جیسا کہ ہم آغاز میں بیان کر چکے ہیں، اللہ کے دین اور اس کی ہدایت کا تنہا ماخذ اب اس زمین پر قیامت تک صرف اور صرف محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات والا صفات ہے۔ چنانچہ آپ نے دین کی حیثیت سے جو بات فرمائی، اس کی اطاعت ہر مسلمان کے لیے لازم ہے۔
اس سے آپ سے آپ یہ بات بھی معلوم ہو جاتی ہے کہ دین سے متعلق ہر معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت لازم ہے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کو سائنس، طب، زراعت اور اس طرح کے دیگر دنیوی علوم کی تعلیم دینے کے لیے نہیں، بلکہ اللہ کا دین سکھانے کے لیے تشریف لائے تھے اور اسی معاملے میں آپ کا ہر فرمان ہر مسلمان کے لیے واجب الاطاعت ہے۔ جہاں تک دنیوی علوم کا تعلق ہے، اس معاملے میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل کی نعمت سے اسی لیے نوازا ہے کہ وہ اسے استعمال کر کے دنیوی معاملات میں بھی ترقی کی نئی منزلیں سر کرے۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر معمولی حیثیت کے پیش نظر یہ ایک فطری امر ہے کہ آپ نے دین سے ہٹ کر معاشرے کے ایک بزرگ، ریاست کے ایک حکمران، لشکر کے ایک سپہ سالار یا کسی دوسری حیثیت سے اگر کوئی رہنمائی دی یا کوئی بات فرمائی تو لوگ اسے بھی واجب الاطاعت سمجھنے لگے، جبکہ حقیقت میں یہ کوئی ایسا حکم نہیں تھا جس کی اطاعت لوگوں پر لازم ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے جب جنگ بدر کے موقع پر پڑاؤ کے مقام کا انتخاب کیا تو حضرت حباب بن منذر رضی اللہ عنہ نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ اس مقام کا انتخاب وحی کی رہنمائی میں ہوا ہے یا یہ کوئی فوجی تدبیر ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ یہ وحی نہیں ہے۔ اس پر حضرت حباب نے اس انتخاب سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں آگے بڑھ کر کسی چشمے پر قبضہ کر لینا بہتر ہو گا۔ آپ نے حضرت حباب رضی اللہ عنہ کی راے پسند فرمائی اور اس کے لحاظ سے اپنا مقام بدل لیا۔
اسی طرح ایک موقع پر آپ نے لوگوں کو کھجور کی پیوند کاری کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ ایسا نہ کیا جائے۔ لوگوں نے آپ کی بات سنی تو اسے غلط سمجھتے ہوئے فوراً یہ کام چھوڑ دیا۔ اس کے نتیجے میں درختوں پر بہت ناکارہ پھل آیا۔ لوگ بہت پریشان ہوئے۔ آپ نے ان کی پریشانی کی وجہ دریافت فرمائی تو انھوں نے کہا کہ آپ کے ارشاد کے مطابق پیوند کاری چھوڑ دی گئی تھی اور اس کے نتیجے میں پھل خراب ہو گیا ہے۔ اس پر آپ نے ارشاد فرمایا: ’أنتم أعلم بأمر دنیاکم‘۱ ( تم لوگ اپنے دنیوی معاملے کو مجھ سے بہتر جانتے ہو)۔ ایک دوسری روایت کے مطابق آپ نے فرمایا: ’إن کان شیءًا من أمر دنیاکم فشأنکم بہ وإن کان من أمور دینکم فإلی۲ ‘، (اگر بات تمھارے دنیوی معاملے سے متعلق ہو تو تم خود فیصلہ کیا کرو اور اگر بات دینی امور سے متعلق ہو تو اسے میرے پاس لاؤ)۔
اس سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ دنیوی امور میں آدمی کو اپنی عقل و بصیرت سے فیصلہ کرنا ہے۔ دین و شریعت سے متعلق، البتہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اگر کوئی حکم دیں گے تو ہر مسلمان پر اس حکم کے آگے سر تسلیم خم کرنا لازم ہو گا۔
_______
۱ مسلم، رقم ۴۳۵۸۔
۲ ابن ماجہ،رقم ۲۴۶۲۔
____________