HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Moiz Amjad

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

۲۔ اطاعت

نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کا دوسرا تقاضا آپ کی کامل اطاعت ہے۔

کسی شخص کو اللہ کا نبی ماننے کے معنی اسے زمین پراللہ کے نمائندے کی حیثیت دینے کے ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک طرف ہم کسی شخص کو فی الواقع اللہ کا سچا نبی مانیں اور دوسری طرف اس کی کامل اور بے چون و چرا اطاعت سے گریز کریں۔ چنانچہ ہر ایسا شخص جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لے آئے اور آپ کو اس زمین پر پروردگار عالم کا سچا نمائندہ مان لے، اس پر آپ کی اطاعت لازم ہو جاتی ہے۔ قرآن مجید کو اس بات پر اصرار ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبوت و رسالت کا سلسلہ جاری ہی اس لیے فرمایا ہے کہ لوگ اللہ کے ان نبیوں اور رسولوں کی اطاعت کرکے اپنے آپ کو کامیابی سے ہم کنار کریں۔ ارشاد ہے:

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلاَّ لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ.(النساء ۴: ۶۴)
’’ہم نے کوئی بھی رسول بھیجا تو اسی لیے بھیجا کہ اللہ کے اذن سے اس کی اطاعت کی جائے۔‘‘

اس سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ قرآن مجید کے مطابق یہ درست نہیں ہے کہ رسول پر ایمان تو لایا جائے، لیکن زندگی کے معاملات اپنی پسند اور ناپسند ہی سے طے کیے جاتے رہیں۔ قرآن کو اس بات پر اصرار ہے کہ رسول کی حیثیت محض ایک واعظ اور ناصح کی نہیں، بلکہ ایک واجب الاطاعت ہادی کی ہوتی ہے۔ وہ محض لوگوں کی عقیدت کا محور نہیں ہوتا، بلکہ ان کی اطاعت کا مرکز بھی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے مامور ہی اس لیے فرماتے ہیں کہ لوگ اس کے احکام کی اطاعت کریں۔

اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی رہنمائی کا جو انتظام فرمایا ہے، اس کے مطابق یہ اللہ کے نبی اور رسول ہی ہیں جو باقی لوگوں کو اللہ کے احکام سے آگاہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آزمایش کے قانون کے تحت یہ پسند نہیں فرمایا کہ وہ ہر شخص سے براہ راست کلام کر کے اسے ہدایت کی راہ دکھائے۔ چنانچہ اس صورت حال میں اللہ کی اطاعت کا واحد ذریعہ بھی یہی ہے کہ اللہ کے رسول کی اطاعت کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں بالعموم اللہ کی اطاعت کے ساتھ رسول کی اطاعت کا ذکر لازم و ملزوم کی حیثیت سے ہوا ہے۔ بہ الفاظ دیگر اس دنیا میں اللہ کی اطاعت کا واحد راستہ بھی یہی ہے کہ اللہ کے رسول کی اطاعت کی جائے۔ چنانچہ ارشاد ہے:

مَّنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ.(النساء۴: ۸۰)
’’جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ ہی کی اطاعت کی۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی بات واضح کرتے ہوئے فرمایا:

فمن أطاع محمدًا فقد أطاع اللّٰہ و من عصی محمدًا صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقد عصی اللّٰہ و محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم فرق بین الناس.(بخاری، رقم ۶۷۳۸)
’’توجس نے محمد کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی، اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ (اللہ کے ماننے والوں اور نہ ماننے والے) لوگوں کے درمیان محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی نشان امتیاز ہیں۔‘‘

جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں، پیغمبر کو زمین پر اللہ کے واجب الاطاعت نمائندے کی حیثیت حاصل ہے۔ پیغمبر کی اس حیثیت کے نتیجے میں اس کی اطاعت، ہدایت کا واحد ذریعہ قرار پاتی ہے۔ چنانچہ ایک مقام پر قرآن مجید نے یہ بات دو ٹوک الفاظ میں واضح فرما دی ہے کہ اللہ کے رسول کی اطاعت ہی ہدایت کا واحد ذریعہ ہے۔ فرمایا:

قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْْہِ مَا حُمِّلَ وَعَلَیْْکُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ وَاِنْ تُطِیْعُوْہُ تَہْتَدُوْا.(النور ۲۴: ۵۴)
’’)اے پیغمبر، ان سے) کہہ دیجیے: اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔ پس اگر تم اعراض کرو گے تو یاد رکھو کہ رسول پر صرف وہ ذمہ داری ہے جو اس پر ڈالی گئی ہے اور تم پر وہ ذمہ داری ہے جو تم پر ڈالی گئی ہے اور اگر تم اس کی اطاعت کرو گے تو راہ یاب ہو گے۔‘‘

پیغمبر کی یہی وہ حیثیت ہے جس کے باعث رحمت خداوندی کا مستحق بھی وہی شخص قرار پائے گا جو دنیا کی یہ زندگی رسول کی اطاعت میں گزار دے۔ ارشاد باری ہے:

وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ.(النور ۲۴: ۵۶)
’’اور نماز کا اہتمام کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رسول کی اطاعت کرو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘

اس مسئلے کو منفی پہلو سے دیکھیے تو رسول کے زمین پر اللہ کا نمائندہ ہونے کی یہ حیثیت اس بات پر منتج ہوتی ہے کہ جس طرح رسول کی اطاعت ایمان، اسلام، ہدایت اور رحمت خداوندی کے استحقاق کی کسوٹی ہے، اسی طرح رسول کی اطاعت سے انکار کفر قرار پائے۔ چنانچہ ارشاد ہے:

قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ. (آل عمران ۳: ۳۲)
’’)اے پیغمبر، ان سے) کہہ دیجیے: اللہ اور رسول کی اطاعت کرو، پھر اگر یہ اعراض کریں تو جان لیں کہ اللہ ایسے کافروں کو بالکل پسند نہیں کرتا۔‘‘

قرآن مجید سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ آخرت کی میزان میں انھی اعمال کا وزن ہوگا جو ایمان اور اخلاص کے ساتھ کیے جائیں گے۔ ایمان و اخلاص سے خالی تمام اعمال، خواہ وہ کتنے ہی بڑے سمجھ کر کیے جائیں، اکارت جائیں گے۔ پیغمبر کی اطاعت سے انکار چونکہ کفر ہے، اس وجہ سے اس کے نتیجے میں انسان کے ایسے تمام اعمال جنھیں وہ نیکی سمجھتا رہا اور جن کے بارے میں وہ یہ گمان کرتا رہا کہ ان کے سہارے وہ اللہ کی پکڑ سے بچ جائے گا، آخرت میں بالکل بے وزن قرار پائیں گے۔ ارشاد باری ہے:

یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَکُمْ.(محمد ۴۷: ۳۳)
’’اے ایمان والو، اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور (اس سے گریز کر کے) اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو۔‘‘

اس آیت سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ آخرت میں انسان کے وہی نیک اعمال نتیجہ خیز ہوں گے جو اس نے ہر طرح کے حالات میں اپنے ذاتی مفاد اور مصالح سے بے پروا ہو کر اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے ہوئے کیے ہوں گے۔ اس کے برعکس جس شخص نے رسول کی اطاعت کو اپنے مفادات اور مصالح کے تابع رکھا، اس کے اعمال بالکل بے ثمر اور نتیجہ کے اعتبار سے برباد ہو جائیں گے اور اس کی دین داری اس کے منہ پر پھینک ماری جائے گی۔

____________

B