HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Moiz Amjad

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

بنی اسماعیل پر اس سنت الٰہی کا ظہور

قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مشن کے آغاز میں قریش مکہ کے سامنے اپنی دعوت رکھی۔ آپ کی اس دعوت کے بنیادی طور پر دو نکات تھے۔ ایک دین ابراہیم کی تجدید اور دوسرے انکار کی صورت میں دنیا اور آخرت میں خدا کی پکڑ سے انذار۔ چنانچہ مکی دور کی ابتدائی سورتوں میں اصلاً یہی دو موضوع زیربحث آئے ہیں۔ ۴؂ اس دوران میں مختلف پیرایوں میں گوناگوں اسالیب میں اور بے شمار مثالوں کے ذریعے سے یہ تو بار بار بتایا گیا ہے کہ رسول کا انکار کرنے والے لازماًدنیا اور آخرت میں عذاب الٰہی کے مستحق ٹھہریں گے اور آپ کے ماننے والوں پر اس کی رحمتوں کی بارش ہو گی، مگر ان سورتوں میں کسی ایک مقام پر بھی دعوت و انذار کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی اور ذمہ داری نہیں ڈالی گئی۔ اس ضمن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بات بھی واضح فرما دی کہ آپ کا کام بات کے ابلاغ کی حد تک ہے۔ لوگوں کا محاسبہ کرنا یا انھیں فی الواقع عذاب دے دینا آپ کا کام نہیں ہے۔ یہ سر تا سر اللہ ہی کا کام ہے۔ ان مکذبین پر یہ عذاب آپ کی زندگی میں بھی نازل ہو سکتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس سے پہلے آپ کو وفات دے دی جائے۔ یہ لوگ کسی حال میں بھی اب اللہ کی پکڑ سے نہیں بچ سکتے، مگر آپ کی ذمہ داری دعوت و انذار سے بڑھ کر، بہر حال نہیں ہے۔

اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ ساتھی میسر آ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے کچھ بندوں کے دلوں کو ایمان کے لیے کھول دیتے ہیں۔ حمزہ اور عمر رضی اللہ عنہما جیسے زورآور بھی ان خوش نصیبوں میں شامل ہیں۔ اس کے باوجود آپ کی ذمہ داری اب بھی دعوت و انذار ہی تک محدود ہے۔ آہستہ آہستہ مخالفین کی سرگرمیاں زور پکڑتی ہیں، کمزور اور ناتواں لوگوں پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنی جان اور اپنا ایمان بچانے کے لیے حبشہ کی طرف کوچ کر جاتے ہیں۔ نجاشی مسلمانوں کو پناہ دینے پر آمادہ ہو جاتا ہے، مگر اللہ کے پیغمبر کو ابھی ہجرت کی اجازت ملتی ہے اور نہ کوئی اقدام ہی اس کے لیے جائز ٹھہرتا ہے۔ اس کی ذمہ داری اب بھی محض اپنی قوم کو دین حق کی دعوت دینا اور اسے اللہ کی پکڑ سے آگاہ کرنا ہے۔

مکہ کے آس پاس اسلام کے اثرات نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ پیغمبر کی آواز زندہ دلوں میں گھر کرتی چلی جاتی ہے۔ آپ کے جاں نثاروں میں آہستہ آہستہ مزید اضافہ ہوتا ہے، مگر اب بھی اصل مخاطب آپ کی اپنی قوم اور اصل کام دعوت و انذار ہی ہے۔

اللہ کی حجت قریش مکہ پر پوری ہو جاتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ان سے منہ پھیر لینے اور اپنی دعوت دوسرے قبائل کے سامنے پیش کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ آپ حج کے موقع پر منیٰ میں اپنی دعوت بنی اسماعیل کے مختلف قبائل کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یہ سب قبیلے انکار کر دیتے ہیں۔ البتہ یثرب کے چند لوگ آگے بڑھتے اور پورے شرح صدر کے ساتھ اسے قبول کر لیتے ہیں۔ دو سال کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم پروردگار عالم کے لشکر کی حفاظت میں ایک فرماں روا کی حیثیت سے یثرب میں داخل ہوتے ہیں۔ اب یثرب کا اقتدار آپ کے ہاتھ میں آ جاتا ہے۔

مکہ کے پورے دور میں مختلف حالات پیش آئے، مگر ان تمام حالات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو باربار اس بات کی تذکیر کی گئی کہ آپ کی ذمہ داری بلاغ مبین سے بڑھ کر ہرگز نہیں ہے۔ اس پورے عرصے میں کسی قسم کے جارحانہ اقدام کی اجازت نہیں ملی۔ اس پوری مدت میں غلبۂ دین کی کسی جدوجہد کا کوئی حکم دیا گیا اور نہ کسی اشارے اور کنائے میں اسے مقصد بعثت ہی ٹھہرایا گیا۔ یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعوت اور صرف دعوت کے نتیجے میں بغیر کسی’’انقلابی جدوجہد‘‘ کے مدینہ میں اسلامی ریاست قائم ہو گئی۔

مدینہ میں اسلامی ریاست کے قیام تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام تر ذمہ داری ابلاغ اور صرف ابلاغ ہے۔ اس دوران میں نہ نفاذ دین کی کوئی حکمت عملی بنائی جاتی ہے، نہ غلبۂ دین کی کسی جدوجہد ہی کا کوئی ذکر کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید اور سیرت طیبہ کو دیکھیے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس پورے عرصے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم انقلاب کے لیے کوئی تنظیمی ڈھانچا وجود میں نہیں لاتے، سمع و طاعت پر مبنی کوئی نظم قائم نہیں کرتے اور اپنے پیرووں کو غلبۂ دین کا کوئی منہاج نہیں دیتے۔

مدینہ میں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اسلامی قوانین کا نفاذ شروع کیا۔ اس کے اندر معاشرتی، معاشی اور سیاسی نظم و ضبط قائم کرنے کے لیے قانون سازی کی۔ اندرونی اور بیرونی دفاع کے انتظامات کیے۔ اس طرح اسلام کی ظاہری شان و شوکت بھی آہستہ آہستہ بڑھنی شروع ہو گئی۔ اس موقع پر بہت سے مفاد پرست، دوغلے اور محض اسلام کے ظاہری شکوہ سے مغلوب ہونے والے منافق بھی اسلام کی صفوں میں شامل ہو گئے۔

ظاہر ہے جس گروہ کو آگے چل کر دنیا پر دین حق کی گواہی دینی تھی، اس میں اس قسم کے لوگوں کا وجود کسی طرح بھی گوارا نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس صورت میں بنی اسماعیل کے منکرین کو عذاب دینے کے ساتھ یہ بھی ضروری تھا کہ مسلمانوں کی جماعت میں سے منافق اور دھوکا باز قسم کے لوگوں کو الگ کر دیا جائے۔ چنانچہ اس سلسلے میں مسلمانوں کو یہ بتا دیا گیا کہ ایک خود مختار ریاست حاصل کر لینے کے بعداب انھیں جہاد و قتال کے مرحلے سے گزرنا ہو گا۔ یہ جہاد ایک طرف اللہ کے قانون کے مطابق رسول کے منکرین کے لیے عذاب الٰہی بن جائے گا اور دوسری طرف اسی کے ذریعے سے منافقوں کو سچے اہل ایمان سے الگ کر دیا جائے گا ۔ لہٰذا اس موقع پر مسلمانوں کو منکرین بنی اسماعیل کے خلاف جنگ اور اس کی تیاری سے متعلق احکام دیے گئے۔ ساتھ ہی اس جنگ کی یہ غایت بھی ان پر واضح کر دی گئی کہ یہ لوگ اگر اسلام قبول نہیں کریں گے تو زمین سے مٹا دیے جائیں گے۔ ارشاد ہے:

تُقَاتِلُوْنَہُمْ اَوْ یُسْلِمُوْنَ. (الفتح ۴۸: ۱۶)
’’تم کو ان سے جنگ کرنی ہو گی یا وہ اسلام قبول کر لیں گے۔‘‘

اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں پر یہ بات بھی واضح فرما دی جاتی ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی، جب تک سرزمین عرب میں دین حق کی بالا دستی قائم نہ ہو جائے۔ ارشاد فرمایا:

وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لاَ تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ. (الانفال ۸: ۳۹)
’’اور ان سے جنگ کرو، یہاں تک کہ فتنے کا قلع قمع ہو جائے اور سارا دین اللہ کا ہو جائے۔‘‘

انھیں یہ بتا دیا جاتا ہے کہ کفر و اسلام کے ان معرکوں میں آخری فتح لازماً انھی کی ہو گی۔ ان پر یہ بات شروع ہی میں واضح کر دی جاتی ہے کہ یہ محض کفر و اسلام ہی کے معرکے نہیں، بلکہ یہ رسول کے ساتھیوں اور اس کے مخالفین کے درمیان ہونے والی کشمکش ہے، اس وجہ سے وہی سنت الٰہی جو قوم نوح، عاد و ثمود، اصحاب رس، قوم لوط، قوم فرعون اور ایکہ والوں کے لیے موت کا پیغام اور بنی اسرائیل کے لیے تاقیامت ذلت اور پستی کی مہر لائی تھی، اب منکرین بنی اسماعیل کو بھی خاک میں ملا کر چھوڑے گی اور ان مومنوں کو ہر حال میں فتح نصیب ہو گی۔ ارشاد ہے:

وَلَوْ قٰتَلَکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوَلَّوُا الْاَدْبَارَ ثُمَّ لَا یَجِدُوْنَ وَلِیًّا وَّلَا نَصِیْرًا. سُنَّۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلاً.(الفتح ۴۸: ۲۲۔۲۳)
’’اور اگریہ کافر(یعنی کفار بنی اسماعیل) تم سے جنگ کرتے تو لازماً مغلوبہو کر پیٹھ پھیرتے۔ پھر نہ کوئی کار ساز پاتے نہ مددگار۔ یہ اللہ کی ٹھہرائی ہوئی سنت ہے جو پہلے سے چلی آ رہی ہے اور اللہ کی اس سنت میں تم ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔‘‘

ایک اور مقام پر مومنوں کو ان معرکوں میں فتح اور اس کے نتیجے میں سرزمین عرب میں غلبہ و اقتدار ملنے کی خوش خبری دیتے ہوئے فرمایا:

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَہُمْ.(النور ۲۴: ۵۵)
’’)رسول کے ساتھیو)، اللہ نے وعدہ کیا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو فی الواقع ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے کہ لازماً اللہ انھیں اس سرزمین میں اسی طرح اقتدار بخشے گا جس طرح اس نے اس سے پہلے رسولوں کی امتوں کو اقتدار بخشا اور ان کے لیے لازماً اس دین کو مستحکم کرے گا جسے اس نے ان کے حق میں پسند کیا۔‘‘

ایک اور مقام پر مومنین کو یہی بشارت ایک دوسرے انداز سے دی گئی ہے۔ ارشاد ہے:

یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِءُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَیَاْبَی اللّٰہُ اِلاّآاَنْ یُّتِمَّ نُوْرَہٗ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ. ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ.(التوبہ۹: ۳۲۔۳۳)
’’یہ (اہل کتاب) چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں۔ اور اللہ اس سے انکار کرتا ہے، وہ اپنے نور کو لازماً کامل کر کے رہے گا، خواہ ان کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہی ہے جس نے اپنی ہدایت اور دین حق کے ساتھ اپنے رسول کو بھیجا ہے تاکہ وہ تمام ادیان پر اسے غالب کر دے۔ اگرچہ یہ بات ان مشرکوں کے لیے کتنی ہی ناگوار ہو۔‘‘

چنانچہ مومنین پر یہ واضح کر دیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ بہر حال ہو کے رہے گا، لیکن اللہ کی یہ سنت ظہور میں اب ان مومنوں کی جدوجہد ہی سے آئے گی۔ اس طرح یہ معرکے ایک طرف سنت الٰہی کے ظہور کا ذریعہ بنیں گے اور دوسری طرف انھی کے ذریعے سے مسلمانوں کے گروہ کے کھرے اور کھوٹے میں تمیز کی جائے گی۔ انھیں ایمان و اسلام کی چھلنی سے گزارا جائے گا۔ منافقوں کو سچے اہل ایمان سے الگ کر دیا جائے گا، اس طرح ایک ایسا گروہ تیار کر دیا جائے گا جو اپنے وجود ہی سے دنیا پر دین حق کا گواہ بن سکے۔ چنانچہ پہلی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

قَاتِلُوْہُمْ یُعَذِّبْہُمُ اللّٰہُ بِاَیْْدِیْکُمْ وَیُخْزِہِمْ وَیَنْصُرْکُمْ عَلَیْْہِمْ وَیَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ.(التوبہ ۹: ۱۴)
’’ان سے لڑو، اللہ تمھارے ہاتھوں انھیں عذاب دے گا اور انھیں رسوا کرے گا اور تمھیں ان پر غلبہ دے گااور اہل ایمان کے ایک گروہ کے کلیجے ٹھنڈے کرے گا۔‘‘

اسی سلسلۂ بیان میں ایک آیت کے بعد یہ بات واضح کر دی کہ اس سنت الٰہی کے ظہور کے لیے مسلمانوں کو قتال کا حکم کیوں دیا جا رہا ہے۔ ایسا کیوں نہیں ہوا کہ قوم نوح اور عاد و ثمود کی طرح آسمان سے اللہ کے فرشتے اتریں اور منکرین بنی اسماعیل کا صفایا کر دیں۔ ارشاد فرمایا:

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَکُوْا وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جٰہَدُوْا مِنْکُمْ وَلَمْ یَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلاَ رَسُوْلِہٖ وَلاَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَلِیْجَۃً وَاللّٰہُ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ. (التوبہ ۹: ۱۶)
’’کیا تم نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ یونہی چھوڑ دیے جاؤ گے، حالاں کہ اللہ نے ابھی تم میں سے ان لوگوں کو چھانٹا ہی نہیں جنھوں نے جہاد کیا اور اللہ و رسول اور مومنین کے سوا کسی کو جنھوں نے دوست نہیں بنایا۔ اور (یاد رکھو) جو کچھ تم کر رہے ہو، اللہ اس سے خوب باخبر ہے۔‘‘

اسی طرح غزوۂ احد میں مسلمانوں کی شکست کے وجوہ و اسباب اور اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

مَا کَانَ اللّٰہُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلٰی مَآ اَنْتُمْ عَلَیْْہِ حَتّٰی یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ.(آل عمران ۳: ۱۷۹)
’’ اللہ کے لیے یہ مناسب نہ تھا کہ مسلمانوں کو جس حال پر تم تھے، اسی پر خبیث کو طیب سے الگ کیے بغیر چھوڑے رکھے۔‘‘

قرآن مجید نے یہ بات بھی دو ٹوک انداز میں واضح فرما دی کہ اللہ تعالیٰ اپنی اس اسکیم کو رو بہ عمل کرنے میں کسی کا محتاج نہیں ہے۔ وہ اگر تمھارے ذریعے سے یہ کام کر رہا ہے تو صرف اس لیے کہ وہ دیکھے کہ تم میں سے کون اپنے ایمان میں سچا ہے اور کس کا دعویٰ ایمانی جھوٹا ہے۔ تم اگر اللہ کے رسول کی نصرت کرو گے تو اس میں تمھارا ہی فائدہ ہے اور تم نے اگر پیٹھ پھیر لی تو تم خدا کا کچھ نہیں بگاڑو گے، وہ تمھاری جگہ دوسرے لوگ کھڑے کر دے گا اور ان کے ذریعے سے اپنی اسکیم پوری کرلے گا۔ ارشاد ہے:

وَاِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْْرَکُمْ ثُمَّ لَا یَکُوْنُوْٓا اَمْثَالَکُمْ.(محمد ۴۷: ۳۸)
’’اور اگر تم نے (رسول کی نصرت سے) منہ پھیرا تو یاد رکھو، اللہ تمھاری جگہ دوسرے لوگ لے آئے گا اور پھر وہ تمھاری طرح (منہ پھیرنے والے) نہ ہوں گے۔‘‘

اسی طرح ایک دوسرے مقام پر یہ واضح فرما دیا کہ رسول کے ساتھیوں کو اس راہ میں جدوجہد کرنے کا جو حکم دیا جاتا ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ اللہ تعالیٰ اپنی اسکیم کو روبہ عمل کرنے میں کسی کا محتاج ہے، بلکہ اس کی وجہ صرف یہ دیکھنا ہے کہ لوگ اپنے دعویٰ ایمانی میں کتنے سچے ہیں۔ اللہ کے وعدوں پر انھیں کتنا بھروساہے ۔ان میں سے کون ہے جو اللہ اور رسول کی نصرت کے لیے اپنی جان اور اپنے مال کی بازی کھیلتا ہے اور کون ہے جو اب تک محض گفتار کا غازی بنا ہوا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:

لِیَعْلَمَ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ وَرُسُلَہٗ بِالْغَیْْبِ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ. (الحدید ۵۷: ۲۵)
’’(اللہ تعالیٰ نے جہادکا حکم اس لیے دیا) تاکہ اللہ ان لوگوں کو ممیز کرے جو غیب میں ہوتے ہوئے اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد کرتے ہیں۔ بے شک، اللہ بڑا ہی زور آور (اور) غالب ہے (اسے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں۔ وہ اگر چاہتا تو اپنے دشمنوں سے خود نمٹ لیتا)۔‘‘

اسی طرح سورۂ توبہ میں فرمایا:

اِلاَّ تَنْفِرُوْا یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا وَّیَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْْرَکُمْ وَلاَ تَضُرُّوْہُ شَیْْءًا وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْْءٍ قَدِیْرٌ. اِلاَّ تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْْنِ اِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لاَ تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْْہِ وَاَیَّدَہٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْہَا وَجَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا السُّفْلٰی وَکَلِمَۃُ اللّٰہِ ہِیَ الْعُلْیَا وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ.(۹: ۳۹۔۴۰)
’’اگر تم نہ اٹھو گے تو خدا تمھیں درد ناک عذاب دے گا اور تمھاری جگہ دوسری قوم لے آئے گا اورتم اس کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکو گے۔ اور (یاد رکھو) اللہ ہر بات پر قدرت رکھتا ہے۔ اگر تم اس (پیغمبر) کی مدد نہ کرو گے( تو کچھ پروا نہیں) اس کی مدد تو اللہ نے اس وقت فرمائی جب کافروں نے اس کو اس حال میں نکالا تھا کہ وہ صرف دو کا دوسرا تھا، جبکہ وہ دونوں غار میں تھے۔ جبکہ وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ تم غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے، تو اللہ نے اس پر اپنی سکینت نازل فرمائی اور اس کی مدد ایسی فوجوں کے ذریعے سے کی جو تمھیں نظر نہیں آئیں۔ اور اس نے کافروں کی بات پست کی اور اللہ ہی کا کلمہ بلند رہا۔ اور (یاد رکھو) اللہ غالب (اور) حکیم ہے۔‘‘

ان دونوں آیتوں کی تفسیر کرتے ہوئے مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’یہ ان منافقین کو دھمکی ہے کہ اگر تم خداکی راہ میں جہاد کے لیے نہ اٹھے تو خدا کے دردناک عذاب کی پکڑ میں آجاؤ گے اور یہ نہ خیال کرو کہ اس نہ اٹھنے سے خدا کا کوئی کام بگڑ جائے گا۔ تمھارا اٹھنا خود تمھارے لیے موجب سعادت دنیا و آخرت ہے۔ ورنہ خدا کا کوئی کام تمھارے اوپر منحصر نہیں ہے۔ وہ اپنے دین کی حمایت و نصرت کے لیے اپنے دوسرے بندے اٹھا کھڑا کرے گا جو تمھاری طرح تن آسان، پست ہمت اور مفاد پرست نہیں ہوں گے۔ سورۂ محمدمیں یہی مضمون اس طرح بیان ہوا ہے وَاِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ثُمَّ لَا یَکُوْنُوْٓا اَمْثَالَکُمْ (۳۸)
وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ‘ بیک وقت کئی حقیقتوں کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ ایک یہ کہ خدا تمھیں عذاب دینے پر قادر ہے، دوسری یہ کہ تمھاری جگہ دوسروں کو اٹھا کھڑا کرنے پر قادر ہے، تیسری یہ کہ وہ اپنی ہر اسکیم بروے کار لانے پر قادر ہے، اپنے کسی بھی ارادے کی تکمیل میں وہ کسی کا محتاج نہیں۔
... ’تَنْصُرُوْہُ‘ میں ضمیر مفعول ،آگے کے قرائن دلیل ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف لوٹتی ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے نمایندے کی حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس جہاد کی دعوت دی تھی۔ اوپر والی آیت میں منافقین سے جس بے نیازی کا اظہار فرمایا ہے اسی بے نیازی کی یہ دلائل کی روشنی میں مزید وضاحت ہے۔ فرمایا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم جس اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے اٹھے ہیں، اگر اس کام میں تم نے ان کا ساتھ نہ دیا تو یہ نہ سمجھو کہ یہ کام رک جائے گا۔ جس خدا نے ہجرت سے لے کر اب تک ہر قدم پر اس کی مدد فرمائی ہے وہ اب بھی اس کی مدد کو موجود ہے۔ یاد کرو کہ ایک دن وہ تھا جب کفار نے اس حال میں اس کو گھر سے نکالا کہ وہ صرف دو کا دوسرا تھا،کوئی تیسرا اس کے ساتھ نہ تھا۔ (یہ اشارہ ہے سفر ہجرت کی طرف جس میں صرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور سارا قریش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خون کا پیاسا تھا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب کی آنکھوں میں دھول جھونک کر نکل آئے اور کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بال بیکا نہ کر سکا۔) پھر یاد کرو اس وقت کو جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صدیق رضی اللہ عنہ، دونوں غار ثور میں پناہ گیر تھے اور دشمن تعاقب میں نقش قدم کی ٹوہ لگاتے ہوئے غار کے دہانے تک پہنچ گئے۔ یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے واحد ساتھی کو یہ اندیشہ پیدا ہو گیا کہ اب ہم دشمن کے نرغے میں ہیں اور خدانخواستہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے لیے آخری خطرہ سامنے آ گیا ہے، لیکن پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھی کو تسلی دی کہ تم ذرا غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے، وہ ہماری حفاظت فرمائے گا چنانچہ اللہ نے اس پر اپنی جانب سے سکینت و طمانیت نازل فرمائی۔ پھر یاد کرو کہ کتنی جنگیں ان کفار کے ساتھ ہو چکی ہیں جن میں خدا کی غیرمرئی فوجیں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد و نصرت کے لیے اس کے ہم رکاب رہی ہیں یہاں تک کہ کفر سرنگوں اور دین کا بول بالا ہو گیا۔ غور کرو کہ کیا یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم جس کی نصرت کے لیے خدا کی یہ شانیں ظاہر ہوئی ہیں وہ تم جیسے لوگوں کی مدد کا محتاج ہو سکتا ہے! اس کا خدا عزیز بھی ہے اور حکیم بھی۔ وہ جس کام کو کرنا چاہے کسی کی طاقت نہیں کہ کوئی اس میں مزاحم ہو سکے اور اس کے ہر کام میں ایسی حکمت ہوتی ہے کہ کوئی اس حکمت کو پا نہیں سکتا۔‘‘( تدبر قرآن ۳/ ۵۷۵۔۵۷۶)

چنانچہ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کے لیے اس عذاب کا پہلا مرحلہ جنگ بدر کے موقع پر رونما ہوا۔ اس موقع پر قریش کے وہ تمام سردار جن کے ایمان لانے کا اب کوئی امکان نہ تھا، اس معرکے میں ختم ہو گئے۔ اس کے بعد احد اور احزاب کے مراحل میں سے گزر کر آخری مرحلے میں سورۂ توبہ میں پورے قریش کو الٹی میٹم دے دیا گیا۔۵؂

اس طرح پروردگار عالم کی وہ سنت جسے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد جزیرہ نماے عرب میں بہرحال ظہور میں آنا تھا، پوری شان کے ساتھ ظہور میں آئی۔ اللہ کا وعدہ پورا ہوا اور مشرکین عرب کے تمام گروہوں کو شکست فاش ہوئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرما دیا: لَا یَجْتَمِعُ فِیْہِ دِیْنَانِ‘ یعنی اس سرزمین میں اب اسلام کے ساتھ کوئی اور دین جمع نہ ہو گا۔ اور اس طرح ھُوَالَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْکَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ‘،’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اوردین حق کے ساتھ بھیجا کہ اُسے وہ (سرزمین عرب کے) تمام ادیان پر غالب کردے، اگرچہ یہ بات (عرب کے)اِن مشرکوں کو کتنی ہی ناگوار ہو۔‘‘ (الصف۶۱: ۹) کے الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے سرزمین عرب میں اسلام کے کامل غلبے کی جو بشارت دی تھی، وہ پوری ہوئی۔ مشرکین عرب اور اہل کتاب کی خواہشات اور کوششوں کے علی الرغم سرزمین عرب پر دین اسلام کا غلبہ عملاً قائم ہو گیا۔

[۱۹۹۸ء[

____________

۴؂ مثال کے طور پر دیکھیے: فاتحہ، انعام، اعراف، یونس تاحجر، فرقان تا عنکبوت، سبا تا احقاف، ق تا واقعہ اور ملک تا اخلاص۔

۵؂ سورۂ توبہ بنیادی تقسیم کے لحاظ سے تین حصوں پر مشتمل ہے: پہلے حصے میں منکرین قریش کے استیصال کا حکم ہے۔ دوسرے حصے میں اہل کتاب کے منکرین کے بارے میں احکام آئے ہیں۔ اور آخری حصے میں منافقوں کو تہدید ہے۔ سورہ کے آغاز میں مشرکین عرب کے استیصال کا حکم ہے، ان کے بارے میں دوٹوک الفاظ میں یہ ہدایت ہے کہ ان کا خاتمہ کر دیا جائے۔ حج اکبر کے دن ان کے سامنے یہ اعلان کر دیا جائے کہ حرام مہینے ختم ہونے کے بعد بھی جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے آگے سرنگوں نہیں ہوں گے، ان کے خلاف کارروائی شروع ہو جائے گی۔ وہ جہاں کہیں پائے جائیں گے، قتل کر دیے جائیں گے۔ ان کے معاملے میں صرف دو صورتیں مستثنیٰ رکھیں: ایک یہ کہ ایسے قبائل جنھوں نے مسلمانوں کے ساتھ باندھے ہوئے عہد کی پابندی کی ہے، ان کے خلاف یہ داروگیر معاہدے کی مدت ختم ہونے کے بعد شروع ہو گی، اس سے پہلے ان کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ کوئی شخص اگر دین کو سمجھنے کے لیے کچھ وقت کی پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دی جائے اور پناہ کی مدت پوری ہونے تک اس کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا جائے۔ اس ضمن میں مسلمانوں پر یہ بات بھی واضح فرما دی کہ یہ وہی عذاب ہے جو ان مشرکوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار کے نتیجے میں، بہرحال آنا ہے۔ ساتھ ہی وہ حکمت بھی بیان فرما دی ہے جس کے تحت اللہ کا عذاب مومنوں کی تلواروں کے ذریعے سے آئے گا۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کو بعض اہم ہدایات دی ہیں۔ اس کے بعد اہل کتاب کے بارے میں احکام ہیں۔ ان کے بارے میں یہ اعلان کر دیا ہے کہ ان میں سے اب بھی جو لوگ دین حق کو اختیار نہیں کرتے، ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں یا مسلمانوں کے زیر دست ہو کر اور انھیں جزیہ دے کر رہنے پر آمادہ ہو جائیں۔ اس کے بعد یہود و نصاریٰ کے عقائد و اعمال پر تبصرہ ہے۔ اس ضمن میں یہ بتایا ہے کہ حق کے ساتھ ان کی دشمنی کا یہ عالم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نورہدایت کو اپنی پھونکوں سے بجھا دینا چاہتے ہیں، مگراللہ نے بھی فیصلہ کیا ہوا ہے کہ وہ ان کافروں کے علی الرغم اپنے اس نور کو کامل کر کے رہے گا۔ اب ان مشرکین کا بھی خاتمہ ہو گا اور ان اہل کتاب کو بھی مسلمانوں کا زیر دست ہونا پڑے گا، کیونکہ پروردگار عالم نے اپنی ہدایت اور اپنے دین حق کے ساتھ اپنے رسول کوبھیجا ہے تو اب رسولوں کے باب میں اپنے قانون کے مطابق اس کا فیصلہ یہی ہے کہ وہ ان مشرکوں کی ہر کوشش اور ہر خواہش کے علی الرغم اپنے دین کو اس سرزمین کے تمام ادیان پر غالب کر دے گا۔ تمھیں اے ایمان والو، اپنے رسول کی نصرت کرنی اور اپنی جان اور اپنے مال کے ساتھ اس راہ میں جہاد کرنا ہے۔ اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو اللہ تمھیں شدید عذاب دے گا اور تمھاری جگہ ایسے لوگ کھڑے کر دے گا جو اس کی نصرت کے لیے جان اور مال کی بازی لگا دیں گے۔ یاد رکھو، اللہ اپنے فیصلے کو پورا کرنے میں تمھارا محتاج نہیں ہے۔ تم اگر اس کی نصرت نہیں کرتے تو نہ کرو، اب اللہ نے خود اپنے بندے کی نصرت کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس کے بعد آخر تک سورہ میں منافقوں کے رویوں سے پردہ اٹھایا ہے اور ان کے خلاف کارروائی کے احکام دیے ہیں۔

_________________

 

B