HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Rafi Mufti

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

غیر مسلم اقوام میں روزہ (حصہ اول)

قرآن مجید میں روزے کا حکم نازل ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ ہی اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کر دیا کہ تم پر روزوں کا یہ فرض کیا جانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہم نے تم سے پہلی امتوں پر بھی روزے اسی طرح فرض کیے تھے جیسے تم پر کیے جا رہے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ روزے کی یہ عبادت تقریباً دنیا کے تمام مذاہب میں پائی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے، جس کی تردید ممکن نہیں۔ روزے کے بارے میں اسی پہلو کی وضاحت کرتے ہوئے'Encyclopedia of Religion' میں لفظ روزہ (Fasting) کے تحت مضمون نگار لکھتا ہے:

’’روزہ یعنی غذا سے مکمل یا جزوی پرہیز ایک ایسا آفاقی عمل ہے جو مشرق و مغرب کی تقریباً سبھی تہذیبوں میں پایا جاتا ہے۔‘‘ 

'Encyclopedia Brittanica' میں روزہ کے تحت اسی پہلو کو بیان کرتے ہوئے مضمون نگار لکھتا ہے:

’’خاص مقاصد کے لیے یا اہم مقدس اوقات کے دوران میں یا ان سے قبل روزہ رکھنا دنیا کے بڑے بڑے مذاہب کا خاصہ ہے۔‘‘

'Jewish Encyclopedia' میں ’’روزہ اور روزہ کے ایام‘‘ (Fasting and Fast days)کے تحت مضمون نگار نے اس حقیقت کو یوں واضح کیا ہے:

’’روزے کی تعریف عموماً یہ کی جاتی ہے کہ مذہبی اور اخلاقی مقاصد کے حصول کے لیے خوش دلی سے جسم کو ایک مقررہ مدت کے لیے تمام قدرتی غذاؤں سے محروم رکھنا۔ روزے کے اس دستور کو دنیا کے تمام مذاہب میں بہت مقبولیت حاصل رہی ہے۔ اگرچہ یہ حقیقت بھی ہے کہ مختلف مذاہب اور قوموں میں اس کے محرکات اور اس کی شکلیں مختلف رہی ہیں۔‘‘

مذہبی معلومات کی لغت"Theological Dictionary by Rev. Charlas Buck" میں روزہ کے تحت یہی بات ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:

’’کوئی آدمی مذہبی روزوں کو کتنی ہی کم اہمیت کیوں نہ دے۔ یہ بات صاف محسوس ہوتی ہے کہ اکثر قدیم اقوام نے بھی اس مذہبی دستور کو اپنایا ہے۔ مصریوں، فونیشیوں اور آشوریوں کے ہاں بھی ایسے ہی روزے پائے جاتے ہیں۔ جیسے یہودیوں کے ہاں پائے جاتے ہیں۔‘‘

دنیا میں آج جتنے مذاہب بھی ہمیں نظر آتے ہیں، ان کے بارے میں یہ بات تو نہیں کہی جا سکتی کہ یہ سب کے سب الہامی ہیں۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ اسلام کے علاوہ ان میں سے دو اور مذاہب یعنی یہودیت اور نصرانیت کی ابتدا خدا کے سچے پیغمبروں سے ہوئی تھی۔ رہے باقی مذاہب تو ان کے مطالعے سے بھی یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ حقیقت میں آسمانی ہدایت ہی کی بگڑی ہوئی شکلیں یا اس کی وہ بھونڈی نقالی ہیں، جسے پیش کرنے والوں نے خدائی شریعت کے رنگ ڈھنگ میں پیش کیا ہے۔ بہرحال ان سب مذاہب میں جہاں اور بہت سی عبادات پائی جاتی ہیں، وہاں روزے کی عبادت بھی موجود ہے۔ اس تحریر میں ہمارے پیش نظر یہ ہے کہ ہم مختلف اقوام اور مختلف مذاہب میں، روزہ کی عبادت اور اس کے مختلف طریقوں کا مطالعہ کریں۔ اس ضمن میں سب سے پہلے ہم ہندوستان اور اس کے گردوپیش میں پائے جانے والے مذاہب کا مطالعہ کرتے ہیں۔

 

ہندوستان اور اس کے گردوپیش کے مذاہب 

ہندوستان میں پائے جانے والے قدیم مذہب ہندومت کو دیکھتے ہیں۔ ہندومت کا مختصر تعارف یہ ہے کہ یہ وہ مذہب ہے جو آریاؤں نے آج سے تقریباً پونے چار ہزار برس پہلے ہندوستان میں آ کر اختیار کیا۔

ہندومت کی تعریف ہی یوں کی گئی ہے کہ یہ درحقیت روزوں، دعوتوں اورتہواروں کا مذہب ہے ۱؂۔ اس مذہب کے ایک نمائندے ٹی ایم پی مہادیون صدر شعبۂ فلسفہ مدراس یونیورسٹی ہندو مذہب اور ہندو سماج میں روزہ کی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ان تہواروں میں جن کو سالانہ منایا جاتا ہے بعض تہوار روزہ (برت) کے لیے مخصوص ہیں، جو تزکیۂ نفس کے لیے رکھا جاتا ہے۔ ہر ہندو فرقے نے دعا و عبادت کے لیے کچھ دن مقرر کر لیے ہیں۔ جن میں اکثر افراد روزہ رکھتے ہیں، کھانے پینے سے باز رہتے ہیں۔ رات رات بھر جاگ کر اپنی مذہبی کتابوں کی تلاوت اور مراقبہ کرتے ہیں، ان میں سب سے اہم اور مشہور تہوار جو مختلف فرقوں میں رائج ہے، ’’ویکنتاایکاوشی‘‘ کا تہوار ہے، جو ’’وشنو‘‘ کی طرف منسوب ہے، لیکن اس میں صرف وشنو ہی کے ماننے والے نہیں، بلکہ دوسرے بہت سے لوگ بھی روزہ رکھتے ہیں ،اس تہوار میں وہ دن میں روزہ رکھتے ہیں،اور رات کو پوجا کرتے ہیں۔
بعض دن ایسے ہیں جو عورتوں کے ساتھ مخصوص ہیں۔ (ان دنوں میں) وہ ان دیبیوں (دیویوں) سے دعائیں کرتی ہیں، جو ایشور کی ان نسوانی صفات کا مظہر ہیں، جو مختلف اشکال میں ظاہر ہوئی ہیں۔ ان دنوں کو ان کی مخصوص اہمیت کے پیش نظر ’’برت‘‘ یا عہدو معاہدہ کہا جاتا ہے اور یہ روح کے تزکیے کے لیے مخصوص ہیں۔ ان کا مقصد روح کو معنوی غذا پہنچانا ہے ۲؂۔‘‘

مختلف تہواروں پر اس طرح سے روزہ رکھنا عوام کا طریقہ ہے۔ خواص ان مواقع پر تو روزے رکھتے ہیں،لیکن وہ ان کے علاوہ اور روزے بھی رکھتے ہیں۔ مثلاً ہندو جوگی چلہ کشی کرتے ہیں یعنی چالیس دن تک اکل و شرب سے پرہیز کرتے ہیں ۳؂۔ اس کے علاوہ یہ جوگی اور بھی کئی روزے رکھتے ہیں اور اپنے اس عمل کی وجہ سے عوام میں بہت عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ۴؂۔

ہندووں میں بعض روزے ایسے بھی ہیں جو برہمنوں (ہندووں کی برتر ذات) کے ساتھ خاص ہیں۔ مثلاً ہر ہندی مہینے کی گیارہ بارہ تاریخ کو برہمنوں پر اکاوشی کا روزہ فرض ہے، اس کے علاوہ بعض برہمن ہندی مہینے ’کاتک‘ کے ہر پیر کو روزہ رکھتے ہیں ۵؂۔ ہندو سنیاسیوں کا طریقہ ہے کہ وہ یاترا یعنی مقدس مقامات کی زیارت کے دوران میں بھی روزے رکھتے ہیں ۶؂۔

ہندووں میں نئے اور پورے چاند کے دنوں میں بھی روزہ رکھنے کا رواج ہے۔ "Sacred Books of the East" میں ویدوں کے حوالے سے ان روزوں کی ترغیب یوں دی گئی ہے کہ:

’’صاحب خانہ اور اس کی بیوی کو نئے اور پورے چاند کے دنوں میں روزہ رکھنا چاہیے۔‘‘(۲/ ۱۰۰) 
’’پورے چاند کے دن جبکہ رات اور دن کے ملاپ کے وقت چاند طلوع ہوتا ہے تو آدمی کو چاہیے کہ وہ روزہ رکھے۔‘‘ (۳۰/ ۲۵)

اس کے علاوہ ان کے ہاں قریبی عزیز یا بزرگ کی وفات پر بھی روزے رکھنے کا رواج ہے۔ "Sacred Books of the East" میں ویدوں کے حوالے سے اس کے بارے میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:

’’اگر آدمی کی بیوی، بڑا گرو یا باپ انتقال کر جائے تو موت کے دن سے لے کر اگلے دن اسی وقت تک روزہ رکھنا چاہیے۔‘‘ (۲/ ۱۳۷)

گناہوں کے کفارے کے طور پر بھی روزہ رکھا جاتا ہے۔ "Sacred Books of the East" میں کفارے کے روزے کو اس طرح بیان کیا گیا ہے:

’’اگر کوئی شودر کسی دودھیل گائے یا جوان بیل کو بغیر کسی وجہ کے مار ڈالے یا کسی کو بے وجہ گالی دے تو اس پر کفارے کے طور پر لازم ہے کہ سات دن کے روزے رکھے۔‘‘ (۲/ ۸۴)
’’کھانے کے دوران میں اگر میزبان کو یاد آجائے کہ اس نے مہمان کو خوش آمدید نہیں کہا تو اسے فوراً کھانا چھوڑ کر روزہ رکھنا چاہیے۔‘‘ (۲/ ۱۲۱)

ہندووں میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ کسی کی وفات یا پیدایش کی بعض صورتیں انسان کے لیے ناپاکی کا باعث بنتی ہیں۔ یہ ناپاکی برہمن کو لاحق ہو تو دس دن میں خودبخود ختم ہو جاتی ہے۔ کھتری کو لاحق ہو تو پندرہ دنوں میں ختم ہو جاتی ہے۔ ویش کو لاحق ہو تو بیس دنوں میں ختم ہوتی ہے اور شودر کو یہ ناپاکی لاحق ہو تو ایک مہینے کے بعد ختم ہوتی ہے۔ شودر کی ناپاکی کے اس عرصے میں اگر کوئی آدمی جو پہلے ہی دو بار جنم لے چکا ہو، اس کے ہاں کھانا کھائے تو سخت گناہ گار ہو جاتا ہے۔ اس گناہ کے کفارے کی صورت"Sacred Books of the East"کے مصنف نے یہ بیان کی ہے:

’’ایسا گناہ گار بارہ ماہ تک وید کی سمتھا کی تلاوت کرنے سے یا پھر بارہ نصف مہینوں کے روزے رکھنے سے اپنے گناہ سے پاک ہو جاتا ہے۔‘‘ (۱۴/ ۳۰)

گرو (استاد) کے ساتھ آداب کو ملحوظ نہ رکھنے کے جرم کا کفارہ بیان کرتے ہوئے "Sacred Books of the East" کا مصنف لکھتا ہے:

’’اگر کسی نے اپنے اساتذہ کو بے ادبی کرتے ہوئے ناراض کر دیا تو اسے روزہ رکھنا ہو گا اور اس وقت تک کھانے سے پرہیز کرنا ہو گا جب تک اسے معافی نہ مل جائے۔‘‘ (۷/ ۱۳۰)

ہندووں میں بعض عمومی واقعات سے برا شگون لینے کا بہت رواج ہے۔ ان کی مذہبی کتابوں میں ایسی بدشگونیوں کے اثرات سے بچنے کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ "Sacred Books of the East"کا مصنف بیان کرتا ہے:

’’اگر استاد اور شاگرد کے درمیان سے کتا، نیولا، سانپ، مینڈک یا بلی گزر جائے تو ان کے لیے تین دن کا روزہ اور سفر ضروری ہے۔‘‘ (۲/ ۱۸۴)

ان سب روزوں کے علاوہ ہندووں میں منت اور نذر کے روزے رکھنے کا بھی رواج ہے۔ ویدوں کی تلاوت کے اختتام پر روزہ رکھنے کا بھی رواج ہے، شکرانے کے روزوں کا بھی رواج ہے۔ چنانچہ ہندومت کے بارے میں یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ اس مذہب میں روزے بہت نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔

اس کے بعد ہم ہندوستان کے ایک دوسرے مذہب ’’جین مت‘‘ کا روزوں ہی کے حوالے سے مطالعہ کرتے ہیں۔ جین مت کا مختصر تعارف یہ ہے کہ اس کی ابتدا آج سے تقریباً ۲۵۵۰سال پہلے ہندوستان کے علاقے اترپردیش میں ہوئی۔ مہاویر اس مذہب کے بانی ہیں۔

جین مت میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ راہبانہ ریاضتیں انسان کے باطن کی اصلاح کرتی ہیں۔ وہ انھی ریاضتوں میں روزے کو بھی شامل کرتے ہیں۔ یہ اصلاح اس طرح ہوتی ہے کہ یہ ریاضتیں کرمن ۷؂کے وہ انبار نہیں لگنے دیتیں جو زندگی کے جوہر کو بوجھل کر دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک روزہ انسانوں کو کرمن سے آزاد ہونے کی راہ پر لے جاتا ہے ۸؂۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے سنیاسی مرد اور عورتیں اپنی روزمرہ زندگی میں تعلیم، مراقبوں اور ان جسمانی ریاضتوں میں مصروف رہتے ہیں، جن میں سے ایک روزہ بھی ہے۔ یہ ریاضتیں اسی لیے بنائی گئی ہیں کہ یہ روح (Jiva) کے کرمن سے آزاد ہونے کے عمل کو بڑھاتی چلی جائیں ۹؂اور اسے آگے آنے والی روحانی منازل کی طرف لے چلیں۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر بہت سے راہبانہ ضابطے زندگی بھر کے لیے اپنانے ضروری ہیں، کیونکہ ان کے بغیر ان مراحل سے گزرا نہیں جا سکتا۔ ان ریاضتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سنیاسی جب ریاضتیں کرتے کرتے بوڑھا ہو جاتا ہے تو وہ اپنی روحانی ترقی کے لیے چاہے تو رضاکارانہ طور پر اپنے لیے تامرگ روزے کا انتخاب کر سکتا ہے۔ یعنی وہ سنیاسی روزہ رکھ لے گا اور افطار نہیں کرے گا، حتی کہ وہ مر جائے ۱۰؂۔

جین دھرم میں سنیاسی حضرات بعض مقررہ قواعد کے تحت روزہ رکھتے اور مراقبوں کی بعض ایسی مشقیں کرتے ہیں جن کے نتیجے میں انسان پر بے خودی کی ایسی حالت طاری ہو جاتی ہے جس میں اس کا رابطہ اس دنیا سے کٹ جاتا ہے اور وہ کسی ماورائی حالت میں پہنچ جاتا ہے ۱۱؂۔ اس ماورائی حالت میں پہنچ جانے ہی کو وہ روحانی منزلوں کا حصول قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ اس کے لیے انھیں روزوں کی سخت مشقیں کرائی جاتی ہیں۔

مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ ’’سیرت النبی‘‘ میں جین دھرم کے ہاں روزوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ہندوستان کے تمام مذاہب میں جینی دھرم میں روزہ کی سخت شرائط ہیں، چالیس چالیس دن تک کا ان کے یہاں ایک روزہ ہوتا ہے۔ گجرات و دکن میں ہر سال جینی کئی کئی ہفتہ کا روزہ رکھتے ہیں۔‘‘ (۵/ ۲۴۲)

ہندومت کی طرح جین مت میں بھی سنیاسی یاترا (مقدس مقامات کی زیارت) کے دوران میں روزے رکھتے ہیں اور اسی طرح بعض خاص تہواروں سے پہلے ۱۲؂روزے رکھنے کا دستور بھی ان میں پایا جاتا ہے ۱۳؂۔ ان کے مذہب میں مشہور تہوار وہ ہیں جو ان کے مذہب کے بانی مہاویر کی زندگی کے مختلف ایام کی یاد میں منائے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کا پہلا تہوار سال کے اس دن منایا جاتا ہے جس دن مہاویر عالم بالا سے بطن مادر میں منتقل ہوئے تھے۔ دوسرا تہوار ان کے یوم پیدایش پر منایا جاتا ہے۔ تیسرا تہوار اس دن منایا جاتا ہے جس دن انھوں نے دنیا سے تیاگ اختیار کیا تھا، یعنی ترک دنیا کی راہ اختیار کی تھی۔ چوتھا تہوار اس دن منایا جاتا ہے جس دن انھوں نے الہام پا لیا تھا۔ اور پانچواں تہوار اس دن منایا جاتا ہے جس دن ان کی وفات ہوئی تھی اور ان کی روح نے جسم سے مکمل آزادی حاصل کر لی تھی ۱۴؂۔ان تہواروں میں سب سے نمایاں تہوار پرسنا کے نام سے موسوم ہے۔ یہ تہوار بھادرا پادا (اگست۔ ستمبر) کے مہینے میں منایا جاتا ہے۔ جین مت کے بعض فرقوں میں یہ تہوار آٹھ دن تک اور بعض میں دس دن تک جاری رہتا ہے۔ اس تہوار کا چوتھا دن مہاویر کا یوم پیدایش ہے۔ اس تہوار کے موقع پر عام لوگ زاہدوں کے طرز پر روزے رکھتے، ریاضتوں کی سختیاں جھیلتے اور خانقاہوں میں اپنے مذہبی پیشواؤں کے ساتھ روحانی ترقی کی خاطر وقت گزارتے ہیں ۱۵؂۔ وہ اس موقع پر اپنے پچھلے گناہوں کی معافی مانگتے اور توبہ کرتے ہیں ۱۶؂۔

جینیوں کے ہاں یہ رواج بھی ہے کہ ان کی لڑکیاں شادی سے پہلے روزے رکھتی اور قوت اعلیٰ سے یہ درخواست کرتی ہیں کہ وہ اچھے شوہر کے انتخاب اور خوش گوار زندگی کے حصول میں ان کی مدد کرے ۱۷؂۔

اس سب کچھ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جینیوں کے ہاں بھی روزہ ایک بہت معروف چیز ہے اور وہ اسے ایک اہم مذہبی عمل کے طور پر اختیار کیے ہوئے ہیں۔

اس کے بعد ہم ہندوستان میں موجود پارسی مذہب کی طرف آتے ہیں۔ اور روزوں کے حوالے سے اس کے نظریات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ پارسی مذہب کا مختصر تعارف یہ ہے کہ اس کے بانی زرتشت تھے، اس کی ابتدا چھٹی صدی قبل مسیح میں ایران میں ہوئی۔ جب مسلمانوں نے ایران فتح کر لیا تو اس کے بعد پارسی ہندوستان ہجرت کر گئے۔

قدیم پارسی مذہب میں اگرچہ کبھی کبھار روزہ رکھا جاتا ہے، لیکن عام طور پر روزہ رکھنا پسند نہیں کیا جاتا۔ اس مذہب کے پیرووں کا خیال ہے کہ روح کی ترقی کے لیے جسم کو روزے کی مشقتوں میں ڈالنا درست نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارا روزہ یہ ہے کہ ہم اپنی زبان، آنکھوں، کانوں اور ہاتھوں سے کوئی گناہ نہ سرزد ہونے دیں۔ دوسرے مذاہب میں جو روزہ نہ کھانے پینے سے ہوتا ہے، ہمارے ہاں وہ روزہ گناہ نہ کرنے سے ہوتا ہے ۱۸؂۔

مولانا سید سلیمان ندوی ’’سیرت النبی‘‘ میں پارسیوں کے ہاں روزے کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’پارسی مذہب میں گو عام پیرووں پر روزہ فرض نہیں، لیکن ان کی الہامی کتاب کی ایک آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ روزہ کا حکم ان کے ہاں موجود تھا۔ خصوصاً مذہبی پیشواؤں کے لیے تو پنج سالہ روزہ ضروری تھا۔‘‘ (۵ /۲۴۲)

پارسیوں کے بارے میں ان معلومات سے پتا چلتا ہے کہ وہ ابتدا میں روزے سے نہ صرف واقف تھے، بلکہ اسے ایک مذہبی عمل کے طور پر اپنائے ہوئے تھے، لیکن بعد کے ادوار میں غالباً جب دوسرے مذاہب کے حوالے سے سخت روزوں کا تصور سامنے آیا تو اس کے خلاف ردعمل پیدا ہوا اور ان کے ہاں روزے مفقود ہو گئے۔ ہماری اس بات کی دلیل ان کے ہاں مخالفت کے باوجود روزے کا موجود ہونا ہے۔ اگر ان کے مذہب میں اصلاً اسے کوئی برائی تصور کیا جاتا تو پھر ہم اس کی یکسر نفی پاتے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ روزے کی روح فی الواقع یہی ہے کہ آدمی گناہوں سے باز رہے اور پارسی اسی روح کو روزہ قرار دے رہے ہیں، یہ بات بھی اس طرف متوجہ کرتی ہے کہ روزہ ان کے ہاں کبھی اپنے پورے تصور کے ساتھ رہا ہے۔

اب ہم ہندوستان کے چوتھے مذہب بدھ مت کا روزوں ہی کے حوالے سے مطالعہ کرتے ہیں۔ بدھ مت کا مختصر تعارف یہ ہے کہ اس کے بانی مہاتما بدھ تھے۔ اس مذہب کی ابتدا چھٹی صدی قبل مسیح کے لگ بھگ ہندوستان کے شمال مشرقی حصہ میں ہوئی۔

بدھ مت کے بھکشو (تارک الدنیا) بھی ہندووں اور جینیوں کی طرح کچھ خاص دنوں میں روزے رکھتے اور اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں ۱۹؂۔ بدھ مت میں روزے کو ان تیرہ اعمال میں شمار کیا گیا ہے، جو ان کے نزدیک خوش گوار زندگی اپنانے میں مدد دیتے ہیں۔ وہ روزے کو باطن کی پاکیزگی کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔ چنانچہ بدھ مت میں جن دس چیزوں سے اجتناب کا حکم دیا گیا ہے ان میں سے ایک ممنوع اوقات میں کھانا ہے۔ ان کی تعلیم یہ ہے کہ بھکشووں کو ضرور کھانا چاہیے، لیکن دن میں صرف ایک دفعہ، اس کے بعد وہ دن بھر کچھ نہ کھائیں۔ ان روزوں کے علاوہ ان کے ہاں بھی ہندومت کی طرح نئے چاند اور پورے چاند کے دنوں میں روزہ رکھنا لازم ہے۔ مزید یہ کہ وہ ہر مہینے میں بھی چار روزے رکھتے ہیں اور روزے کی حالت میں گناہوں کا اعتراف کرتے اور توبہ کرتے ہیں۔ بدھ مت میں مذہبی پیشواؤں کو یہ ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ ہر مہینے کی چودہ پندرہ اور انتیس تیس کو جزوی روزہ رکھیں، لیکن مخلصین ان دنوں میں جزوی ۲۰؂نہیں ،بلکہ مکمل روزہ رکھتے ہیں۔

تبت کے علاقے میں بدھا کے پیرووں کے ہاں چار دن کا مسلسل روزہ رکھنے کی ایک تقریب منعقد کی جاتی ہے۔ پہلے دو دنوں میں روزے کی شرائط قدرے نرم ہوتی ہیں۔ یہ دن تیاری کے ہوتے ہیں، ان میں روزہ دار بڑے اخلاص سے اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے اور توبہ کرتے ہیں۔ ان دنوں میں عبادت کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے اور مذہبی کتابوں کا درس بھی ہوتا ہے۔ یہ اعمال رات گئے تک جاری رہتے ہیں۔ تیسرے دن روزہ سخت ہو جاتا ہے اور کسی کو تھوک نگلنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی۔ عبادت اور گناہوں کا اعتراف اس روز مکمل خاموشی کی حالت میں کیا جاتا ہے۔ چوتھے دن صبح سورج طلوع ہونے تک یہ روزہ جاری رہتا ہے۔

اس کے علاوہ بدھا کے یوم وفات سے متصل پہلے پانچ روزے رکھے جاتے ہیں۔ یہ روزے بدھ مت کے بھکشو رکھتے ہیں، لیکن عوام بھی ان روزوں میں گوشت کھانے سے پرہیز کرتے ہیں۔ یعنی وہ ایک نوعیت کے جزوی روزے رکھتے ہیں۔ ماہایانہ فرقے کے بدھوں کے ہاں یہ رواج بھی پایا جاتا ہے کہ وہ اگلے جنم میں بہتر مقام پانے کے لیے روزے رکھتے ہیں۔ بدھ مت میں روزے کی ترغیب کے ساتھ اس کے بارے میں یہ تعلیم بھی دی جاتی ہے کہ روزہ اس شخص کو پاک نہیں کر سکتا جس نے اپنے نفس پر قابو نہ پایا ہو۔

بدھ مت اگرچہ ترک دنیا کا مذہب ہے اور یہ جسم کو ایک بری چیز تصور کرتا ہے، لیکن بدھا کے ہاں روزوں کی اس تعلیم کے باوجود ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ وہ ان میں حد درجہ اشتغال کو ناگوارسمجھتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے نزدیک ہر چیز میں اعتدال اختیار کرنا ہی صحت مندانہ رویہ تھا۔ چنانچہ وہ حد سے متجاوز زاہدانہ رسوم کے خلاف تھے۔ ان کے نزدیک روزوں میں بھی اعتدال ہی کا رویہ اختیار کرنا ضروری تھا۔ ۲۱؂

ہندوستان سے باہرنکل کر ہمالیہ کے اس پار چین کی طرف آئیے۔ چین کے کلاسیکی ۲۲؂مذہب میں ہمیں روزوں کا واضح تصور ملتا ہے۔ اس کے علاوہ کنفیوشزم ۲۳؂اور تاؤازم ۲۴؂جنھیں ہم مذہب واخلاق کے حوالے سے اصلاحی تحریکوں کا نام دے سکتے ہیں، ان میں بھی روزوں کو ایک گونہ اہمیت دی گئی ہے۔

چینی کلاسیکی مذہبی رسوم میں ایک رسم ’’چائی‘‘ کہلاتی ہے۔ اس رسم میں قربانی سے پہلے روزے رکھے جاتے ہیں ۲۵؂۔ ان کے ہاں آباو اجداد کی روحوں کو قربانی پیش کی جاتی ہے۔ اس قربانی سے پہلے بھی روزے رکھنے کا رواج ہے۔ ان روزوں سے ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ ان ارواح سے بذریعہ کشف رابطہ کریں۔ اس کشف کے حصول کے لیے وہ اپنے ذہنوں کو ان ارواح کے بارے میں مختلف خیالات سے معمور کیے رکھتے ہیں۔ یہ عمل روزے کی حالت میں کیا جاتا ہے۔ ان کے ہاں آباواجداد کی ارواح کی عبادت بھی کی جاتی ہے۔ چنانچہ عبادت سے پہلے تیاری کے طور پر سات دن روزے رکھے جاتے اور شب بیداری کی جاتی ہے ۲۶؂۔

اس کے علاوہ چینیوں کے ہاں ماتمی روزوں کا تصور بھی ملتا ہے۔ یہ روزے مرنے والے آدمی کے رشتے دار رکھتے ہیں۔ جتنا ان کا مرنے والے شخص سے قریبی رشتہ ہوتا ہے، اتنا ہی روزے میں سختی کرتے ہیں۔ اس روزے میں عموماً ان کھانوں سے پرہیز کیا جاتا ہے جو روح کو نذرانے کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں ۲۷؂۔

چین میں کنفیوشزم کے پیروکار بھی ان دنوں میں روزے رکھتے ہیں جن میں آباو اجداد کی ارواح کی عبادت کی جاتی ہے ۲۸؂۔ تاؤازم میں جسمانی روزوں کے بجائے روحانی روزوں کی اہمیت پر زور دیا جاتا ہے، اسے ان لوگوں نے دل کے روزے کا نام دے رکھا ہے، البتہ الہام پانے کے لیے ان کے ہاں جسمانی روزوں کا اہتمام بھی پایا جاتا ہے۔ ان روزوں کے ذریعے سے وہ ایسی یکسوئی حاصل کرتے ہیں جس کے نتیجے میں آدمی اپنے بارے میں سب کچھ بھول جاتا ہے۔ جب آدمی اس کیفیت کو پا لیتا ہے تو ان کے خیال میں وہ شخص خدائی پیغام وصول کرنے کے لیے بالکل تیار ہو جاتا ہے ۲۹؂۔

ان مذاہب کے علاوہ دنیا کے بہت سے علاقوں میں بعض چھوٹے مذاہب بھی رائج ہیں، جو ان علاقوں تک ہی محدود ہیں۔ انھیں ہم علاقائی مذہب کہہ سکتے ہیں۔ اب ہم ان کی طرف آتے ہیں۔ اس کے بعد آخر پر ان مذاہب کو دیکھیں گے جن کا الہامی ہونا تاریخی طور پر ثابت ہے ۔

 

دیگر علاقوں کے مذاہب 

قدیم جاپانی تہذیب کو دیکھیے، وہاں بھی ہمیں روزے کا تصور ملتا ہے۔ جاپان میں وفات کے موقع پر یہ رواج تھا کہ عام لوگ جزوی روزہ رکھیں گے اور سبزیوں پرمشتمل ایک بہت ہی سستی غذا کھائی جائے گی۔ والدین اپنی اولاد کی وفات پر مسلسل پچاس دن یہی خوراک استعمال کرتے تھے۔ یعنی کھانے پینے کی عام چیزوں کے حوالے سے یہ پچاس دن پر پھیلے ہوئے جزوی روزے ہوتے تھے ۳۰؂۔

جاپان کے قریبی ملک کوریا میں بھی یہ رواج ہے کہ مرنے والے کے رشتہ دار ایک دن کا روزہ رکھتے ہیں، لیکن اس کے بیٹے اور پوتے تین دن کے روزے رکھتے ہیں ۳۱؂۔

قدیم ایران میں اگرچہ روزہ عام نہیں تھا، لیکن موت کے بعد تین راتوں تک روزہ رکھا جاتا تھا۔ اس دوران میں تازہ گوشت پکایا اور کھایا نہیں جاتا تھا ۳۲؂۔

روس کے انتہائی شمالی علاقے سائیبریا میں اسکیموز کے ہاں بھی روزہ ایک خاص عبادت کی حیثیت رکھتا ہے۔ جو اسکیمو نوجوان'Angekok'(ارواح سے تعلق قائم کرنے والا) بننا چاہتا ہے، وہ دنیوی کاموں سے ہاتھ اٹھا لیتا ہے اور اس وقت تک روزے رکھتا ہے جب تک اسے ارواح اپنے پاس آتی ہوئی دکھائی نہ دیں ۳۳؂۔

برازیل (جنوبی امریکہ) میں وہ لوگ جو 'Paje'بننے کی خواہش رکھتے ہیں، انھیں دوسال تک تنہائی میں رہ کر روزے رکھنے پڑتے ہیں۔ بعد ازاں انھیں 'Paje' مان لیا جاتا ہے۔ اسی طرح ان کے ہاں فن طب سیکھنے کے لیے بھی بہت سخت روزے رکھوائے جاتے ہیں جن روزوں کے نتیجے میں طالب علم کو بہت واضح خواب دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اس ریاضت کو وہ فن طب کا ایک ضروری حصہ سمجھتے ہیں۔ جو لوگ روحوں سے گفتگو کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں انھیں بھی ایک لمبے عرصے کے لیے سخت روزے رکھوائے جاتے ہیں۔

ایبی پونز (Abipones)کے علاقے میں 'Kecbit' بننے کے خواہش مند حضرات کو روزے کی حالت میں کسی جھیل کے کنارے ایک ایسے درخت پر بیٹھنے کے لیے کہا جاتا ہے جس کی شاخ پانی کے اوپر جھکی ہو۔ وہ آدمی وہاں بیٹھا رہتا ہے حتیٰ کہ وہ مستقبل میں جھانکنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ زولس قبیلے میں روحوں کے ساتھ تعلق قائم کرنے کے لیے بھی روزے رکھے جاتے ہیں۔

ایسی مشقیں کرنے والے عجیب و غریب خواب دیکھتے ہیں اور یہ خواب ان کی زندگی کو اس طرح گھیر لیتے ہیں کہ وہ ان خوابوں ہی کی آماج گاہ بن جاتی ہے ۳۴؂۔

براعظم آسڑیلیا میں جو قبائل آباد ہیں، ان میں سے بعض کے نزدیک عظیم قوتوں یعنی دیوتاؤں سے اجر حاصل کرنے کے لیے روزہ پسندیدہ عمل ہے۔ وسطی آسڑیلوی قبائل میں دیوتاؤں سے مدد اور پیداوار میں برکت کے لیے روزہ رکھا جاتا ہے ۳۵؂۔ نیوساؤتھ ویلز کے قبائل میں ’’بورا‘‘ نامی ایک تقریب منعقد کی جاتی ہے جس میں نوعمر لڑکوں کو روزہ رکھوایا جاتا ہے۔ یہ روزہ دو دن پر مشتمل ہوتا ہے، اس میں خوراک تو ممنوع ہوتی ہے، لیکن تھوڑا بہت پانی پینے کی اجازت ہوتی ہے، ان کے ہاں اس روزے کا مقصد لڑکوں کی اخلاقی اور معاشرتی تربیت ہے ۳۶؂۔

متعدد افریقی قبائل کے ہاں بھی روزہ موجود ہے۔ یہ قبائل عموماً اموات پر روزہ رکھتے ہیں۔ یوروبا قبیلے میں بیوہ اور اس کی بیٹی کو ایک دن رات کے لیے کمرے میں بند کر دیا جاتا ہے اور ان کا کھانا پینا روک دیا جاتا ہے۔ گویا انھیں جبراً روزہ رکھوایا جاتا ہے۔ گولڈ کوسٹ کے قبائل میں موت کے طویل عرصہ تک سخت روزے رکھے جاتے ہیں۔ جنوبی افریقہ کے زولو قبیلے کے لوگ خدائی الہام پانے کے لیے روزے رکھتے ہیں۔ ان کے ہاں یہ روزے کئی کئی دنوں پر محیط ہوتے ہیں ۳۷؂۔

افریقہ سے نکل کر یورپ کے علاقوں میں چلے آئیے تو یہاں بھی روزوں کا تصور پوری شان سے پایا جاتا ہے۔

رومی تہذیب کے بعض مذاہب کو 'Mystery Religions'میں شمار کیا جاتا ہے، انھیں ماننے والوں کا یہ عقیدہ ہے کہ دیوی دیوتاؤں کی قربت حاصل کرنے یا ان سے دانائی پانے کے لیے روزے کا عمل بہت معاون ثابت ہوتا ہے۔ ان مذاہب میں داخل ہونے والا جب ان کے اسرارورموز سے واقفیت حاصل کرنا چاہتا ہے تو پھر اس کے لیے روزے رکھنا ضروری ہے۔ ۳۸؂سیرس کی رومی مذہبی رسوم میں بھی روزے کا وجود پایا جاتا ہے۔ ان کے ہاں ۲۴مارچ کو ایک روزہ رکھا جاتا اور اس سے اگلے دن ایک عظیم تہوار منایا جاتا ہے۔ ۳۹؂

قدیم رومیوں میں بادشاہ اورسلاطین خود بھی روزے رکھتے تھے۔ ویسپاسین (Vespasian)، آگسٹس(Augustus)، جیولیس قیصر(Julius Casear)، نیوما پانپیپلیس (Numa Pounpiplius) ، ان سب شاہان روم کے روزوں کے دن مقرر تھے۔ 'Julius the apostate' تو روزے کا اتنا پابند تھا کہ اس نے مذہبی پیشواؤں کو بھی مات دے دی تھی۔ ۴۰؂

قدیم یونان علم و فلسفہ کا گھر تھا۔ یہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ روزہ ایک مذہبی عمل کے طور پر پایا جاتا ہے۔ رومیوں کی طرح یونانیوں میں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جن کا مذہب 'Mystry Religions' میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ دیوی دیوتاؤں کی قربت حاصل کرنے اور ان سے بصیرت پانے کے لیے روزہ ایک اچھا معاون ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ مذہب کے اسرارورموز جاننے کے لیے تمام غذاؤں یا کچھ غذاؤں اور مشروبات سے پرہیز کرنا پڑتا ہے۔ ۴۱؂

قدیم یونانیوں کے ہاں یہ دستور تھا کہ وہ قربانی سے قبل روزہ رکھا کرتے۔ اسی طرح وفات پر روزے رکھنے کا رواج بھی ان کے ہاں پایا جاتا تھا۔ وہ عبادت اور توبہ کے لیے بھی روزے رکھتے تھے۔ اکارا کا غار جس کے اندر پائے جانے والے بخارات میں طبی فوائد پائے جاتے ہیں، اسے انھوں نے ’دارالاستخارہ‘ کا نام دے رکھا تھا۔ اس کے اندر بیمار اپنے علاج کے لیے کئی دنوں تک بغیرکھائے پیے قیام کرتا۔ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ القا پانے کی اس جگہ پر روزے رکھنے سے آدمی کو الہامی مشاہدات ہوتے ہیں۔ ۴۲؂

فیثا غورثی مکتب فکر میں روزہ تقویٰ اور پرہیز گاری اختیار کرنے کی ایک شکل تھی۔ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ ابتداءً انسانیت کامل تھی۔ گناہ کی آمیزش سے اس کی یہ پرہیز گاری باقی نہ رہی۔ اب روزے رکھنے اور دوسری زاہدانہ ریاضتیں کرنے سے اس کی وہ پہلی پرہیزگاری بحال ہوسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ روزہ وہ وجدانی کیفیت لاتا ہے جس میں روزہ دار پر حقائق منکشف ہوتے ہیں۔ ۴۳؂چنانچہ یہ اس کے بعد ہی ممکن ہو گا کہ وہ خدائی قوتوں سے رابطہ کرے اور ان کا قرب حاصل کرے۔

فیثا غورث کا اپنا طریقہ یہ تھا کہ وہ مسلسل چالیس روزے رکھا کرتاتھا۔ ۴۴؂غرض یونانیوں میں بھی دوسری اقوام کی طرح روزہ ایک اہم مذہبی عمل کی صورت میں پایا جاتا تھا۔

یونان کے بعد قدیم مصری تہذیب کو دیکھیے۔ مصر میں گناہوں سے توبہ کرنے اور خدا کے عذاب سے بچنے کے لیے روزے رکھے جاتے تھے۔ توبہ کے ان روزوں کے لیے باقاعدہ دن مقرر کیے گئے تھے۔ ان روزوں کے دوران میں ہر طرح کی آسایش ممنوع تھی اور خواہشات کو پورا کرنے والی چیزوں کا استعمال بھی ناجائز تھا۔

مصریوں کے ہاں وفات پر روزے رکھنے کا رواج بھی پایا جاتا تھا۔ چنانچہ بادشاہوں کی وفات پر عوام روزہ رکھا کرتے تھے۔

قربانی سے قبل روزہ رکھنے کا رواج بھی ان کے ہاں پایا جاتا تھا۔ وہ اپنی قربانی سے قبل بعض اوقات چھ چھ ہفتوں تک کے روزے رکھتے تھے۔ ۴۵؂آئسز(Isis)دیوی کے رازوں کو جاننے والے کے لیے بھی خاص طرح کے روزے ضروری تھے۔ ۴۶؂

امریکن انڈین جنھیں امریکہ کے قدیم اور اصل باشندے سمجھا جاتا ہے، ان کے مختلف قبائل کو دیکھیے، روزہ آپ کو وہاں بھی ملے گا۔

ان قبائل میں یہ عقیدہ راسخ تھا کہ روح اکبر (Great Spirit)سے رہنمائی حاصل کرنے کے لیے روزہ بہت موثر ذریعہ ہے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے کسی بہادر آدمی کو روزہ رکھوا کر اجاڑ بیابان میں تنہا بھیج دیا جاتا، وہ وہیں رہتا حتیٰ کہ خواب یا کشف میں اس پر آسمانی حکمت کا نزول ہوتا اور محافظ روح (Guardian Spirit)کی جانب سے اسے اس کے مستقبل کے بارے میں ضروری رہنمائی مل جاتی۔ چنانچہ جب 'Lokata'قبیلے کے لوگوں نے اپنے مذہبی پیشواؤں کے سامنے خدا سے ملاقات کے لیے جانے کا ارادہ ظاہر کیا تو انھوں نے کہا کہ آپ لوگ روزے کی حالت میں خدا کا مسلسل ذکر کرتے ہوئے بیابانوں میں پھریں، اس طرح سے آپ اپنا مقصود پا لیں گے۔

قدیم امریکن انڈین تہذیب میں جو شخص مذہبی عالم بننے کا قصد کرتا، اس کی تربیت کا ایک اہم عنصر روزہ ہوتا تھا۔ ۴۷؂اس کے علاوہ لڑکوں کو نو سال کی مذہبی تربیت دی جاتی جس میں انھیں سخت روزے رکھوائے جاتے تھے۔

ان کے ہاں خوابوں کے ذریعے سے روحوں کے پیغامات اور علم غیب حاصل کرنے کے لیے بھی روزے رکھے جاتے تھے۔ شکاری شکار کے لیے نکلنے سے پہلے روزے رکھتا۔ ان روزوں کے دوران میں جب اسے اپنی مہم کی کامیابی کے بارے میں خواب آ جاتا تو وہ شکار پر روانہ ہوتا۔ شوہر اس وقت تک روزے رکھتا چلا جاتا جب تک اسے باپ بننے کی خواہش پوری ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں خواب دکھائی نہ دیتا۔ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ آدمی کا روزہ جتنا سخت ہو گا اتنے ہی واضح خواب دکھائی دیں گے۔ چنانچہ ایسے شخص کو جو سخت روزوں کی بنا پر واضح خواب دیکھتا بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ ۴۸؂

ان کے ہاں مختلف مقاصد کے حصول کے لیے بھی روزے رکھے جاتے، مثلاً وہ جسمانی قوت میں اضافے، مچھلی کے شکار اور جنگ میں کامیابی کی خاطر روزے رکھتے تھے۔ ۴۹؂

ان کے ہاں یہ عقیدہ بھی پایا جاتا تھا کہ سخت روزے رکھنے سے خدا کو اس پر مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ ہماری مرادیں پوری کرے۔ چنانچہ ان کے ہاں یہ رواج تھا کہ وہ سات روز تک کچھ نہ کھاتے،بستر پر لیٹے رہتے اور اس دوران میں سخت ضبط نفس کا مظاہرہ کرتے۔

کولمبا کے انڈین قبائل کو جب خدا کی مدد درکار ہوتی تو وہ کئی روز تک روزے کی حالت میں رہ کر خدا سے معافی مانگتے اور مدد کی درخواست کرتے۔

برٹش کولمبیا (شمالی امریکہ) میں یہ رواج ہے کہ لوگ جنازے کے موقع پر ہونے والے کھانے کے بعد چار دن کے لیے روزے رکھتے ہیں۔ ۵۰؂

میکسیکو کے باشندوں میں بھی توبہ کرنے اور قلب (باطن) کوپاک کرنے کے لیے روزے رکھے جاتے تھے۔ مختلف مواقع پر ان کی مدت مختلف ہوتی۔ یعنی ایک دن کا روزہ بھی ہوتا اور کئی کئی دنوں کے روزے بھی ہوتے تھے۔ یہ روزے قبیلے کا کبھی کوئی ایک فرد رکھتا اور کبھی پورا قبیلہ روزہ رکھتا تھا۔ قوم پر نازل ہونے والی آفات سے بچنے کے لیے بڑا مذہبی پیشوا روزہ رکھ کر تنہائی میں لیٹ جاتا، کئی دیگر سختیاں جھیلتا اور خدا سے دعائیں کرتا رہتا۔ ۵۱؂

'Cherokee Indeans' کا یہ عقیدہ تھا کہ عقاب کا شکار کرنے سے پہلے ایک طویل عرصے تک روزہ اور دعا ضروری ہے، کیونکہ روزے سے جسم گناہوں سے پاک ہو کر مقابلے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ ۵۲؂

بحرالکاہل کے جنوب مغربی حصے میں کئی جزیرے پائے جاتے ہیں، جن میں نیوگنی،فیجی اور سالمن شامل ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ روزہ یہاں بھی موجود ہے۔

نیوگنی کے قبائل میں جزوی روزے رکھنے کے لیے کھانے کی متعدد اشیا سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ ان کے ہاں روزے کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ آدمی اپنی پسند کی چیزیں کچھ عرصہ کے لیے ترک کر دیتا ہے۔ رورو (Roro)زبان بولنے والے قبائل میں 'Seclusion Period'کے اختتام پر ایک دن کا روزہ رکھنے کا طریقہ عام رائج ہے۔ جنوبی ماسم میں بیوہ ان سب کھانوں سے اجتناب کرتی ہے جو اس کے خاوند نے مرض الموت میں کھائے تھے۔ فیجی (Fiji)میں دس سے بیس دن کے روزے رکھے جاتے ہیں۔ ان کے ہاں عقاب ایک مقدس پرندہ مانا جاتا ہے۔ چنانچہ اس کا شکار کرنے سے قبل شکاری ایک طویل عرصے تک روزے رکھتا اور دعائیں کرتا ہے۔ 'Teligintis'قبیلے کے لوگ دوسرے جنم پر یقین رکھتے ہیں۔ چنانچہ ان کے ہاں یہ رواج ہے کہ بعض اموات پر لڑکیاں اس لیے روزے رکھتی ہیں کہ یہ روح دوبارہ ان کے ذریعے سے جنم لے۔ ۵۳؂ 

بابل اور نینوا کی تہذیب قدیم تہذیبوں میں سے تھی۔ یہاں آشوری قوم آباد تھی۔ ان کی طرف حضرت یونس علیہ السلام کی بعثت ہوئی تھی۔ آشوریوں کے ہاں بھی ہمیں روزے کا رواج ملتا ہے۔ یہ لوگ روزے کو خدا کے عذاب سے بچنے کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ بابل میں گناہوں کے کفارے سے متعلق جو اصول وقوانین ہمیں ملتے ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں روزہ کفارے کی ایک رسمی شکل کی حیثیت رکھتا تھا۔ چنانچہ توبہ کرنے والا اپنے گناہ پر افسوس و ندامت کے اظہار کے ساتھ روزے کی حالت میں اپنے کھانا نہ کھانے اور پانی نہ پینے کا ذکر بھی کیا کرتا تھا۔ یہ لوگ آلام و آفات کے دنوں میں بھی روزے رکھا کرتے تھے۔ ۵۴؂

یونس علیہ السلام نینوا میں آشوریوں کی طرف مبعوث ہوئے۔ ان لوگوں نے پہلے ان کی تکذیب کی، لیکن بعد میں ایمان لے آئے تو اس موقع پر انھوں نے جو توبہ کی تھی، تورات میں اسے ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:

’’نینوا کے باشندے خدا پر ایمان لائے اور روزے کا اعلان کر کے سب کے سب، کیا ادنیٰ کیا اعلیٰ ٹاٹ سے ملبس ہوئے اور یہ بات شاہ نینوا کو بھی پہنچ گئی تو اس نے تخت سے اٹھ کر شاہی لباس اتار ڈالا، اور ٹاٹ اوڑھ کر راکھ پر بیٹھ گیا اور فرمان صادر کیا کہ ’’بادشاہ اور ارکان دولت کے حکم سے نینوا میں یہ اعلان ہوا کہ کوئی انسان یا حیوان یا گائے بیل یا بھیڑ بکری نہ کچھ چکھے نہ کھائے اور نہ پانی پیے۔ علاوہ اس کے انسان و حیوان ٹاٹ اوڑھیں اور خداوند کے حضور گریہ و زاری کریں اور ہر ایک اپنی بری روش اور اپنے ہاتھ کے ظلم سے توبہ کرے۔‘‘ (کتاب یونس۳: ۵۔۹)

_______

 

۱؂A Hand book on living Religions: by John R. Hinnells: (Hinduism).

۲؂’’ارکان اربعہ‘‘ ،ابوالحسن علی ندوی۔ (Out line of Hinduism Chapter 4,

Section 6). 

۳؂’’سیرت النبی‘‘ سید سلیمان ندوی ۵/ ۲۴۲۔

۴؂Encyclopedia Brittanica Under Fasting.

۵؂’’سیرت النبی‘‘ سید سلیمان ندوی ۵/ ۲۴۲۔

۶؂Encyclopedia of Religion Under Fasting.

۷؂کرمن سے مراد ان کے نزدیک اعمال کے وہ اثرات ہیں جو انسان کے اگلے جنم کو اچھے یا برے پہلو سے متاثر کرتے ہیں۔

۸؂Encyclopedia of Religion Under Fasting.

۹؂جین دھرم میں بھی ہندو دھرم کی طرح نصب العین یہ ہے کہ روح جسم سے ہمیشہ کے لیے آزاد ہو کر راحت کی ابدی حالت کو پا لے۔ اس کے لیے وہ صرف نیک اعمال کو کافی نہیں سمجھتے، بلکہ دوسری کچھ خصوصی ریاضتوں کو بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ روزہ ان میں سے ایک ریاضت ہے۔

۱۰؂A Hand Book of Living Religions by John R Hinnells, Under Jainism Pg 266.

۱۱؂Encyclopedia Brittanica Under Fasting.

۱۲؂جیسے ہمارے ہاں عیدالفطر کے تہوار سے پہلے روزے رکھے جاتے ہیں۔

۱۳؂Encyclopedia of Religion Under Fasting.

۱۴؂A Hand Book of Living Religions by John R Hinnells (Under Jainism) Pg. 271.

۱۵؂A Hand Book of Living Religions by John R Hinnells (Under Fasting) Pg. 271.

۱۶؂Man's Religious David Noss& John B Noss, The religion of India Pg. 120.

۱۷؂Encyclopedia of Religion Under Fasting.

۱۸؂Encyclopedia of Religion and Ethics Under Fasting.

۱۹؂Encyclopedia Brittanica Under Fasting.

۲۰؂یعنی وہ روزہ جس میں بعض مخصوص چیزیں ہی ممنوع ہوتی ہیں۔

۲۱؂Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting.

۲۲؂کنفیوشزم سے پہلے چین کا مذہب۔ اس میں ارواح کی عبادت کی جاتی تھی۔

۲۳؂چھٹی صدی قبل مسیح میں کنفوشس سے چین میں اس مذہب کی ابتدا ہوئی۔

۲۴؂پانچویں صدی قبل مسیح میں 'Lao Tzu' سے اس مذہب کی ابتدا ہوئی۔ اس کا علاقہ بھی چین ہی تھا۔

۲۵؂Encyclopedia of Religion, Under Fasting.

۲۶؂Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting.

۲۷؂Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting.

۲۸؂Encyclopedia of Religion, Undr Fasting.

۲۹؂Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting.

۳۰؂Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting.

۳۱؂Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting.

۳۲؂Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting.

۳۳؂Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting.

۳۴؂Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting.

۳۵؂Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting.

۳۶؂Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting.

۳۷؂Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting.

۳۸؂Encyclopedia of Religion, Under Fasting.

۳۹؂Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting.

۴۰؂Theological Dictionary By Rev. Charlus Buck, Under Fasting.

۴۱؂Enyclopedia of Religion, Under Fasting.

۴۲؂Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting.

۴۳؂Encyclopedia of Religion, Under Fasting.

۴۴؂Theological Dictionary By Rev. Charlus Buck, Under Fasting.

۴۵؂Theological Dictionary By Rev. Charlus Buck, Under Fasting.

۴۶؂Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting.

۴۷؂Encyclopedia of Religion, Under Fasting.

۴۸؂Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting.

۴۹؂Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting.

۵۰؂Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting.

۵۱؂Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting.

۵۲؂Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting.

۵۳؂Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting.

۵۴؂Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting.

____________

 

B