ابن کثیر رحمہ اللہ کی’’البدایہ والنہایہ‘‘ کا شمار تاریخ اسلام کی اہم ترین کتابوں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب میں حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کی مصر کے شاہ مقوقس کے ساتھ ملاقات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ اس واقعے کے راوی خود حضرت ابن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنا خط دے کر مصر کے شاہ مقوقس کے پاس بھیجا۔ میں جب وہاں پہنچا تو اس نے میری بہت عزت افزائی کی اور مجھے اپنے پاس ٹھہرایا۔ پھر ایک روز اس نے اپنی فوج کے جرنیلوں کو جمع کیا اور مجھے بلا بھیجا۔ اس کے بعد ابن ابی بلتعہ نے شاہ مقوقس کے ساتھ ہونے والا ایک دل چسپ مکالمہ روایت کیا ہے، یہ مکالمہ کچھ اس طرح سے ہے:
مقوقس: میں آپ سے ایک بہت اہم بات پوچھنا چاہتا ہوں، میری خواہش ہے کہ آپ میری بات بہت توجہ سے سنیے۔
حاطب بن ابی بلتعہ: فرمائیے ۔
مقوقس: مجھے اپنے ساتھی، یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بارے میں کچھ بتائیے، کیا وہ اللہ کے نبی ہیں؟
حاطب بن ابی بلتعہ: وہ نبی ہی نہیں، بلکہ اللہ کے رسول بھی ہیں۔
مقوقس: اگر وہ فی الواقع اللہ کے رسول ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ جب ان کی قوم نے انھیں اپنی بستی (مکہ) سے نکال دیا تو انھوں نے اس کے لیے اللہ کے عذاب کی بد دعا نہیں کی ؟
حاطب بن ابی بلتعہ: کیا آپ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ کا رسول نہیں مانتے؟
مقوقس: بالکل مانتے ہیں۔
حاطب بن ابی بلتعہ: تو پھر آپ بتائیے کہ جب ان کی قوم نے انھیں گھیر لیا اور انھیں صلیب دینے کا ارادہ کیا اور پھر اللہ انھیں آسمان پر اٹھا کر لے گیا تو انھوں نے اس بات کی دعا کیوں نہیں کی کہ ان کا رب بنی اسرائیل کو ہلاک کر دے ؟
مقوقس: آپ ایک حکیم آدمی ہیں اور ایک حکیم آدمی کی طرف سے آئے ہیں۔ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے یہ تحفے آپ کے ساتھ بھیجتا ہوں اور یہ نگہبان جو آپ کے علاقے تک آپ کی نگہبانی کریں گے۔
حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کا یہ جملہ ---- وہ نبی ہی نہیں، بلکہ اللہ کے رسول بھی ہیں ---- اس بات کی طرف ایک واضح اشارہ کر رہا ہے کہ ’’رسالت‘‘، ’’نبوت‘‘ سے ایک درجہ آگے کی چیز ہے۔ نبی اور رسول کے فرق کے بارے میں اہل علم کے ہاں اگرچہ اختلاف ہے، تاہم اتنی بات قرآن مجید ہی سے واضح ہے کہ ان دونوں اصطلاحات کے مصداق الگ الگ ہیں۔ ارشاد باری ہے:
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِیٍّ اِلَّآاِذَا تَمَنّآی اَلْقَی الشَّیْْطٰنُ فِیْٓ اُمْنِیَّتِہٖ.(الحج ۲۲: ۵۲)
’’اور ہم نے تم سے پہلے جو رسول اور نبی بھی بھیجا ہے تو جب بھی اس نے کوئی ارمان کیا، شیطان اس کے ارمان میں خلل انداز ہو گیا۔‘‘
یہ الفاظ اس بات پر واضح دلالت کر رہے ہیں کہ ’’نبی‘‘ اور’’ رسول‘‘ الگ الگ اصطلاحیں ہیں۔ چنانچہ زمخشری اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
دلیل بین علی تغایر الرسول والنبی.(الکشاف ۳/ ۱۶۴)
’’یہ الفاظ نبی اور رسول کے فرق پر واضح دلیل ہیں۔‘‘
قرآن مجید پر تدبر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اور رسول کا یہ فرق دراصل ان دونوں کی ذمہ داریوں اور ان کے بارے میں خالق کائنات کی سنت اور اس کے طریقے کے فرق پر مبنی ہے۔ نبیوں اور رسولوں کے مابین بعض اہم فرق اس طرح سے ہیں:
۱۔نبی چونکہ محض ایک داعی حق نہیں ہوتا، بلکہ اسے ماننے یا اس کا انکار کر دینے پر آدمی کے کفر و ایمان کا انحصار ہوتا ہے، اس لیے دوسرے داعیان حق کی طرح وہ محض اپنی سیرت و کردار اور اپنی بات کی صحت کی بنیاد پر دعوت کے لیے کھڑا نہیں ہو جاتا۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اہتمام ہوتا ہے کہ وہ اپنے سے پہلے آنے والے نبی کی پیش گوئیوں کا مصداق بن کر آتا ہے۔
رسولوں کے لیے یہ اہتمام غیرمعمولی ہو جاتا ہے۔ ان سے پہلے آنے والا نبی ہی نہیں، نبیوں کی ایک جماعت اپنے مخاطبین کو دین کی دعوت کے ساتھ ساتھ اس رسول کی آمد کی خبر دیتی ہے اور ان سے اس پر ایمان لانے اور اس کی مدد کرنے کا عہد لیتی ہے۔ اس طرح رسول ایک منتظر شخصیت ہوتا ہے۔ اس کے مولد و موطن، اس کے حالات و وقائع، غرض اس کے بارے میں ہر چیز کی خبر پہلے سے موجود ہوتی ہے۔ وہ جب اس دنیا میں آتا ہے تو اپنے مخاطبین کو دو ٹوک الفاظ میں یہ کہتا ہے کہ میں ہی وہ شخص ہوں جس کا تم انتظار کر رہے تھے۔ وہ یہ اعلان کرتا ہے کہ تمھارے پاس موجود پیش گوئیوں کا مصداق میں ہی ہوں۔
۲۔ ان رسولوں کو اللہ تعالیٰ ایسی روشن اور واضح نشانیوں کے ساتھ اس دنیا میں بھیجتے ہیں کہ لوگوں کے لیے وہ اپنی ذات ہی میں حق کی گواہی بن جاتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ کسی قوم میں رسول کے آجانے کے بعد رسول کی ذات ہی اس قوم کے لیے حق کی حجت بن جاتی ہے۔ اس قوم کے لیے حق و باطل میں اس طرح امتیاز ہو جاتا ہے کہ اس کے پاس حق سے انحراف اور باطل کو اختیار کرنے کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہ جاتا۔ بہ الفاظ دیگر رسولوں کے بارے میں اس غیر معمولی اہتمام کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اس زمین پر خدا کی کامل حجت بن جاتے ہیں۔کسی عاقل کے لیے کسی دلیل و برہان کی بنا پر ان کا انکار کرنا ممکن نہیں رہ جاتا۔
۳۔ رسولوں کے بارے میں اس غیر معمولی اہتمام کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کسی حال میں یہ اجازت نہیں دیتے کہ اپنے رسول کو تکذیب کرنے والی قوم کے حوالے کر دیں۔ نبیوں کے معاملے میں تو ایسا ہوا ہے کہ ان کی قوم نے ان کے قتل کا ارادہ کیا اور وہ اس ارادے میں کامیاب بھی ہو گئی، لیکن رسولوں کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ ان کی تکذیب کرنے والی قوم کسی حال میں بھی ان پر غلبہ نہیں پا سکتی۔
۴۔ اسی اہتمام کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ جب رسولوں کے ذریعے سے کسی قوم پر اللہ کی حجت پوری ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ انھیں اس قوم پر غلبہ عطا فرماتے ہیں۔ یہ ہو سکتا ہے کہ دنیوی غلبے کے اعتبار سے نبی اپنی قوم کے مقابلے میں ناکام ہو جائے، لیکن رسولوں کے لیے غلبہ لازم ہے۔ البتہ رسولوں کے اس غلبے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انھیں یہ غلبہ اپنی زندگی ہی میں حاصل ہو جائے اور ایسا بھی ممکن ہے کہ ان کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد ان کے ساتھیوں کو یہ غلبہ حاصل ہو۔
۵۔ ایک دوسرے پہلو سے، کسی قوم میں اللہ کے رسول کی بعثت اس قوم کو عذاب الٰہی کے در پر لا کھڑا کرتی ہے۔ اگر رسول کے ذریعے سے حق واضح ہو جانے کے بعد بھی وہ قوم اپنی ہٹ دھرمی کے باعث کفر و انکار پر جمی رہے تو پھر اللہ کے قانون کے تحت وہ اسی بات کی مستحق ٹھہرتی ہے کہ بحیثیت قوم وہ اللہ کے عذاب کا مزہ چکھے۔
یہ اللہ کا وہ قانون ہے جو رسولوں کے ساتھ خاص ہے۔ یہی وہ قانون ہے جو رسولوں کو نبیوں سے ممتاز کرتا ہے۔ اس کے بارے میں قرآن مجید کا اصرار ہے کہ یہ پروردگار عالم کی ان سنن میں سے ہے جن کے لیے اس نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ وہ انھیں کسی حال میں بھی تبدیل نہیں ہونے دے گا۔
ہمارے نزدیک قرآن مجید کو صحیح طرح سے سمجھنے اور اس سے احکام کا استنباط کرنے کے لیے اس قانون کو سمجھنا بہت ضروری ہے، اسی قانون کو نہ سمجھنے کے باعث غیرمسلموں کی طرف سے قرآن پر بہت سے اعتراضات اٹھائے گئے ہیں اور مسلمانوں میں عجیب و غریب قسم کے مسائل اور انقلابی نظریات نے جنم لیا ہے۔
مثال کے طور پر، مستشرقین کی طرف سے قرآن مجید پر جو اعتراضات ہوئے ہیں، ان میں سے ایک اعتراض کچھ اس طرح سے ہے:سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۲۵۶ میں یہ کہا گیا ہے کہ ’لَآاِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ‘ یعنی ’’دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے‘‘، مگر دوسری طرف سورۂ توبہ (۹) کی آیت ۵میں حکم ہوا ہے: ’فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْہُمْ وَخُذُوْہُمْ وَاحْصُرُوْہُمْ وَاقْعُدُوْا لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَہُمْ‘ یعنی ’’ان مشرکین کو جہاں کہیں پاؤ، قتل کر دو، اور ان کو پکڑو، ان کو گھیرو اور ہر گھات کی جگہ ان کی تاک لگاؤ۔ پھر اگر یہ توبہ کر لیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تو ان کی راہ چھوڑ دو۔‘‘
ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ یہ دونوں احکام باہمی طور پر متضاد ہیں۔ ایک آیت میں یہ اعلان کیا جا رہا ہے کہ دین کے معاملے میں کسی قسم کی زبردستی نہیں ہے اور دوسری آیت میں حکم دیا جا رہا ہے کہ جب تک مشرکین اسلام قبول نہ کر لیں، اس وقت تک ان کی جان نہ بخشی جائے۔
یاد رہے کہ قرآن مجید نے اپنے بارے میں یہ کہا ہے کہ اس کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے کی ایک اہم ترین دلیل یہ بھی ہے کہ یہ انسانوں کے کلام کے برعکس ہر قسم کے اختلاف و تضاد سے پاک ہے۔ چنانچہ قرآن مجید کی آیات میں اس قسم کا تضاد تلاش کر لینا خود قرآن ہی کی رو سے اس بات کی دلیل ہے کہ یہ اللہ کی کتاب نہیں ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ جن لوگوں کی نظر رسولوں کے باب میں اللہ تعالیٰ کے قانون پرنہیں ہے ، ان کے لیے قرآن مجید کی ان دونوں آیات میں توافق پیدا کرنا بہت مشکل ہے،مگرجب ایک شخص قرآن مجید کے اس قانون کو سامنے رکھ کر ان آیات پر غور کرتا ہے تو اس پر یہ حقیقت پوری طرح سے واضح ہو جاتی ہے کہ ایک آیت میں حق و باطل کے اختیار کا عمومی ضابطہ بیان ہوا ہے اور دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ کے ایک رسول کے منکرین کی سزا بیان ہو رہی ہے۔ سورۂ توبہ کی مذکورہ آیت کا تعلق مشرکین مکہ ہی سے ہے۔ یہ لوگ اللہ کے رسول کا انکار کر دینے کے بعد اللہ کی سنت کے تحت زندہ رہنے کا حق کھو بیٹھے تھے۔ چنانچہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنی اسی سنت کے تحت یہ حکم دیا ہے کہ وہ ان مشرکین کو اس زمین سے مٹا دیں اور صرف ان کے ایمان لے آنے ہی کی صورت میں ان کی جان بخشیں۔
چونکہ مستشرقین کی نظر اس قانون پر نہیں ہے، اس لیے انھوں نے قرآن پر اس نوعیت کے دوسرے بہت سے اعتراضات بھی کیے ہیں۔
اس قانون کو نہ سمجھنے کے باعث مسلمانوں کے اپنے فکر میں بھی بہت سی غلطیاں در آئی ہیں۔ بعض لوگوں نے ’لَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلاً‘ ’’تم اللہ کی سنت میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے‘‘ (الفتح ۴۸: ۲۳) اور اس موضوع کی دوسری آیتوں کو ان کے سیاق و سباق سے کاٹ کر ان کی بنیاد پر پیغمبروں کے ہاتھوں رونما ہونے والے معجزات، حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عام قاعدے سے ہٹ کر ولادت اور بعض دوسرے بدیہی حقائق کا انکار کیا ہے، حالاں کہ اگر وہ ان آیات کو ان کے سیاق و سباق کے اندر رکھ کر ان پر غور کرتے تو ان پر یہ بات واضح ہو جاتی کہ ان آیات کا تعلق بھی اللہ تعالیٰ کی اسی سنت سے ہے جسے ہم نے یہاں بیان کیا ہے۔
پھر اسی قانون کو نہ سمجھنے کے باعث اسلامی انقلاب کی جدوجہد کے فلسفے نے بھی جنم لیا ہے۔ وہ آیات جن کا تعلق سر تا سر بحیثیت رسول محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، انھیں بعض اہل علم نے امت کا نصب العین قرار دے کر غلبۂ دین کی جدوجہد کا ماخذ بنا لیا اور اس کے بعد مسلمانوں کی تمام تر سعی وجہد کا ہدف اس غلبۂ دین کو بنا کر اصلاح و دعوت کے کام میں ایسے پہلو داخل کر دیے جو نہ صرف یہ کہ قرآن مجید کی روشنی میں اصلاح و دعوت کے اس کام کے لیے بالکل اجنبی تھے، بلکہ جنھوں نے دعوت کے اس کام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جس کی ذمہ داری اللہ کی کتاب نے دین کے علما پر عائد کی تھی۔ اسی غلطی کا نتیجہ ہے کہ وہ لوگ جنھیں قوم کی اصلاح کا کام کرنا تھا، وہ اب قوم کے لیڈر بننے کے خواہاں ہیں۔ وہ جن پر قرآن نے عام و خاص کو اللہ کی پکڑ سے ڈرانے کی ذمہ داری ڈالی تھی، وہ اب سیاسی بکھیڑوں میں الجھ گئے ہیں۔ وہ جنھیں حکمرانوں کی اصلاح کا کام کرنا تھا، وہ اب ان کی جگہ لے لینا چاہتے ہیں اور وہ جنھیں لوگوں کو صحیح معنوں میں مسلمان بنانا تھا، وہ اب اپنی جیبوں میں فتویٰ ہاے کفر و شرک لیے لوگوں کو مذہب سے بے زار کرنے کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ اب اگر کچھ رہ گیا ہے تو دین کے نام پر گنڈہ گردی، ’’شو آف پاور‘‘ اور اپنی قوت میں چند لاکھ لوگوں کے اضافے کا خواب ہے۔ اب اگر کچھ رہ گیا ہے تو وہ حصول اقتدار کی جدوجہد ہے۔ قرآن مجید سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ وہ ہر شخص کے سامنے ایک اور صرف ایک ہی ہدف رکھنا چاہتا ہے اور وہ ہدف آخرت کی تیاری ہے۔ قرآن کو اس بات سے کوئی خاص دل چسپی نہیں ہے کہ ملک و قوم کا اقتدار کس کے ہاتھ میں رہتا ہے۔ اس کی ساری دل چسپی اس بات سے ہے کہ اس دنیا میں جسے جو ذمہ داری دی گئی ہے، وہ اسے اس طرح ادا کرے کہ جب پادشاہ ارض و سما کے سامنے اس کی پیشی کا وقت آئے تو وہ ایک نفس مطمئنہ کی حیثیت سے اس کے سامنے پیش ہو۔ قرآن کی روشنی میں دیکھیے تو یہی ہر عام و خاص کا ہدف ہے اور اسی کی یاددہانی اس امت کے علما کی ذمہ داری ہے، مگر اس سب کچھ سے ہٹ کر جدوجہد انقلاب کے اس نقطۂ نظر کے فروغ اور اسے قبول عام ملنے کے نتیجے میں اسلام محض ایک سیاسی تحریک بن کر رہ گیا ہے۔ پھر مزید ستم یہ ہے کہ یہ نقطۂ نظر تاریخ کے اس دور میں منظر عام پر آیا جب مسلمان اپنی قوت اور شوکت سے محروم ہو چکے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نقطۂ نظر میں مسلمانوں کے لیے وہ جذباتی اپیل پیدا ہو گئی جس کے باعث بہت جلد اس نے پوری امت کے مسلمانوں میں اپنی جڑیں مضبوط کر لیں۔ کسی نے اس بات پر غور نہ کیا کہ اس کی بنیاد قرآن مجید کی جن آیتوں پر رکھی گئی ہے، ان کا تعلق اس قسم کی کسی جدوجہد سے ہے ہی نہیں۔ وہ تو دراصل مشرکین عرب میں اللہ کے رسول کی بعثت کا لازمی نتیجہ بیان کر رہی تھیں۔ ان آیتوں کو صحیح تناظر میں رکھ کر دیکھا جائے تو یہ رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا حتمی ثبوت تھیں، ان میں ’’اللہ کا نام لے کر‘‘ یہ پیش گوئی کی گئی تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ اللہ کے رسول ہیں، اس وجہ سے ان کے اس دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے مشرکین عرب کی خواہشات کے علی الرغم جزیرہ نماے عرب میں اسلام کا کامل غلبہ ہو جائے گا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس تناظر میں سمجھا جاتا تو اکیلی یہی بات اس زمانے کے یہود و نصاریٰ کے لیے بھی خود ان کے اپنے صحائف کی روشنی میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت ثابت کر دینے کے لیے کافی تھی۔ دیکھیے، تورات میں ہے:
’’...جو نبی گستاخ بن کر کوئی ایسی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اس کو حکم نہیں دیا یااور معبودوں کے نام سے کچھ کہے تو وہ نبی قتل کیا جائے اور اگر تو اپنے دل میں کہے کہ جو بات خداوند نے نہیں کہی ہے اسے ہم کیونکر پہچانیں ؟ تو پہچان یہ ہے کہ جب وہ نبی خداوند کے نام سے کچھ کہے اور اس کے کہے کے مطابق کچھ واقع یا پورا نہ ہو تو وہ بات خداوند کی کہی ہوئی نہیں بلکہ اس نبی نے وہ بات خود گستاخ بن کر کہی ہے تو اس سے خوف نہ کرنا۔‘‘(استثنا ۱۸: ۲۰۔۲۲)
اس لحاظ سے دیکھیے تو رسالت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ قانون گوناگوں پہلوؤں سے فہم دین کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی اسی اہمیت کے پیش نظر ہم نے اسے تفصیل سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔
[۱۹۹۸ء[
___________