HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Moiz Amjad

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

۴۔ نصرت

نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کا چوتھا تقاضا آپ کی نصرت ہے۔

جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ کسی شخص کو اللہ کا نبی ماننے کے معنی ہی یہ ہیں کہ اسے زمین پر اللہ کا نمائندہ مانا جائے۔ اس کی بات کو اللہ کی بات سمجھا جائے اور اس کی تعلیمات کے آگے اسی طرح سر تسلیم خم کیا جائے، جس طرح پادشاہ ارض و سما کے احکام کے آگے سر نگوں ہونا چاہیے۔ اسی سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ اگر پیغمبر کو کسی لحاظ سے بھی ہماری مدد اور نصرت کی ضرورت ہو تو یہ فریضہ ہم اپنی خوش قسمتی سمجھتے ہوئے ادا کریں۔

اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں انسان کی آزمایش کا جو قانون جاری کیاہے، اس میں عام حالات میں اس نے یہ پسند نہیں فرمایا کہ حق و باطل کی کشمکش میں حق کو آپ سے آپ غلبہ مل جائے۔ اس مقصد کے لیے جو طریقہ اس نے پسند فرمایا ہے، اس کے مطابق ایک طرف باطل کو زندہ رہنے اور اپنی کارروائیاں کرنے کی مہلت دی جاتی اور دوسری طرف حق کی نصرت کے لیے مومنین کی قربانیوں اور ان کی جدوجہد کی ضرورت بھی پیش آتی رہتی ہے۔ جب اللہ کا کوئی پیغمبر دنیا میں موجود ہو تو اس وقت ظاہر ہے کہ اس پیغمبر ہی کی نصرت حق کی نصرت قرار پاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں دین کی نصرت کو یا پیغمبر کی نصرت کو اللہ پروردگار عالم کی نصرت کہا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْٓا اَنْصَارَ اللّٰہِ کَمَا قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیّٖنَ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ.(الصف ۶۱: ۱۴)
’’اے ایمان والو، اللہ کے مددگار بنو، اسی طرح، جیسے جب عیسٰی ابن مریم نے اپنے حواریوں سے کہا : کون میرا مددگار بنتا ہے اللہ کی طرف؟ تو حواریوں نے جواب دیا: ہم ہیں اللہ کے مددگار۔‘‘

قرآن مجید سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہود و نصاریٰ سے بھی جو عہد لیا گیا تھا، وہ محض آپ کی رسالت پر ایمان لانے ہی سے متعلق نہیں تھا، بلکہ اس میں آپ کی مدد اور نصرت کا پہلوبھی شامل تھا۔ چنانچہ اسی عہد کو یاد دلاتے ہوئے فرمایا:

وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَآ اٰتَیْْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ قَالَ ءَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیْ قَالُوْٓا اَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْہَدُوْا وَاَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰہِدِیْنَ. (آل عمران ۳: ۸۱)
’’اور یاد کرو، جب خدا نے تم سے نبیوں کے بارے میں میثاق لیا۔ ہر گاہ میں نے تمھیں کتاب اورحکمت عطا فرمائی، پھر آئے گا تمھارے پاس ایک رسول ان پیشین گوئیوں کا مصداق بن کر جو تمھارے پاس موجود ہیں تو تم اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا۔پوچھا: کیا تم نے اس امر کا اقرار کیا اور اس پر میری ڈالی ہوئی ذمہ داری تم نے اٹھائی؟ بولے:ہم نے اقرار کیا۔ فرمایا: تو گواہ رہو اور میں بھی تمھارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔‘‘

اسی طرح اہل کتاب، خاص طور پر یہود کے لیے نجات کا راستہ بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:

اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَہُمْ فِی التَّوْرٰۃِ وَالْاِنْجِیْلِ یَاْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہٰہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْْہِمُ الْخَبآءِثَ وَیَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْْہِمْ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٓٗ اُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.(الاعراف ۷: ۱۵۷)
’’جو لوگ پیروی کریں گے اس نبی امی رسول کی جسے وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ ان کو نیکی کا حکم دیتا اور برائی سے روکتا ہے اور ان کے لیے پاکیزہ چیزیں جائز ٹھہراتاہے اور گندی چیزیں حرام کرتا ہے اور ان پر سے وہ بوجھ اور پابندیاں اتارتا ہے جو ان پر اب تک رہی ہیں۔ تو جو اس پر ایمان لائے، جنھوں نے اس کی عزت کی، اس کی مدد کی اور اس روشنی کی پیروی کی جو اس کے ساتھ اتاری گئی ہے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘

اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد آپ کے لائے ہوئے دین کی نصرت ہی آپ کی نصرت ہے۔

کسی موقع پر اگر ہم یہ دیکھیں کہ ہمارے دین کو کسی لحاظ سے ہماری جدوجہد یا مدد کی ضرورت ہے تو ہمارا ایمان ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ اس کے لیے ہم جو مدد اور جو جدوجہد بھی کر سکتے ہوں، وہ کریں اور اس سے گریز و فرار کی کوئی راہ تلاش نہ کریں۔ یہاں، البتہ یہ واضح رہنا چاہیے کہ اس ضمن میں دو باتوں کا فیصلہ ہر شخص کو خود کرنا ہے:

ایک، اس کو خود اس بات کا فیصلہ کرنا ہے کہ کسی خاص موقع پر اللہ کے دین کو کس معاملے میں اس کی مدد کی ضرورت ہے۔ یہ ممکن ہے کہ کسی موقع پر اپنے نظم ریاست کے فیصلے پر لبیک کہتے ہوئے اہل ایمان کا میدان جنگ میں اترنا اللہ کے دین کی مدد ہو۔ دوسری طرف، کسی موقع پریہ بھی ہو سکتا ہے کہ اپنے علاقے میں ایک چھوٹی سی مسجد کی تعمیر میں ہاتھ بٹانا ہی ایمان کا تقاضا بن جائے۔ اس معاملے میں ہر شخص، اپنے اعتماد کے لوگوں، اپنے احباب اور دین کے علما سے رہنمائی تو، بے شک لے سکتا ہے، لیکن اس بات کا فیصلہ اسے بہرحال خود ہی کرنا ہو گا کہ اس خاص موقع پر اللہ کے دین کو کس حوالے سے اس کی مدد درکار ہے۔

دوسرے یہ کہ ہر شخص کو اس بات کا فیصلہ بھی خود ہی کرنا ہوتا ہے کہ دین کی یہ مدد وہ اپنے حالات اور اپنی صلاحیتوں کے پیش نظر سب سے زیادہ بہتر طریقے پر کس طرح سے کر سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی خاص معاملے میں ایک شخص کے لیے یہی ممکن ہو کہ وہ یہ مدد اپنا مال خرچ کر کے کرے اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کسی دوسرے موقع پر وہ یہ مدد اپنا وقت اور اپنی صلاحیتیں صرف کرکے زیادہ بہتر طریقے پر کر سکتا ہو۔ استاذ گرامی جاوید احمد صاحب غامدی ایمان کے اس تقاضے کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’...دین کو اپنے فروغ یا اپنی حفاظت کے لیے، اگر، کسی اقدام کی ضرورت پیش آ جائے تو ایمان کا تقاضا ہے کہ جان و مال سے دین کی مدد کی جائے۔ قرآن کی تعبیر کے مطابق یہ اللہ پروردگار عالم کی ’’نصرت‘‘ ہے۔...
سلف و خلف میں دین کی حفاظت، بقا اور تجدید و احیا کے جتنے بھی کام ہوئے ہیں، ایمان کے اِسی تقاضے کو پورا کرنے کے لیے ہوئے ہیں۔ امت کی تاریخ میں زبان و قلم، تیغ و سناں اور درہم و دینار سے دین کے لیے ہر جدوجہد کا ماخذ یہی ’’نصرت‘‘ہے۔ قرآن کا مطالبہ ہے کہ ایمان کا یہ تقاضا اگر کسی وقت سامنے آجائے تو بندۂ مومن کو دنیا کی کوئی چیز بھی اس سے عزیز تر نہیں ہونی چاہیے۔‘‘(میزان ۷۵۔۷۶)

ایمان کے اس تقاضے کے پیش نظر ہم میں سے ہر شخص کو یقیناًاس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اس وقت کے حالات، دین کے فروغ یا اس کے بقا و تحفظ کے لیے ہم سے کس قسم کی جدوجہد کا تقاضا کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے اگر ضروری ہو تو ہمیں اپنے احباب، اپنے اساتذہ اور اپنے اعتماد کے اہل علم سے مشورہ بھی کرتے رہنا چاہیے۔ اس کے بعد جب ہم اپنی حد تک یہ فیصلہ کر لیں کہ موجودہ حالات میں دین کو ہماری فلاں خدمت کی ضرورت ہے تو پھر یہ دین ہی کا مطالبہ ہے کہ اس خدمت کو بجا لانے میں ہم کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جب دین کو یہ ضرورت پیش آئی کہ لوگ اس کے لیے اپنی جان و مال کو داؤ پر لگا کر اس کے دفاع اور فروغ کی جدوجہد میں حصہ لیں تو اللہ تعالیٰ نے کمزور قسم کے مسلمانوں کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا:

قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُنِ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَہَآ اَحَبَّ اِلَیْْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ وَاللّٰہُ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ.(التوبہ ۹: ۲۴)
’’)اے پیغمبر، ان سے) کہہ دیجیے: تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی اور تمھاری بیویاں اور تمھارا خاندان اور تمھارا وہ مال جو تم نے کمایا اور وہ تجارت جس کے مندے سے تم ڈرتے ہو اور تمھارے وہ گھر جنھیں تم پسند کرتے ہو، (یہ سب کچھ) تمھیں اگر اللہ سے، اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جدوجہد سے زیادہ عزیز ہے تو انتظار کرو، یہاںتک کہ اللہ اپنا فیصلہ صادر کر دے۔ اور (جان لو کہ) اس طرح کے بد عہدوں کو اللہ راہ یاب نہیں کرتا۔‘‘

اس معاملے میں ہماری ہمت بڑھاتے ہوئے عالم کا پروردگار یہ وعدہ کر رہا ہے:

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ.(محمد۴۷: ۷)
’’ ایمان والو، تم اگر اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمھاری مدد کرے گا۔‘‘

دین کی نصرت کے لیے کیے گئے خرچ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ قرض قرار دیا ہے اور یہ وعدہ فرمایا ہے کہ قیامت کے روز جب خدا کی رحمت کے سوا کوئی چیز جہنم کی آگ سے پناہ دینے والی نہ ہو گی تو وہ یہ قرض، اس دن اہل ایمان کو کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کرے گا۔ غور کیجیے تو یہ محض اس کی رحمت اور قدر افزائی ہے کہ وہ ہمارے خزف ریزوں کو اپنے ذمہ قرض قرار دے اور پھر، اَضْعَافًا مُّضَاعَفَۃً‘ اسے ہمیں اس دن لوٹانے کا وعدہ فرمائے جس دن ہم اس کے سب سے زیادہ محتاج ہوں گے۔ اس سب کچھ کے باوجود ہم اگر اس معاملے میں کمزوری دکھائیں تو یہ یقیناًاس عالم کے پروردگار کے وعدوں پر اعتماد کی کمی ہی کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اس رویے پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا:

ہٰٓاََنْتُمْ ہٰٓؤُلَآءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَمِنْکُمْ مَّنْیَّبْخَلُ وَمَنْ یَّبْخَلْ فَاِنَّمَا یَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِہٖ وَاللّٰہُ الْغَنِیُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ وَاِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْْرَکُمْ ثُمَّ لَا یَکُوْنُوْٓا اَمْثَالَکُمْ.(محمد ۴۷: ۳۸)
’’تم وہ لوگ ہو کہ تمھیں اللہ کی راہ میں خرچ کی دعوت دی جاتی ہے تو تممیں ایسے لوگ بھی ہیں جو بخل کرتے ہیں۔ اور جو بخل کرتا ہے، (یاد رکھے کہ) وہ اپنے ہی معاملے میں بخل کرتا ہے۔ اللہ بالکل بے نیاز ہے، محتاج تو تمھی ہو۔ اور اگر تم (پھر بھی) اعراض کرو گے تو اللہ (اپنے دین کی مدد کرنے کے لیے) تمھاری جگہ دوسروں کو لائے گا، پھر وہ لوگ تمھاری طرح کے نہیں ہوں گے۔‘‘

ظاہر ہے، یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک طرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر آدمی صدق دل سے ایمان رکھتا ہواور دوسری طرف وہ آپ کی اور آپ کے دین کی نصرت اور مدد سے گریزاں بھی رہے۔ چنانچہ اگر پیغمبر پر ایمان اپنی حقیقت میں موجود ہے تو اس کا ایک لازمی تقاضا یہ بھی ہے کہ آدمی آپ کی اور آپ کے دین کی نصرت کے لیے ہر وقت کمربستہ رہے۔

____________

B