HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Moiz Amjad

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

ایک ضروری تنبیہ

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور آپ کی تعلیمات پر اعتماد ہی کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلنا چاہیے کہ اگر کسی معاملے میں آپ کی کسی بات یا آپ کے کسی حکم کے بارے میں ذہن میں کوئی سوال یا کوئی الجھن پیدا ہو تو اس صورت میں ایک بندۂ مومن ایک طرف اپنے سوال اور اپنی الجھن کو دین کے جاننے والوں کے سامنے رکھے، ان سے اپنی الجھن کے حل کے لیے رہنمائی حاصل کرے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے اطمینان قلب اور انشراح صدر کی دعا کرے۔ اس کے برعکس اس قسم کے سوالوں اور الجھنوں کو بنیاد بنا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور آپ کی تعلیمات کا مذاق اڑانا ، انھیں سرگوشیوں کا موضوع اور اسلام کے خلاف سازشوں میں استعمال کرنا منافقت کی نشانی ہے۔ سورۂ مجادلہ میں اللہ تعالیٰ نے ان دونوں رویوں کو ایک دوسرے کے مقابل میں رکھ کر یہ بتایا ہے کہ جب بندۂ مومن اپنے سوالوں اور اپنی الجھنوں کو اللہ اور رسول کے سامنے رکھ کر ان سے ان کا حل دریافت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ان الجھنوں کو حل فرماتے اور اس کے نتیجے میں بندۂ مومن کو اطمینان قلب کی نعمت سے بہرہ مند فرماتے ہیں، لیکن اگر کوئی شخص اس طرح کے سوالوں اور الجھنوں کو مذاق اڑانے اور پیغمبر کے خلاف سرگوشیاں کرنے میں استعمال کرے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو شیطان کے حوالے کر دیتے اور ان کے لیے ہدایت کے دروازوں کو بند کر دیتے ہیں۔ چنانچہ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں ارشاد فرمایا:

اِسْتَحْوَذَ عَلَیْْہِمُ الشَّیْْطٰنُ فَاَنْسٰہُمْ ذِکْرَ اللّٰہِ اُولٰٓءِکَ حِزْبُ الشَّیْْطٰنِ اَلَآاِنَّ حِزْبَ الشَّیْْطٰنِ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ. (المجادلہ ۵۸ : ۱۹)
’’ان پر شیطان مسلط ہو گیا ہے، پس اس نے انھیں اللہ کی یاد سے غافل کر دیا ہے۔ یہی لوگ شیطان کا گروہ ہیں۔ سن لو کہ شیطان کا گروہ ہی نامراد ہونے والا ہے۔‘‘

ظاہر ہے، یہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہی کی مخصوص حیثیت تھی کہ وہ اپنی الجھنوں اور اپنے سوالوں کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھتے اور آپ سے براہ راست رہنمائی حاصل کرتے۔ ہمارے لیے اس کے سوا اب کوئی چارہ نہیں ہے کہ جب ہمارے ذہنوں میں کوئی الجھن اور کوئی سوال پیدا ہو تو ہم اسے دین کے اہل علم کے سامنے رکھیں اور ان سے رہنمائی حاصل کریں۔

____________

B