مسلمانوں کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام محض ایک عقلی اور ایمانی چیز ہی نہیں ہے ، بلکہ یہ ایک جذباتی چیز بھی ہے، اس وجہ سے یہ بالکل فطری بات ہے کہ اگر کوئی شخص مسلمانوں کی اس محبوب ترین اور محترم ترین ہستی کے بارے میں ناشایستہ رویہ اختیار کرے تو اس پر مسلمانوں کا خون کھول اٹھتا ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کر لینے کے باوجود ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم ہر قسم کی عصبیت کو بالاے طاق رکھ کر یہ جاننے کی کوشش کریں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت میں ایسے شخص کی کیا سزا رکھی ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اہانت آمیز یا ناشایستہ رویہ اختیار کرتا ہے۔
اس حوالے سے قرآن مجید کا مطالعہ کرنے سے سب سے پہلی بات جو سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اہانت آمیز رویہ اختیار کرنے کا مسئلہ کوئی نیا معاملہ نہیں ہے۔ قرآن مجید میں مشرکین قریش، یہود اور نصاریٰ کے اس قسم کے رویے کا بھی بار بار ذکر ہوا ہے اور منافقین کو بھی اس طرح کے رویے پر جگہ جگہ تنبیہ کی گئی ہے۔ یہ واضح رہے کہ منافقین قانونی طور پر مسلمان ہی سمجھے جاتے تھے اور انھیں یثرب میں وہ تمام حقوق بھی حاصل تھے جو دوسرے مسلمان شہریوں کو حاصل تھے، مگر اس حوالے سے یہ ایک عجیب بات ہے کہ مشرکین قریش، یہود، نصاریٰ اور منافقین کے اس قسم کے رویے پر قرآن نے تنقید تو خوب کی ہے، مگر کسی ایک مقام پر بھی اللہ تعالیٰ نے نہ صرف یہ کہ یہ بیان نہیں فرمایا کہ اگر کوئی شخص، مسلم یا غیر مسلم، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس قسم کا رویہ اختیار کرے تو ایک اسلامی ریاست میں اسے کیا سزا دینی چاہیے، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ اعلان کر دیا ہے کہ اس قسم کے لوگوں کے خلاف پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے ساتھیوں کو کوئی کارروائی نہیں کرنی ہے، جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں، قرآن نے دو ٹوک الفاظ میں یہ اعلان کر دیا ہے کہ پیغمبر کو اذیت پہنچانا ، دراصل اللہ کو اذیت پہنچانا ہے۔ چنانچہ جو لوگ یہ حرکت کر رہے ہیں، اللہ ان سے خود نمٹ لے گا۔ مشرکین کے حوالے سے ارشاد ہے:
فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ. اِنَّا کَفَیْْنٰکَ الْمُسْتَہْزِءِ یْنَ.(الحجر۱۵: ۹۴۔۹۵)
’’تو جو کچھ تمھیں حکم ملا ہے، اس کو کھلے طریقے سے سنا دو اور ان مشرکوں سے اعراض کرو۔ ہم ان مذاق اڑانے والوں سے تمھاری طرف سے نمٹنے کے لیے کافی ہیں۔‘‘
یہود، نصاریٰ اور منافقین کے اس قسم کے رویے کی بھی قرآن نے نشان دہی کی ہے۔ قرآن مجید کے ان مقامات پر بھی ان ناہنجاروں کو دنیا اور آخرت میں عذاب کی وعید تو سنائی ہے، لیکن کسی ایک مقام پر بھی، خاص اس جرم کی وجہ سے، ایسے لوگوں کے خلاف مسلمانوں کو کوئی کارروائی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔
یہی معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب روایات کا بھی ہے ۔ایسی کوئی ایک صحیح روایت بھی اب تک ہمارے سامنے نہیں آئی جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا ہو کہ آپ کے ساتھ اہانت آمیز رویہ اختیار کرنے کی دنیوی قانون میں کیا سزا ہے۔
اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اہانت آمیز رویہ رکھنے کی دنیوی قانون کے لیے کوئی سزا متعین نہیں فرمائی، تاہم مسلمانوں کا اجتماعی نظم اگر کسی موقع پر اسلام اور مسلمانوں ہی کی مصلحت کے پیش نظر اس جرم کی کوئی سزا متعین کرنا چاہے تو وہ ایسا کر سکتا ہے۔ اس معاملے میں، البتہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت میں کسی شخص کو موت کی سزا صرف دو صورتوں میں دینی جائز رکھی ہے: ایک یہ کہ اس نے کسی دوسرے شخص کا قتل کیا ہو اور دوسرے یہ کہ اس نے فساد فی الارض، یعنی بغاوت کی نوعیت کے کسی جرم کا ارتکاب کیا ہو۔ ارشاد باری ہے:
مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا.(المائدہ ۵: ۳۲)
’’جس نے کسی کو قتل کیا بغیر اس بات کے کہ اس نے کسی کی جان لی ہو یا وہ فساد فی الارض کا مرتکب ہوا ہو، اس نے گویا تمام انسانیت کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔‘‘
قرآن مجید کی اس ہدایت کو سامنے رکھ کرمسلمانوں کا اجتماعی نظم جو سزا بھی متعین کرے، اس پر شریعت کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
اس معاملے میں، البتہ یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ جرم و سزا کا معاملہ نظم اجتماعی یا ریاست سے متعلق ہے۔ عام مسلمان اگر کسی شخص کو اللہ یا اللہ کے رسول یا دوسری محترم ہستیوں کے بارے میں اہانت آمیز رویہ اختیار کیے ہوئے دیکھیں تو ان کی دل چسپی مجرم کو سزا دے دینے اور اسے ’’جہنم واصل‘‘کر دینے کے بجاے اسے جہنم کے ابدی عذاب سے بچا لینے سے ہونی چاہیے۔ کیا خبر کہ ایسے مجرم کو حکمت اور دل سوزی کے ساتھ اسلام کا پیغام پہنچانے کی کوشش کی جائے تو وہ نہ صرف یہ کہ اپنے رویے کی اصلاح کر لے، بلکہ ہم سے کہیں بڑھ کر اللہ کے رسول اور اللہ کے دین پر جان نثار کرنے والا بن جائے۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ زندگی کی یہ مہلت ہر انسان کو اسی وقت تک ملی ہوئی ہے، جب تک اللہ تعالیٰ کی نظر میں اس کی آزمایش کا وقت ختم نہیں ہو جاتا۔ چنانچہ ہماری تمام تر کوشش یہی ہونی چاہیے کہ آج کے مجرم کل کے مصلح اور آج کے ’اسلام دشمن‘ کل کے ’جاں نثاران اسلام‘ بن جائیں اور یہ کام کسی مجرم کو سزا دینے یا کسی اسلام دشمن کو جہنم واصل کرنے سے نہیں، اس کی اصلاح کی جدوجہد کرنے اور اسے اسلام کا خالص پیغام پہنچانے ہی سے ممکن ہو سکتا ہے۔ مجرموں کو سزا دینا ریاست کا کام ہے۔ جب کوئی مجرم اس کی گرفت میں آ جائے توریاست کی ذمہ داری یہی ہے کہ اسے اس کے جرم کے لحاظ سے سزا دے، مگر عام مسلمانوں اور خاص طور پر دین کے اہل علم کی ساری دل چسپیوں اور ان کی ساری جدوجہد کا محور ، اس کے سوا اور کچھ نہیں ہونا چاہیے کہ لوگوں کی اصلاح ہو جائے اور وہ اللہ تعالیٰ کی جنت کے اہل بن جائیں۔ہمیں ہر وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان اپنے سامنے رکھنا چاہیے جو آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جنگ پر بھیجتے ہوئے اس وقت فرمایا، جب جذبات کو ہوا دی جاتی اور دلوں میں دشمن کے لیے نفرت کی آگ بھڑکائی جاتی ہے۔ بخاری رحمہ اللہ کی روایت کے مطابق، آپ نے فرمایا :’’علی ، تم ان کے پاس جاؤ، انھیں اسلام کی دعوت دو اور انھیں بتاؤ کہ ان پر اللہ کے کون کون سے حق قائم ہوتے ہیں۔ خدا کی قسم، اگر تمھارے ذریعے سے اللہ ایک شخص کو بھی راہ ہدایت پر لے آئے تو یہ تمھارے لیے دنیا کی ہر نعمت سے بڑھ کر ہو گا۔‘‘
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کے تقاضوں کو صحیح شعور کے ساتھ سمجھنے ، دوسروں کو سمجھانے اور انھیں اخلاص کے ساتھ نبھانے کی توفیق عنایت فرمائے ۔ آمین
[۲۰۰۸ء[
____________