سورۂ شوریٰ میں ارشاد ہے:
شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْْنَآ اِلَیْْکَ وَمَا وَصَّیْْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ.(۴۲: ۱۳)
’’اس نے تمھارے لیے وہی دین مقرر کیا ہے جس کی ہدایت اس نے نوح کو فرمائی اور جس کی وحی ہم نے تمھاری طرف کی اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا، اس تاکید کے ساتھ کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ نہ پیدا کرنا۔‘‘
اس آیت میں ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ یا اس سے ماخوذ اصطلاح ’اقامت دین‘ کا مفہوم متعین کرنے میں، ہمارے اور مولانا کے درمیان اختلاف ہے۔
مولانا کے نقطۂ نظر کا خلاصہ یہ ہے کہ’اقامت دین‘ یا ’دین کو قائم رکھنے‘ سے مراد پورے دین پر عمل پیرا ہونا، اسے رواج دینا اور اسے عملاً نافذ کرنا ہے۔ وہ مولانا مودودی رحمہ اللہ کی تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’جو چیزیں مادی نہیں، بلکہ معنوی ہوتی ہیں، ان کے لیے جب قائم کرنے کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، تو اس سے مراد اس چیز کی ، محض تبلیغ کرنا نہیں، بلکہ اس پر، کماحقہ، عمل درآمد کرنا، اسے رواج دینا اور اسے،عملاً نافذ کرنا ہوتا ہے... انبیا علیہم السلام کو جب اس دین کے قائم کرنے اور اسے قائم رکھنے کا حکم دیا گیا، تو اس سے مراد صرف اتنی بات نہ تھی کہ خود اس دین پر عمل کریں اور دوسروں میں اس کی تبلیغ کریں، بلکہ یہ بھی تھی کہ پورا کا پورا دین، ان میں عملاً رائج اور نافذ کیا جائے، تاکہ اس کے مطابق عمل درآمد ہونے لگے اور ہوتا رہے۔‘‘)ماہنامہ فاران ۲۳)
’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ کے معنی طے کرنے میں مولانا گوہر رحمان صاحب کا استدلال چونکہ اصلاً وہی ہے جو مولانا مودودی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے، اس وجہ سے ہم یہاں مولانا مودودی کی بات کا تفصیل سے جائزہ لیں گے۔
مولانا ابوالاعلیٰ صاحب مودودی رحمہ اللہ کے مطابق سب سے پہلی بات یہ ہے کہ معنوی چیزوں کے لیے قائم کرنے کا لفظ جب استعمال ہوتاہے تو اس سے مراد اس چیز کی محض تبلیغ کرنا نہیں ہوتا۔ اس معاملے میں ہماری گزارش یہ ہے کہ قائم کرنے کا لفظ، خواہ مادی چیزوں کے لیے آئے یا معنوی چیزوں کے لیے، ’محض تبلیغ کرنا‘ تو درکنار اس سے مراد تبلیغ کرنا کبھی ہوتا ہی نہیں ہے۔ ہم عربی زبان کے استقرا کا دعویٰ تو نہیں کرتے، مگر اتنی بات بہرحال بلاخوف تردید کہہ سکتے ہیں کہ ’أقام‘ کے لفظ کے اس معنی (تبلیغ کرنا) کے لیے کوئی ایک نظیر بھی پیش نہیں کی جا سکتی۔
اس کے بعد مولانا مودودی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قائم کرنے کا لفظ جب معنوی چیزوں کے لیے آئے تو اس سے مراد اسے رواج دینا اور اسے عملاً نافذ کرنا ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ہماری گزارش یہ ہے کہ عربی زبان میں ’أقام‘ کا لفظ، خواہ مادی چیزوں سے متعلق ہو کر آئے یا معنوی چیزوں سے، واضح قرینے کے بغیر اس کے معنی نافذ کرنے کے ہوتے ہی نہیں ہیں۔ یہ معنی صرف ایک خاص صورت میں اس کے اندر پیدا ہو جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر، جب نماز کی اقامت کے وقت مقتدی دعا کرتے ہیں: ’أقامھا اللّٰہ وأدامھا‘ (اللہ اس کو قائم و دائم رکھے) تو اس میں اگرچہ ’أقام‘ کا فعل ایک معنوی چیز (نماز) ہی کے لیے آیا ہے، مگر یہاں نافذ کرنا آخر کون مراد لے سکتا ہے؟ ظاہر ہے، یہاں اس سے مراد برقرار رکھنا یا حفاظت کرنا ہی ہو سکتا ہے۔
اسی طرح جب قرآن مجید کہتا ہے:
فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ.(البقرہ ۲: ۲۲۹ )
’’پھر اگر تمھیں اندیشہ ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی کو قائم نہ رکھ سکیں گے۔‘‘
تو یہاں پر بھی اگرچہ ’أقام‘ کا فعل ایک معنوی چیز (حدود الٰہی) کے لیے آیا ہے، مگر ظاہر ہے اس سے رواج دینا یا نافذ کرنا کوئی بھی مراد نہیں لے سکتا۔ یہاں اس کے معنی پابندی کرنے یا برقرار رکھنے ہی کے ہیں۔ غور کیجیے تو اس آیت سے یہ دل چسپ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ صرف ’اقامت حد‘ کہہ دینے سے بھی حد جاری کرنا یا حد نافذ کرنا مراد نہیں ہوتا۔ اسی طرح سورۂ مائدہ میں جب اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰی شَیْْءٍ حَتّٰی تُقِیْمُوا التَّوْرٰۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ.(۵: ۶۸ )
)’’ان سے) کہو: اے اہل کتاب، تمھاری کوئی بنیاد نہیں، جب تک تم تورات و انجیل اور اس کتاب کو جو تمھارے رب کی طرف سے تمھاری طرف نازل کی گئی، (اپنی زندگی میں) قائم نہ کرو۔‘‘
تو یہاں پر بھی ’أقام‘ کا فعل، اگرچہ معنوی چیزوں ہی کے لیے آیا ہے، مگر خود مولانا مودودی رحمہ اللہ بھی اس سے رواج دینا یا نافذ کرنا مراد نہیں لیتے۔ چنانچہ ’’تفہیم القرآن‘‘ میں وہ لکھتے ہیں:
’’توراۃ اور انجیل کو قائم کرنے سے مراد راست بازی کے ساتھ ان کی پیروی کرنا اور انھیں اپنا دستور زندگی بنانا ہے۔‘‘ ( ۱/ ۴۸۷)
اوپر ہم یہ بات بیان کر چکے ہیں کہ جب تک واضح قرینہ موجود نہ ہو، عربی زبان میں ’أقام‘ کا لفظ نافذ کرنے کے معنی میں نہیں لیا جا سکتا، یہاں تک کہ ’أقام الحدود‘ بھی، جیسا کہ قرآن مجید ہی سے ثابت ہے، حد نافذ کرنے کے معنی میں نہیں، بلکہ حدود الٰہی کی پابندی کرنے کے معنی میں آتا ہے۔ البتہ جب ’أقام الحد‘ کے ساتھ ’علی الجانی‘ یا ’علی الناس‘ کی صورت میں جملے کا ایک متعلق موجود یا مقدر ہو تو اس میں حد جاری کرنے یا نافذ کرنے کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر کہا جائے: ’یاأیہا الناس، أقیموا حدود اللّٰہ‘ تو اس کے معنی ہوں گے: ’اے لوگو، اللہ کے مقرر کردہ حدود کے پابند رہو‘۔ اس کے برعکس اگر کہا جائے: ’یاأیہا القاضی، أقم حدود اللّٰہ علی المجرمین‘ (اے قاضی، مجرموں پر اللہ کے حدود نافذ/جاری کر دو)۔ اس جملے میں سے ’علی المجرمین‘ کا حصہ اگر نکال دیا جائے تو اس کے معنی ہوں گے: ’اے قاضی، حدود اللہ کے پابند رہو‘۔ البتہ کلام کے سیاق و سباق سے یہ بات اگر بالکل واضح ہو کہ یہاں ’علی المجرمین‘ کا حصہ مقدر ہے تو اس صورت میں اس کے معنی حد نافذ یاجاری کرنے کے ہو جائیں گے۔ مثال کے طور پر اگر پوری بات اس طرح ہو کہ ایک مجرم کو قاضی کے پاس لایا گیا، ’فأقام الحد‘ (تو اس نے حد قائم کر دی) تو بالکل واضح ہے کہ یہاں ’علیہ‘ یا ’علی المجرم‘ کے الفاظ مقدر ہیں، اس وجہ سے یہاں بھی اس سے مراد حد نافذ یا جاری کرنا ہو گا۔
اس ساری بحث کے بعد اب سورۂ شوریٰ کی زیر بحث آیت پر غور فرمائیے۔ ظاہر ہے کہ یہاں ’علی الناس‘ یا ’علی القوم‘ کے الفاظ موجود نہیں ہیں۔ چنانچہ اب ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ کو دین نافذ کرنے یا جاری کرنے کے مفہوم میں صرف اسی صورت میں لیا جا سکتا ہے اگر یہاں ان الفاظ کو مقدر مان لیا جائے، اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب الفاظ کے درو بست، کلام کے سیاق و سباق اور جملوں کی ترتیب سے یہ ثابت کر دیا جائے کہ یہاں ’علی الناس‘ یا ’علی القوم‘ کے الفاظ کو مقدر ماننا ناگزیر ہے، لیکن ہمارے نزدیک یہاں ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ سے دین کا اجرا یا نفاذ مراد لینے میں ایک بڑی رکاوٹ اور بھی ہے۔ یہ رکاوٹ اس جملے پر ’وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ‘ ۲ کا عطف ہونا ہے۔ جس طرح، مثال کے طور پر ’اِعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا‘ ۳ میں ’اِعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا‘ میں جو بات مثبت طور پر بیان ہوئی ہے، وہی ’وَلَا تَفَرَّقُوْا ‘میں منفی طور پر بیان کر دی گئی ہے۔ اسی طرح آیۂ زیر بحث میں بھی جو بات ’وَلَا تَتَفَرَّقُوْا‘ میں منفی طور پر بیان ہو ئی ہے، درحقیت وہی ہے جو ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ میں مثبت طور پر بیان کی گئی ہے۔ اس طرح سے ایک ہی بات کو مثبت اور منفی طریقے سے بیان کرنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے حکم کا مدعا پوری طرح سے نکھر کر سامنے آجاتا ہے۔ مزید براں حکم کی خاص اہمیت اس سے واضح ہوتی اور حکم میں زور پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ بعینہٖ اسی طرح کی بات ہے، جس طر ح سورۂ بقرہ میں فرمایا ہے:
وَاشْکُرُوْا لِیْ وَلاَ تَکْفُرُوْنِ (۱۵۲ :۲)
’’میری شکر گزاری کرتے رہنا اور میری ناشکری نہ کرنا۔‘‘
چنانچہ، اس صورت حال میں ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ سے پورے دین کا پابند رہنے، پورے دین پر قائم رہنے، پورے دین پر عمل پیرا رہنے اور پورے دین کو برقرار رکھنے کے علاوہ کوئی اور معنی نہیں لیے جا سکتے۔
مولانا نے اپنے مضمون میں ’اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلاَ تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ‘ کا ترجمہ ان الفاظ میں کیا ہے: ’کہ قائم رکھو اس دین کو اور پھوٹ نہ ڈالو اس میں‘۔ اسی ترجمے پر غور کر کے دیکھ لیجیے، ’ اور پھوٹ نہ ڈالو اس میں‘ کے حصے سے یہ بات کیا بالکل واضح نہیں ہو جاتی کہ ’قائم رکھو اس دین کو‘ کے معنی’ پورے دین کے پابند رہو‘، ’پورے دین پر عمل پیرا رہو‘ اور ’پورے دین کو برقرار رکھو‘ ہی کے ہیں؟ مولانا چونکہ یہاں ’اس دین کو نافذ کرو‘ کا مفہوم لیتے ہیں، اس وجہ سے انھیں ’اور پھوٹ نہ ڈالو اس میں‘ کی تفصیل کرتے ہوئے ایک عجیب و غریب بات کہنی پڑی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’پھر حکم دیا ہے کہ اقامت دین کا فرض ادا کرتے رہو اور اس دین کو قائم کرنے اور قائم رکھنے میں، ایک دوسرے سے الگ الگ نہ رہو، اختلاف نہ کرو اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو۔‘‘ (ماہنامہ فاران ۲۲ )
گویا، مولانا کے نزدیک ’پھوٹ نہ ڈالو اس میں ‘ سے مراد ’اس کی اقامت میں آپس میں پھوٹ نہ ڈالو‘ ہے۔ ظاہر ہے، یہ بات جس طرح مولانا کے اپنے ترجمے کی رو سے بالکل غلط ہے، اسی طرح عربیت کی رو سے بھی ’وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ‘ کے الفاظ سے یہ معنی مراد لینا صحیح نہیں ہے۔
پھر یہی نہیں، اس آیت کے سیاق و سباق سے بھی ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ‘ کا وہی مفہوم نکلتا ہے جو ہم نے بیان کیا ہے۔ موقع کلام اس کے کوئی اورمعنی لینے سے ابا کرتا ہے۔ سورۂ شوریٰ کو سامنے رکھیے تو اس کے ابتدائی حصے کے مضامین کا خلاصہ اس طرح سے کیا جا سکتا ہے:
’’اللہ تعالیٰ نے اپنے کسی بندے پر یہ کوئی پہلی مرتبہ وحی نہیں بھیجی۔ اس سے پہلے بھی اسی طرح، اور اسی پیغام کے ساتھ اللہ کی طرف سے وحی آتی رہی ہے۔ اللہ نے ہمیشہ توحید ہی کی تعلیم دی ہے۔ شرک کی گمراہی، انسان نے خود ایجاد کی ہے۔ اللہ اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ہدایت پر لگا دیتا، پھر ان میں سے کوئی گمراہ نہ ہوتا، مگر اللہ نے یہ پسند نہیں کیا کہ اس معاملے میں کوئی زبردستی کی جائے۔ وہ انسان کا امتحان لے رہا ہے اور اس امتحان کے لیے اس نے انسان کو ارادے اور اختیار کی آزادی دے رکھی ہے۔ اس ارادے اور اختیار کا غلط استعمال کرنے والے ظالموں کو عنقریب، اللہ بہت بڑی سزا دے گا۔ توحید کی دعوت محض وحی سے نہیں ملی، انفس و آفاق کی تمام نشانیاں بھی اسی طرف رہنمائی کر رہی ہیں۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم، آج یہ سب لوگ تمھاری مخالفت میں بڑی سرگرمی دکھا رہے ہیں، حالاں کہ تمھیں بھی وہی دین دیا جا رہا ہے، جو نوح، ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا گیا تھا، اور انھیں یہ تاکید بھی کی گئی تھی کہ پورے کے پورے دین پر قائم رہنا اور اس میں کوئی تفرقہ نہ ڈالنا، مگر ان کی امتوں نے اس حکم کو پس پشت ڈال دیا اور کچھ چیزوں پر عمل پیرا رہے اور کچھ چیزیں ترک کر دیں، اسی وجہ سے ان میں اختلافات پیدا ہو گئے، اور ان میں یہ اختلافات کسی غلطی یا کم علمی کی وجہ سے پیدا نہیں ہوئے، بلکہ انھوں نے جانتے بوجھتے، ایک دوسرے کے خلاف ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ اختلافات کیے۔‘‘
سورۂ شوریٰ کے اس حصے پر دقت نظر سے غور کیجیے اور پھر اس میں ’پورے کے پورے دین پر قائم رہنا‘کی جگہ ’دین کو نافذ کرنا‘ یا ’جاری کرنا‘ کے معنی رکھ کر دیکھیے۔ آپ دیکھیں گے کہ یہ عبارت اس معنی کو قبول کرنے سے صاف انکار کر دے گی۔
ہمارے نزدیک، جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں، ’اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ‘ کے معنی ’اس دین پر پوری طرح سے قائم رہنا اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا‘ کے ہیں۔ ان الفاظ میں نفاذ دین یا اس کے لیے جد و جہد کا ہرگز کوئی مفہوم نہیں ہے۔ اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ جو کچھ بھی ’الدین‘ میں شامل ہے، اس پر بغیرکسی تفریق کے عمل کیا جائے۔ جو ماننے کی چیزیں ہیں، انھیں مانا جائے، جو کرنے کی چیزیں ہیں، انھیں کیا جائے، جن چیزوں سے روکا گیا ہے، ان سے باز رہا جائے۔ دین نے اگر عبادات کو کوئی حیثیت دی ہے تو اپنے عمل میں انھیں وہی حیثیت دی جائے۔ دین اگر کسی موقع پر جہاد کا تقاضا کرتا ہے تو اس تقاضے کو دل وجان کے ساتھ پورا کیا جائے۔ دین اگر سیاست، معیشت، معاشرت، حدود و تعزیرات، دعوت، خور و نوش اور آداب و شعائر کے بارے میں کچھ ہدایات دیتا ہے تو ان ہدایات پر پوری طرح سے عمل پیرا رہا جائے۔ ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ کے یہی معنی ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ’الدین‘ اگر محض چند عقائد ہی کا مجموعہ ہوتا تو اس صورت میں ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ کے معنی صرف ان عقائد کو ماننے تک محدود رہتے۔ ’الدین‘ اگر محض عبادات کانام ہوتا تو ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ کے معنی صرف ان عبادات کی پابندی کے ہوتے۔ ’الدین‘ اگر محض حلال و حرام کی ایک فہرست کا نام ہوتاتو ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ کا مفہوم ان حلتوں اور حرمتوں کی فہرست کی پابندی تک محدود رہتا۔ غرض کہ جو کچھ ’الدین‘ ہے، ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ اس پورے’الدین‘ پرٹھیک ٹھیک عمل پیرا ہونے کی ہدایت ہے۔
’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ کے صحیح معنی کی وضاحت کے بعد، اب اس منطق پر بھی غور کرلیجیے کہ کسی موقع پر اگر مسلمانوں کا نظم اجتماعی، دین کے عملی نفاذسے گریزاں ہو تو ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ کے حکم کے تحت تمام مسلمان نفاذ دین کی جدوجہد کے مکلف ہو جاتے ہیں۔
یہ بات ہمیں معلوم ہے کہ ’الدین‘ میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو ہر آدمی سے یکساں طور پر مطلوب ہیں۔ دوسری طرف ’الدین‘ کے کچھ تقاضے ایسے بھی ہیں جو، مثال کے طور پر وہ ایک مرد سے اس وقت کرتا ہے، جب اسے شوہر کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔ کچھ تقاضے ایسے ہیں جو خاندان کے سربراہ کی حیثیت میں اس سے کیے جاتے ہیں۔ کچھ تقاضے ایسے ہیں جو دین کے ایک داعی کی حیثیت میں اس سے کیے جاتے ہیں۔ کچھ تقاضے وہ ہیں جو ایک عالم کی حیثیت میں اس سے کیے جاتے ہیں اور کچھ وہ بھی ہیں جو ایک ریاست کے سربراہ کی حیثیت میں اس سے کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ جس طرح ایک غیر شادی شدہ آدمی کے لیے ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘کے تقاضوں میں ایک شوہر اور خاندان کے سربراہ سے کیے جانے والے مطالبات شامل نہیں ہوں گے اور نہ شادی کرنے کی جد و جہد ہی ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ کا تقاضا قرار پائے گی، اسی طرح ایک عام آدمی سے ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ کا نعرہ لگا کر وہ تقاضے نہیں کیے جا سکتے جو ’الدین‘ میں ایک ریاست کے سربراہ سے مطلوب ہیں۔ نفاذ دین سربراہان کار کی ذمہ داری ہے، اس وجہ سے ان کے لیے یہ چیز بھی ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ میں شامل ہے۔ ہم یہاں اس بات سے تو تعرض نہیں کرتے کہ اگر ریاست کے اہل اقتدار اپنی یہ ذمہ داری ادا نہ کریں تو عام آدمی سے دین کیا مطالبہ کرتا ہے۔ البتہ اتنی بات بالکل واضح ہے کہ ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ میں ’اَقِیْمُوْا‘ کا فعل ہرگز یہ تقاضا نہیں کرتا کہ امت کا ہر فرد نفاذ دین کی جد و جہد شروع کر دے۔ ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ کے معنی بس یہی ہیں کہ ہر شخص وہ تمام تقاضے پورے کرے جو ’الدین‘ اس سے کرتا ہے اور ان میں کسی قسم کی کوئی تفریق نہ کرے۔ اس کے معنی ہرگز یہ نہیں ہیں کہ معاشرے کا کوئی فرد یا گروہ اگر اپنی دینی ذمہ داریاں ادا کرنے میں کوتاہی کر رہا اور اس طرح ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ کی ہدایت پر عمل نہیں کر رہا ہے تو پوری امت کے ایک ایک فرد سے اس مخصوص گروہ کی ذمہ داریاں ادا کرنا یا اس کی جد و جہد کرنا بھی ’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘ میں فعل ’اَقِیْمُوْا‘ کے استعمال کی وجہ سے ایک مطالبہ بن جائے گا۔
_______
۲ یعنی ’اس میں تفرقہ نہ پیدا کرنا‘، مولانا کے الفاظ میں: ’اور اس میں پھوٹ نہ ڈالو‘۔۳ آل عمران ۳: ۱۰۳۔’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور تفرقے میں نہ پڑو۔‘‘
____________