نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے ہمارے لیے جو اسوہ قائم کیا ہے، اس میں ایک شان دار اعتدال اور بے مثل توازن ہے۔ آپ نے نہ ترک دنیا اور رہبانیت کی تعلیم دی اور نہ دنیا ہی کی کامیابیوں کو اپنا ہدف بنانے کا درس دیا۔ زندگی گزارنے کا جو رویہ آپ نے اختیار فرمایا، وہ یہ تھا کہ بندہ اللہ کی بخشی ہوئی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، اس کی رضا حاصل کرنے کو اپنا ہدف اور نصب العین بنائے۔ آپ نے ہمیں سکھایا کہ اسی رویہ کو اپنانے کے نتیجے میں زندگی میں وہ اعتدال اور توازن وجود میں آتا ہے جو اللہ رب العٰلمین نے اپنے بندوں کے لیے پسند فرمایا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معتدل اور متوازن رویہ بعض ایسے لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا جو اپنی طبیعت میں عبادات اور ترک دنیا کی طرف زیادہ میلان رکھتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ آپ کے عمل کی مختلف توجیہات کرکے اپنے لیے اپنے رجحانات کے لحاظ سے زندگی گزارنے کی راہیں کھولنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ روایتوں میں آتا ہے کہ بعض صحابیوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس حاضر ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کے بارے میں استفسار کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے جواب سے یہ صحابی کچھ مطمئن نہیں ہوئے اور انھوں نے اپنے رجحانات کے لحاظ سے آپ کے معمولات میں عبادت کی کچھ کمی محسوس کی۔ چنانچہ صحیح بخاری، ’’کتاب النکاح‘‘ میں جو روایت نقل ہوئی ہے، اس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے جواب کے بارے میں ان صحابیوں کا ردعمل ’کأنھم تقالوھا‘۳ ( گویا کہ انھوں نے اسے بہت کم سمجھا ) کے الفاظ میں نقل ہواہے۔ اپنے لحاظ سے اس کمی کی توجیہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری غلطیاں اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیں اور آپ کو اسی دنیا میں جنت کی بشارت دے دی ہے، اس وجہ سے آپ کے لیے تو اس قسم کی کمی ٹھیک ہے، مگر ہمیں تو اس سے آگے بڑھ کر عمل کرنا چاہیے۔ چنانچہ ان میں سے ایک صحابی نے اپنے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ آیندہ پوری رات تہجد پڑھیں گے اور کبھی نہ سوئیں گے۔ دوسرے صحابی نے کہا کہ وہ اپنی زندگی کے باقی دن روزے رکھیں گے اور کسی دن ناغہ نہ کریں گے۔ تیسرے صحابی نے کہا کہ وہ عورتوں سے دور رہیں گے اور کبھی نکاح نہ کریں گے تاکہ پوری توجہ کے ساتھ خدا کی عبادت کر سکیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو غصے سے آپ کا رنگ سرخ ہو گیا۔ آپ نے فرمایا:
أنتم الذین قلتم کذا وکذا أما واللّٰہ إني لأخشاکم للّٰہ وأتقاکم لہ لکني أصوم وأفطر وأصلي وأرقد وأتزوج النساء فمن رغب عن سنتي فلیس مني.(بخاری،رقم ۴۶۷۵)
’’کیا تمھی وہ لوگ ہو جنھوں نے فلاں فلاں بات کہی ہے؟ یاد رکھو کہ میں تم سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والااور اس کے حدود کی پابندی کرنے والا ہوں، لیکن میرا طریقہ یہ ہے کہ میں روزے رکھتا بھی ہوں اور چھوڑ بھی دیتا ہوں، رات میں نماز پڑھتا بھی ہوں اور سو بھی جاتا ہوں، عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ چنانچہ جان لو کہ جسے میرا طریقہ پسند نہیں ہے، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘
اس سے صاف ظاہر ہے کہ جو خیر و برکت، جو توازن اور جو اعتدال پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں پایا جاتا ہے، وہی اصل میں مطلوب ہے۔ اس سے آگے بڑھنے کی جدوجہد دین سے دھینگا مشتی کرنے اور کشتی لڑنے کے مترادف ہے اور اس کا انجام اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ آدمی کو شکست اور مایوسی سے دوچار ہونا پڑے۔
_______
۳ رقم ۴۶۷۵۔
____________