پچھلے انبیا کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی قوموں میں گمراہی کے مختلف اسباب میں سے ایک بڑا سبب، اپنے پیغمبر کے ساتھ تعلق کے معاملے میں، ان قوموں کا افراط و تفریط کا شکار ہو جانا بھی تھا۔ وہ جب اپنے پیغمبر کو گرانے پر آئے تو اس کے اخلاق و کردار پر ایسا کیچڑ اچھال دیا جو پیغمبر تو پیغمبر عام آدمی کے لیے بھی ناقابل تصور تھا اور دوسری طرف جب وہ اسے اٹھانے پر آئے تو اسے خدائی صفات کا حامل قرار دے کر اپنے آپ کو شرک میں ملوث کر بیٹھے۔ اپنے پیغمبروں کے بارے میں قوموں کے اسی مزاج کو پیش نظر رکھتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس بات کا اہتمام فرمایا کہ آپ کی ذات کے حوالے سے آپ کی امت کسی بڑی گمراہی میں مبتلا ہو کر اس ذمہ داری کو فراموش نہ کر بیٹھے جو عالم کے پروردگار نے اس پر عائد کی ہے۔چنانچہ اسی ضمن میں آپ نے اس احترام کے اوپر بھی بعض حدود عائد فرمائے جو ایک مسلمان کے دل میں آپ کے لیے ہونا چاہیے۔ ان میں سب سے پہلی حد جو آپ نے عائد فرمائی، وہ یہ تھی کہ آپ اس احترام کے اظہار میں تکلف کو ناپسند فرماتے تھے۔ چنانچہ روایتوں میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ بعض صحابہ آپ کو دیکھ کر تعظیماً کھڑے ہو گئے تو آپ نے اسے ناپسند فرمایا اور اس سے روک دیا۔ ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
خرج علینا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم متوکءًا علی عصًا فقمنا إلیہ فقال لا تقوموا کما تقوم الأعاجم یعظم بعضھا بعضًا.(ابو داؤد،رقم ۴۵۵۳)
’’ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصا کا سہارا لیے ہوئے ہماری طرف آئے۔ ہم آپ کے احترام میں کھڑے ہو گئے۔ یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا: تم اس طرح مت کھڑے ہوا کرو، جس طرح عجمی لوگ ایک دوسرے کے احترام میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔‘‘
اپنے پیغمبر کے احترام ہی کے حوالے سے ایک غلطی جو بالعمو م پہلی امتوں میں پیدا ہوئی اور جس کے کچھ آثار خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسلمانوں میں بھی نظر آئے، وہ یہ تھی کہ ایک پیغمبر کے پیروکار اپنے پیغمبر کو باقی تمام پیغمبروں پر مطلق فضیلت دینے لگے۔ یہ بات قرآن مجید کی تعلیمات کے خلاف تھی۔ قرآن میں اہل ایمان کی طرف سے یہ اقرار نقل ہوا ہے کہ ’لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ‘ (یعنی ہم اللہ کے رسولوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے)۔ اسی طرح قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ نے اپنے نبیوں میں سے کسی ایک کو باقی انبیا پر مطلقاً کوئی فضیلت نہیں بخشی، بلکہ ایک کو دوسرے پر مختلف پہلوؤں سے فضیلت بخشی ہے۔ ارشاد باری ہے:
تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ مِّنْہُمْ مَّنْ کَلَّمَ اللّٰہُ وَرَفَعَ بَعْضَہُمْ دَرَجٰتٍ وَاٰتَیْْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَاَیَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ.(البقرہ ۲: ۲۵۳)
’’یہ رسول جو ہیں ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی۔ ان میں سے بعض سے اللہ نے کلام کیا اور بعض کے درجے بلند کیے اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو کھلی کھلی نشانیاں دیں اور روح القدس سے اس کی تائید کی۔‘‘
مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ اس آیت کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’ اس آیت میں اس صحیح رویے کی وضاحت ہے جو اللہ کے رسولوں کے بارے میں ان کی امتوں کو اختیار کرنا تھا۔ لیکن انھوں نے اس کو اختیار نہیں کیا، بلکہ اس کی جگہ ایک بالکل غلط رویہ اختیار کر لیا، جس کے سبب سے ان کے درمیان تعصبات کی دیواریں کھڑی ہو گئیں اور وہ ایک دوسرے کے دشمن اور مخالف ہو کر باہم جنگ و جدل میں مبتلا ہو گئیں۔...
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں میں سے ہر رسول کو کسی نہ کسی پہلو سے فضیلت بخشی ہے اور اس فضیلت کے اعتبار سے وہ دوسروں پر ممتاز ہے۔ مثلاً موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا ہے، یہ ان کی فضیلت کا ایک خاص پہلو ہے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کھلے کھلے معجزات دیے اور روح القدس کی خاص تائید سے ان کو نوازا، یہ ان کے مخصوصات میں سے ہے۔ علیٰ ھذا القیاس دوسرے رسولوں کو درجات و مراتب عطا ہوئے ہیں، جو ان کے لیے خاص ہیں۔ انبیا و رسل کے فضائل کے باب میں یہی نقطۂ نظر حقیقت کے مطابق ہے۔ لیکن ان انبیا کی امتوں نے جو روش اختیار کی وہ یہ ہے کہ ان میں سے جس نے جس نبی و رسول کو مانا سارے فضائل و خصوصیات کا جامع تنہا اسی کو بنا کر رکھ دیا اور دوسرے کسی نبی و رسول کے لیے کسی فضیلت کا تسلیم کرنا ان کے نزدیک ایمان کے منافی قرار پا گیا۔ اس تعصب و تنگ نظری کا نتیجہ یہ ہوا کہ پچھلی امتوں میں سے ہر امت اپنے اپنے خول میں بند ہو کر رہ گئی اور اس کے لیے دوسرے نبیوں اور رسولوں کی برکات سے فائدہ اٹھانے کی راہ مسدود ہو گئی۔ اگر وہ صحیح روش اختیار کرتیں تو ہر رسول ان کا رسول اور ہر ہدایت ان کی ہدایت ہوتی اور وہ اس ہدایت میں سے بھی حصہ پاتیں جو اب قرآن مجید کی صورت میں آخری ہدایت کی حیثیت سے دنیا کے سامنے ظاہر ہوئی ہے۔ اسی حقیقت کی طرف سورۂ بنی اسرائیل میں بھی اشارہ فرمایا ہے، وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِیّٖنَ عَلٰی بَعْضٍ وَّاٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا ۔۱۷: ۵۵ (اور ہم نے انبیا میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور ہم نے داؤد کو زبور عنایت کی)۔‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۵۸۳)
جس طرح اپنے نبی کو باقی انبیا پر مطلق فضیلت دینے کے اس رویے میں ایک بہت بڑی غلطی یہ ہے کہ آدمی حق پرستی کے بجاے تعصبات کا شکار ہو جاتا ہے، اسی طرح اس میں اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ آدمی اپنے پیغمبر کے احترام میں ایسا غلو کرے کہ وہ دوسرے پیغمبروں کے ساتھ غیر محترمانہ رویہ اختیار کر لے اور اسے اپنی اس غلطی کا احساس بھی نہ ہو۔ انھی خطرات کی وجہ سے ایک مرتبہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نوٹس میں یہ بات آئی کہ ایک مسلمان اور ایک یہودی کا اس بات پر جھگڑا ہو گیا ہے کہ حضرت موسیٰ اور محمد مصطفی علیہما الصلوٰۃ والسلام میں سے کون افضل ہے تو غصے سے آپ کا رنگ لال ہو گیا اور آپ نے فرمایا:
لا تفضلوا بین أنبیاء اللّٰہ.(بخاری،رقم ۳۱۶۲)
’’اللہ کے نبیوں میں کسی ایک کو دوسرے پر مطلقاً فضیلت نہ دیا کرو۔‘‘
نبیوں کے احترام ہی کے حوالے سے ایک اور بڑی گمراہی جس میں پہلی امتوں میں سے بھی بعض مبتلا ہوئیں اور مسلمانوں کے جس میں پڑ جانے کا بھی اندیشہ تھا، وہ اپنے پیغمبر کو خدائی صفات میں سے بعض کا حامل قرار دے کر شرک جیسی بدترین گمراہی میں پڑنا تھا۔ یہ ایک ایسی گمراہی تھی جو دین کی اس عمارت کی بنیادیں ہلا دے سکتی تھی جسے بنانے اور جس کی تعلیم دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے پیغمبر وں کا سلسلہ جاری فرمایا تھا۔ چنانچہ اسی قسم کی گمراہی میں پڑنے سے بچانے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو متنبہ کیا کہ پچھلی امتوں میں سے بعض اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا کر اللہ کی لعنت کی مستحق ٹھہریں ، اس وجہ سے مسلمانوں کو اس قسم کی گمراہی سے دور رہنا چاہیے۔ آپ کا ارشاد ہے:
قاتل اللّٰہ قومًا اتخذوا قبور أنبیاءھم مساجد یحرم ذلک علی أمتہ.(احمد،رقم ۲۵۱۴۶)
’’اللہ ان لوگوں کی ناس کرے جنھوں نے اپنے انبیا کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔ آپ نے اسے اپنی امت کے لیے حرام ٹھہرایا۔‘‘
اسی طرح کی ایک ضلالت جس کے پیدا ہونے کا نہ صرف اندیشہ تھا، بلکہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بعض کمزور قسم کے مسلمانوں میں در آئی تھی، وہ اپنے پیغمبر کو عالم الغیب قرار دینا تھا۔ یہ چیز بھی چونکہ قرآن مجید کے تصور توحید کے منافی تھی، اس وجہ سے مسلمانوں کو اس سے روکنا ضروری تھا۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:
من حدثک أن محمدًا صلی اللّٰہ علیہ وسلم رأی ربہ فقد کذب وھو یقول (لا تدرکہ الأبصار) ومن حدثک أنہ یعلم الغیب فقد کذب وھو یقول لا یعلم الغیب إلا اللّٰہ.(بخاری، رقم ۶۸۳۲)
’’جو تمھیں یہ کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو وہ جھوٹ بولتا ہے۔ آپ تو فرماتے تھے کہ ’اسے آنکھیں نہیں پا سکتیں‘۔ اور جو تمھیں یہ کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہر غیب کا علم رکھتے تھے، وہ جھوٹ بولتا ہے۔ آپ تو فرماتے تھے کہ اللہ کے سوا کوئی بھی ہرغیب کا علم نہیں رکھتا۔‘‘
____________