نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کا تیسرا تقاضا آپ کی اتباع ہے۔
قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ دین پر عمل کرنے کے معاملے میں اگر کوئی آخری معیار ہے تو وہ آپ ہی کا عمل ہے۔ معاملہ، خواہ ایمانیات ، اللہ کے ذکر، اس کے شکر، اس کی راہ میں مشکلات پر صبر، اس کی ذات پر توکل ،اس کے تقویٰ کا ہو یا شریعت پر عمل یا بندوں کے ساتھ تعلقات، غرض یہ کہ ہر معاملے میں اگر بندگی، تعلقات یا اخلاقی رویوں کا کوئی حتمی معیار ہے تو وہ آپ ہی کا عمل اور آپ ہی کا رویہ ہے۔ قرآن مجید نے آپ کو اسی لیے ان لوگوں کے لیے ’اسوۂ حسنہ‘ یا بہترین نمونہ قرار دیا ہے جو پروردگار عالم سے ملاقات کی تمنا رکھتے، آخرت کی کامیابی کو اپنا اصل ہدف سمجھتے اور دنیا کی یہ زندگی خدا کی رضا حاصل کرنے کی آرزو اور جستجو میں گزارتے ہیں۔ ارشاد ہے:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا.(الاحزاب ۳۳: ۲۱)
’’یقیناتمھارے لیے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت کی توقع رکھتا اور اللہ کو بہت یاد کرنے والا ہے۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے دین پر جس طرح عمل کیا،آپ نے جس طریقے اور جس روح کے ساتھ اللہ کی عبادت اور اس کی بندگی کی، آپ نے جس محبت اور شفقت کے ساتھ اپنے متبعین کو دین کی تعلیم دی، آپ نے جس خیرخواہی کے ساتھ اپنے مخالفین کے ساتھ معاملہ کیا، آپ نے جس استقامت کے ساتھ راہ حق کی مشکلات کا مقابلہ کیا، آپ نے جس شان کے ساتھ اس راہ کی تکلیفیں برداشت کیں، آپ جس عجز و انکسار کے ساتھ تخت شاہی پر تشریف فرما ہوئے، غرض یہ کہ خدا کی بندگی اور دوسروں کے ساتھ معاملہ کرنے میں آپ جس اخلاقی معیار پر کھڑے ہیں، اب رہتی دنیا تک وہی تمام نوع انسانی کے لیے اسوہ یا نمونہ رہے گا۔ ہر وہ شخص جو خدا سے محبت رکھتا اور خدا کی محبت عزیز رکھتا ہے، ہر وہ بندہ جو یہ چاہتا ہے کہ اس کا معبود اس سے محبت رکھے، اس کے لیے اس کے معبود ہی کا بتایا ہوا راستہ ہے کہ وہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا آئیڈیل بنا کر آپ کی اتباع کرے۔ ارشاد ہے:
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.(آل عمران ۳: ۳۱)
’’)اے پیغمبر، ان سے) کہہ دیجیے: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھارے گناہ معاف فرما دے گا۔ اور اللہ بہت معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘
اس آیت میں جہاں یہ بتا دیا ہے کہ آپ کی اتباع کرنے سے بندہ خدا کے محبوب ہونے کا درجہ حاصل کرتا ہے، وہیں یہ بات بھی اس آیت سے نکلتی ہے کہ خدا سے محبت کرنے کا طریقہ بھی یہی ہے کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا ہادی اور مرشد بنا کر آپ کی اتباع میں زندگی کا راستہ طے کیا جائے۔آپ کی اتباع کے بغیر محبت الٰہی کا دعویٰ محض دعویٰ ہے، حقیقت میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ خدا کے ہاں اگر کوئی چیز وزن رکھتی ہو گی تو اپنی حقیقت کے لحاظ ہی سے رکھتی ہو گی۔ محبت کے جھوٹے دعوے، ایسے مدعیوں کے منہ پر دے مارے جائیں گے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی یہی وہ حیثیت ہے جس کی وجہ سے قرآن مجید کے مطابق، آپ کی اتباع ہی دنیا میں ہدایت اور اس وجہ سے آخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:
فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَکَلِمٰتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ.(الاعراف۷: ۱۵۸)
’’پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے نبی امی رسول پر جو ایمان رکھتا ہے اللہ پر اور اس کے کلمات پر اور اس (رسول) کی پیروی کرو تاکہ تم راہ یاب ہو۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے لیے ضروری ہے کہ مختلف معاملات میں آپ نے جو اسوہ ہمارے سامنے رکھا ہے، سب سے پہلے ہم اس سے واقفیت حاصل کریں اور پھر اس کو اپنے سامنے ایک معیار بنا کر اس کو پانے کی سعی و جہد کریں۔
____________