HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Moiz Amjad

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

جہاد کے لیے اقتدار کی شرط

اس دنیا میں بعض اوقات ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ کسی صحیح بات پر اتنے پردے پڑ جائیں کہ وہ لوگوں کے لیے بالکل اجنبی بن کر رہ جائے۔ اس صورت میں لوگوں کے لیے صحیح بات کو ماننا تو ایک طرف، اس پر غور کرنا بھی محال ہو جاتا ہے۔ لوگ اپنے فہم ہی کو حق کا معیار سمجھتے اور دوسروں کی کہی ہوئی بات کو بھی اپنے ہی خود ساختہ معیارات پر پرکھ کر رد یا قبول کرتے ہیں۔ دلیل بے معنی ہو جاتی اور حق پرستی طعن و تشنیع کا ہدف بن جاتی ہے۔ ایسے موقع پر لوگوں کی مانی ہوئی بات کے خلاف کوئی نقطۂ نظر بیان کرنا، خاص طور پر، جبکہ وہ کسی ایسے معاملے سے متعلق ہو جو لوگوں کے لیے محض علمی نہیں، بلکہ ایک جذباتی معاملہ بھی بن گیا ہو، بلا شبہ اہل عزیمت ہی کا کام ہے۔ دنیا نے ایسے ہی لوگوں کو یاد رکھا ہے جنھوں نے بغیر خوف لومۃ لائم وہی بات کہی جسے انھوں نے فی الواقع حق سمجھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا نے ایسے اہل علم کی اگرچہ ان کی زندگی میں کم ہی قدر کی ہے، تاہم حق واضح ہو جانے کے بعد یہی لوگ آنے والوں کے لیے روشنی کے منارے بنے ہیں۔ معاملہ، خواہ دینی علوم سے متعلق ہو یا دنیوی علوم سے، دنیا کا دستور بالعموم یہی رہا ہے۔ اس زمانے میں بھی بہت سی ایسی باتیں عوام و خواص کی زبانوں پر جاری ہو گئی ہیں جو اگرچہ دینی لحاظ سے غلط ہیں، مگر لوگوں میں مقبول ہو جانے کے باعث اب ان کے خلاف کوئی بات کرنا، ایک مشکل معاملہ بن گیا ہے۔ انھی باتوں میں سے ایک جہاد و قتال کے بارے میں اسلام کی ہدایات بھی ہیں۔

جہاد و قتال کے بارے میں بہت سی باتیں گرد و غبار کی ایسی تہوں میں دب گئی ہیں کہ عوام تو عوام خواص میں بھی ان کے بارے میں غلط تصورات عام ہو گئے ہیں۔ ان میں سے ایک ایسی بات جو شاید اسلام کے قانون جہاد میں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل تھی، سب سے زیادہ فراموش ہوئی ہے۔ وہ بات یہ ہے کہ اسلام کے قانون کے مطابق جہاد منتشر افراد کے کسی گروہ کی طرف سے نہیں، بلکہ ایک منظم ریاست ہی کی طرف سے ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں بڑے بڑے اہل علم بھی اب یہ بات کہنے لگے تھے کہ اس قسم کی کوئی شرط اسلام نے عائد ہی نہیں کی۔ ان کے نزدیک جہاد کرنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ دشمن سے مقابلہ کرنے کی مناسب قوت بہم پہنچا لی جائے۔ اس کے بعد جو بھی اپنے آپ کو تلوار اٹھانے کی پوزیشن میں پائے، اس کو باطل کے خلاف تلوار اٹھا لینی چاہیے۔ واقعہ یہ ہے کہ متواحش کر دینے والی اس فضا میں مولانا گوہر رحمان صاحب مد ظلہ العالی کا ایک مضمون ہمارے لیے باد نسیم کا ایک جھونکا تھا۔ انھوں نے دو ٹوک انداز میں اس غلط فہمی کا ازالہ کرتے ہوئے، ہفت روزہ ’’جہاد کشمیر‘‘ ۱۶مارچ ۱۹۹۷ء کے شمارے میں لکھا ہے:

’’یہ بات درست ہے کہ جہاد، بمعنی قتال کے لیے امام اور امیر کی اجازت اور نگرانی ضروری ہے اور جہاد کا اجتماعی نظم قائم کیے بغیر، انفرادی طور پر جنگ چھیڑنا اور جنگی کارروائیاں کرنا جائز بھی نہیں اور مفید بھی نہیں ہے، صحیح بخاری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل ہوا ہے کہ ’انما الامام جنۃ یقاتل من وراۂ‘ (یعنی) ’’بلاشبہ حکمران سپر اور ڈھال ہے، جس کے پیچھے (نگرانی میں) لڑائی لڑی جاتی ہے۔‘‘
بخاری ہی کی دوسری حدیث میں آیا ہے کہ ’واذا استنفرتم فانفروا‘ یعنی ’’جب تم سے نکلنے اور جہاد پر جانے کا مطالبہ کیا جائے، تو نکلو اور جاؤ۔‘‘ تمام شارحین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ’استنفار‘ سے مراد ہے امیر کی جانب سے نکلنے کا حکم دینا۔ ابوداؤد کی ایک حدیث میں آیا ہے کہ ’الجہاد واجب مع کل امیر براکان اوفاجرا یعنی ’’جہاد واجب ہے ہر امیر کی نگرانی میں، خواہ وہ نیکوکار ہو یا بدکار۔‘‘
انھی احادیث کی روشنی میں فقہائے اسلام نے تصریح کی ہے کہ: ’وامر الجہاد موکول الی الامام واجتہادہ‘ (المغنی ج ۵، ص ۳۸۴) یعنی ’’جہاد کا کام امام کے فیصلے اور اس کی رائے کے سپرد ہے۔‘‘
مذکورہ دلائل اور اس قسم کی دوسری نصوص سے ثابت ہوتا ہے کہ جس ملک میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہو، خواہ عادل ہو یا غیر عادل، اس ملک کے شہریوں کے لیے اپنی حکومت کی اجازت اور نگرانی کے بغیر از خود جہاد شروع کرنا جائز نہیں۔‘‘

اس میں شبہ نہیں کہ مولانا محترم کا یہ اقتباس نہایت شان دار عالمانہ تجزیہ پر مبنی ہے۔ انھوں نے اس کے ذریعہ سے مسلمانوں میں پائی جانے والی ایک بڑی غلط فہمی کا ازالہ کر دیا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اجرعظیم سے نوازے۔

البتہ، اپنے اسی مضمون میں انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کسی مسلم اکثریت والے علاقے میں کفار کا تسلط قائم ہو تو اس صورت میں آزادی کے لیے جہاد کرنے میں اقتدار کی یہ شرط عائد نہیں ہوتی۔ مولانا محترم کی بات کا خلاصہ اس طرح ہے:

۱۔ ایسی صورت میں مسلمانوں کے لیے نہ صرف یہ کہ جہاد جائز ہے، بلکہ یہ ان کا دینی فریضہ ہے کہ اگر وہ استطاعت رکھتے ہوں تو اپنے لیے امیر جہاد منتخب کریں اور جہاد کا شورائی نظم قائم کر کے کفار سے اپنے ملک کی آزادی کی جنگ شروع کر دیں۔

۲۔ مسلمانوں پر غیر مسلموں کو حکومت کرنے کا حق حاصل نہیں اور مسلمانوں پر شرعاً واجب ہے کہ وہ اپنے اوپر کسی مسلمان حکمران کی حکومت قائم کرنے کے لیے ہر ممکن جدوجہد کریں۔

۳۔ قرآن مجید کی آیات سے واضح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ کفار کو اپنے گھر کا بھیدی بنانا (بطانت) اور ان کے ساتھ موالات کے تعلقات قائم کرنا ممنوع ہے۔ چنانچہ ان کی حکومت تسلیم کرنا اور ان کی غلامی اختیار کرنا تو بدرجۂ اولیٰ ممنوع ہے۔

۴۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مسلمان امرا کی اطاعت کا حکم دیا ہے، اگر حکمران مسلمان نہ ہو تو اس پر قرآن مجید کے اس حکم کا اطلاق نہیں ہو گا۔

ان کے علاوہ بھی مولانا محترم نے اپنی بات کے حق میں بعض دلائل دیے ہیں۔ مگر درج بالا باتیں چونکہ براہ راست شریعت اسلامی کے فہم اور اس کے ابلاغ سے متعلق ہیں، اس وجہ سے ہم یہاں انھی کے بارے میں بصد احترام مولانا سے بعض طالب علمانہ سوال پوچھنا چاہتے ہیں۔

سب سے پہلی بات مولانا نے یہ فرمائی ہے کہ ایسی صورت میں یہ مسلمانوں کا دینی فریضہ ہے کہ اگر وہ استطاعت رکھتے ہوں تو اپنے لیے امیر جہاد منتخب کریں اور جہاد کا شورائی نظم قائم کر کے کفار سے اپنے ملک کی آزادی کی جنگ شروع کر دیں۔

اس ضمن میں سب سے پہلی بات مولانا محترم سے ہم یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ انھوں نے قرآن و سنت کی کس قطعی دلیل کے تحت آزادی کی اس جنگ کو مسلمانوں کے لیے ایک دینی فریضہ قرار دیا ہے۔ ہمارے ناقص علم کی حد تک یہ ایک مسلمہ ہے کہ کسی چیز یا کسی معاملے کو فرض یا حرام قرار دینے کا حق صرف اللہ ہی کا ہے۔ کوئی عالم، کوئی فقیہ اور کوئی قاضی یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ کسی چیز کو اپنی طرف سے فرض یا حرام قرار دے دے، اس کے لیے بہرحال اللہ کی کتاب قرآن مجید یا اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے کوئی واضح اور قطعی حجت پیش کرنا ہو گی۔ چنانچہ مولانا محترم سے ہماری درخواست ہے کہ وہ اس معاملے میں قرآن و سنت کی وہ واضح اور قطعی حجت ہم طالب علموں کو بھی بتا دیں جس کے تحت انھوں نے آزادی کی اس جنگ کو ایک دینی فریضہ قرار دیاہے۔

دوسری بات اس ضمن میں ہم مولانا محترم سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ انھوں نے اپنی اس بات میں جنگی کارروائی کے لیے تین شرائط بیان فرمائے ہیں: ایک یہ کہ مسلمان اس قسم کی کارروائی کی استطاعت رکھتے ہوں۔ دوسرے یہ کہ وہ اپنے لیے ایک امیر جہاد منتخب کریں۔ اور تیسرے یہ کہ وہ اس مقصد کے لیے جہاد کا شورائی نظم قائم کریں۔

مولانا محترم سے ہمارا سوال یہ ہے کہ انھوں نے یہ تینوں شرائط کس دلیل کی بنا پر عائد کیے ہیں؟ ان کے پورا ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کس طرح کیا جائے گا؟ کیا خدا کی شریعت میں خروج اور بغاوت کے لیے کوئی مستقل اورمفصل ضابطہ دیا گیا ہے؟ کیا جنگ آزادی کے اس فریضہ کو ادا کرنے کے لیے یہ شرائط خدا نے عائد کیے ہیں؟ کیا اللہ کے پیغمبر نے اس ضمن میں یہ ساری ہدایات دی ہیں؟ اگر ایسا نہیں ہے، اور اس معاملے میں مولانا محترم نے جہاد کے عمومی قانون پر قیاس کرتے ہوئے خروج اور بغاوت کے لیے یہ شرائط بیان کیے ہیں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عام طور پر جہاد و قتال کے لیے مولانا محترم نے خود اقتدار کی جو شرط بیان فرمائی ہے، اسے انھوں نے یہاں شریعت کی کس نص کی بنیاد پرختم کر دیا ہے؟ مولانا محترم نے اپنے مضمون میں جہاد کے لیے ایک مقتدر امیر کی شرط کی جو حکمت بیان فرمائی ہے، اس کا لحاظ کرنا جنگی کارروائی کی اس صورت میں آخر کیوں ضروری نہیں ہے؟ انھوں نے اپنے مضمون میں لکھا ہے:

’’اس شرط کی وجہ یہ ہے کہ جہاد کا مقصد صرف خون ریزی اور ملک گیری نہیں، بلکہ کفر و شرک اور ظلم و فساد کی قیادت کو گرانا اور اس کی جگہ ایمان و توحید اور عدل و انصاف کی حامل قیادت کو اٹھانا اصل مقصد ہے، تاکہ ظلم و فساد کا نظام ختم ہو جائے اور اس کی جگہ عدل و انصاف کا نظام آ جائے۔ اور یہ مقصد اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے، جبکہ ایک امیر اور واحد شورائی نظم کے تحت لڑائی لڑی جائے، تاکہ فتح حاصل کرنے کے بعد خلا پیدا نہ ہو، بلکہ متبادل امیر مفتوحہ ملک کا نظم اور حکومت اپنے ہاتھ میں لے کر امن بحال کر دے اور اللہ کی شریعت نافذ کر کے لوگوں کو وضعی قانون سے آزادی دلا دے۔ اگر مسلمان افراد اور گروپوں کو الگ الگ لڑنے کی اجازت دے دی جائے تو فتح حاصل کرنے کے بعد سابقہ حکومت کی جگہ اسلامی حکومت قائم نہیں ہو سکے گی، بلکہ طوائف الملوکی، خانہ جنگی اور افراتفری رونما ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ غیرمنظم جنگ میں جہاد کے شرعی آداب و احکام کی پابندی بھی نہیں کرائی جا سکتی اور ایسی جنگ ایک عظیم عبادت کے بجائے، دہشت گردی اور بلامقصد خون ریزی کی شکل بھی اختیار کرسکتی ہے، جو یقیناًفساد ہے، جہاد نہیں ہے۔ جہاد کو اسی قسم کے فساد سے بچانے کے لیے، شریعت میں امام کی اجازت اور نگرانی کو شرط قرار دیا گیا ہے۔‘‘ ( ۱۳)

مولانا محترم سے ہماری گزارش ہے کہ وہ ہمیں یہ سمجھا دیں کہ ان میں سے کون سی وجہ کے ختم ہوجانے کے باعث خروج اور بغاوت کی صورت میں جنگ و قتال کے لیے انھوں نے مقتدر امیر کی شرط کو ختم کیا ہے؟کیا اس جنگ کا مقصد صرف خوں ریزی اور ملک گیری ہوتا ہے؟ کیا اس میں کفر و شرک اور ظلم و فساد کی قیادت کو گرانا اور اس کی جگہ ایمان و توحید اور عدل و انصاف کی حامل قیادت کو اٹھانا، اصل مقصد نہیں ہوتا؟ کیا اس کا مطمح نظر یہ نہیں ہوتا کہ ظلم و فساد کا نظام ختم ہو جائے اور اس کی جگہ عدل و انصاف کا نظام آ جائے؟ کیا اس جنگ میں جہاد و قتال کے شرعی آداب و احکام کی پابندی ضروری نہیں ہوتی؟ کیا اس میں یہ اندیشہ نہیں ہوتا کہ یہ ایک عبادت کے بجاے دہشت گردی اور بلا مقصد خوں ریزی کی شکل اختیار کر لے؟ اگر ایسا ہے تو پھر آخر کیا وجہ ہے کہ جو مقصد پہلی صورت میں ایک مقتدر امیر کی قیادت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا، وہ مولانا کے نزدیک دوسری، یعنی خروج اور بغاوت کی صورت میں حاصل ہو جائے گا؟ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آ رہی کہ جو مفاسد پہلی صورت میں ایک مقتدر امیر کی قیادت کے بغیر جہاد کرنے سے پیدا ہوں گے، وہ دوسری صورت میں جنگی کارروائی کرنے سے آخر کیوں پیدا نہیں ہوں گے۔

مولانا محترم نے دوسری بات یہ فرمائی ہے کہ مسلمانوں پر غیر مسلموں کو حکومت کرنے کا حق حاصل نہیں، اور مسلمانوں پر شرعاً واجب ہے کہ وہ اپنے اوپر کسی مسلمان حکمران کی حکومت قائم کرنے کے لیے ہر ممکن جدوجہد کریں۔

مولانا محترم کی اس بات کے پہلے حصے سے ہم یہاں تعرض نہیں کریں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ غیرمسلموں کو مسلمانوں پر حکومت کرنے کا حق حاصل ہے یا نہیں، اس بات کا تعلق غیر مسلموں کی شریعت سے تو ہو سکتا ہے، مسلمانوں کی شریعت سے بہرحال نہیں ہو سکتا۔ مسلمانوں کی شریعت تو مسلمانوں کی ذمہ داریاں بیان کرے گی۔ کوئی غیر مسلم شریعت اسلامی سے اپنے کسی اقدام کا جواز ڈھونڈنے کی زحمت نہیں اٹھائے گا۔ البتہ مولانا کی اس بات کے دوسرے حصے کے بارے میں بھی وہی سوال پیدا ہوتا ہے جو پہلی بات کے بارے میں پیدا ہوا تھا، یعنی مولانا محترم جب یہ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں پر شرعاً واجب ہے کہ وہ اپنے اوپر کسی مسلمان حکمران کی حکومت قائم کرنے کے لیے ہر ممکن جدوجہد کریں تو اس جدوجہد کے لیے قرآن و سنت کی وہ کون سی قطعی اورحتمی دلیل ہے جس کی بنیاد پر مولانا محترم نے اسے شرعاً واجب قرار دیا ہے۔ ہم یہ تو جانتے ہیں کہ کسی سرزمین میں اگر مسلمانوں کو اقتدار حاصل ہو جائے تو قرآن مجید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی رو سے ان کے حکمرانوں پر بہت سی شرعی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ انھی میں سے ایک ذمہ داری اجتماعی معاملات سے متعلق شریعت کے احکام کا نفاذ بھی ہے، مگر ہمیں اب تک قرآن و سنت کی ایسی کوئی قطعی اورحتمی دلیل بہر حال نہیں مل سکی جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکے کہ مسلمانوں پر شرعاً واجب ہے کہ وہ اپنے اوپر کسی مسلمان حکمران کی حکومت قائم کریں۔ مولانا محترم سے ہماری استدعا ہے کہ وہ اس معاملے میں ہماری مدد فرمائیں اور ہمیں اس حجت سے آگاہ فرما دیں جس کی بنا پر انھوں نے اس جدوجہد کو شرعاً واجب قرار دیا ہے۔

مولانا محترم نے تیسری بات یہ فرمائی ہے کہ قرآن مجید کی آیات سے واضح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ کفار کو اپنے گھر کا بھیدی بنانا (بطانت) اور ان کے ساتھ موالات کے تعلقات قائم کرنا ممنوع ہے۔ چنانچہ ان کی حکومت تسلیم کرنا اور ان کی غلامی اختیار کرنا تو بدرجۂ اولیٰ ممنوع ہے۔

اس میں شبہ نہیں ہے کہ قرآن مجید میں یہود و نصاریٰ کے ساتھ موالات اور بطانت کے تعلق سے روکا گیا ہے۔ ہم تھوڑی دیر کے لیے یہ بھی مان لیتے ہیں کہ یہ ایک مطلق حکم ہے، مگر اس کے باوجود مولانا کی اس بات کے بارے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بطانت اور موالات کے ممنوع ہونے سے یہ نتیجہ کیسے نکلتا ہے کہ ’’ان کی حکومت تسلیم کرنا اور ان کی غلامی اختیار کرنا تو بدرجۂ اولیٰ ممنوع ہے‘‘؟ بطانت اور موالات ایک الگ معاملہ ہے اور ان کی حکومت تسلیم کرنا یا ان کے زیردست ہو کر رہنا ایک بالکل الگ معاملہ ہے۔ ایک میں آدمی بہت حد تک مختار ہے، دوسرے میں وہ مجبور محض ہو سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان دونوں میں مولانا نے ایسی کون سی قدر مشترک دیکھی ہے جس کی بنا پر ایک کے حکم سے دوسرے کے حکم کا استخراج کیا ہے؟ کیا یہ فی الواقع ایسے معاملات ہیں کہ ایک کو دوسرے پر قیاس کیا جا سکے؟ اس سے تو زیادہ سے زیادہ یہ بات ثابت ہوسکتی تھی کہ مسلمانوں کے لیے خواہ وہ یہود و نصاریٰ ہی کی حکومت میں کیوں نہ رہتے ہوں، ان کے ساتھ بطانت اور موالات کے تعلقات قائم کرنا جائز نہیں ہے۔ یہ بات آخر اس سے کیسے ثابت ہو گئی کہ مسلمانوں کے لیے یہود و نصاریٰ ہی کی حکومت میں رہنا جائز نہیں ہے؟ اسے اگر اللہ تعالیٰ کے کسی واضح اور قطعی حکم نے ممنوع قرار نہیں دیا تو پھر اس شریعت سازی کی آخر بنیاد کیا ہے؟

مولانا محترم نے چوتھی بات یہ فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مسلمان امرا کی اطاعت کا حکم دیا ہے، اگر حکمران مسلمان نہ ہو تو اس پر قرآن مجید کے اس حکم کا اطلاق نہیں ہو گا۔

مولانا کی اس بات سے ہمیں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ البتہ یہاں بھی ہم مولانا سے یہ پوچھنا چاہیں گے کہ اس بات کا نتیجہ بھی کیا زیادہ سے زیادہ یہ نہیں نکلتا کہ غیر مسلم حکمرانوں کی اطاعت کوئی دینی فریضہ نہیں ہے؟ آخر یہ بات اس سے کس طرح نکلتی ہے کہ غیر مسلم حکمرانوں کے خلاف خروج اور بغاوت کرنا ایک دینی فریضہ ہے؟ بظاہر، اللہ تعالیٰ کا حکم بس اتنا ہی ہے کہ مسلمان حکمرانوں کی لازماً اطاعت کی جائے۔ اس سے غیر مسلم حکمرانوں کے خلاف بغاوت اور خروج کو کس اصول پر لازم قرار دیا جا سکتا ہے؟

اس ضمن میں ایک آخری سوال مولانا محترم سے ہم یہ بھی کرنا چاہیں گے کہ کیا شریعت نے خروج اور بغاوت کے لیے فی الواقع کوئی مستقل اورمفصل قانون سازی کی ہے؟ کیا اس کے حدود و قیود کو الگ سے متعین کیا ہے؟ کیا عمومی جہاد اور خروج اور بغاوت کی نوعیت کے مسلح اقدام کے لیے الگ الگ ضابطے دیے ہیں؟ کیا خروج اور بغاوت کے لیے کوئی شرائط عائد کیے ہیں؟ کیا انھیں کسی صورت میں لازم قرار دیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر یہ ضابطہ کیا ہے اور کہاں بیان ہوا ہے؟ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ہم کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ اپنی طرف سے کسی چیز کو لازم یا حرام قرار دے دیں؟ ہم تو شاید اس سے زیادہ کچھ کہنے کا حق نہیں رکھتے کہ اللہ نے دین و شریعت کا جو فہم ہمیں دیا ہے، اس کے مطابق فلاں چیز پسندیدہ یا ناپسندیدہ ہے ۔

ہم یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہمارے سامنے اب تک قرآن مجید یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر مبنی ایسا کوئی حکم نہیں آیا جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکے کہ خروج یا بغاوت کسی صورت میں ایک دینی فریضہ بھی بن جاتی ہے۔ اس معاملے میں جو بات کہی جا سکتی ہے، وہ اس سے زیادہ ہرگز نہیں ہے کہ بعض حالات میں حکومت کے خلاف، خواہ یہ حکومت مسلمانوں کی ہو یا غیر مسلموں کی، خروج کرنا جائز ہو جاتا ہے۔

مولانا محترم سے ہماری گزارش ہے کہ وہ ہمیں دین کا ایک طالب علم سمجھتے ہوئے ہمارے ان سوالات کا جواب عنایت فرمائیں۔ مولانا اس سلسلے میں جو کچھ بھی لکھنا چاہیں گے، اسے ماہنامہ ’’اشراق‘‘ کے صفحات میں شائع کرنا ہمارے لیے باعث سعادت ہوگا۔ خدا گواہ ہے کہ اس مسئلے کو سمجھنے کے سوا کوئی چیز ہمارے پیش نظر نہیں ہے۔ بات اگر سمجھ میں آ گئی تو ہم بغیر کسی تردد کے انھی صفحات میں خود اپنی راے کی تردید شائع کر دیں گے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ صحیح باتوں کو قبول کرنے کے لیے ہم سب کے دلوں کو کھولے، غلط باتوں کے شر سے ہم سب کو محفوظ رکھے اور آخرت کی کامیابی ہی کو ہم سب کا اصل مطمح نظر بنا دے۔

 [اگست ۱۹۹۷ء]

____________

B