مولانا محترم نے دوسری بات یہ فرمائی ہے کہ کسی نظم اجتماعی کو ’جماعت المسلمین‘ قرار دینے کے لیے ضروری ہے کہ وہ نظم بعض شرائط پر پورا اترتا ہو۔ مولانا محترم لکھتے ہیں:
’’احادیث صحیحہ سے اس الجماعت کی جوخصوصیات معلوم ہوتی ہیں، وہ درج ذیل ہیں:
۱۔ یہ تمام مسلمانوں کی جماعت ہو گی، اس میں شمولیت سے کسی مسلمان کو نہ جغرافیائی حدود کی وجہ سے، نہ لسانی اور نسلی اختلاف کی بنا پر روکا جا سکے گا۔
۲۔ تمام مسلمان اس میں شامل ہوں یا کم از کم اس کو سواد اعظم کی تائید حاصل ہو۔
۳۔ اس ’الجماعت‘ کا بنیادی مقصد ’دعوت الی الخیر‘ اور اس کا اصل پروگرام امربالمعروف اور نہی عن المنکر، اقامت صلٰوۃ، ایتاء زکٰوۃ اور قیام قسط و عدل کے لیے اللہ کی کتاب اور میزان (شریعت) کو نافذ کرنا ہو گا۔
۴۔... اس جماعت کا صاحب اقتدار ہونا اور مسلمانوں کی اکثریت کا اس اقتدار کو تسلیم کر لینا ہے۔‘‘ (۳۴)
ہمارے نزدیک مولانا محترم نے یہاں جو نکات بیان فرمائے ہیں، ان میں سے پہلا اور دوسرا نکتہ ہی دراصل ہمارے اور مولانا محترم کے درمیان اختلاف کا باعث ہے۔ چوتھا نکتہ تو خود مولانا ہی کے الفاظ میں ہمارے اور ان کے درمیان متفق علیہ ہے اور جہاں تک تیسرے نکتے کا تعلق ہے، اس کے بارے میں مولانا محترم ہی کی یہ راے ہے کہ اس معاملے میں مسلمان حکمرانوں کی طرف سے اگر کوئی کمزوری ظاہر ہو، تب بھی دین کا تقاضا یہی ہے کہ عام مسلمان اپنے نظم سے وابستہ رہیں اور اس کے خلاف علم بغاوت بلند نہ کریں۔ چنانچہ الجماعت کی خصوصیات بیان کرنے کے بعد مولانا محترم لکھتے ہیں:
’’واضح رہے کہ زوال و انحطاط کے عمل سے اگر ان خصوصیات میں کچھ ضعف پیدا ہو جائے، مثلاً یہ کہ دعوت الی الخیر، امر بالمعروف و نہی عن المنکر، نفاذ شریعت یا قیام قسط و عدل ٹھیک ٹھیک معیار کے مطابق نہ رہیں تو ان کو تاہیوں کی وجہ سے اس کے الجماعت ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا، نہ اس سے علیحدہ ہونا جائز ہو گا، نہ اس کے خلاف خروج و قتال کی اجازت ہو گی۔‘‘ (۳۴)
پھر اپنے مضمون کے آخر میں مولانا محترم نے ان وجوہ کی نشان دہی بھی فرمائی ہے جن کے باعث ان کی نظر میں موجودہ مسلمان ریاستیں ’الجماعت‘ کہلانے کی حق دار نہیں ہیں۔ ان وجوہ میں بھی بعض دوسرے وجوہ کے ساتھ ساتھ، اوپر درج پہلی اور دوسری خصوصیت ہی کے ناپید ہونے کا مولانا نے ذکر کیا ہے، تیسری اور چوتھی شرط وہاں پر زیر بحث ہی نہیں آئی۔ چنانچہ وہاں وہ لکھتے ہیں:
’’اب آخر میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ دور حاضر کی مسلم حکومتیں، نام نہاد جمہوری حکومتیں، آمرانہ حکومتیں اور بادشاہتیں حسب ذیل وجوہ کی بنا پر ’الجماعت‘ نہیں ہیں:
... ۲۔ ان میں سے کسی حکومت میں نہ دنیا کے تمام مسلمان شریک ہیں نہ سواد اعظم۔ ان حکومتوں میں صرف ان لوگوں کو شرکت کی اجازت ہے جو مخصوص جغرافیائی حد کے اندر رہتے ہوں، اس سے باہر رہنے والا کوئی مسلمان محض مسلمان ہونے کی بنا پر اس ’الجماعت‘ میں شریک نہیں ہو سکتا جو سراسر الجماعت کے بنیادی تصور کے خلاف ہے۔...
۳۔ احادیث صحیحہ کی رو سے، نیز خود لفظ ’الجماعت‘ سے واضح ہے کہ مسلمانوں کی ’الجماعت‘ سارے عالم میں بس ایک ہی جماعت ہو سکتی ہے۔ بیک وقت کئی الجماعتوں کا وجود تناقض فی الاصطلاح ہے۔ نیز اس سے لازم آتا ہے کہ ایک حکومت میں رہنے والا مسلمان ’الجماعت‘ میں شامل ہونے کی وجہ سے الجماعت میں شمولیت کی بشارتوں کا بھی مستحق ہو اور دوسری الجماعتوں میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے وعیدوں کا مستحق بھی۔‘‘ (۳۵)
اس صورت حال کے پیش نظر ہمارے نزدیک مناسب ہو گا کہ ہم مولانا محترم کے پہلے دو نکات کو اچھی طرح سے سمجھ کر ان کا جائزہ لے لیں۔
مولانا کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ ’الجماعۃ‘ مسلمانوں کے اسی نظم اجتماعی کو کہا جا سکتا ہے جس میں رنگ و نسل اور لسانی و جغرافیائی حدود کی تفریق کے بغیر دنیا کے تمام مسلمان شامل ہوں، دنیا کے بعض مسلمانوں کو اگر اس نظم میں شریک ہونے اور اس کا حصہ بننے کی اجازت نہ ہو تو محض اس رکاوٹ کے باعث، وہ نظم ’الجماعۃ‘ کہلانے کا مستحق نہ رہے گا۔
اس ضمن میں مولانا محترم سے ہم صرف یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ دین و شریعت کی نصوص میں ان کی اس بات کی دلیل کیا ہے؟ مولانا محترم سے ہماری گزارش ہے کہ وہ یہ بھی واضح فرما دیں کہ اگر مسلمان ریاست شہریوں کو تبادلے اور آمد و رفت کے معاملے میں کچھ بین الاقوامی معاہدات میں بندھی ہوئی یا اپنے تحفظ کے لیے آنے والوں پر کچھ پابندیاں او رشرائط عائد کرتی ہو تو کیا اس صورت میں وہ ’الجماعۃ‘ یا بہ الفاظ دیگر ’مسلمانوں کا نظم اجتماعی‘ کہلانے کی مستحق نہیں رہے گی؟ مولانا کے نزدیک اگر ایسی ریاست ’الجماعۃ‘ یا ’ مسلمانوں کا نظم اجتماعی‘ کہلانے کی مستحق نہیں رہتی تو پھر مولانا سے ہماری گزارش ہے کہ وہ یہ واضح فرما دیں کہ ان کے نزدیک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سربراہی میں مدینہ کی ریاست، صلح حدیبیہ کے بعد کس اصول پر ’الجماعۃ‘ کہلانے کی مستحق ہوئی؟ یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ صلح حدیبیہ کے جس معاہدے پر اللہ کے پیغمبر نے ’جماعت المسلمین‘ کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی مہر ثبت فرمائی تھی، اس کی ایک شق یہ بھی تھی کہ مکہ کا کوئی باشندہ اگر مسلمان ہو کر مدینہ آئے تو مسلمان اسے واپس کرنے کے پابند ہو ں گے۔ ظاہر ہے، اس بات کے معنی ہی یہ ہیں کہ ایسے شخص کو ریاست مدینہ کی شہریت نہیں دی جا سکتی۔ گویا اس زمانے میں ایک بین الاقوامی معاہدے کی وجہ سے خود ریاست مدینہ سے ’باہر رہنے والا کوئی مسلمان محض مسلمان ہونے کی بنا پر اس الجماعت میں شریک نہیں ہو سکتا‘ تھا اور یہ بات مولانا محترم کے نزدیک ’سراسر الجماعت کے بنیادی تصور کے خلاف ہے‘۔ چنانچہ تاریخ و سیر کے اوراق ہمیں بتاتے ہیں کہ اسی معاہدے کی پابندی کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو جندل رضی اللہ عنہ اور ابو بصیر کو مدینہ کی شہریت نہیں دی اور انھیں مکہ والوں کو لوٹا دیا۔ اب اگر مولانا محترم کی بات صحیح ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ریاست مدینہ کو کس اصول پر ’الجماعۃ‘ یا ’جماعت المسلمین‘ قرار دیا جا سکتا ہے۔
مولانا محترم کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا صرف وہی نظم ’الجماعۃ‘ کہلائے گا جس میں تمام مسلمان شامل ہوں یا جسے تمام مسلمانوں کے سواد اعظم، یعنی ان کی اکثریت کی تائید حاصل ہو۔ ’تمام مسلمانوں‘ سے مولانا کی مراد اگر ’ایک نظم اور ایک ریاست میں رہنے والے تمام مسلمان‘ ہیں تو پھر ہمیں مولانا محترم کی اس بات سے بہت حد تک اتفاق ہے، لیکن اس سے مراد اگر ’دنیا کے تمام مسلمان‘ ہیں تو اس معاملے میں بھی ہم مولانا محترم سے گزارش کریں گے کہ وہ ہمیں ان نصوص سے آگاہ فرما دیں جن کی بنیاد پر انھوں نے یہ فتویٰ دیا ہے۔ مزید یہ کہ اگر کسی نظم کو ’الجماعۃ‘ کہلانے کے لیے یہ لازم ہے کہ دنیا کے تمام مسلمان اس میں شامل ہوں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ریاست مدینہ قائم ہو جانے کے بعد بھی مکہ میں رہ جانے والے مسلمانوں کو چھوڑ کر عام طور پر کسی کو مدینہ منتقل ہونے کا حکم آخر کیوں نہیں دیا گیا؟ تاریخ و حدیث کی کتابوں میں ایسے بہت سے واقعات نقل ہوئے ہیں جن کے مطابق لوگ مدینہ آ کر پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لاتے اور پھر دین کی ضروری تعلیمات حاصل کر کے واپس اپنے اپنے علاقوں میں چلے جاتے، مگر عام طور پر ان کو یہ نہیں کہا جاتا تھا کہ ان پر مدینہ منتقل ہونا لازم ہے۔
اسی طرح مولانا محترم سے ہماری گزارش ہے کہ وہ یہ بھی واضح فرما دیں کہ اگر کبھی خدا نخواستہ مسلمانوں کی اکثریت مغربی طاقتوں کے آگے سیاسی طور پر مغلوب ہو جائے (جیسا کہ تاریخ میں ہو چکا ہے) اور صرف سعودی عرب ہی ایک ایسا علاقہ رہ جائے جہاں مسلمانوں کی حکومت قائم ہو تو کیا مولانا کے نزدیک محض اس وجہ سے کہ سعودی عرب میں دنیا کے تمام مسلمان یا ان کا سواد اعظم شامل نہیں ہے، وہ ریاست ’الجماعۃ‘ کہلانے کی مستحق نہیں ہو گی؟
ہمارے نزدیک، جیسا کہ ہم بار بار واضح کرتے آ رہے ہیں، اصل بات یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ’التزام جماعت‘ کے حکم کے معنی یہ ہیں کہ کسی علاقے میں بسنے والے مسلمان جب اپنا کوئی نظم اجتماعی بنا لیں تو پھر اس نظم سے جڑ کر رہا جائے اور اس کی وفاداری کی جائے۔ جس طرح کسی نظم اجتماعی کی موجودگی کے لیے ضروری اور لازمی شرط یہی اور بس یہی ہے کہ اس نظم اجتماعی کا وجود فی الواقع موجود ہو، اس کے لیے یہ بات کسی طرح بھی ضروری قرار نہیں دی جا سکتی کہ وہ ’دنیا کے تمام لوگوں‘ یا ’تمام مسلمانوں‘ یا ’تمام یہودیوں‘ کا نظم ہو، اسی طرح ’الجماعۃ‘ کے وجود کی بھی تنہا شرط یہی ہے کہ وہ موجود ہو۔ اس علاقے کے مسلمان باہمی طور پر متحارب گروہوں میں بٹ نہ چکے ہوں۔ ایسی صورت حال نہ پیدا ہو چکی ہو جس میں یہ کہنا مشکل ہو جائے کہ اس علاقے کے مسلمانوں کا امیر کون ہے۔
اس ضمن میں آخری بات یہ ہے کہ اگر اس وقت فی الواقع مولانا کے نزدیک ’الجماعت‘ کا کوئی وجود نہیں ہے تو پھر وہ تمام باہمی طور پر متحارب گروہوں سے الگ ہو کر کسی جنگل میں جا کر زندگی گزارنے کا درس کیوں نہیں دیتے۔ یہ واضح رہے کہ ’الجماعۃ‘ کی غیر موجودگی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت یہ نہیں ہے کہ ہم:
’’۱۔ مشرکین (ہر طرح کے مشرکین) کی پروا کیے بغیر توحید خالص کی صاف صاف دعوت دیں۔
۲۔ عقیدۂ آخرت کو غیر موثر بنا دینے والے تمام تصورات کی نفی کرتے ہوئے ایمان بالآخرت کی طرف بلائیں۔
۳۔ ایمان بالرسالت اور ایمان بالکتاب کی دعوت دیں۔
۴۔ توبہ (رجوع الی اللہ) اور استغفار کی دعوت دیں۔‘‘ (ماہنامہ فاران، مارچ ۱۹۹۶ء، ۳۴)
اس صورت حال میں آپ کی ہدایت یہ ہے کہ اپنے ایمان کی خیر منائی جائے اور ہر قسم کی گروہی وابستگی سے الگ رہتے ہوئے کسی جنگل میں جا کر زندگی گزار دی جائے۔
ہمیں یقین ہے کہ مولانا محترم ہمارے اس سوال کا جواب یہ دیں گے کہ مسلمان اس وقت اللہ کی مہربانی سے باہمی طور پر متحارب گروہوں میں تقسیم ہی نہیں ہیں، بلکہ بہت حد تک ایک منظم ریاست کے شہری ہیں، اس وجہ سے ’باہمی طور پر متحارب گروہوں سے الگ ہو کر کسی جنگل میں جا کر زندگی گزارنے‘ کا سوال ہی نہیں ہے۔ ہماری بھی یہی راے ہے۔ اور یہی صورت حال اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستان کے مسلمان ہوں یا دنیا کے کسی اور ملک کے مسلمان، وہ سب اپنے اپنے علاقے کے نظم سے وابستہ زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ نظم خواہ کتنے ہی بگڑے ہوئے کیوں نہ ہوں، مگر یہی نظم ان مسلمانوں کے لیے اپنے اپنے علاقے میں ’الجماعۃ‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
____________