یہ زندگی انسان کی آزمایش کے لیے ہے۔ اس آزمایش میں کامیابی کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو سیدھے راستے کی ہدایت دینے کا جو انتظام کیا ہے، اس کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں: ایک خود انسان کے اپنے درون میں یہ انتظام موجود ہے۔ انسان اپنے پاس سمع و بصر اور فواد کی صلاحیتیں رکھتا ہے۔اس کے دل میں اپنے پروردگار کی توحید کا علم موجود ہے، وہ خیر و شر میں تمیز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ا س کے اندر ایک ایسا نفس موجود ہے جو برائی کرنے پر اسے ٹوکتا ہے، اس کی ملامت کرتا اور اسے برا بھلا کہتا اور اچھے کام کرنے پر اس کی تحسین کرتا، اس کو تھپکی دیتا اور اس کی مدح کرتا ہے۔
ہر انسان کے درون میں یہ انتظام موجود ہے، مگر انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ صرف غور و فکر کی صلاحیت اور خیر و شر کی یہ پہچان ہی اپنے اندر نہیں رکھتا، اس کے ساتھ ساتھ اس کے اندر محبت، نفرت اور انانیت جیسے جذبات، قومی، ملی اور مذہبی مختلف قسم کے تعصبات، طرح طرح کی خواہشات اور خودستائی، تکبر اور سرکشی کے داعیات بھی موجود ہیں۔ وہ بارہا ان جذبات سے مغلوب ہو جاتا ہے، تعصبات کا شکار ہو جاتا ہے اور خواہشات اسے اپنا اسیر بنا لیتی ہیں۔ چنانچہ وہ خیر وشر کی اس پہچان سے صرف نظر کر لیتا اور اپنے ضمیر کی آواز سے کان بند کر لیتا ہے۔ یہ صورت حال اس بات کی متقاضی ہوئی کہ اس اندرونی انتظام کے ساتھ ایسا کوئی خارجی انتظام بھی کیا جائے جو انسان کو صحیح رویے کی یاد دلاتا رہے۔ چنانچہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے نبوت کا سلسلہ جاری فرمایا۔
نبوت کا یہ سلسلہ ابوالآبا حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ و السلام سے شروع ہوا۔ ان کے بعد پے درپے دنیا میں نبی آتے رہے۔ اللہ کے نبیوں نے وحی کی رہنمائی میں ایک طرف تذکیر، یعنی یاددہانی کا کام کیا اور دوسری طرف اللہ کی پسند کے مطابق زندگی گزارنے کے اطوار کی تعلیم دی۔ انھوں نے انسان کو اللہ کی عبادت کے طریقے سکھائے۔ قانون خداوندی اور حکمت ایزدی کی تعلیم دی اور اس طرح اسے بہشت بریں کا اہل بننے کے لیے اس کے نفس کے تزکیے کا سامان کیا۔ اللہ کے ان پیغامبروں نے اپنی ساری زندگی اپنی قوم پر حق کو واضح کرنے کی بھرپور جدوجہد کی، ان میں سے کچھ دنیوی غلبے کے اعتبار سے بھی اپنی قوم کے مقابلے میں کامیاب ہوئے اور ان کی قوم ان پر ایمان لے آئی، مگر ان میں سے اکثر کو ان کی قوم نے ماننے سے انکار کر دیا اور کچھ ایسے بھی تھے جن کے انکار ہی پر اکتفا نہ کیا، بلکہ ان کو ظلم و ستم کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا، ان تمام نبیوں کا مشن قرآن مجید میں یہ بیان ہوا ہے کہ وہ حق کو واضح کرنے، اس کے بارے میں لوگوں کے اختلافات کو ر فع کرنے، اسے اختیار کرنے والوں کو آخرت کے اچھے انجام کی بشارت دینے اور اس سے منہ موڑنے والوں کو آخرت کے برے انجام سے آگاہ کرنے کے لیے آئے تھے۔ ارشاد ہے:
کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ. (البقرہ ۲: ۳ ۲۱)
’’لوگ ایک ہی امت تھے۔ (انھوں نے اختلاف کیا) تو اللہ نے نبی بھیجے، (ماننے والوں کو) سعادت دیتے اور (انکار کرنے والوں کو) انذار کرتے ہوئے۔‘‘
ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے یہ بات بھی واضح فرما دی ہے کہ ان پیغمبروں کے بعد اب بنیادی طور پر گمراہی پر قائم رہنے اور حق سے انحراف کرنے کا ایسا کوئی عذر لوگوں کے پاس نہ ہو گا جسے آخرت میں وہ اللہ کے سامنے پیش کر سکیں۔ ارشاد ہے:
رُسُلاً مُّبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ لِءَلاَّ یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرُّسُلِ. (النساء ۴: ۱۶۵)
’’)ہم نے) یہ پیغمبر(بھیجے، ماننے والوں کو) بشارت دیتے اور (انکار کرنے والوں کو) آگاہ کرتے تاکہ ان کے بعد لوگوں کے لیے اللہ کے سامنے پیش کرنے کا کوئی عذر باقی نہ رہے۔‘‘
قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے ان نبیوں میں سے بعض ’نبوت‘ کے ساتھ’رسالت‘۱ کے منصب پر بھی فائز ہوئے تھے۔ ان رسولوں کو اللہ تعالیٰ نے ایسی واضح اور روشن نشانیوں کے ساتھ دنیا میں بھیجا کہ لوگوں کے لیے وہ اپنی ذات ہی میں حق کی گواہی بن گئے۔ وہ بھی اللہ کے نبیوں کی طرح نخل فطرت کے بہترین ثمر ہوتے، معاشرہ انھیں بھی ’صادق‘ اور ’امین‘ کی حیثیت سے جانتا، ان کا پیغام سلیم الطبع لوگوں کے دلوں کی آواز ہوتا، ان کے اخلاق، ان کے کردار، ان کی سیرت، ان کی عادات اور ان کے اطوار، ایک ایک چیز دوسروں کے لیے مثال اور نمونہ تھی۔ وہ صرف اعلیٰ معیار کے واعظ، مربی اور مقرر ہی نہیں تھے،بلکہ جس پیغام کو وہ لے کر آتے، اس کا بہترین عملی نمونہ بھی ہوتے۔ ان کے قول و عمل میں کسی قسم کا کوئی تضاد نہ ہوتا۔ وہ جو کہتے،اسے کر کے بھی دکھاتے۔ وہ اپنے قول میں جن اقدار کے علم بردار ہوتے، ان کا عمل بھی انھی کے فروغ کا ذریعہ بنتا۔ ان کے دشمن بھی ان کی صداقت ،امانت اور دیانت پر گواہی دیتے اور اس سب کچھ کے علاوہ وہ اپنے ساتھ ایسی واضح اور روشن نشانیاں لے کر آتے جن کے بعد کسی کے لیے ان کا انکار کر دینے کی کوئی گنجایش باقی نہیں رہ جاتی تھی۔ قرآن مجید ان نشانیوں کو ’بینات‘ کہتا ہے۔’بینہ‘ کے معنی واضح اور قطعی ثبوت کے ہیں۔گویا یہ بینات ایسا قطعی اور حتمی ثبوت ہوتیں کہ ان کے بعد ان رسولوں کا مامور من اللہ ہونا آخری حد تک ثابت ہو جاتا تھا۔
اللہ کے تمام رسول ایسی ہی واضح اور روشن نشانیاں لے کر اس دنیا میں آئے۔ قرآن مجید اور قدیم آسمانی صحیفوں میں ان بینات کا بڑی تفصیل سے ذکر ہوا ہے۔ ان بینات کے نتیجے میں، جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے، رسولوں کے مخاطبین کے پاس انکار کی کوئی گنجایش باقی نہیں رہ جاتی۔ چنانچہ ان رسولوں کے بعد جو لوگ کفر و انکار پر اڑے رہتے ہیں، وہ حق کو حق جان کر اور باطل کو باطل سمجھ کر باطل کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ حق اور باطل کا معاملہ ان کے لیے کوئی مشتبہ معاملہ نہیں ہوتا۔ انھیں اس معاملے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہوتی۔ وہ پورے علم کے ساتھ، پورے شعور کے ساتھ اور پوری بصیرت اور معرفت کے ساتھ، کفر و انکار کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ حق کے آگے سر جھکانے میں ان کے لیے اگر کوئی رکاوٹ ہوتی ہے تو وہ محض ان کا تکبر، ان کی نفس پرستی اور ان کی ہٹ دھرمی ہوتی ہے۔ چنانچہ کوئی قوم اگر اپنے رسول کا انکار کردے تو اس دنیا ہی میں پروردگار عالم کا فیصلہ تازیانۂ عذاب کی صورت میں اس پر نافذ ہو جاتا ہے۔کبھی آسمان سے اللہ کی فوجیں نمودار ہوتی اور اس قوم کو صفحۂ ہستی سے مکمل طور پر مٹا دیتی ہیں،کبھی اسے رسول اور اس کے ساتھیوں کی تلواروں کا لقمہ بنا دیا جاتا اور کبھی اس کی قومی حیثیت اس سے چھین کر ہمیشہ کے لیے اس پر ذلت اور پست ہمتی تھوپ دی جاتی ہے۔
قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ کے وہ نبی جو نبوت کے ساتھ رسالت کے منصب پر بھی فائز ہوئے، ان کے بارے میں پروردگار عالم کی قطعی اور غیر متبدل سنت یہ ہے کہ ان کے ذریعے سے رب العٰلمین کی حجت جب ان کی قوم پر پوری ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ انھیں اس قوم پر غلبہ عطا فرماتے ہیں، نبیوں کے معاملے میں تو یہ ہو سکتا ہے کہ وہ دنیوی غلبے کے اعتبار سے اپنی قوم کے مقابلے میں ناکام رہیں، لیکن اللہ کے رسول ہر حال میں اپنی قوم پر غالب آتے ہیں۔ یہ غلبہ، البتہ رسول کی اپنی زندگی میں بھی حاصل ہو سکتا ہے اور اس کے رخصت ہو جانے کے بعد اس کے اعوان و انصار کو بھی مل سکتا ہے۔
یہ رسولوں کے باب میں خدا کا وہ قانون ہے جو قرآن مجید میں جگہ جگہ بڑی تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ کے ان رسولوں کی دعوت، بالعموم پانچ مراحل سے گزرتی ہے۔ ان میں دعوت و انذار، اتمام حجت، ہجرت و براء ت، منکرین پر عذاب اور مومنین کو اس سرزمین میں بسانے کے مرحلے شامل ہیں۔ سب سے پہلے اللہ کا رسول اپنی قوم کو دین کے بنیادی عقائد و اعمال کی دعوت دیتا ہے۔ وہ انھیں دنیا اور آخرت میں ان کے کفر و انکار کے نتائج سے آگاہ کرتا ہے۔ اس مرحلے میں وہ ان کے تمام اعتراضات کو سنتا، ان کے سوالوں کے جواب دیتا، ان کے مذاق اور استہزا کو برداشت کرتا، پوری دل سوزی کے ساتھ انھیں سمجھاتا، ان کی اذیتوں کو سہتا اور ان کے حق میں اپنے پروردگار سے دعا کرتا ہے۔ غرض کہ ہر طریقے سے وہ ان کو حق کے لیے اپنے دلوں کو کھولنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ پورے صبرو استقامت کے ساتھ یہ کام کرتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ پروردگار عالم کی طرف سے یہ فیصلہ آ جاتا ہے کہ اب اس کی قوم کے لوگ محض ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر اپنے کفر پر اڑے ہوئے ہیں۔ حق کی وضاحت میں اب کوئی کمی باقی نہیں رہی۔ ان کے پاس اپنے انکار کے لیے اب کوئی عذر باقی نہیں رہا۔ ان میں سے جتنے لوگوں نے ایمان لانا تھا، وہ لا چکے ہیں۔ جو اب تک ایمان نہیں لائے، وہ اب اس نعمت سے محروم ہی رہیں گے۔ یہ دودھ سارا کا سارا بلو لیا گیا ہے۔ اب چھاچھ ہی چھاچھ باقی رہ گئی ہے۔ ان لوگوں کی بدبختی اب ان پر قیامت تک غالب رہے گی۔ یہ اتمام حجت کا مرحلہ ہے، اس کے ساتھ ہی اللہ کی طرف سے پیغمبر کو یہ حکم دے دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی قوم کے ان منکرین سے اعلان برا ء ت کر دے۔ یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جس میں انکار کرنے والوں کو’ کافر‘ کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے، جب مومنوں اور کافروں کے درمیان قطع تعلق ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد پیغمبر اپنی قوم کو چھوڑ کر اس علاقے سے ہجرت کر جاتا ہے۔ اللہ کے رسولوں کی یہ ہجرت محض ایک فرد کا اپنے علاقے سے نکل جانا نہیں ہوتا، یہ دراصل قوم کی زندگی کے خاتمے، اس کے پیمانۂ حیات کے لبریز ہو جانے اور اس امان کے اٹھ جانے کا اعلان ہوتا ہے جو پروردگار عالم کی طرف سے انھیں اب تک حاصل تھی۔ اس کے بعد ان کافروں پرکسی بھی شکل میں اور کسی بھی ذریعے سے اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے۔ اور آخر میں ایمان لانے والے اگر معتدبہ تعداد میں ہوں تو اس سرزمین میں ان کو بسایا جاتا اور دوسری قوموں کے سامنے اللہ کے دین کے گواہ بننے کی ذمہ داری ان کے سپرد کر دی جاتی ہے۔
یہ رسولوں کے باب میں اللہ تعالیٰ کا وہ غیر متبدل قانون ہے جس کے بارے میں ارشاد ہوا ہے:
سُنَّۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلاً.(الفتح ۴۸: ۲۳)
’’یہ اللہ کا وہ طریقہ ہے جو پہلے سے چلا آ رہا ہے۔ اور (اے پیغمبر) تم ہرگز اللہ کے اس طریقے میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔‘‘
سورۂ ابراہیم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قانون کا خلاصہ بیان فرما دیا ہے۔ وہاں یہ بتا دیا ہے کہ اللہ کے رسول اپنی قوم کو راہ حق کی دعوت دیتے، ان کے اعتراضات کو سنتے اور ان کا جواب دیتے اور پوری استقامت کے ساتھ ان کی طرف سے آنے والی تکلیفیں اور اذیتیں برداشت کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ وہ انھیں اپنی بستی سے نکال دینے (اور کئی مرتبہ انھیں قتل کر دینے۲) کے درپے ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ اس مرحلے اور اس کے بعد نکلنے والے نتائج کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِرُسُلِہِمْ لَنُخْرِجَنَّکُمْ مِّنْ اَرْضِنَآ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا فَاَوْحٰٓی اِلَیْْہِمْ رَبُّہُمْ لَنُہْلِکَنَّ الظّٰلِمِیْنَ. وَلَنُسْکِنَنَّکُمُ الْاَرْضَ مِنْ بَعْدِہِمْ.(۱۴: ۱۳۔۱۴)
’’اور ان کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا کہ ہم لازماً تمھیں اپنی اس سرزمین سے نکال دیں گے یا تم لازماً ہماری ملت میں واپس آؤ گے۔ تب ان کے پروردگار نے ان پر وحی بھیجی کہ ہم ان ظالموں کو لازماً ہلاک کریں گے اور ان کے بعد تمھیں لازماً، اس سر زمین میں بسائیں گے۔‘‘
سورۂ مجادلہ میں اللہ تعالیٰ نے یہی بات اس طرح بیان فرمائی ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحَآدُّوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗٓ اُولٰٓءِکَ فِی الْاَذَلِّیْنَ. کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ. (۵۸: ۲۰۔۲۱)
’’بے شک، وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کر رہے ہیں، وہی ذلیل ہوں گے۔ اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ میں لازماً غالب رہوں گا اور میرے رسول بھی۔ بے شک، اللہ قوی ہے، بڑا زبردست ہے۔‘‘
ایک اور مقام پر اس قانون کے نتائج کو اس طرح بیان کیا ہے:
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ رُسُلاً اِلٰی قَوْمِہِمْ فَجَآءُ وْہُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَانْتَقَمْنَا مِنَ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا وَکَانَ حَقًّا عَلَیْْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ. (الروم ۳۰: ۴۷)
’’اور تم سے پہلے ہم نے بہت سے رسول ان کی قوموں کی طرف بھیجے تو وہ واضح نشانیوں کے ساتھ ان کے پاس آئے۔ (مگر ان میں سے اکثر لوگ اپنے انکار ہی پر اڑے رہے) چنانچہ ہم نے ان لوگوں سے انتقام لیا جنھوں نے جرم کیا اور (جو ایمان لائے، ان کی مدد کی۔ بے شک) ان مومنین کی مدد ہم پر لازم تھی۔‘‘
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت و انذار کے جواب میں جب آپ کے مخالفین کا استہزا سامنے آیا تو انھیں اس رویے کے نتائج سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا:
اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا کَیْْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ کَانُوْٓا اَکْثَرَ مِنْہُمْ وَاَشَدَّ قُوَّۃً وَاٰثَارًا فِی الْاَرْضِ فَمَآ اَغْنٰی عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ. فَلَمَّا جَآءَ تْہُمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَرِحُوْا بِمَا عِنْدَہُمْ مِّنَ الْعِلْمِ وَحَاقَ بِہِمْ مَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَہْزِءُ وْنَ. فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَحْدَہٗ وَکَفَرْنَا بِمَا کُنَّا بِہٖ مُشْرِکِیْنَ. فَلَمْ یَکُ یَنْفَعُہُمْ اِیْمَانُہُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا سُنَّتَ اللّٰہِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ فِیْ عِبَادِہٖ وَخَسِرَ ہُنَالِکَ الْکٰفِرُوْنَ. (المومن ۴۰: ۸۲۔۸۵)
’’کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھتے ان لوگوں کا کیا انجام ہوا جو ان سے پہلے گزرے ہیں۔ وہ تعداد میں بھی ان سے زیادہ تھے، اپنی قوت میں بھی ان سے بڑھ کر تھے اور زمین میں اپنے آثار کے لحاظ سے بھی ان سے کہیں مضبوط تھے، مگر ان کے یہ سارے کارنامے ان کے کچھ کام نہ آئے۔ چنانچہ ان کے پاس جب ان کے رسول نہایت واضح نشانیوں کے ساتھ آئے تو وہ اپنے اسی علم پر نازاں رہے جو ان کے پاس تھا۔اور (اس کے نتیجے میں) اس عذاب نے انھیں گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔ پھر جب انھوں نے ہمارا عذاب دیکھا تو بولے کہ ہم اللہ واحد پر ایمان لائے اور ان چیزوں کے ہم منکر ہوئے جنھیں ہم اللہ کا شریک ٹھہراتے تھے، مگران کا یہ ایمان جو ہمارا عذاب دیکھ لینے کے بعد لائے، ان کے لیے کچھ نفع بخش نہ ہوا۔ یہی اللہ کا وہ طریقہ ہے جو اس کے بندوں میں پہلے ظاہر ہوتا رہا ہے۔ اور اس وقت وہ سب کافر بالکل نامراد ہو گئے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے اس قانون سے متعلق دو اور اہم باتیں بھی قرآن مجید سے معلوم ہوتی ہیں: ایک یہ کہ ہجرت کے بارے میں اللہ کا رسول فیصلہ نہیں کرتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے کامل علم اور حکمت پر مبنی اس کا اپنا فیصلہ ہوتا ہے۔ اللہ کے رسول، بہر حال اس بات کے پابند ہوتے ہیں کہ حالات خواہ کتنے ہی نامساعد کیوں نہ ہوں، عالم کے پروردگار کی طرف سے اتما م حجت اور براء ت و ہجرت کا فیصلہ آنے تک ان کی مخالفتوں اورایذا رسانیوں کو برداشت کریں اور پورے صبر و استقامت کے ساتھ اپنی دعوت پیش کرتے رہیں۔ اسی ضمن میں ایک مقام پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تَکُنْ کَصَاحِبِ الْحُوْتِ.(القلم ۶۸: ۴۸)
’’(اے پیغمبر) تم اپنے رب کے فیصلے کا انتظار کرتے ہوئے، پوری طرح ثابت قدم رہو اور (اپنی قوم کو چھوڑنے کے معاملے میں) مچھلی والے (یونس) کی طرح نہ ہو جانا۔‘‘
اس آیت میں حضرت یونس علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ذکر خاص اسی حوالے سے ہوا ہے کہ وہ اللہ کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی اپنی قوم سے ہجرت کر کے چلے گئے تھے۔
دوسری بات جو اس قانون سے متعلق قرآن مجید سے واضح ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ رسول کی ہجرت محض ایک فرد کی نقل مکانی نہیں ہوتی، یہ خدا کی طرف سے اتمام حجت کا اعلان ہوتا ہے۔ اللہ کے رسول کی ہجرت دراصل قوم کے اوپر سے اللہ کی امان کے اٹھ جانے کا اعلان ہے۔ چنانچہ کفارمکہ نے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مطالبہ کیا کہ آپ جس عذاب سے انھیں ڈرا رہے ہیں، وہ لے آئیں تو اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا: یہ عذاب اس وقت تک نہیں آ سکتا، جب تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس قوم کے اندر خود موجود ہیں۔ ارشاد ہے:
وَاِذْ قَالُوا اللّٰہُمَّ اِنْ کَانَ ہٰذَا ہُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ اءْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ. وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَاَنْتَ فِیْہِمْ.(الانفال ۸: ۳۲۔۳۳)
’’اور یاد کرو، جب انھوں نے کہا: اے اللہ،یہ اگر واقعی تیری طرف سے نازل ہونے والا حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا ہم پر کوئی اور درد ناک عذاب لے آ۔ اور (اے پیغمبر) جب تک تم ان میں موجود تھے، اس وقت تک اللہ انھیں عذاب دینے کا روادار نہ تھا۔‘‘
مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ آیت ۳۳کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’یہ جواب ہے اس سوال کا جو اوپر مذکور ہوا اور چونکہ مقصود اس موقع پر خاص طور پر پیغمبر کی دل نوازی ہے اس وجہ سے خطاب پیغمبر سے ہوا۔ فرمایا کہ اللہ اس بات کا روادار نہیں ہو سکتا تھا کہ ان پر عذاب نازل فرمائے درآنحالیکہ تم ان کے اندر موجود ہو۔ یہ اس سنت الٰہی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے کسی نبی کی قوم پر عذاب بھیجنے کے معاملے میں مقرر فرمائی ہے۔ وہ سنت یہ ہے کہ نبی جب تک اپنی قوم کے اندر موجود رہتا ہے وہ قوم کے اندر بمنزلہ دل کے ہوتا ہے۔ وہ قوم کے لیے اپنے رب سے مغفرت بھی مانگتا رہتا ہے اور قوم کو استغفار کی دعوت بھی دیتا رہتا ہے۔ قوم کے اندر اس کا وجود اس بات کا شاہد ہے کہ ابھی قوم میں زندگی کی رمق باقی ہے۔ اس کی دعوت سے ان لوگوں کو زندگی ملتی ہے جن کے اندر حیات ایمانی قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے اور ان کا استغفار بھی قوم کے لیے سپر بن جاتا ہے۔ قوم کے اشرار، خواہ کتنی ہی شرارتیں اور خدا اور رسول کو کتنا ہی چیلنج کریں، لیکن اللہ تعالیٰ ان سے درگذر فرماتا ہے اور اگر ان کو کسی آفت میں مبتلا کرتا بھی ہے تو اس کی نوعیت ایک تنبیہ کی ہوتی ہے نہ کہ فیصلہ کن عذاب کی۔ لیکن جب قوم اپنی سرکشی میں اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ نبی کے قتل کے منصوبے بنانے لگتی ہے اور اپنے اندر کے صالحین پر زندگی دشوار کر دیتی ہے تو اللہ تعالیٰ نبی اور اس کے ساتھیوں کو ہجرت کا حکم دے دیتا ہے جس کے بعد قوم اس امان سے محروم ہو جاتی ہے جو نبی اور صالحین کی برکت سے اسے حاصل رہی ہوتی ہے۔ پھر دو صورتوں میں سے کوئی ایک صورت لازماً پیش آ کے رہتی ہے۔ اگر نبی کے اوپر ایمان لانے والے صرف گنتی کے چند نفوس ہی ہوتے ہیں تو اس کی اور اس کے ساتھیوں کی ہجرت کے بعد قوم پر عذاب الٰہی آ جاتا ہے جو خدا کی زمین کو اس کے ناپاک وجود سے پاک کر دیتا ہے اس لیے کہ باطل محض کی پرورش اس کائنات کی فطرت اور فاطر کائنات کی حکمت کے خلاف ہے اور اگر نبی پر ایمان لانے والوں کی تعداد بھی معتد بہ ہوتی ہے، جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں ہوا تو اہل حق اور اہل باطل میں کشمکش شروع ہوتی ہے اور باطل حق سے ٹکرا ٹکرا کر بالآخر ایک دن پاش پاش ہو کر نابود ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرقان حق کو پوری طرح نمایاں کر دیتا ہے۔‘‘( تدبر قرآن ۳/ ۴۶۸۔۴۶۹)
اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
وَاِنْ کَادُوْا لَیَسْتَفِزُّوْنَکَ مِنَ الْاَرْضِ لِیُخْرِجُوْکَ مِنْہَا وَاِذًا لاَّ یَلْبَثُوْنَ خِلٰفَکَ اِلاَّ قَلِیْلاً. سُنَّۃَ مَنْ قَدْ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنْ رُّسُلِنَا وَلاَ تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِیْلاً.(بنی اسرائیل ۱۷: ۷۶۔۷۷)
’’اور بے شک، یہ اس سر زمین سے تمھارے قدم اکھاڑ دینے کے درپے ہیں تاکہ یہ تم کو یہاں سے نکال چھوڑیں۔ اور اگر ایسا ہوا تو تمھارے بعد یہ بھی زیادہ دیر ٹکنے نہ پائیں گے۔ ہم نے تم سے پہلے اپنے جو رسول بھیجے، ان کے باب میں ہماری اس سنت کو یاد رکھو۔ اور (اے پیغمبر) تم اب بھی ہماری اس سنت میں کوئی رد و بدل نہ پاؤ گے۔‘‘
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں بھی مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:
’’...رسول چونکہ اتمام حجت کا کامل ذریعہ ہوتا ہے، نیز وہ جب تک قوم میں رہتا ہے اس کے لیے استغفار کرتا رہتا ہے اس وجہ سے اس کی موجودگی تک قوم کو اللہ کے عذاب سے امان حاصل رہتی ہے، لیکن جب قوم کی روش سے تنگ آکر وہ ہجرت پر مجبور ہو جاتا ہے تو قوم ایک بالکل جسد بے روح ہو کر رہ جاتی ہے اور اتمام حجت کا مرحلہ ختم ہو چکتا ہے۔ اس کے بعد یا تو اللہ کا کوئی عذاب نمودار ہوتا ہے جو غلاظت کے اس ڈھیر سے زمین کو صاف کر دیتا ہے یا اہل ایمان کی تلوار بے نیام ہوتی ہے اور وہ ان کا خاتمہ کر دیتی ہے۔‘‘( تدبر قرآن ۴/ ۵۲۹)
استاذ گرامی اپنے رسالے’’نبوت و رسالت‘‘میں سنت الٰہی کے اہم اجزا کی تفصیل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اس اہتمام و حفاظت کے ساتھ رسولوں کے ذریعے سے خدا کی حجت پوری ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ انھیں غلبہ عطا فرماتے ہیں۔ نبی اپنی قوم کے مقابلے میں ناکام ہو سکتا ہے، لیکن رسولوں کے لیے غلبہ لازمی ہے۔ عام اس سے کہ یہ ان کی زندگی میں حاصل ہو جائے یا ان کی وفات کے بعد ان کے ساتھیوں کو حاصل ہو۔ قرآن مجید میں یہ قانون جگہ جگہ تاکید و صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے۔... رسولوں کو یہ غلبہ بالعموم ان کی زندگی ہی میں حاصل ہو جاتا ہے۔ لیکن جن رسولوں کی وفات ہی ان کی ہجرت کی قائم مقام ہوئی، ان کے بعد ان کے پیرو بہرحال اپنے مخالفوں پر غالب آئے۔... یہ رسولوں کی بعثت کا ایجابی پہلو ہے۔ سلبی پہلو سے اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ جس قوم کی طرف مبعوث ہوتے ہیں، ان کی ہجرت کے بعد، اسے صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے۔ اس عام تباہی سے اگر کچھ لوگ بچتے ہیں تو صرف وہ جنھیں اپنی بستی کے سرداروں کے زیر دست ہونے کی وجہ سے آزادی کے ساتھ دعوت حق پر غور کرنے کا موقع نہیں ملا ہوتا۔ جن لوگوں پر یہ عذاب آتا ہے، من حیث القوم،وہ بہرحال ہلاک کر دیے جاتے ہیں۔ اس عذاب کے بارے میں اللہ کا قانون یہ ہے کہ جب تک رسول قوم کے درمیان موجود ہوتا ہے، وہ محفوظ رہتی ہے۔ رسول کی ہجرت کے بعد، عام اس سے کہ وہ کسی اور خطۂ ارض کی طرف ہو یا خدا کی طرف، یہ آتا ہے اور اس شان سے آتا ہے کہ زمین تھراتی ہے اور آسمان پناہ مانگتا ہے۔
...رسول قوم کے لیے امان ہوتا ہے۔ قوم کے اندر اس کی موجودگی کے معنی ہی یہ ہیں کہ ابھی اس میں زندگی کی رمق باقی ہے۔ لیکن جب کوئی قوم اس امان سے محروم ہو جاتی ہے تو زمین پر اس کے قیام کی مدت بھی پوری ہو جاتی ہے۔ رسول کے ذریعے سے اتمام حجت کے بعد اگر کوئی چیز باقی رہ جاتی ہے تو صرف یہ کہ آسمان کے پردے کھول دیے جائیں اور انسان کا خالق بارگاہ جلال سے خود ہم کلام ہو۔ لیکن یہ کشف حجاب خدا کے قانون آزمایش کے خلاف ہے۔ اس لیے رسول کے چلے جانے کے بعد اس کی قوم کا پیمانۂ حیات لبریز ہو جاتا ہے اور خدا کا عذاب زمین کو اس کے وجود سے پاک کر دیتا ہے۔
... اس عذاب کی نوعیت کیا ہوتی ہے ؟ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کے کافروں کے لیے دو حالتوں میں سے کوئی نہ کوئی حالت ضرور ظہور میں آ جاتی ہے۔
رسول کے ساتھیوں کی تعداد قلیل ہوتی ہے تو براء ت و ہجرت کے بعد رسول کے بستی سے نکلتے ہی ساف و حاصب کا طوفان اٹھتا ہے اور ان کی بستیوں کو الٹ دیتا ہے۔ خدا کی عدالت زمین پر لگتی ہے اور حق و باطل کے درمیان فیصلہ ہو جاتا ہے۔ کافروں کی بستیاں کھنڈروں میں تبدیل ہو جاتی ہیں تا کہ بعد میں آنے والے اہل حق ان کے حوالے سے انسانوں پر خدا کی حجت قائم کریں۔ بستیوں کے مالک آخر وقت تک اسی گمان میں مبتلا رہتے ہیں کہ بادل ان کی سوکھی کھیتیوں کو سیراب کرنے کے لیے امڈ آئے ہیں۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے ان کے محلات زمین بوس ہو جاتے ہیں۔ کھیتیاں اجڑ جاتی ہیں۔پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔ پلک جھپکنے میں وہ سب کچھ ختم ہو جاتا ہے، جس کے بل بوتے پر وہ رسول کا انکار کر رہے تھے۔ عذاب میں کبھی ہوا کی تباہ کاریاں غالب ہوتی ہیں اور کبھی پانی کی ہلاکت خیزیاں۔ قوم کے کارفرما عناصر اور مترفین و مستکبرین بہرحال تباہ ہو جاتے ہیں۔ ان کے اتباع و عوام نے اگر آزادئ راے کے ساتھ رسول کا انکار کیا ہوتا ہے تو وہ بھی اس طوفان کی نذر ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے آخر وقت تک اپنے سرداروں کے ہاتھوں مجبور و بے بس رہنے کی وجہ سے کچھ لوگ اگر بچ جاتے ہیں تو جرم ضعیفی کی سزا انھیں بھی مل کر رہتی ہے اور وہ اِدھر اُدھر پراگندہ ہو کر، جس کو جہاں پناہ ملنے کی توقع ہوتی ہے، اسی طرف کا رخ کر لیتے ہیں۔
... یہ عذاب صرف اس صورت میں آتا ہے جب کہ رسول کے ساتھی قلیل تعداد میں ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر وہ معتد بہ تعداد میں ہوں اور رسول کو ہجرت کے بعد کسی جگہ سیاسی اقتدار حاصل ہو جائے تو انکار کرنے والوں کو کچھ مہلت مل جاتی ہے۔ اس دوران میں رسول کے پیرو اپنی صفوں کومضبوط کرتے اور اپنی جمعیت کی تنظیم کرتے ہیں۔ پھر ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کے درمیان کشمکش شروع ہو جاتی ہے۔ اس کشمکش کے پہلے مرحلے میں قوم کے لیڈر اور مترفین جماعت حق کی تلواروں کا لقمہ بنتے ہیں۔ یہ تلواریں خدائی تازیانہ بن کر ان کی پیٹھ پر برستی ہیں۔ ساف و حاصب کی طرح ان پر چھا جاتی ہیں۔ ابر و باد کی طرح ہر طرف سے یلغار کرتی ہیں۔
... یہ پہلا مرحلہ تھا۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ اس میں مخالفوں کے قلعے اکھڑ جاتے ہیں۔ ان کی قوت پارہ پارہ ہو جاتی ہے اور وہ ہر لحاظ سے ڈگ ڈال دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ تیسرے مرحلے میں چند مہینوں کی مہلت دے کر الٹی میٹم دے دیا جاتا ہے کہ وہ اسلام یا تلوار میں سے جسے چاہیں قبول کر لیں۔‘‘(۱۴۔۲۳)
یہ رسولوں کے باب میں اللہ تعالیٰ کا غیر متبدل قانون ہے۔۳ قرآن مجید میں اس بات کو ثابت کرنے کے لیے مختلف پیرایوں میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے آنے والے رسولوں کی سرگذشت سنائی گئی ہے۔ قرآن مجید کو اس بات پر اصرار ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد مشرکین مکہ بھی خدا کے اس قانون کی زد میں ہیں۔ وہ انھیں بتاتا ہے کہ تاریخ کے صفحات ان کے لیے عبرت کی داستانوں سے بھرے پڑے ہیں۔ وہ انھیں قوم نوح کا انجام یاد دلاتا ہے۔ وہ ان کے سامنے عاد و ثمود کے انجام کی تصویر کھینچتا ہے۔ وہ ان سے مدین اور سدوم کا قصہ بیان کرتا ہے۔ وہ ان کے سامنے آل فرعون کے انجام کا تذکرہ کرتاہے اور وہ انھیں اس ذلت اور پھٹکار سے آگاہ کرتا ہے جو ہود کے اسی جرم کی پاداش میں ان پر مسلط کر دی گئی۔ وہ انھیں بتاتا ہے کہ ان سب قوموں کا یہ حال اسی وجہ سے ہوا کہ انھوں نے اللہ کے رسول کا انکار کر دیا۔ قرآن مجید کی چھوٹی سورتوں میں سے سورۂ قمر کو دیکھیے۔ اس سورہ میں بنی اسماعیل کو تاریخ کی یہ عبرت ناک داستانیں سنانے کے بعدان سے پوچھا گیا ہے:
اَکُفَّارُکُمْ خَیْْرٌ مِّنْ اُولٰٓءِکُمْ اَمْ لَکُمْ بَرَآءَ ۃٌ فِی الزُّبُرِ.(القمر ۵۴: ۴۳)
’’کیا تمھارے کافر ان (پچھلی قوموں کے کافروں) سے بہتر ہیں (کہ ہم تم پر عذاب نازل نہ کریں گے) یا تمھارے لیے آسمانی صحیفوں میں براء ت نامہ لکھا ہوا ہے (کہ تم پر عذاب نہیں آئے گا)؟‘‘
اس طرح گویا انھیںیہ بتا دیا ہے کہ پروردگار عالم کے اس قانون کے تحت بہت جلد اب ان کے بارے میں بھی آخری فیصلہ ہونے والا ہے۔ ان کی قوم اگر ایمان لے آئی تو اس کے بدلے میں دنیا اور آخرت ،دونوں میں وہ خدا کی رحمتوں کی مستحق ٹھہرے گی اور اس نے اگر ماننے سے انکار کر دیا تو اسے دنیا میں بھی خدا کا عذاب چکھنا ہو گا اور آخرت میں بھی۔
_______
۱ قرآن مجید میں لفظ ’رسول‘ محض پیغام بر کے معنی میں بھی آیا ہے اور ایک خاص اصطلاحی مفہوم میں بھی استعمال ہوا ہے۔ پہلے معنی کے لحاظ سے یہ نبیوں، رسولوں اور فرشتوں سب کے لیے عام ہے، جبکہ دوسرے معنی میں یہ صرف اللہ کے ان پیغامبروں کے لیے آیا ہے جو نبوت کے ساتھ رسالت کے منصب پر بھی فائز ہوئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ حضرت نوح، ہود، صالح، شعیب، ابراہیم، لوط، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام اسی دوسرے مفہوم کی رعایت سے صرف نبی ہی نہیں، رسول بھی ہیں۔
۲ مثال کے طور پر دیکھیے: ہود ۱۱: ۹۱۔ یٰسین ۳۶: ۱۸۔ الشعراء ۲۶: ۱۱۶۔ المومن ۴۰: ۵۔
۳ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: ’’مجموعہ تفاسیر فراہی‘‘ میں سورۂ کافرون کی تفسیر۔
____________