائج کا سامنا کرنا ہو گا۔ اس کے بعد سورۂ محمد سے سورۂ حجرات تک مسلمانوں کو اپنے معاملات درست کرنے، اللہ کے رسول کی نصرت کرنے اور منکرین کے خلاف جہاد کرنے کی ہدایات ہیں۔ اسی ضمن میں منکرین کو ان کے انجام سے آگاہ کیا ہے اور مسلمانوں کو دنیا اور آخرت میں کامیابی کی بشارت دی ہے۔
سورۂ فتح کا آغاز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس بات کی بشارت سے ہواہے کہ صلح حدیبیہ کی شکل میں آپ کو ایک واضح فتح نصیب ہوئی ہے۔ اب وہ وقت بھی دور نہیں، جب آپ کو منکرین پر کامل غلبہ حاصل ہو گا اور اللہ تعالیٰ اپنے دین کی نعمت کا اتمام کرے گا۔ اسی ضمن میں حدیبیہ کی مہم کے چند فوائد کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس کے بعد مسلمانوں کو اس بات کی یاد دہانی کرائی ہے کہ رسول کی نصرت اس پر ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ جو لوگ رسول کی نصرت سے گریز کریں گے، وہ اس سے اللہ یا اس کے رسول کا کوئی نقصان نہیں کریں گے۔ اس میں سارا نقصان ان کا اپنا ہے۔ اس کے بعد پیغمبر کو ان منافقوں کی چالوں سے آگاہ کیا ہے جنھوں نے اس نازک وقت میں دین کی نصرت سے منہ پھیرا تھا۔ ان کے بارے میں جو باتیں مستقبل کی مہمات میں ملحوظ رہنی چاہییں، وہ بیان کر دی ہیں۔ ساتھ ہی ایسے معذورین کا بیان آ گیا ہے جن کی جنگوں سے غیر حاضری نفاق پر محمول نہیں ہو گی۔ منافقوں کے برعکس بیعت رضوان میں شرکت کرنے والے جاں نثاروں کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی، آیندہ ہونے والی فتوحات اور فتح مکہ کی بشارت دی ہے۔ اس کے بعد واقعۂ حدیبیہ پر تبصرہ کر کے واضح کیا ہے کہ اس وقت قریش کی مرعوبیت کے باوجود مسلمانوں کو جنگ کی اجازت کیوں نہ دی گئی۔ آخر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس رویا کی تصدیق ہے جس میں آپ نے مسلمانوں کو حج و عمرہ کی سعادت حاصل کرتے دیکھا تھا، مگر اس موقع پرچونکہ مسلمان یہ سعادت حاصل نہ کر سکے تھے، اس وجہ سے اس رویا کی تعبیر میں تاخیر کی حکمت بیان کر دی ہے۔ ساتھ ہی یہ بشارت بھی دے دی ہے کہ بہت جلد نہ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ رویا سچ ثابت ہو گا، بلکہ رسولوں کے باب میں اللہ تعالیٰ کی سنت کے مطابق جزیرہ نماے عرب کے تمام ادیان پر دین اسلام کا کامل غلبہ بھی قائم ہو جائے گا۔
سورۂ فتح میں آیۂ ’اظہار دین‘ کی تفسیر میں مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:
’’یہ آیت معمولی تغیر الفاظ کے ساتھ سورۂ توبہ میں بھی گزر چکی ہے اور آگے سورۂ صف میں بھی آئے گی۔ سورۂ توبہ کی تفسیر میں ہم اس کے موقع و محل اور اس کے مدعا کی وضاحت کر چکے ہیں۔ یہ دوسرے الفاظ میں فتح مکہ کی بشارت ہے، اس لیے کہ اسی کی فتح پر پورے ملک کے اندر دین حق کے غلبہ کا انحصار تھا۔ چنانچہ اس کے فتح ہو جانے کے بعد تمام ادیان، جو عرب میں موجود تھے، اسلام کے آگے سرنگوں ہو گئے اور تھوڑی ہی مدت کے اندر وہ وقت آ گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرما دیا کہ اس ملک میں دو دین مجتمع نہیں ہو سکتے۔ فرمایا کہ اسی خدا نے، جس نے اپنی وہ شانیں دکھائی ہیں، جو اوپر بیان ہوئیں، اپنے رسول کو اپنی ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے کہ اس کو تمام ادیان پر غالب کرے۔ مطلب یہ ہے کہ اب یہ تقدیر کا اٹل فیصلہ ہے، نہ اس کو مشرکین بدل سکتے اور نہ یہود و نصاریٰ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ سب کے علی الرغم نافذ ہو کے رہے گا۔
... ’ وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا‘ یعنی اس بشارت کو مخالفین خواہ کتنی ہی بعید از قیاس سمجھیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے اور اس کی صداقت کے لیے اللہ کی گواہی کافی ہے۔ یہ مسلمانوں کو تسلی دی گئی ہے کہ تم مخالفین کی مخالفت اور حالات کی نا مساعدت سے ذرا بھی ہراساں نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہو کے رہے گا۔ سورۂ توبہ کی مذکورہ بالا آیت میں جوبات ’وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ‘ اور ’وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ‘ کے الفاظ میں فرمائی گئی ہے، وہی بات یہاں دوسرے الفاظ میں ارشاد ہوئی ہے۔‘‘ (تدبر قرآن ۷/ ۴۶۹۔۴۷۰ )
اب سورۂ توبہ کو لیجیے۔ سورۂ توبہ قرآن مجید کے دوسرے گروپ کی آخری سورہ ہے۔ یہ گروپ سورۂ انعام سے شروع ہوتا اور سورۂ توبہ پر ختم ہوتا ہے۔ اس گروپ کا اصل موضوع قریش پر اتمام حجت اور انھیں ان نتائج سے آگاہ کرنا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اب لازماً ان کے سامنے آئیں گے۔ انعام میں قریش پر اتمام حجت ہے، اعراف میں انھیں انذار کیا ہے۔انفال میں مسلمانوں کو جہاد کی تیاری کی ہدایت دی ہے اور ساتھ ہی یہ فیصلہ سنا دیا ہے کہ اب بہت جلد مشرکین قریش کو بیت اللہ کی تولیت سے معزول کر دیا جائے گا۔ توبہ میں قریش کو الٹی میٹم اور منافقین کو آخری تہدید ہے۔
سورۂ توبہ بنیادی تقسیم کے لحاظ سے تین حصوں پر مشتمل ہے: پہلے حصے میں منکرین قریش کے استیصال کا حکم ہے۔ دوسرے حصے میں اہل کتاب کے منکرین کے بارے میں احکام آئے ہیں اور آخری حصے میں منافقوں کو تہدید ہے۔ پہلے دو حصوں کے آخر میں آیۂ ’اظہار دین‘ آئی ہے، اس وجہ سے ہم یہاں سورہ کے پہلے دو حصوں کا مختصر تعارف پیش کیے دیتے ہیں۔
سورہ کے آغاز میں مشرکین عرب کے استیصال کا حکم ہے۔ ان کے بارے میں دو ٹوک الفاظ میں یہ ہدایت ہے کہ ان کا خاتمہ کر دیا جائے۔ حج اکبر کے دن ان کے سامنے یہ اعلان کر دیا جائے کہ حرام مہینے ختم ہونے کے بعد بھی جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے آگے سرنگوں نہیں ہوں گے،ان کے خلاف کارروائی شروع ہو جائے گی۔ وہ جہاں کہیں پائے جائیں گے، قتل کر دیے جائیں گے۔ ان کے معاملے میں صرف دو صورتیں مستثنیٰ رکھیں: ایک یہ کہ ایسے قبائل جنھوں نے مسلمانوں کے ساتھ باندھے ہوئے عہد کی پابندی کی ہے، ان کے خلاف یہ دار و گیر معاہدے کی مدت ختم ہونے کے بعد شروع ہو گی، اس سے پہلے ان کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ کوئی شخص اگر دین کو سمجھنے کے لیے کچھ وقت کی پناہ مانگے تو یہ اسے دے دی جائے اور پناہ کی مدت پوری ہونے تک اس کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا جائے۔ اس ضمن میں مسلمانوں پر یہ بات بھی واضح فرما دی کہ یہ وہی عذاب ہے جو ان مشرکوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار کے نتیجے میں بہرحال آنا ہے۔ ساتھ ہی وہ حکمت بھی بیان فرما دی ہے جس کے تحت اللہ کا یہ عذاب مومنوں کی تلواروں کے ذریعے سے آئے گا۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کو بعض اہم ہدایات دی ہیں۔ اس کے بعد اہل کتاب کے بارے میں احکام ہیں۔ ان کے بارے میں یہ اعلان کر دیا ہے کہ ان میں سے اب بھی جو لوگ دین حق کو اختیار نہیں کرتے، ان کے خلاف کارروائی کی جائے، یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں یا مسلمانوں کے زیر دست ہو کر اور انھیں جزیہ دے کر رہنے پر آمادہ ہو جائیں۔ اس کے بعد یہود و نصاریٰ کے عقائد و اعمال پر تبصرہ ہے۔ اس ضمن میں یہ بتایا ہے کہ حق کے ساتھ ان کی دشمنی کا اب یہ عالم ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نورہدایت کو اپنی پھونکوں سے بجھا دینا چاہتے ہیں، مگر اللہ نے بھی فیصلہ کیا ہوا ہے کہ وہ ان کافروں کے علی الرغم اپنے اس نور کو کامل کر کے رہے گا۔ اب ان مشرکین کا بھی خاتمہ ہو گا اور ان اہل کتاب کو بھی مسلمانوں کا زیردست ہونا پڑے گا، کیونکہ پروردگار عالم نے اپنی ہدایت اور اپنے دین حق کے ساتھ اپنے رسول کو بھیجا ہے تو اب رسولوں کے باب میں اپنے قانون کے مطابق اس کا فیصلہ یہی ہے کہ وہ ان مشرکوں کی ہر کوشش اور ہر خواہش کے علی الرغم اپنے دین کو اس سرزمین کے تمام ادیان پر غالب کر دے گا۔ تم لوگ اس معاملے میں اگر رسول کی نصرت نہیں کرو گے تو اللہ تمھیں شدید عذاب دے گا اور تمھاری جگہ ایسے لوگ کھڑے کر دے گا جو اس کی نصرت کے لیے جان اور مال کی بازی لگا دیں گے۔ یاد رکھو، اللہ اپنے فیصلے کو پورا کرنے میں تمھارا محتاج نہیں ہے۔ تم اگر اس کی نصرت نہیں کرتے تو نہ کرو، اب اللہ نے خود اپنے بندے کی نصرت کا فیصلہ کر لیا ہے۔
اس کے بعد آخر تک سورہ میں منافقوں کے رویوں سے پردہ اٹھایا ہے اور ان کے خلاف کارروائی کے احکام دیے ہیں۔
سورۂ توبہ کی آیۂ ’اظہار دین‘ کی تفسیر کرتے ہوئے مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:
’’... اوپر آیات ۲۹۔۳۰میں یہ بات بیان ہو چکی ہے کہ اللہ نے ان کو گمراہی سے نکالنے کے لیے اپنا دین حق بھیجا ہے، لیکن یہ اس کی پیروی پر آمادہ نہیں ہیں اور ان باتوں کی آڑ لے کر اس کی مخالفت کر رہے ہیں جو محض ان کے منہ کی باتیں ہیں، نہ ان کے لیے ان کے پاس خدا کی کوئی سند ہے، نہ عقل و فطرت ہی کے اندر ان کی کوئی شہادت ہے۔ اب یہ اسی حقیقت کو ایک تمثیلی رنگ میں نمایاں کیا جا رہا ہے کہ اللہ کے دین حق کی اپنی منہ زبانی باتوں کی سند پر مخالفت کرنا ایسا ہی ہے کہ کوئی سورج کو مٹی کا دیا سمجھ کر اس کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھانا چاہے۔ فرمایا کہ یہ لوگ تو یہ کوشش کر رہے ہیں، لیکن اللہ نے یہ فیصلہ فرما لیا ہے کہ وہ اپنے نور کو کامل کر کے رہے گا اور وہ افق سے خورشید جہاں تاب بن کر چمکے گا اور اللہ کا یہ فیصلہ ان کافروں کی تمام مخالفتوں کے علی الرغم پورا ہو گا...
’ہُوَالَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِکُلِّہٖ‘ ۔اس آیت کے مضمون کی وضاحت بقرہ آیت ۱۹۲اور انفال آیت ۳۹کے تحت بھی ہو چکی ہے۔ وہاں ہم نے بتایا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ سر زمین حرم کفر و شرک کی ہر آلایش سے پاک ہو جائے اور دین حق کے سوا کوئی اور دین یہاں دین غالب کی حیثیت سے باقی نہ رہے تاکہ دعوت ابراہیمی کا یہ مرکز، دعاے ابراہیمی کے بموجب، تمام عالم کے لیے ہدایت اور روشنی کا سرچشمہ بن جائے۔ وہی بات یہاں فرمائی گئی کہ جس طرح یہ اہل کتاب اپنی پھونکوں سے خدا کے چراغ کو گل نہ کر سکیں گے اسی طرح مشرکین عرب کی کوششیں بھی اس دین کو مغلوب نہ کر سکیں گی بلکہ یہ ان کی تمام کوششوں کے علی الرغم اس سرزمین کے ہر دین پر غالب ہو کے رہے گا۔‘‘(تدبر قرآن ۳/ ۵۶۴ )
یہ آیۂ ’اظہار دین‘ کا صحیح موقع و محل ہے۔ اس پہلو سے دیکھیے تو صاف معلوم ہو گا کہ یہ آیت کسی جد و جہد کا ماخذ نہیں ہے، بلکہ اس میں ایک خدائی فیصلہ بیان ہوا ہے۔ اس لحاظ سے یہ آیت محمدبن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی ایک قطعی دلیل ہے، لیکن یہ سب کچھ اسی وقت سمجھ میں آ سکتا ہے، جب اس آیت کوقرآن مجید کے پورے پس منظر میں رکھ کر اور اس کی سورتوں کے نظم کو پوری طرح سے سمجھ کر دیکھا جائے۔
_______
۵ قرآن مجید میں سورتوں کے گروپوں کی تفصیل کے لیے دیکھیے، مولانا امین احسن اصلاحی کی تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ کا مقدمہ ۔
____________