نبوت و رسالت کا معاملہ ایسا نہیں کہ اس کے بارے میں کسی درجے کی بھی بے اعتنائی اختیار کی جا سکے ۔ انسان کی اخروی نجات کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ وہ خدا کے پیغمبروں کے بارے میں کیا رویہ اختیار کرتا ہے،اگر وہ ان کی تصدیق کرتا اور ان کے ساتھ مطابقت و ہم آہنگی کا رویہ اختیار کرتا ہے تو اخروی کامیابی اپنی کامل شکل میں اس کی منتظر ہوتی ہے،اور اگر وہ ان کی تکذیب کرتا اور ان کے ساتھ سرکشی و نافرمانی کا رویہ اختیار کرتا ہے تو پھر اخروی عذاب اس کا مقدر ہوتا ہے۔ چنانچہ، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس معاملے میں بہت اہتمام فرمایا ہے۔
نبی، کسی عام مصلح کی طرح ،محض اپنی شخصیت اور اپنے علم کے بل بوتے پر، میدان دعوت میں قدم نہیں رکھ دیتا، بلکہ بالعموم وہ پہلے سے ایک متعارف شخصیت ہوتا ہے۔ کائنات کے مالک کی طرف سے اس کا پروانۂ تقرر اس کی آمد سے پہلے دنیا میں بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا عمومی قانون ہے کہ ہر نبی، اپنے سے پہلے آنے والے نبی یا بعض اوقات انبیا کی پیش گوئیوں کا مصداق بن کر آتا ہے۔ قرآن مجید اور پرانے صحیفوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر نبی اپنے بعد آنے والے نبی کی بشارت دیتا رہا ہے۔ ا س بات کی شہادت تورات، اناجیل اربعہ اور قرآن مجید میں جگہ جگہ موجود ہے۔ ان پیش گوئیوں کا مطالعہ کرنے سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ انبیا ورسل کا معاملہ جس قدر اہمیت کا حامل تھا، اللہ تعالیٰ نے اسی قدر اس میں اہتمام بھی فرمایا ہے۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں تورات میں ہے:
’’دیکھو، میں اپنے رسول کو بھیجوں گا، اور وہ میرے آگے راہ راست کرے گا اور خدا وند، جس کے تم طالب ہو ناگہاں اپنی ہیکل میں آموجود ہو گا۔ ہاں، عہد کا رسول، جس کے تم آرزو مند ہو، آئے گا۔ رب الافواج فرماتا ہے : پر اس کے آنے کے دن کی کس میں تاب ہے۔ اور جب اس کا ظہور ہو گا توکون کھڑا رہ سکے گا؟ کیونکہ وہ سنار کی آگ اور دھوبی کے صابون کی مانند ہے۔ اور وہ چاندی کو تانے اور پاک صاف کرنے والے کی مانند بیٹھے گا اور بنی لاوی کو سونے اور چاندی کی مانند پاک صاف کرے گاتاکہ وہ راست بازی سے خداوند کے حضور ہدیے گزرانیں۔ تب یہود اہ اور یرو شلیم کا ہدیہ خدا وند کو پسند آئے گا، جیسا ایام قدیم اور گزشتہ زمانے میں۔‘‘(ملاکی ۳: ۱۔۴)
انا جیل میں ہے:
’’...اے یوسف ابن داؤد، اپنی بیوی مریم کو اپنے ہاں لے آنے سے نہ ڈر، کیونکہ جو اس کے پیٹ میں ہے،وہ روح القدس کی قدرت سے ہے۔ اس کے بیٹا ہو گا اورتو اس کا نام یسوع رکھنا، کیونکہ وہی اپنے لوگوں کو ان کے گناہوں سے نجات دے گا۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ جو خداوند نے نبی کی معرفت کہا تھا، وہ پورا ہو کہ:دیکھو ایک کنواری حاملہ ہو گی اور بیٹا جنے گی اور اس کانام عمانوایل رکھیں گے۔‘‘ (متی۱: ۲۰۔۲۳)
’’... اور خواب میں ہدایت پا کر گلیل کے علاقے کو روانہ ہو گیا اور ناصرہ نام ایک شہر میں جا بسا تاکہ جو نبیوں کی معرفت کہا گیا تھا، وہ پورا ہو کہ وہ ناصری کہلائے گا۔‘‘ (متی۲: ۲۲۔۲۳)
’’یہ سب باتیں یسوع نے بھیڑسے تمثیلوں میں کہیں اور بغیر تمثیل کے وہ ان سے کچھ نہ کہتا تھا تاکہ جو نبی کی معرفت کہا گیا تھا،وہ پورا ہو کہ میں تمثیلوں میں اپنا منہ کھولوں گا۔میں ان باتوں کو ظاہر کروں گا جو بناے عالم سے پوشیدہ رہی ہیں۔‘‘ (متی ۱۳: ۳۴۔۳۵)
حضرت یحییٰ علیہ السلام کے بارے میں تواناجیل ہمیں بتاتی ہیں کہ ان کی بعثت کا مقصد ہی اپنے بعد آنے والے نبی کے لیے راہ صاف کرنا تھا۔ انجیل میں ہے:
’’اور یوحنا اونٹ کے بالوں کا لباس پہنے اور چمڑے کا پٹکا اپنی کمر سے باندھے رہتا، اور ٹڈیاں اور جنگلی شہد کھاتا تھا اور یہ منادی کرتا کہ میرے بعد وہ شخص آنے والا ہے، جو مجھ سے زورآور ہے۔‘‘ (مرقس۱: ۶۔۷)
قرآن مجید اسی بنا پر یہ کہتا ہے:
’’اللہ تجھے یحییٰ کی بشارت دیتا ہے جو اللہ کے ایک کلمہ کی تصدیق کرنے والا ہے۔‘‘(آل عمران۳: ۳۹)
حضرت مسیح نے اپنی دعوت کا آغاز کیاتو حضرت یحییٰ جیل میں تھے۔ انھوں نے وہیں سے، اپنے شاگردوں کے ذریعے سے، یہ معلوم کیا کہ یہ داعی وہی نبی ہے، جس کے ہم منتظر ہیں یا یہ کوئی اور شخصیت ہے۔ چنانچہ انھوں نے پوچھا:
’’...آنے والا تو ہی ہے یا ہم دوسرے کی راہ دیکھیں؟ ‘‘ (متی ۱۱: ۳)
حضرت مسیح نے جواب دیا:
’’...جو کچھ تم سنتے اور دیکھتے ہو، جاکر یوحنا سے بیان کردو کہ اندھے دیکھتے اور لنگڑے چلتے پھرتے ہیں، کوڑھی پاک صاف کیے جاتے اور بہرے سنتے ہیں اور مردے زندہ کیے جاتے ہیں اور غریبوں کو خوش خبری سنائی جاتی ہے۔‘‘ (متی۱۱: ۴۔۵)
نبیوں اور رسولوں کے اس پورے سلسلے کے آخر میں نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی۔ آپ کی بعثت کی خبر سب نبیوں اور رسولوں نے دی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے واضح طور پر بنی اسرائیل کو یہ بتا دیا تھا کہ آنے والا نبی، بنی اسماعیل میں مبعوث ہو گا۔ انھوں نے اسے جن الفاظ میں بیان کیا ہے، ا ن کا واضح مطلب یہی ہے کہ آخری نبی کی بعثت بنی اسماعیل ہی میں ہو گی۔ چنانچہ تورات میں بیان ہوا:
’’خداوند تیرا خدا، تیرے لیے، تیرے ہی درمیان سے، یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا۔ تم اس کی سننا...
اور خدا وند نے مجھ سے کہا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں، سو ٹھیک کہتے ہیں۔ میں ان کے لیے، انھی کے بھائیوں میں سے، تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا۔ اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا۔ اور وہ جو کچھ میں اسے حکم دوں گا، وہی ان سے کہے گا ۔ اور جو کوئی میری ان باتوں کو، جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا، نہ سنے تو میں ان کا حساب اس سے لوں گا۔‘‘(استثنا ۱۸: ۱۵۔۱۹)
استثنا ہی میں ہے:
’’...خدا وند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر آشکارا ہوا، وہ کوہِ فاران سے جلوہ گر ہوا۔ اور لاکھوں قدوسیوں میں سے آیا۔ اس کے دہنے ہاتھ پر ان کے لیے آتشی شریعت تھی۔‘‘ (۳۳: ۲)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پیش گوئیاں اناجیل میں ان الفاظ میں مذکور ہیں:
’’یسوع نے ان سے کہا کیا تم نے کتابِ مقدس میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو معماروں نے رد کیا،وہی کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا۔ یہ خداوند کی طرف سے ہوا، اور ہماری نظر میں عجیب ہے۔ اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہی تم سے لے لی جائے گی اور اس قوم کو، جو اس کے پھل لائے، دے دی جائے گی۔ اور جو اس پتھر پر گرے گا، ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا، لیکن جس پروہ گرے گا، اسے پیس ڈالے گا۔‘‘ (متی۲۱: ۴۲۔۴۴)
’’ اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا، کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں۔‘‘(یوحنا ۱۴: ۳۰)
قرآن مجید میں باقاعدہ ان پیش گوئیوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔ سورۂ اعراف میں ہے:
’’جو پیروی کریں گے اس نبی امی رسول کی ، جس کا ذکر وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ ‘‘ (۷: ۱۵۷)
حضرت مسیح علیہ السلام کی بعثت کا ایک مقصد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت دینا تھا۔ سورۂ صف میں ہے:
’’اور جب عیسیٰ ابنِ مریم نے کہا کہ اے بنی اسرائیل، میں تمھاری طرف اللہ کا رسول ہو کر آیا ہوں، ان پیش گوئیوں کا مصداق،جو مجھ سے پہلے تورات میں موجود ہیں اور ایک رسول کی بشارت دیتا ہوا آیا ہوں، جو میرے بعد آئے گا۔ اس کا نام احمد ہو گا۔‘‘ (۶۱: ۶)
یہ سب پیش گوئیاں اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ نبی کوئی مبہم شخصیت نہیں ہوتا۔ وہ اپنی نبوت منوانے کے لیے کوئی بحث و مباحثہ نہیں کرتا، نہ وہ پہلے سے واضح باتوں کے نئے نئے مطالب بیان کرتا ہے اور نہ کچھ نادر نکتے تراشنے کے بعد، اپنی نبوت کے لیے، کچھ ایسے دلائل لاطائل قوم کے سامنے لاتا ہے، جنھیں اگر کوئی عامی سنے تو سمجھنے سے قاصر ہو، اور عارف سنے تویہ دلائل نبوت، دعوئ نبوت کا ابطال کرتے نظر آئیں۔ نبی کی شخصیت ایسی واضح ہوتی ہے جس میں کوئی ابہام نہیں ہوتا اور اس کی دلیل نبوت ایسی قاطع ہوتی ہے، جس سے انکار ممکن نہیں ہوتا۔ وہ خدا کی راہ ڈھونڈنے والوں کی مراد اور طالبان حق کی طلب بن کر آتا ہے۔ وہ اپنا تعارف ہی یہ بات کہہ کر پیش کرتا ہے کہ میں کوئی اجنبی نہیں ہوں، میں تو ان پیش گوئیوں کا مصداق ہوں جو پہلے سے تمھارے ہاں پائی جاتی ہیں۔ اگر وہ کوئی کتاب موعود لے کر آتا ہے تو اس کے بارے میں بھی یہی بات پیش کی جاتی ہے کہ یہ کتاب ان پیش گوئیوں کی مصداق ہے، جو پہلے سے تمھارے ہاں موجود ہیں۔ قرآن مجید چونکہ کتاب موعود تھی، لہٰذا یہ جب نازل ہوئی تو اس کے حق میں بھی یہی دلیل دی گئی۔ سورۂ بقرہ میں ہے:
’’(اے یہود) ایمان لاؤ اس چیز (قرآن) پر جو میں نے اتاری ہے۔ تصدیق کرتی ہوئی، اس چیز کی جو تمھارے پاس ہے، اور تم اس کے پہلے انکار کرنے والے نہ ہو۔‘‘ (۲: ۴۱)
’’اور اب جو ایک کتاب اللہ کی طرف سے، ان (یہود) کے پاس آئی، تصدیق کرتی ہوئی (مصداق بن کر)، اس چیز (پیش گوئیوں) کی، جو ان کے پاس پہلے سے موجود ہے اور یہ خود پہلے سے،کفار( انکار کرنے والوں) کے خلاف، فتح کی دعائیں مانگ رہے تھے تو جب ان کے پاس آئی وہ چیز،جس کو جانے پہچانے ہوئے تھے تو انھوں نے اس کا انکار کر دیا۔‘‘(۲: ۸۹)
’’ اور جب ان سے کہا جاتا ہے ایمان لاؤ اس چیز پر، جو اللہ نے اتاری ہے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ اس چیز پر تو ہم ایمان رکھتے ہی ہیں، جو ہم پر اتری ہے اور وہ اس کے علاوہ کا انکار کرتے ہیں، حالانکہ وہی حق ہے اور ان پیش گوئیوں کے مطابق ہے، جو ان کے ہاں موجود ہیں۔‘‘(۲: ۹۱)
ہم اختصار کی غرض سے ان تین مقامات ہی کا حوالہ دے رہے ہیں، ورنہ یہی بات قرآن مجید میں کم و بیش بیس مقامات پر بطور دلیل آئی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں یہ کہا گیا:
’’کیا ان کے لیے یہ نشانی کافی نہیں ہے کہ بنی اسرائیل کے علما اس کوجانتے ہیں۔‘‘(الشعراء۲۶: ۱۹۷)
یہ ہے وہ اہتمام، جس کے بعد اللہ تعالیٰ لوگوں کو اس بات کا مکلف ٹھہراتا ہے کہ وہ اس کے بھیجے ہوئے نبی پر ایمان لائیں ۔ جس شخص کو ماننے اور نہ ماننے میں اتنا بڑا فرق ہو، جتنا ابدی جنت اور ابدی جہنم میں فرق ہے، اس شخص کے معاملے میں کسی نوعیت کا کوئی ابہام، کسی صورت میں بھی، انسان کی عقل و فطرت گوارا نہیں کر سکتی اور نہ خداے رحمن کے بارے میں یہ بد گمانی کی جا سکتی ہے کہ اس نے کسی شخص کی نبوت کو مبہم اور مجمل رکھا ہو۔
اب ہم اس سارے مقدمے کی روشنی میں، اس بات پر غور کرتے ہیں کہ کیا قرآن مجید میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنے والے کسی نبی کے بارے میں کوئی پیش گوئی موجود ہے؟
اس سوال کا جواب واضح طور پر نفی میں ہے۔ قرآن مجید میں نہ کسی آیندہ آنے والے نبی کا کوئی ذکر موجود ہے، نہ اس پر ایمان لانے کی کوئی دعوت اس میں پائی جاتی ہے، نہ اس کی نصرت کا کوئی حکم اس میں موجود ہے اور نہ اس کے احوال کے بارے میں، کسی نوعیت کی، کوئی خبر موجود ہے۔ اگر ایسی بات ہوتی تو ساری امت اس بات کو جانتی اور مانتی۔ پھر سبھی کہتے کہ اس نبی کو نہ ماننا دراصل، قرآن کو نہ ماننا ہو گا، اور اس کا انکار، قرآن مجید کا انکار قرار پائے گا، لیکن نہ صرف یہ کہ یہ سب کچھ اس میں نہیں ہے، بلکہ قرآن مجید اس کے بالکل برعکس، بہت واضح طور پر، ختم نبوت کا اعلان کر رہا ہے۔ ارشاد باری ہے:
’’بلکہ (محمد) اللہ کے رسول اور نبیوں کے خاتم ہیں۔‘‘ (الاحزاب ۳۳: ۴۰)
یہ آیت، واضح طور پر، ختم نبوت کا اعلان کر رہی ہے۔ اگر یہ آیت نہ ہوتی تو ہم قرآن مجید کے بارے میں یہ نہ کہہ سکتے کہ اس میں ختم نبوت کا اعلان موجود ہے۔
سورۂ احزاب کی مذکورہ آیت کو دیکھیے، اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاتم النبیین کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ، جس کے معنی ’’نبیوں کی مہر‘‘ کے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قرآن مجید نے مہر کے الفاظ استعمال کر کے یہ واضح کردیا ہے کہ آپ وہ نبی ہیں، جس نے نبیوں کے لیے ’’مہر‘‘ کا کردار ادا کیا ہے۔ مہر، جدید و قدیم ہر زمانے میں، دو ہی کاموں کے لیے استعمال کی گئی ہے۔ ایک مہر بند کرنے کے لیے اور دوسرے تصدیق کرنے کے لیے۔ اگر ’’خاتم‘‘ کو پہلے معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے اس سلسلے کو مہر بند کرنے والے ہیں، جس کی ابتدا آدم علیہ السلام سے ہوئی تھی۔ معاملہ اگر یہی ہے تو ختم نبوت کے عقیدے پر بحث تمام ہو جاتی ہے اور یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ آیندہ کسی نبی کے آنے کا کوئی امکا ن نہیں۔ اگر مہر کو دوسرے معنی میں لیا جائے، یعنی وہ چیز جس سے تصدیق کا کام لیا جاتا ہے تو پھر ضروری ہے کہ آیندہ آنے والے نبی کی نبوت بھی اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق سے ثابت ہو، جس طرح آپ سے پہلے آنے والے نبیوں کی نبوت ہمارے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تصدیق سے ثابت ہوئی ہے۔ ہم آدم و نوح،ہود اور صالح،ابراہیم و لوط،موسیٰ و ہارون، داؤد و سلیمان اور یحییٰ و عیسیٰ علیہم السلام، سب کی نبوت پر اس لیے ایمان رکھتے ہیں کہ ان کی نبوت کی تصدیق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے۔ آپ کی یہ تصدیق اس آسمانی کتاب میں آج بھی موجود ہے، جوقرآن مجید کی شکل میں اس امت کے پاس ہے۔ جس کی حفاظت کاذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لے رکھا ہے، جوہمارے پاس حق و باطل کے مابین، فیصلہ کرنے والی،واحد کسوٹی ہے اور جسے فرقان کہا گیا ہے۔ یہ انسان کی ہدایت کے لیے،ہراعتبار سے مکمل ہے ۔ اس کی رہنمائی یقینی ہے۔ یقینی اور مستند ترین ہونے کے اعتبار سے، اس کے مقابلے میں، کوئی چیز بھی نہ اس امت مسلمہ کے پاس موجود ہے اور نہ پوری مذہبی دنیا ہی میں پائی جاتی ہے۔ اس کتاب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اور آپ کے بعد کی ان سب چیزوں کا ذکر ہے، جن پر ایمان لانا لازمی ہے۔ اس میں توحید کا ذکر پوری وضاحت کے ساتھ ہے۔ اس میں رسالت کا ذکر پوری تفصیل کے ساتھ ہے۔ اس میں محمد رسول اللہ کی نبوت و رسالت کا ذکر پوری شرح و بسط کے ساتھ ہے۔ آخرت، حشرنشر، حساب کتاب،جنت اور جہنم، سب چیزوں کا ذکر پوری وضاحت اور بے مثل استدلال کے ساتھ موجود ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر واقعی کوئی نبی آنا تھا، جسے ماننا اور نہ ماننا برابر نہیں تھا، اور جس کے انکار سے آخرت میں کسی معمولی درجے کے نقصان کا بھی اندیشہ تھا تو پھر لازم تھا کہ خداے رحمان اس کی نبوت کی اطلاع بھی اپنے اسی کلام میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کرتا، جس میں اس نے ابراہیم و موسیٰ اور دیگر انبیا علیہم السلام کی تصدیق نازل کی ہے۔ جس طرح موسیٰ و عیسیٰ علیہما السلام کی کتابوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایسی پیش گوئیاں موجود تھیں، جن کی بنیاد پر آپ ایک متعارف نبی کی حیثیت سے ’مکتوبا عندھم فی التورات والانجیل‘ ۱تھے اور جن کے نتیجے میں ان اہل کتاب کا معاملہ یہ ہو چکا تھا کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے پہچانتے تھے، جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے تھے، اسی طرح یہ ضروری تھا کہ جسے آیندہ نبی کے طور پر آنا ہوتا، وہ بھی اپنے مقام بعثت،وقت اور اپنی صفات کے تعین کے ساتھ ’مکتوبا عندنا فی القرآن ۲‘ ہوتا۔
لیکن واقعہ یہ ہے کہ ہم خداے علیم و خبیر کے اس کلام میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنے والے، کسی نوعیت کے، کسی نبی کا، کہیں بھی کوئی ذکر نہیں پاتے، بلکہ اس کے برعکس، اس میں ختم نبوت کا اعلان پوری شان کے ساتھ موجود ہے۔
آخر ایسا کیوں ہے؟ یہ یقیناًاسی لیے ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد واقعۃً، کوئی نبی آنے والا نہیں ہے اور اس طرح اب آیندہ آنے والے نبی کی نبوت کا اقرار امت مسلمہ کے لیے ناممکن بنا دیا گیا ہے۔
[۱۹۹۵ء]
__________
۱(اس نبی کا ذکر) لکھا ہوا ہے ان کے ہاں تورات اور انجیل میں۔
۲(وہ آنے والا نبی) لکھا ہوا ہوتا ہمارے ہاں قرآن مجید میں۔
___________________