نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کا ساتواں تقاضا یہ ہے کہ آدمی دل سے آپ کا احترام کرے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام اور آپ کی تعظیم کے حوالے سے قرآن مجید نے مختلف پہلوؤں سے بات کی وضاحت کی ہے، اور مسلمانوں کو تنبیہ کی ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے یا آپ کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان تمام پہلوؤں کو ملحوظ رکھیں۔
ان میں سے ایک پہلو، جسے اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے، اس بات سے متعلق ہے کہ جب کسی معاملے میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو آواز دیں تو اس کے جواب میں مسلمانوں کا کیا رویہ ہونا چاہیے۔ ارشاد باری ہے:
لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْْنَکُمْ کَدُعَآءِ بَعْضِکُمْ بَعْضًا قَدْ یَعْلَمُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ یَتَسَلَّلُوْنَ مِنْکُمْ لِوَاذًا فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖٓ اَنْ تُصِیْبَہُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ یُصِیْبَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ. (النور ۲۴: ۶۳)
’’تم لوگ رسول کے پکارنے کو، آپس میں ایک دوسرے کو پکارنے کی طرح نہ سمجھو۔ اللہ تم میں سے ان لوگوں سے اچھی طرح باخبر رہا ہے جو ایک دوسرے کی آڑ لیتے ہوئے کھسک جایا کرتے ہیں۔ پس وہ لوگ جو رسول کے حکم سے گریز کرتے رہے ہیں، اس بات سے ڈریں کہ ان پر کوئی آزمایش آجائے یا ان کو ایک درد ناک عذاب آ پکڑے۔‘‘
سورۂ نور کی اس آیت سے پہلے منافقین کے بعض رویوں پر تنقید ہوئی ہے۔ اسی حوالے سے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تنبیہ فرمائی ہے کہ پیغمبر کی حیثیت کو پہچانو، اس کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کے بلانے پر قیاس نہ کرو۔ اپنے باہمی معاملات میں تو ایک دوسرے کے کہنے سے تم کسی وجہ سے گریز بھی کر سکتے ہو، لیکن اللہ کے رسول کا معاملہ یہ نہیں ہے۔ ان کے ارشادسے گریز و فرار، دین سے گریز و فرار کے مترادف ہو سکتا اور تمھارے لیے شدید آزمایشوں اور ایک دردناک عذاب میں پڑ جانے کا باعث بن سکتا ہے۔
ظاہر ہے، اس بات کا تعلق اصلاً پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات ہی کے ساتھ ہے، مگر چونکہ دین اسلام کا ہر حکم اور ہر مطالبہ، ایک لحاظ سے اللہ اور رسول کی پکار ہی ہے، اس وجہ سے اب آپ کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد دین کی ہر پکار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پکار اور دین کا ہر مطالبہ آپ کا مطالبہ ہے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام ہی کا ایک تقاضا یہ ہے کہ جب دین کا کوئی مطالبہ ہمارے سامنے آئے تو ہم اسے یہی سمجھیں کہ جیسے آپ بنفس نفیس ہمیں دین کی خدمت کے لیے پکار رہے ہیں۔ دین کی ہر پکار اور اس کے ہر مطالبے کو پیغمبر کی پکار سمجھتے ہوئے اس پر لبیک کہیں۔ اس کی خدمت کرنے اور اس کے مطالبات کو پورا کرنے کے ہر موقع کو اپنے اوپر اللہ کا احسان سمجھیں اور اس پکار سے گریز و فرار کی کوئی راہ تلاش نہ کریں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے دوسری بات یہ واضح فرمائی ہے کہ آپ کے ساتھ گفتگو کرنے میں بعض آداب ملحوظ رکھے جائیں۔ ارشاد باری ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ. یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ. اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَہُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰی لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ عَظِیْمٌ.(الحجرات ۴۹: ۱۔۳)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ اور رسول کے سامنے اپنی راے مقدم نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک، اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ اے ایمان والو، تم اپنی آوازیں نبی کی آواز پر بلند نہ کرو اور نہ اس کو اس طرح آواز دے کر پکارو، جس طرح آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔ مبادا تمھارے اعمال ضائع ہو جائیں اور تمھیں احساس بھی نہ ہو۔ یاد رکھو کہ جو لوگ نبی کے آگے اپنی آواز پست رکھتے ہیں، وہی ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کی آب یاری کے لیے منتخب کیا ہے۔ ان کے لیے مغفرت اور اجر عظیم ہے۔‘‘
ان آیات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گفتگو کے معاملے میں دو تنبیہات کی گئیں اور اس کے بعد اس معاملے میں صحیح روش کی نشان دہی کی گئی ہے۔
سب سے پہلے یہ تنبیہ فرمائی ہے کہ اللہ اور رسول کے سامنے اپنی راے کو مقدم نہ کیا جائے۔ مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ اس حکم کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’یہ امر واضح رہے کہ یہاں ممانعت اللہ کے رسول کے سامنے اپنی رائے پیش کرنے میں پہل کرنے یا اپنی رائے کو اللہ اور رسول کے حکم پر مقدم کرنے کی ہے نہ کہ رسول کے سامنے مجرد اپنی کوئی رائے پیش کرنے کی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم امورمصلحت میں صحابہ سے ان کی رائیں معلوم بھی فرماتے اور صحابہ اپنی رائے پیش بھی کرتے۔ اسی طرح صحابہ بعض اوقات عام امور مصلحت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ بھی عرض کرتے کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فلاں اقدام وحی الٰہی پر مبنی نہ ہو تو اس کی جگہ فلاں تدبیر زیادہ قرین مصلحت رہے گی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات ان کی رائیں قبول بھی فرما لیتے۔ اس آیت میں اس طرح کی باتوں کی نہی نہیں ہے۔ حضور نے خود اپنے طرز عمل سے اس کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ حضور سب سے زیادہ لوگوں سے مشورہ لینے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی، جیسا کہ آیت ’وَشَاوِرْ ھُمْ فِی الْاَمْرِ‘ (آل عمران ۳: ۱۵۹) سے واضح ہے، آپ کو لوگوں سے مشورہ کرتے رہنے کی ہدایت فرمائی گئی تھی۔
یہاں ممانعت اسی بات کی ہے جس کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا کہ کوئی شخص اللہ کے رسول کو ایک عام آدمی یا مجرد ایک لیڈر سمجھ کر اور اپنے آپ کو ان سے زیادہ مدبر خیال کر کے، بغیر اس کے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس سے کسی معاملہ میں اس کی رائے دریافت کریں، حضور کو اپنی رائے سے متاثر کرنے اور اپنی رائے کو حضور کی بات پر مقدم کرنے کی کوشش کرے۔ اگر کوئی شخص ایسا کرے تو اس کا رویہ دلیل ہے کہ وہ رسول کے اصلی مرتبہ و مقام سے بالکل بے خبر ہے۔ اللہ کا رسول اللہ تعالیٰ کا نمائندہ ہوتا ہے اور وہ جو کچھ کہتا یا کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے تحت کرتا یا کہتا ہے۔ اگر کوئی شخص اس کی بات پر اپنی بات کو مقدم کرنے کی جسارت کرتا ہے تو دوسرے لفظوں میں اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ اپنی رائے کو اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر مقدم کرنا چاہتا ہے ۔ درآنحالیکہ یہ چیز اس کے تمام ایمان و عمل کو ڈھا دینے والی ہے اگرچہ اس کو اس کا شعور نہ ہو۔
... اس آیت میں ہمارے زمانے کے ان لوگوں کو بھی تنبیہ ہے جو اسلام کی خدمت کے دعوے کے ساتھ اس کے اقدار کو مسخ اور اس کے قوانین کی تحریف کر رہے ہیں۔ ان کا گمان یہ ہے کہ اللہ اور رسول نے جس شکل میں اسلام دیا ہے اس شکل میں وہ اس دور میں نہیں چل سکتا۔ ضروری ہے کہ زمانہ کے تقاضوں کے مطابق اس کی اصلاح کی جائے۔ چنانچہ وہ شریعت کے احکام میں اپنی رائے کے مطابق ترمیم کر رہے ہیں۔ بس یہ فرق ہے کہ آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو پہلے ہی سے سبقت کر کے چاہتے تھے کہ اللہ و رسول کے آگے اپنے مشورے پیش کر دیں، اس زمانے کے مدعیان اسلام کو یہ موقع نہ مل سکا، اس وجہ سے وہ اب ان غلطیوں کی اصلاح کر رہے ہیں جو ان کے نزدیک اللہ و رسول سے، العیاذ باللہ، دین کے معاملے میں ہو گئی ہیں۔‘‘ (تدبر قرآن ۷/ ۴۸۶۔ ۴۸۸)
دوسرے، اس آیت میں مسلمانوں کو یہ تنبیہ فرمائی ہے کہ جب وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوں تو مہذب اور شایستہ طریقے سے بات کریں، آپ کے حضور میں آواز کو بلند کرنا کسی طرح بھی زیبا نہیں ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ اس آیت کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’یہ اسی اوپر والی بات کے ایک دوسرے پہلو کی طرف اشارہ ہے۔ جن لوگوں کے اندر یہ خناس سمایا ہوا ہو کہ وہ اللہ و رسول کو مشورہ دینے کی پوزیشن میں ہیں یا جن کو یہ زعم ہو کہ ان کا اسلام قبول کر لینا اسلام اور پیغمبر پر ایک احسان ہے، ان کا طرز خطاب اور انداز کلام رسول کے آگے متواضعانہ و نیازمندانہ نہیں ہو سکتا تھا۔ بلکہ ان کے اس پندار کا اثر ان کی گفتگو سے نمایاں ہونا ایک امر فطری تھا۔ چنانچہ یہ لوگ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرتے تو ان کے انداز کلام سے یہ واضح ہوتا کہ یہ اللہ کے رسول سے کچھ سیکھنے نہیں، بلکہ ان کو کچھ سکھانے اور بتانے آئے ہیں۔ چنانچہ جس طرح یہ اپنی رائیں پیش کرنے میں سبقت کرتے، اسی طرح ان کی کوشش یہ بھی ہوتی کہ ان کی آواز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر بلند و بالا رہے اور اگر آپ کو مخاطب کرتے تو ادب سے ’یا رسول اللہ‘ کہنے کے بجائے ’یا محمد‘ کہہ کر خطاب کرتے جس طرح اپنے برابر کے ایک عام آدمی کو خطاب کیا جاتا ہے۔ یہاں ان کو اس غیر مہذب طریقۂ کلام و خطاب سے روکا گیا ہے، کیونکہ یہ چیز غمازی کر رہی تھی کہ انھوں نے نہ صرف یہ کہ رسول کا اصل مرتبہ و مقام نہیں پہچانا ہے، بلکہ ان کے اندر اپنی برتری کا وہ زعم بھی چھپا ہوا ہے جو بالآخر ان کے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دینے والا ہے۔
... اس سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ ایک شخص بہت سے کام اپنی دانست میں دین کے کام سمجھ کر دین ہی کی خدمت کے لیے کرتا ہے، لیکن اس کے اندر اگر یہ پندار سمایا ہوا ہو کہ وہ اللہ و رسول پر یا اللہ کے دین پر کوئی احسان کر رہا ہے اور اس زعم میں نہ وہ اللہ تعالیٰ کی صحیح عظمت کو ملحوظ رکھے، نہ اس کے رسول کے اصلی مرتبہ و مقام کا احترام کرے تو اس کے سارے اعمال اکارت ہو کے رہ جائیں گے اور اس کو اپنی اس بے شعوری کا پتا آخرت میں چلے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی خدمت کے لیے کسی کا محتاج نہیں ہے کہ کوئی شخص اپنے آپ کو اللہ و رسول کا محسن سمجھ بیٹھے۔ اس کے ہاں قبولیت کا شرف صرف انھی لوگوں کے اعمال کو حاصل ہو گا جو اس کے دین کی خدمت صرف اس کی رضا کے لیے، ٹھیک ٹھیک اس کے مقرر کردہ شرائط کے مطابق انجام دیں گے اور ساتھ ہی دل سے اس حقیقت کے معترف رہیں گے کہ یہ خدمت انجام دے کر انھوں نے اللہ و رسول پر کوئی احسان نہیں کیا ہے، بلکہ یہ اللہ کا فضل و احسان خود ان کے اوپر ہواہے کہ اس نے ان کو اپنے دین کی کسی خدمت کی توفیق بخشی۔‘‘ (تدبر قرآن ۷/ ۴۸۸۔ ۴۸۹)
اس کے بعد، مذکورہ آیت میں مسلمانوں کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گفتگو کے معاملے میں صحیح روش کی نشان دہی کی گئی ہے۔ اس روش کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں:
’’...فرمایا کہ جو لوگ اللہ کے رسول کے آگے اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں درحقیقت وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کی افزایش کے لیے منتخب فرمایا ہے۔... اللہ تعالیٰ کے ہاں ہر دل تقویٰ کی تخم ریزی اور اس کی افزایش کے لیے موزوں نہیں ہوتا، بلکہ اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ امتحان کر کے دلوں کا انتخاب کرتا ہے اور اس انتخاب میں اصل چیز جو ترجیح دینے والی بنتی ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کے اندر اللہ و رسول کے لیے انقیاد و اطاعت کا سچا جذبہ اور ان کے آگے فروتنی کا صحیح شعور ہے یا نہیں۔ یہ چیز جس کے اندر جتنی ہی زیادہ ہوتی ہے اس کو اتنی ہی زیادہ تقویٰ کی نعمت عطا ہوتی ہے اور جو لوگ جس درجے میں اس شعور سے عاری ہوتے ہیں وہ اتنے ہی تقویٰ سے بعید ہوتے ہیں۔ آواز بلند کرنے کا ذکر، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، انسان کے باطن کے ایک مخبر کی حیثیت سے ہوا ہے۔ جو شخص کسی کی آواز پر اپنی آواز بلند رکھنے کی کوشش کرتا ہے اس کا یہ عمل شہادت دیتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس سے اونچا خیال کرتا ہے۔ یہ چیز اکتساب فیض کی راہ بالکل بند کر دیتی ہے۔ اگر استاد کے آگے کسی شاگرد کا یہ طرز عمل ہو تو وہ اس کے فیض سے محروم رہتا ہے۔ اسی طرح اگراللہ کے رسول کے آگے کسی نے یہ روش اختیار کی تو وہ صرف رسول ہی کے فیض سے نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے بھی محروم ہو جائے گا اس لیے کہ رسول ، اللہ تعالیٰ کا نمائندہ ہوتا ہے۔
یہی درجہ اللہ کی کتاب اور رسول کی سنت کا ہے۔ اللہ تعالیٰ انھی لوگوں کو تقویٰ کے لیے منتخب فرماتا ہے جو اس کی کتاب اور رسول کی سنت کے سامنے فروتنی کی یہی روش اختیار کرتے ہیں جس کی ہدایت رسول کے معاملے میں ہوئی ہے۔ جس شخص کے اندر اللہ و رسول کی ہر بات کے آگے سر جھکا دینے کا سچا جذبہ ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے تقویٰ کی راہیں کھولتا ہے اور ہر قدم پر غیب سے اس کی رہنمائی ہوتی ہے اور اگر کوئی شخص اس خبط میں مبتلا ہے کہ وہ قرآن و حدیث کی اصلاح کرنے کی پوزیشن میں ہے تو اس کا یہ پندار اس کے سارے عمل کو غارت اور اس کی آخرت کو برباد کر کے رکھ دیتا ہے۔‘‘ (تدبر قرآن ۷/ ۴۸۹۔ ۴۹۰)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام کے حوالے سے تیسری بات قرآن مجید میں یہ بیان ہوئی ہے کہ آپ کی حیثیت امت کے روحانی باپ کی ہے۔ چنانچہ جس طرح سے شریف اور صالح اولاد اپنے والد کی عزت اور احترام میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتی اور ایسے ہر کام سے اجتناب کرتی ہے جو کسی لحاظ سے بھی ان کے والد کے لیے تکلیف اور اذیت کا باعث ہو، بالکل اسی طرح مسلمانوں کے لیے بھی یہی زیبا ہے کہ وہ آپ کے احترام میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں اور اپنے قول و فعل میں ایسی ہر بات اور ایسے ہر کام سے اجتناب کریں جو کسی طرح سے بھی آپ کے لیے باعث تکلیف اور اذیت ہو۔ قرآن مجید میں اسی حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو امہات المومنین کہا گیا اور اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا روحانی باپ سمجھنے کے ساتھ ساتھ ان کو اپنی ماں سمجھنے اور اسی طرح سے ان کا احترام کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد ہے:
اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ وَاَزْوَاجُہٗٓ اُمَّہٰتُہُمْ. (الاحزاب ۳۳: ۶)
’’نبی کا حق مومنوں پر خود ان کے اپنے مقابل میں اولیٰ ہے اور ازواج نبی کی حیثیت مومنوں کی ماؤں کی ہے۔‘‘
ازواج نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی حیثیت ہے جس کے باعث قرآن مجید کے مطابق کسی خاتون سے اگر آپ نکاح کر لیں تو اس کے بعد وہ خاتون مسلمانوں کے لیے ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:
وَمَا کَانَ لَکُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَلَآاَنْ تَنْکِحُوْٓا اَزْوَاجَہٗ مِنْ بَعْدِہٖٓ اَبَدًا.(الاحزاب ۳۳: ۵۳)
’’اور تمھارے لیے جائز نہیں کہ تم اللہ کے رسول کو تکلیف پہنچاؤ اور نہ یہ جائز ہے کہ تم اس کی بیویوں سے کبھی اس کے بعد نکاح کرو۔‘‘
اس آیت میں یہ بات بھی بیان ہوئی ہے کہ مسلمانوں کے لیے کسی طرح یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ ایسا کوئی کام کریں جس کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی نوعیت کی بھی تکلیف پہنچے۔ غور کیجیے تو یہ خود اسی احترام کا تقاضا ہے جو ہر مسلمان کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ملنا چاہیے۔ چنانچہ ایک دوسرے مقام پر جانتے بوجھتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی باتوں اور اپنے تبصروں سے تکلیف پہنچانے والوں کو دردناک عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔ ارشاد ہے:
وَمِنْہُمُ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ النَّبِیَّ وَیَقُوْلُوْنَ ہُوَ اُذُنٌ قُلْ اُذُنُخَیْْرٍ لَّکُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَیُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَرَحْمَۃٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰہِ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ. (التوبہ ۹: ۶۱)
’’اور ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو نبی کو ایذا پہنچاتے ہیں اور کہتے ہیں: وہ توبس کان ہی کان ہیں۔ کہہ دو: وہ سراپا گوش تمھاری بھلائی کے باب میں ہیں۔ وہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ اہل ایمان کی بات باور کرتے ہیں اور تم میں سے جو ایمان لائے ان کے لیے رحمت ہیں۔ اور جو لوگ اللہ کے رسول کو ایذاپہنچا رہے ہیں، ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘
سورۂ احزاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف منافقین کی ان ایذا رسانیوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے خلاف ایذا رسانیوں سے تعبیر فرمایا ہے اور یہ اعلان کر دیا ہے کہ ایسے ذلیل لوگوں پر اللہ دنیا اور آخرت میں لعنت کر دیتا اور اس نے ان کے لیے ایک رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے۔ ارشاد ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاَعَدَّ لَہُمْ عَذَابًا مُّہِیْنًا.(۳۳: ۵۷)
’’یقیناًجو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا پہنچاتے ہیں، اللہ نے ان پر دنیا اور آخرت، دونوں میں لعنت کی اور ان کے لیے اس نے رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘
سورۂ حجر میں اسی قسم کی ایذا رسانیاں کرنے والوں اور پیغمبر کا مذاق اڑانے والوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ ان کی یہ ایذا رسانیاں آپ کو کتنی ہی تکلیف پہنچائیں، آپ اپنے کام پر ڈٹے رہیں۔ ان کی کچھ پروا نہ کریں۔ آپ کی طرف سے ان سے بدلہ لینے کا کام اللہ نے اپنے ذمہ لے لیا ہے۔ آپ کا کام اللہ کا پیغام پہنچانا اور اس کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط سے مضبوط تر کرنا ہے، ان سے بدلہ لینے کا کام اللہ کا ہے۔ اور اللہ کا فیصلہ آنے میں کوئی بہت دیر نہیں لگے گی۔ یہ لوگ اپنی روش سے باز نہ آئے تو عنقریب جان لیں گے کہ ان کی یہ ایذا رسانیاں اپنے انجام کے لحاظ سے ان کے اپنے ہی خلاف تھیں۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:
فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ. اِنَّا کَفَیْْنٰکَ الْمُسْتَہْزِءِ یْنَ. الَّذِیْنَ یَجْعَلُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا اٰخَرَ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ. وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّکَ یَضِیْقُ صَدْرُکَ بِمَا یَقُوْلُوْنَ. فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَکُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ. وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ.(۱۵: ۹۴۔۹۹)
’’تو جو کچھ تمھیں حکم ملا ہے، اس کو کھلے طریقے سے سنا دو اور ان مشرکوں سے اعراض کرو۔ ہم ان مذاق اڑانے والوں سے تمھاری طرف سے نمٹنے کے لیے کافی ہیں۔ یہ جو اللہ کے ساتھ دوسرے معبود شریک کرتے ہیں، چنانچہ وہ عنقریب جان لیں گے۔ اور ہمیں معلوم ہے کہ جو کچھ وہ کہتے ہیں، اس سے تمھارا دل تنگ ہوتا ہے، مگر تم اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرواور اسے سجدہ کرنے والوں میں سے بنو اور اپنے رب کی عبادت میں لگے رہو، یہاں تک کہ تم پر امریقینی آشکارا ہو جائے۔‘‘
____________